فرقہ واریت کو شہ دینے کے لیے تہواروں کا استعمال

مغربی بنگال بھی غیر محفوظ۔ مسلم نوجوانوں کو تعصب و ہراسانی کا سامنا

کولکاتا: (دعوت نیوز نیٹ ورک)

حالیہ برسوں سے ملک بھر میں درگا پوجا اور دیگر تہواروں کو مسلم مخالف جذبات ابھارنے کےلیے استعمال کیا جانے لگا ہے۔ اس سال اس میں شدت آئی ہے۔ کرناٹک، مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں رام نومی اور درگا پوجا کے موقعوں کو جس طرح سے مسلم مخالف جذبات کو ابھارنے اور مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ کرناٹک میں ایک تاریخی مدرسے کی عمارت میں داخل ہو کر مذہبی نعرے لگائے گئے۔مدھیہ پردیش اور اتر پردیش میں بھی متعدد مقامات پر درگا پوجا کے موقع پر مسلم مخالف نعرے بازی کی گئی۔ مغربی بنگال میں تہوار ہمیشہ یکجہتی اور ہم آہنگی کا موسم رہا ہے۔ کسی بھی فرقے کا تہوار ہو سب مل کر مناتے ہیں مگر حالیہ برسوں میں تہواروں کے موقع پر رونما ہونے والے تشدد کے واقعات نے ان روایات کو نقصان پہنچایا ہے۔ 2016ء سے 2019ء کے درمیان اس طرح کے واقعات میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ تشدد کے چھوٹے موٹے واقعات کو قومی میڈیا میں اس طرح بڑھا چڑھا کر رپورٹنگ کی جاتی ہے گویا یہاں حکومت کی سرپرستی میں اکثریتی طبقے کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔ دھولیہ میں فرقہ وارانہ فسادات ہوں یا پھر شمالی 24 پرگنہ کے بشیر ہاٹ میں فرقہ وارانہ تشدد اس کے علاوہ 2018ء میں رام نومی کے موقع پر آسنسول میں ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کی رپورٹنگ، اس میں تعصب و جانب داری سے کام لیا گیا ہے۔ 2021ء کے اسمبلی انتخابات کے بعد یہ سلسلہ رک گیا تھا مگر اس سال میلادالنبیؐ کے موقع پر 8 اور 9 اکتوبر کی درمیانی رات میں نکالے گئے جلوس میں جھنڈے کو لے کر مخالف فرقے کے چند افراد نے ہنگامہ آرائی کی اور مسلمانوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی ۔اس کے اگلے دن 9 اکتوبر کو چند مسلم نوجوانوں نے اس واقعے کے خلاف اقبال پولس اسٹیشن کا گھیراو کیا اور چند لڑکوں نے تھانے میں توڑ پھوڑ بھی کی۔ اس کے بعد 10 اکتوبر کو بھی جھڑپ کے اکا دکا واقعات رونما ہوئے اس کے بعد پولیس نے 12 اکتوبر تک پورے علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دیا۔اور اب یہاں کا ماحول پرامن ہے ۔اس پوری ہنگامہ آرائی میں دو پولیس اہلکار سمیت 6 افراد زخمی ہوئے ہیں اور نصف درجن کے قریب مکانات کو نقصان پہنچا۔ اس واقعے میں پولیس نے تین درجن کے قریب نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس میں اکثریت مسلم نوجوانوں کی ہے۔ اس پورے واقعے میں پولیس کی نااہلی کھل کر سامنے آئی ہے۔ میلاد جلوس کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرنے میں پہلے تاخیر کی گئی اور اس کے بعد اس معاملے میں گرفتار شدہ کلیدی ملزم کو چند گھنٹوں کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ مسلمانوں میں ناراضگی اسی بات کو لے کر تھی۔ مقامی مسلم نوجوانوں کا الزام ہے کہ حکمراں جماعت کے ایک مسلم وزیر کی سفارش پر ہی اس کو چھوڑا گیا۔بی جے پی اس واقعہ پر سیاست کرتی ہوئی نظر آئی مگر دوسری طرف ترنمول کانگریس کی طرف سے کوئی جوابی کارروائی نہیں ہوئی جبکہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے سینئر مسلم وزیر پورے منظر نامہ سے غائب رہے۔
مغربی بنگال میں میلادالنبی کے موقع پر استعمال ہونے والے جھنڈے کو مشکوک بنانے اور پاکستانی ثابت کرنے کی کوشش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 2016ء میں درگا پوجا کے موقع پر ریلیز ہونے والی بنگلہ فلم ’’ذو الفقار‘‘ اسی وجہ سے تنازع کا شکار ہو گئی تھی۔ قومی جھنڈے اور رابندر ناتھ ٹیگور کی گیتوں سے شروع ہونے والی اس فلم میں چند منٹوں کے بعد دکھایا جاتا ہے کولکاتہ شہر میں ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ہر طرف پاکستانی جھنڈے لہرائے جاتے ہیں، جہاں امن و قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، جہاں قومی ترانے کو بجانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بعد نماز کے مناظر دکھائے جانے کے بعد بچوں کو تلوار بازی اور ماتمی جلوس نکالتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ مشہور فلم ساز سرجیت مکھرجی کی ہدایت میں بننے والی اس فلم سے متعلق بتایا گیا تھا کہ اس کی کہانی شیکسپئر کے ڈراموں سے ماخوذ ہے اور اس میں پورٹ علاقے میں ہونے والے جرائم کے واقعات کو دکھایا گیا تھا۔ مگر ’ذوالفقار‘ کے تمام کردار اور اس کی کہانی بتاتی ہے کہ جان بوجھ کر اس فلم کے ذریعہ کولکاتہ کے جنوبی علاقے میں دریائے ہوگلی کے کنارے آباد مسلم اکثریتی علاقہ خضر پور اور مٹیا برج کی شبیہ بگاڑنے کی منصوبہ بند کوشش کی گئی ہے۔چند مسلم صحافیوں کی رپورٹنگ کے بعد اس فلم کے کچھ مناظر کو ہٹا دیا گیا مگر فلم کی کہانی میں کوئی رد وبدل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کے بعد تو کولکاتہ کے مسلم علاقے کو بدنام کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ بنگلہ فلم ’’ذوالفقار‘‘ اکتوبر 2016ء میں ریلیز ہوئی تھی، اس کے محض دو مہینے بعد جنوری 2017ء میں انگریزی اخبار ڈی این اے میں کنچن گپتا کا ایک مضمون ”How Green Is my Bengal”کے عنوان سے شائع ہوا جس میں حقائق کے برخلاف اعدادو شمار کو پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا تھا کہ پہلے صرف کولکاتہ میں ایک علاقہ (خضر پور جہاں 8 اکتوبر 2022کو تشدد کے واقعات ہوئے ہیں) No Go Zone تھا اب پورا کولکاتہ ہندوؤں کے لیے No go Zone میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد پراتیک گھوش نے انگریزی اخبار ڈی این اے میں اپنے مضمون Bengal Miasma of despair In Mamta Erak کے عنوان سے لکھا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ ممتا بنرجی نے مسلمانوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اور اس کی وجہ سے بنگال کے سرحدی علاقے اور کولکاتہ جرائم کے گڑھ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ بنگلہ فلم ’ذوالفقار‘ کے خلاف مسلمانوں کی ناراضگی اور احتجاج کرنے والوں کے جذبات کی پروا کیے بغیر سیکولر روایات کی چمپین ممتا بنرجی نے کھلے عام سرجیت مکھرجی کی حمایت کی۔
9 اکتوبر کو میلادالنبی کے موقع پر نکلنے والے جلوس میں جھنڈے پر اعتراض سے ہی ہنگامہ آرائی شرو ع ہوئی تھی۔ خضر پور کے مومن پور کا یہ علاقہ ہمیشہ سے حساس رہا ہے، اس کے باوجود جلوس کے موقع پر سیکیورٹی کے انتظامات ناکافی تھے۔ہنگامہ آرائی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں تاخیر کی وجہ سے مسلم نوجوانوں میں ناراضگی بڑھ گئی اور ان لوگوں نے اقبال پور پولیس اسٹیشن کا گھیراو کیا اور کچھ غیر سماجی عناصر نے تھانے پر حملہ کر دیا۔ چونکہ مسلم نوجوانوں نے احتجاج دن کی روشنی میں کیا تھا اور اس میں کچھ عناصر نے توڑ پھوڑ کی تھی اس لیے اس کی ویڈیو خوب وائرل ہوئی اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ اس پورے ہنگامے کے پیچھے مسلم نوجوانوں کی کارستانی ہے جب کہ پورے ہنگامے کا آغاز دوسری جانب سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد بی جے پی لیڈران بالخصوص ریاستی صدر سوکانت مجمدار اور اپوزیشن لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے اس چھوٹے سے واقعے کے خلاف سڑکوں پر اترکر احتجاج کرنا شروع کر دیا۔ اسی درمیان بی جے پی کے ایک حامی نے کلکتہ ہائی کورٹ میں عرضی دائر کر کے اس تشدد کی این آئی اے جانچ کا مطالبہ کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی ریاست کے لااینڈ آرڈر کے ایک چھوٹے سے واقعے کو سماعت کے لیے قبول کر لیا تاہم عدالت نے این آئی اے جانچ کے مطالبے کو مرکزی حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ ساتھ ہی بنگال پولیس کو ایس آئی ٹی تشکیل دے کر دو ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس علاقے کے سینئر مسلم وزیر فرہاد حکیم پورے منظر نامے سے غائب رہے، ترنمول کانگریس کے لیڈروں نے خضر پور کے مسلمانوں سے متعلق بی جے پی کے الزامات کا جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بنگال پولیس کی فرقہ پرست ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کولکاتہ کے ایک اور مسلم علاقے تلجلہ میں واقع کلکتہ کارپوریشن کے ایک چھوٹے سے چلڈرین پارک میں مندر کی تعمیر کر دی گئی، اس کا نہ پولیس نے اور نہ ہی کارپوریشن نے نوٹس لیا کہ سرکاری جگہ وہ بھی پارک میں مندر کی تعمیر کیسے ہو گئی؟ اس علاقے کے لوگوں نے پہلے پولیس سے شکایت کی جس کے بعد جب کچھ جوشیلے نوجوان نے پارک میں تعمیر کی گئی مندر کے دروازے کو توڑ دیا تو پولیس نے چند گھنٹوں میں ہی پارک میں مندر کی دوبارہ تعمیر کرادی بلکہ تلجلہ علاقے کے خلاف مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ بھی شروع کر دی جس کے خوف سے گزشتہ پچاس دنوں سے اس علاقے کے چالیس تا پچاس مسلم نوجوان اپنے گھروں سے فرار ہیں۔ پورے معاملے میں پولیس کا رویہ انتہائی سخت ہے، وہ بہر صورت بڑے پیمانے پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاری پر بضد ہے۔ ان نوجوانوں کے رشتہ دار و اقارب ایک مسلم وزیر کے گھر بار بار جا رہے ہیں کہ وہ کچھ کریں مگر اس مسلم وزیر نے ان کی مدد کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ سیکولر ذہنیت اور مسلمانوں کی مسیحائی کا دعوے کرنے والی حکومت کا رویہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ البتہ تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ بی جے پی کے زیر اقتدار ریاستوں میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے اور بنگال میں یہ کام خاموشی سے کیا جاتا ہے۔ اگست میں جنوبی 24 پرگنہ میں بروئی پور جیل میں قید چار مسلم قیدیوں کی مشتبہ حالت میں موت ہوئی ہے۔ ایک دن قبل انڈین سیکولر فرنٹ کے واحد رکن اسمبلی نوشاد صدیقی نے ممتا حکومت پر سنگین الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے حلقے انتخاب میں بھانگر میں جو کولکاتہ سے متصل ہے ان کی پارٹی کے کارکنوں کو جن میں بیشتر مسلم ہیں گرفتار کیا جارہا ہے۔نوشاد صدیقی کے مطابق ان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے ترنمول کانگریس کی تابعداری کرنے سے انکار کردیا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 23 اکتوبر تا 29 اکتوبر 2022