ایک خاص کمیونٹی کے خلاف ’’مکمل بائیکاٹ‘‘ کی اپیل، پروگرام کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج

نئی دہلی، اکتوبر 10: دہلی پولیس نے پیر کے روز ایک پروگرام کے منتظمین کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے بظاہر مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے تبصروں کے ساتھ ایک کمیونٹی کے ’’مکمل بائیکاٹ‘‘ کا مطالبہ کیا۔

ورما نے اپنی بائیکاٹ کال میں ’’ان لوگوں‘‘ کا حوالہ دیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز کے مطابق کسی مخصوص کمیونٹی کا نام نہیں لیا۔ سیاست دان نے یہ تبصرے وشو ہندو پریشد اور کچھ دیگر ہندوتوا تنظیموں کے ذریعہ یکم اکتوبر کو دہلی کے سندر نگری علاقے میں منیش نامی شخص کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے منعقدہ ایک ’’وراٹ ہندو سبھا‘‘ میں کیے۔

پولیس کے ڈپٹی کمشنر (شاہدرا) آر ستھیاسندرم نے پی ٹی آئی کو بتایا ’’منتظمین کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 188 (عوامی ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی) کے تحت پولیس سے اجازت نہ لینے پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔‘‘

تاہم وشو ہندو پریشد نے اس الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ پولیس نے انھیں جگہ کا مشورہ بھی دیا۔ وشو ہندو پریشد کے ترجمان ونود بنسل نے پی ٹی آئی کو بتایا ’’اجازت چھوڑیں، ہم نے دلشاد گارڈن کے رام لیلا گراؤنڈ میں سینیئر پولیس افسران کی تجویز اور سفارش کے بعد جگہ کا تعین کیا۔‘‘ ہم نے پہلے منیش کے گھر کے قریب اجتماع منعقد کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن پولیس کی درخواست پر اسے رام لیلا میدان میں تبدیل کر دیا گیا۔‘‘

اتوار کے پروگرام کے دوران ورما نے بھیڑ پر زور دیا کہ وہ ان کے کاروبار کی حمایت نہ کرکے کمیونٹی کا بائیکاٹ کریں۔

ورما نے کہا ’’جہاں بھی آپ انھیں دیکھتے ہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر آپ ان کا دماغ درست کرنا چاہتے ہیں… تو اس کا ایک ہی علاج ہے، وہ ہے مکمل بائیکاٹ۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں؟ اگر آپ متفق ہیں تو اپنا ہاتھ اٹھائیں. میرے ساتھ کہیں، ہم ان کا مکمل بائیکاٹ کریں گے، ان کی دکانوں سے کوئی سامان نہیں خریدیں گے، ان کو ملازمت نہیں دیں گے۔‘‘

ورما نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ انھوں نے اپنے تبصروں میں کسی مذہبی برادری کا نام نہیں لیا۔ مغربی دہلی کے بی جے پی رکن پارلیمنٹ نے دعویٰ کیا کہ ’’میں نے جو کہا تھا وہ یہ تھا کہ جن خاندانوں کے افراد اس طرح کے قتل عام کرتے ہیں ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ ایسے خاندان، اگر وہ کوئی ریستوران یا کوئی کاروبار چلاتے ہیں، تو ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ میرے علاقے میں بھی ایسے جرائم ہوئے ہیں۔ اور ایسی صورت میں ان کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا جائے۔‘‘

ورما نے پہلے بھی مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے اشتعال انگیز بیانات دیے تھے۔ جنوری 2020 میں اس نے کہا تھا کہ دہلی کے شاہین باغ علاقے سے ’’لاکھوں مظاہرین‘‘ شہریوں کے گھروں میں گھس کر ’’ان کی بہنوں اور بیٹیوں کی عصمت دری اور انھیں قتل کر سکتے ہیں۔‘‘

2019 کے آخر اور 2020 کے اوائل میں شاہین باغ شہریت ترمیمی قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر کے خلاف مظاہروں کا ایک اہم مقام تھا۔

اتوار کو ہونے والی تقریب میں غازی آباد ضلع کے لونی قصبے سے بی جے پی کے ایم ایل اے نند کشور گرجر نے دعویٰ کیا کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کی حکومت اپنے ووٹ حاصل کرنے کے لیے شہر میں ’’جہادیوں سے بھری ٹرینیں‘‘ لا رہی ہے۔ اس نے نے دعویٰ کیا کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے ’’30 لاکھ جہادی‘‘ دہلی آئے ہیں۔

بعد میں گرجر نے نیوز ویب سائٹ کو بتایا کہ وہ تمام مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے، بلکہ صرف ان لوگوں کے خلاف ہے جو ملک کے باہر سے آئے ہیں۔

ایک ہندوتوا شدت پسند لیڈر یوگیشور اچاریہ نے لوگوں پر حملہ کرنے والوں کے سر قلم کرنے اور ان کے ہاتھ کاٹنے کی ترغیب دی۔

وہیں ایک اور لیڈر نوال کشور داس نے لوگوں کو لائسنس کے ساتھ یا اس کے بغیر بندوق خریدنے کی تلقین کی۔ داس نے کہا ’’بندوق لے لیں…لائسنس حاصل کریں۔ اگر آپ کو لائسنس نہیں ملے تو فکر نہ کریں۔ جو آپ کو مارنے آتے ہیں، کیا ان کے پاس لائسنس ہے؟ تو آپ کو لائسنس کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

دریں اثنا دہلی پولیس نے کہا ہے کہ ’’وراٹ ہندو سبھا‘‘ کے انعقاد کے لیے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی۔ ایک نامعلوم سینئر پولیس افسر نے پی ٹی آئی کو بتایا کہ تقریب میں کی گئی تقریروں سے متعلق فوٹیج کی جانچ کی جائے گی۔

ڈپٹی کمشنر آف پولیس (نارتھ ایسٹ دہلی) سنجے کمار سین کی جانب سے منیش کے قتل میں کسی بھی ’’فرقہ وارانہ زاویہ‘‘ سے انکار کے باوجود اتوار کے پروگرام کا اہتمام ہندوتوا تنظیموں نے کیا تھا۔ 2 اکتوبر کو انھوں نے وضاحت کی تھی کہ قتل پرانی دشمنی کی وجہ سے ہوا ہے۔