بابری مسجد کے انہدام کی 30ویں برسر پر پروگرام منعقد کرنے پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبا کے خلاف ایف آئی آر درج
نئی دہلی، دسمبر 12: اتر پردیش میں پولیس نے ہفتہ کے روز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کچھ طلباء کے خلاف ایودھیا میں بابری مسجد کے انہدام کی 30 ویں برسی کے موقع پر 6 دسمبر کو کیمپس کے اندر ایک پروگرام کرنے کے لیے پہلی معلوماتی رپورٹ درج کی۔
6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے مسجد کو منہدم کر دیا تھا، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ مسجد اس سرزمین پر کھڑی تھی جو ہندو دیوتا رام کی جائے پیدائش تھی۔ اس واقعے نے پورے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دی تھی۔
اس ہفتے جن طلباء نے اس تقریب کا انعقاد کیا تھا ان کے پاس مبینہ طور پر 6 دسمبر کو ’’یوم سیاہ‘‘ کے نام سے منسوب کرنے والے پوسٹرز تھے۔
دی اسکرول کی خبر کے مطابق علی گڑھ کے سول لائنز پولیس اسٹیشن کے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ایف آئی آر تعزیرات ہند کی دفعہ 505 (عوامی فساد کو جنم دینے والے بیانات)، 188 (سرکاری ملازم کے ذریعہ جاری کردہ حکم کی نافرمانی)، 295-A (مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے کام) اور 298 (کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر کچھ کہنا وغیرہ) کے تحت درج کی گئی ہے۔
ایک مقامی صحافی نے بتایا کہ یہ پیش رفت اس وقت ہوئی جب ہندوتوا تنظیموں نے تقریب کے ایک دن بعد ایک مہاپنچایت منعقد کی، جس میں طلبا کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔
روزنامہ جاگرن کی خبر کے مطابق بھارتیہ جنتا یووا مورچہ سمیت ہندوتوا تنظیموں نے کہا تھا کہ اگر پیر تک اس معاملے میں کوئی گرفتاری نہیں کی گئی تو وہ 13 دسمبر کو علی گڑھ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے دفتر تک احتجاجی مارچ نکالیں گے۔
بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کے رہنما امت گوسوامی نے دعویٰ کیا کہ ’’کیمپس میں ہندو مذہب اور سپریم کورٹ کے رام مندر کے حکم کے خلاف توہین آمیز نعرے لگائے گئے۔‘‘
گوسوامی سپریم کورٹ کے 2019 کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تھے جس نے ایودھیا میں متنازعہ جگہ پر رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کر دیا تھا۔
تاہم دی اسکرول کے مطابق ایک طالب علم نے کو بتایا کہ ایف آئی آر بے بنیاد ہے۔ طالب علم نے مزید کہا ’’ہم نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا اور نہ ہی کسی مذہب یا برادری کو نشانہ بنایا۔‘‘