فکشن ایسا جھوٹ ہے جس کے اندر سچ پوشیدہ ہوتا ہے: پروفیسر خالد جاوید

نئی دہلی، اکتوبر 6: معروف ادبی تنظیم ادارۂ ادب اسلامی ہند کے زیر اہتمام 6 اکتوبر2023 کو صبح دس بجے سے سہ روزہ قومی کانفرنس بہ موضوع ’اکیسویں صدی میں ناول: سمت اور رفتار‘ کا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس کا آغاز قاری یحییٰ نبیل کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ کانفرنس کے معاون کنوینر ڈاکٹر عرفان وحید نے مہمانوں کا استقبال کیا۔ اپنے استقبالیہ کلمات میں انھوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ ادب میں مثبت اور تعمیری اقدار کا فروغ ہو۔ معروف فکشن نگار اور جے سی ایوارڈ یافتہ پروفیسر خالد جاوید نے اپنے کلیدی خطبے میں کہا کہ بہت سے لوگ فکشن کو جھوٹ سمجھتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ فکشن جھوٹ ہے تو ایسا جھوٹ ہے جس کے اندر بہت سارا سچ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ مزید انھوں نے کہا کہ ناول کی پیدائش فرد کی تنہائی سے ہوتی ہے جو کہ صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے۔ اجلاس کے مہمان خصوصی معروف فکشن نقاد پروفیسر شافع قدوائی نے اکیسویں صدی کے فکشن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اکیسویں صدی کا ناول نگار ایک ڈسٹوپین ناول نگار ہے، جو اپنے عہد کے انتشار اور ٹوٹ پھوٹ کا گواہ ہے۔ انھوں نے معاصر ناول نگاری پر اظہار خیال کرتے ہوئے مزید کہا کہ نیا ناول نئے سماجی اقدار کی بھی نمائندگی کر رہا ہے۔ دیش بندھو کالج، دہلی یونی ورسٹی کے شعبۂ ہندی کے پروفیسر اور اجلاس کے مہمان اعزازی پروفیسر سنجیو نے اکیسویں صدی کے ناول پر اتنے پڑے پروگرام کے انعقاد کے لیے ادارہ ادب اسلامی کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ صدی 1991 سے ہی شروع ہو جاتی ہے جب صارفیت اور فسطائیت (بابری مسجد کی شہادت) دونوں ایک ساتھ ہندستان میں ظہور پذیر ہوئے۔ اجلاس کے دوسرے مہمان اعزازی معروف نقاد پروفیسر صفدر امام قادری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ناول اس وقت ہمارے عہد کی شناخت بن چکا ہے۔ اجلاس کی صدارت فرماتے ہوئے ادارہ ادب اسلامی ہند کے صدر پروفیسر حسن رضا نے کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ادارہ ادب اسلامی ہند کا مقصد ملک میں جتنی زبانیں ہیں ان سب میں اعلی اور نافع ادب کی تخلیق کا کام جاری رکھنا ہے تاکہ اسلام کا تصور حق اور خیر جو انسانیت کا فطری اور مشترکہ سرمایہ ہے، اس کے جمالیاتی اظہار سے ہمارا ذوق جمال سر سبز وشاداب اور ہمارا تخلیقی پرسپکٹیو سیراب رہے۔ تاکہ انسانیت کے شعور و ذہن اور زبان و دہن دونوں کی حفاظت ہوتی رہے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض کانفرنس کنوینر اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر خالد مبشر نے انجا دیے۔ ڈاکٹر وقار انور کے شکریے پر افتتاحی اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔

کانفرنس کا پہلا تکنیکی اجلاس سہ پہر تین بجے شروع ہوا۔ جس کی صدارت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود اور دہلی یونی ورسٹی کے شعبہ اردو کے پروفیسر ابو بکر عباد نے فرمائی۔ اس سیشن میں جناب خورشید حیات، ڈاکٹر رضی الدین (رضی شہاب) اور محترمہ فوزیہ رباب نے بالترتیب ’اکیسویں صدی کے ناولوں میں انسانی رشتے‘، ’اکیسویں صدی کے ناولوں میں مذہب بیزاری اور منفی اقدار کا فروغ‘ اور ’اکیسویں صدی میں ناول: تانیثیت کے حوالے سے‘ پیش کیا۔ پروفیسر خالد محمود نے اپنے صدارتی کلمات میں اکیسویں صدی کے ناولوں پر جہاں اپنے اطمینان کا اظہار کیا وہیں دوسری طرف یہ بھی کہا کہ اس صدی میں بہت سے ناول ایسے بھی لکھے گئے ہیں جو نہ لکھے جاتے تو ادب پر احسان ہوتا۔ اجلاس کے دوسرے صدر پروفیسر ابوبکر عباد نے ادارے کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا اس اجلاس میں پیش کیے جانے والے تمام مقالات عمدہ اور معلومات افزا تھے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ریسرچ اسکالر محمد علم اللہ نے انجام دیے۔ ملک کی مختلف ریاستوں اور مختلف یونی ورسٹیوں سے وابستہ اہم شخصیات، ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ واضح رہے کانفرنس کے مزید سیشن، پینل ڈسکشن اور اختتامی اجلاس ۷ اور ۸ اکتوبر کو منعقد ہوں گے۔