منی بل: مرکز نے سپریم کورٹ کے ذریعہ منی بل کے خلاف دائر درخواستوں کی ترجیحی بنیاد پر سماعت کی مخالفت کی

نئی دہلی، اکتوبر 12: مرکز نے جمعرات کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کی مخالفت کی، جس میں اس نے منی بلوں کا اعلان کرتے ہوئے کلیدی قانون سازی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کو ترجیح دی ہے۔

کسی بل کو قانون کے طور پر نافذ کرنے کے لیے، اسے عام طور پر لوک سبھا اور راجیہ سبھا دونوں کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم ’’منی بل‘‘ صرف لوک سبھا میں پاس کیا جا سکتا ہے اور راجیہ سبھا ایسے بلوں میں ترمیم یا اسے رد نہیں کر سکتی۔ ایوان بالا سفارشات پیش کر سکتا ہے لیکن ان پر عمل درآمد لازمی نہیں۔

یہ کیس جمعرات کو چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سنجے کشن کول، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی، سوریہ کانت، جے بی پاردی والا اور منوج مشرا پر مشتمل سات ججوں کی بنچ کے سامنے درج کیا گیا تھا، تاکہ اس کے معاری طریقۂ کار کی ہدایات جاری کی جائیں۔

سینئر وکیل کپل سبل نے عرضی گزاروں کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے ججوں پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو ترجیح دیں۔

چیف جسٹس کی رضامندی کے بعد سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ان سے درخواست کی کہ وہ ’’[مقدمات کی] سینیارٹی‘‘ کی بنیاد پر انھیں اہمیت دیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’’مائی لارڈز سیاسی ضرورتوں کی بنیاد پر ترجیح کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔‘‘

تاہم عدالت نے کہا کہ وہ مناسب فیصلہ کرے گی۔

کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی جے رام رمیش، جو اس کیس میں درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں، نے کہا کہ اس فیصلے کے پارلیمنٹ کے کام کاج پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔

انھوں نے کہا، ’’میں نے بار بار اس مسئلہ کو پارلیمنٹ میں اور اس کے باہر سپریم کورٹ میں 3 عرضیوں کے ذریعے اٹھایا ہے۔ پہلی درخواست 6 اپریل 2016 کو دائر کی گئی تھی، کیوں کہ یہ منی بل راجیہ سبھا کو اہم قانون سازی میں بحث کرنے یا ان کو منظور کرنے کا موقع فراہم کرنے سے انکار کرتا ہے۔‘‘

تکنیکی طور پر منی بلز ٹیکس لگانے، حکومت کی طرف سے قرض لینے اور ہندوستان کے کنسولیڈیٹڈ فنڈ سے رقم کی تخصیص سے متعلق ہیں۔

لوک سبھا اسپیکر فیصلہ کرتا ہے کہ آیا کوئی بل منی بل کے طور پر اہل ہے یا نہیں اور اس کا فیصلہ حتمی ہے۔

مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے اکثر اہم قوانین کو منظور کرنے کے لیے منی بل کی شق کا استعمال کیا ہے۔

اس نے آدھار (مالی اور دیگر سبسڈیز، فوائد اور خدمات کی ٹارگٹڈ ڈیلیوری) ایکٹ 2016، فارن کنٹری بیوشن ریگولیشن ایکٹ 2010 اور ریزرو بینک آف انڈیا ایکٹ 1934 میں ترامیم کو منی بل کے طور پر منظور کیا ہے۔ بی جے پی نے الیکٹورل بانڈ اسکیم کو بھی منی بل کے طور پر متعارف کرایا۔

بی جے پی حکومت نے 2015، 2016، 2018 اور 2019 میں منظور کیے گئے فائنانس ایکٹ کی مدد سے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ میں بھی اہم ترامیم کیں۔ بجٹ کے دوران منظور کیے گئے فائنانس بل منی بلز کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔

اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ مرکز نے اہم قانون سازی کے لیے منی بل کا استعمال کیا کیوں کہ راجیہ سبھا میں اس کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ 238 کے ایوان میں بی جے پی کے صرف 93 ارکان ہیں۔

اب سپریم کورٹ کی سات ججوں کی بنچ ان قوانین کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی جو منی بل کے طور پر منظور کیے گئے تھے۔