الیکٹورل بانڈز کا قضیہ

ایس بی آئی پر سپریم کورٹ کی پھٹکار کے ساتھ ہی بہت سے راز آشکار

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

انتخابی چندہ دینے والوں میں تمل ناڈو اور حیدرآباد کی کمپنیاں شامل
جیسے ہی ایس بی آئی پر سپریم کورٹ کی پھٹکار پڑی بہت سے راز باہر آگئے، ایسی ایسی کمپنیوں کے نام آشکار ہوگئے کہ یقین نہیں ہوتا کہ ان کمپنیوں نے بھی سیاسی پارٹیوں کو موٹے موٹے چندے دیے ہوں گے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے ویب سائٹ پر اپ لوڈ کردہ ڈیٹا کے مطابق چندے دینے والوں میں سر فہرست فیوچر گیمنگ اینڈ ہوٹل سروسز اور میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ جیسی کمپنیاں ہیں۔ یہ کمپنیاں اپریل 2019 سے جنوری 2024 تک انتخابی بانڈز کے سر فہرست خریدار رہی ہیں۔ ان کمپنیوں نے بالترتیب 1,368 کروڑ روپے اور 980 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے، وہ بھی ایک ایک کروڑ کے ڈنامنیشن والے بانڈز ۔
جمعرات 14؍ مارچ کو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی ہدایت سے ایک ہی دن قبل اپنی ویب سائٹ پر 2019 سے اب تک خریدے گئے انتخابی بانڈز کا ڈیٹا اپ لوڈ کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) سے کہا تھا کہ ان تمام لوگوں کی تفصیلات فراہم کی جائیں جنہوں نے 2019 سے انتخابی بانڈز خریدے تھے۔ اس نے الیکشن کمیشن سے بھی کہا تھا کہ وہ 15؍ مارچ تک اپنی ویب سائٹ پر سارے ڈیٹا کو شائع کرے، لیکن الیکشن کمیشن نے ایک دن قبل ہی ڈیٹا اپ لوڈ کردیا، اپ لوڈ کیے گئے ڈیٹا میں دو دستاویزات شامل ہیں، ایک میں کمپنیوں کی جانب سے خریداروں کی فہرست مع تاریخ لکھی ہوئی ہے، اور دوسری دستاویز میں ان سیاسی جماعتوں کی فہرست شامل ہے جنہوں نے ان بانڈز کو ان کیش کیا۔
کوئمبتور کی ایک فیوچر گیمنگ کمپنی جو ہندوستان کی سب سے بڑی لاٹری کمپنیوں میں سے ایک ہے اس کے بانی سینٹیاگو مارٹن خود کو ’لاٹری کنگ‘ کہتے ہیں۔ جولائی 23 2019 کو، ED نے اسی کمپنی پر الزام لگایا تھا کہ اس کے پاس حساب سے زیادہ نقدی پائی جاتی ہے اور اپنی حیثیت سے زیادہ جائیداد ہے۔ ساتھ ہی اسے منی لانڈرنگ کے مبینہ گھوٹالہ میں 120 کروڑ روپے کے اثاثوں سے جوڑا گیا۔ ای ڈی نے اس کمپنی سے متعلق 70 مقامات پر چھاپے مارے تھے۔ عجب اتفاق ہے کہ ان چھاپوں کے چند ہی ماہ بعد اس کمپنی نے الیکٹورل بانڈز خریدے، یعنی جولائی میں چھاپے مارے گئے اور اکتوبر 2019 میں بانڈز خریدے گئے۔
2؍ اپریل 2022 کو یہ اطلاع ملی کہ ای ڈی نے کمپنی کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور کمپنی کے 409.92 کروڑ روپے کے اثاثوں کو ضبط کر لیا گیا ہے۔ پانچ دن بعد یعنی 7؍ اپریل 2022 کو الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، کمپنی نے تقریباً 100 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے۔
جولائی 2022 میں الیکشن واچ ڈاگ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز ADR نے مالی سال 2020-21 کے لیے الیکشن کمیشن آف انڈیا کو جمع کرائی گئی الیکٹورل ٹرسٹس کی رپورٹوں کا تجزیہ کیا تو معلوم ہوا کہ لاٹری کی اس کمپنی نے پروڈنٹ الیکٹورل ٹرسٹ کو 100 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے، یہ وہی کمپنی ہے جس نے بی جے پی کو سب سے زیادہ رقم چندے میں دی ہے۔
کیسون پارٹنرز کے ایک وکیل ارون سری کمار نے اپنے ٹویٹ میں سوال کیا کہ جس کمپنی پر چھاپے مارے جاتے ہیں وہی کمپنیاں سیاسی شراکت داری کیوں کرتی ہیں؟ اگر یہ بانڈز تحفظ کی رقم کے طور پر نہیں تو اور کیا ہیں؟‘‘ ان کی سیاسی شراکت داری میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
2017-2018 اور 2022-2023 کے درمیان 12,008 کروڑ روپے کے انتخابی بانڈز کی فروخت ہوئی۔ بی جے پی نے تقریباً 55 فیصد یعنی 6,564 کروڑ روپے کے بانڈز حاصل کیے۔
اب آئیے دوسرے عطیہ دہندے کی جان کاری لیں گے، میگھا انجینئرنگ انفراسٹرکچر لمیٹڈ، جس کا صدر دفتر شہر حیدرآباد میں واقع ہے اس نے اپنی ویب سائٹ پر خود کو ’’عالمی  منظر نامے پر ایک ابھرتا ہوا کھلاڑی‘‘ ظاہر کیا ہے۔ اس کمپنی کے مالک پی وی کرشنا ریڈی اور پی پی ریڈی ہیں، یہ کمپنی آب پاشی پروجیکٹس، واٹر مینجمنٹ، بجلی، ہائیڈرو کاربن، حمل و نقل، عمارتوں اور صنعتی انفراسٹرکچر کے شعبوں میں کام کرتی ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ یہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ساتھ پی پی پی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) میں کام کر رہی ہے اور اس وقت ملک بھر میں 18 سے زیادہ ریاستوں میں مختلف پروجیکٹوں پر کام کر رہی ہے۔ کمپنی کے پروجیکٹس پر نگاہ ڈالیں تو ستمبر میں اس نے منگولیا میں 5,400 کروڑ روپے کے خام تیل کا پروجیکٹ حاصل کیا (منگول ریفائنری پروجیکٹ یہ حکومت سے حکومت کے درمیان کا معاہدہ ہے) مئی میں اس نے تھانے تا بوریولی جڑواں ٹنل کی تعمیر کے لیے دو الگ الگ پروجیکٹس حاصل کیے جن کی لاگت 14,400 کروڑ روپے ہے۔ جون میں اس کی ایک جزوی کمپنی آئی کام کے لیے وزارت دفاع سے 500 کروڑ کا آرڈر ملا۔ اس کمپنی نے جموں و کشمیر میں زوجیلا ٹنل کا پروجیکٹ بھی حاصل کیا، اس کی ویب سائٹ کے مطابق، یہ کمپنی چار دھام ریل ٹنل، وجئے واڑہ بائی پاس کی چھ لیننگ، دہلی-امرتسر-کٹرا ایکسپریس وے، مہاراشٹر سمردھی مہامرگ، سولاپور- کرنول، چنئی اکنامک کوریڈور جیسے اہم پروجیکٹوں پر کام کر رہی ہے۔ اس کمپنی نے 12؍ اپریل 2019 سے 12؍ اکتوبر 2023 کے درمیان ایک کروڑ روپے ڈینامینیشن کے حساب سے 980 کروڑ روپے کے بانڈز خریدے ہیں۔ اسی گروپ کی ویسٹرن یو پی پاور ٹرانسمیشن کمپنی لمیٹڈ نے بھی الیکٹورل بانڈز کے ذریعے 220 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے، اس کا نام بھی جمعرات کو جاری کردہ الیکشن کمیشن کی فہرست میں شامل ہے۔
ہندو بزنس لائن کی ایک رپورٹ کے مطابق، 12؍ اکتوبر 2019 کو محکمہ انکم ٹیکس نے حیدرآباد میں واقع کمپنی کے دفاتر پر چھاپہ مارا، جنوری 2024 میں دکن کرانیکل نے سی اے جی کی آڈٹ رپورٹ شائع کی جس میں اس کمپنی کے خلاف تلنگانہ میں تعمیر کیے گیے ایک بڑے آب پاشی پروجیکٹ میں مالیاتی بدعنوانیاں کے الزامات لگائے گئے:
’’ہائی پروفائل میگھا انجینئرنگ اینڈ انفراسٹرکچر لمیٹڈ (ایم ای آئی ایل) نے مبینہ طور پر معروف کالیشورم لفٹ ایریگیشن پروجیکٹ میں عوام کے ہزاروں کروڑ روپے جیب میں ڈال لیے ہیں، یہ وہی مشہور پروجیکٹ ہے جس کی سرپرستی بی آر ایس کر رہی تھی۔ سی اے جی کی ڈرافٹ پرفارمنس آڈٹ رپورٹ کے مطابق، کمپنی کو چار پیکجوں میں 5,188.43 کروڑ روپے زائد ادا کیے گیے، جس میں پمپ، موٹرز اور معاون آلات کی فراہمی اور کمیشننگ شامل ہیں۔
نیوز منٹ اور نیوز لانڈری کی ایک حالیہ رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 30 فرم جو کمپنیاں ای ڈی اور آئی ٹی کی تحقیقات کا سامنا کر رہی تھیں، انہوں نے گزشتہ پانچ سالوں میں بی جے پی کو 335 کروڑ روپے کا عطیہ دیا ہے۔ یہ سارا کھیل مرکزی حکومت کا رچایا ہوا ہے، درحقیقت انتخابی بانڈز رشوت کو قانونی حیثیت عطا کرنے کے لیے ہی لایا گیا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024