اک مجاہد کی پہچان اپنی جگہ

صابر کاغذنگری : ایک تاثر

ابراہیم علی حسن، جگتیال (کینیڈا)

منتخب الدین مرحوم المعروف صابر کاغذ نگری، سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔ ہم سب کو بھی ایک دن یہاں سے کوچ کر جانا ہے، مگر خوش نصیب وہ ہیں جو اپنے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ صابر کاغذ نگری انہی خوش نصیبوں میں سے ہیں۔ انہوں نے اسلامی طلبا تنظیم کے ایک با صلاحیت نوجوان قلم کار کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا اور عمر بھر ایک نام ور معتبر مترنم شاعر کی حیثیت سے معروف رہے۔ ریاستی صدر ادارہ ادب اسلامی ہند تلنگانہ شعیب الحق طالب نے ایک موقع پر کہا تھا کہ صابر کاغذ نگری جنوبی ہند کے منظر بھوپالی ہیں۔ مگر صابر کاغذ نگری کو ایک فوقیت یہ حاصل تھی کہ ان کی شاعری کی جڑیں تحریک ادب اسلامی کی زمین فکر میں پیوست تھیں۔ وہ نام نہاد ترقی پسند ادب برائے ادب کے نہیں، بلکہ ادارہ ادب اسلامی کے ادب برائے زندگی کے ہم خیال شاعر تھے۔ صابر کاغذ نگری اس قبیلہ کے ایک مخلص فرد تھے کہ جس قبیلہ کی سرداری کبھی نعیم صدیقی، ماہرالقادری، عامر عثمانی اور حفیظ میرٹھی جیسے نابغہ روزگار کرتے رہے۔ صابر کاغذ نگری نے اپنی اسلامی فکر کو کبھی پوشیدہ نہیں رکھا، شاید اسی لیے وہ اتنے مشہور و معروف نہ ہوسکے جتنے کہ ہو سکتے تھے۔ ورنہ ان کی رواں غزلیں اور مبہوت کردینے والا ترنم آج کے مشاعروں کے اسٹیج کا تو سکہ رائج الوقت ہے۔ مگر وہ بڑی سادگی اور اخلاص کے ساتھ اپنی فکر کو شعروں میں ڈھالتے اور اپنی فکر کی پیغام رسانی کرتے رہے۔ وہ اپنے اس شعر کے آپ مصداق تھے:
آن اپنی جگہ شان اپنی جگہ
اک مجاہد کی پہچان اپنی جگہ
صابر کاغذ نگری کے شعری محاسن یا معیار کو تو شعر و سخن کے نقاد ہی پرکھیں، مگر ان کا خورد ہونے کی حیثیت سے ایک بات میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ شاعر جیسے بھی تھے، انسان بہت اچھے تھے۔ ملن ساری، خورد نوازی اور خوش مزاجی ان کی جاذب نظر شخصیت کو اور بھی با وقار بناتی تھی۔ میرے والد مرحوم شیخ علی عازم صاحب انہیں بہت عزیز رکھتے تھے، اور مشاعروں میں صابر صاحب کو بہ اصرار بلایا کرتے تھے۔ یادش بخیر صابر صاحب سے تعارف والد صاحب کے توسط سے 1989 میں کورٹلہ کی تاریخ کے پہلے مشاعرے سے ہوا تھا۔ پھر جب ہم ہائی اسکول میں تھے، 1993 میں خمار بارہ بنکوی جگتیال آئے تھے، اور ان کی صدارت میں مشاعرہ ہوا تو صابر کاغذ نگری اس کے بہت کامیاب نوجوان شاعر ثابت ہوئے تھے اور خمار صاحب کی موجودگی میں یکے بعد دیگرے کئی غزلیں صابر صاحب سے مسلسل سنی گئیں تھیں۔ اس وقت آتش جوان تھا اور ان کی خوبصورت شخصیت کے ساتھ ان کا کھنک دار ترنم انہیں مشاعروں میں نمایاں رکھتا تھا۔ گو وہ بزرگ ہو گئے تھے مگر ان کی آواز اور ترنم کی جوانی اخیر عمر تک بھی سدا بہار تھی۔ مجھ پر صابر صاحب کی بڑی شفقت تھی۔ ان کا بڑا پن تھا کہ میرا مجموعہ کلام شائع ہوا تو صابر صاحب نے چار مصرعوں سے منظوم تہنیت پیش کی تھی۔ ہم ان کی نظمیں اور ترانے اسکول، کالج اور ایس آئی او کے پروگرامس میں پڑھا کرتے تھے۔ صابر صاحب نے بچوں اور نوجوانوں کے لیے کئی شاہ کار ولولہ انگیز نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی ایک بہت پرانی مگر بہت مشہور نظم اے نوجواں اے مرے نوجواں۔ ایس آئی او کے نوجوان آج بھی اپنے پروگرامس میں ہر جگہ اپنے اجتماعات میں پڑھتے ہیں۔ علیحدہ ریاست تلنگانہ کی جب تحریک چلی تھی اور جماعت اسلامی کا تلنگانہ گرجنا ہوا تھا تو صابر صاحب نے ایک نظم جئے بولو تلنگانہ لکھی تھی۔ میرا خیال ہے تلنگانہ پر اردو ہی کیا تلگو میں بھی اس سے زیادہ خوبصورت اور کچھ نہیں لکھا گیا۔ صابر کاغذ نگری کی ایک اور مشہور مناجات
مجھے جاہ دے نہ جلال دے
مرے فن کو ایسا کمال دے
لوگ علامہ اقبال کی نظم کہہ کر فارورڈ کرتے تھے، سوشل میڈیا پر یہ نظم علامہ اقبال سے موسوم ہندو پاک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں وائرل ہوتی رہی اور شاید اب بھی ہو رہی ہے۔ صابر صاحب کو اس کا بڑا قلق تھا۔ فرمائش پر وہ جب یہ نظم سناتے تھے تو بڑے کرب سے وہ وضاحت کرتے تھے کہ یہ نظم میری ہے اور آپ کو علامہ کی کسی کتاب میں نہیں ملے گی آپ دیکھ لیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ بات بھی گویا صابر کاغذ نگری کی پاکیزہ فکر اور شاعری کی دلیل ہے کہ اقبال کا نام لے کر اگر کوئی فریب دے تو عام لوگ یقین کر لیں۔ بہر کیف شاید ان کی لکھی یہ مناجات قبولیت سے بہرہ یاب تھی اور اللہ نے دعا سن لی تھی کہ
مجھے جاہ دے نہ جلال دے
مرے فن کو اتنا کمال دے
میں ہر ایک دل کی صدا بنوں
کہ زمانہ میری مثال دے
صابر کاغذ نگری یقیناً ہم ادب اسلامی کے طالب علموں کے دلوں کی صدا تھے اور اسلامی فکر کے قلم کاروں کے لیے بلاشبہ ایک مثال ہیں۔
اللہ تعالیٰ صابر کاغذ نگری کو غریق رحمت کرے ان کی مغفرت فرمائے اور ادارہ ادب اسلامی ہند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024