بھارت کا تعلیمی بجٹ ۔پالیسی،اہداف اور تقاضے

بھارت کا تعلیمی بجٹ ۔پالیسی،اہداف اور تقاضے

ڈاکٹر جاوید عالم خان
ماہر معاشیات ،آئی پی ایس اے ،دلی

ایک بہترین شہری بنانے، اقتصادی اور معاشرتی حالات کو درست کرنے اور روزگار کے اچھے مواقع فراہم کرنے نیز غربت کے خاتمے کے لیے اچھی اور معیاری تعلیم کا حصول بےحد ضروری ہے اس سے غربت افلاس کا جہاں خاتمہ ہوتا ہے وہیں معاشرتی حالات از خود درست ہو جاتے ہیں۔ معیاری تعلیم کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اس کے فروغ کے لیے آگے آے اور اس پر خاطر خواہ توجہ دے۔
جیسا کہ ہر شخص بات سے آگاہ ہے کہ پوری دنیا کورونا جیسی وباء سے دوچار ہے۔ کورونا سے پہلے طلباء اسکولوں سے منسلک تھے اور اسکول جایا کرتے تھے مگر کورونا کی آمد سے اب تک اسکول عملاً بند ہیں جس کے باعث تعلیم کا عموماً اور بچوں کی تعلیم کا خصوصاً بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ اب ان حالات میں جب بچوں کی تعلیم موقوف اور اسکول بند ہیں حکومت کی طرف سے پیش ہونے والے بجٹ سے لوگوں کو کافی امیدیں وابستہ تھیں لیکن عوام کو حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں محض مایوسی ہی ہاتھ لگی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نئ ایجوکیشن پالیسی ( New Education Policy 2020) کے بعد چونکہ 2021-22 پہلا بجٹ تھا جسے پیس کیا گیا لہذا اس میں ضروری تھا کہ حکومت طلباء اورانکے سرپرستوں کا مکمل خیال رکھتی اور مختلف نئے پیکجز اور اسکیموں کے ذریعے ان کے درپیش مسائل کو حل کرتی مگر اس کے برخلاف حکومت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور الٹا تعلیمی بجٹ میں کمی کر دی اور جو تعلیمی اسکیمیں پہلے سے جاری ہیں وہ بھی بے اثر ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں ہوے ایک تجزیہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ گزشتہ 5تا7 برسوں سے مرکزی حکومت کی طرف سے فنڈز میں کمی کے باعث یو جی سی ( UGC ) نے مختلف اسکیموں کو بند کر دیا ہے۔ اس بات سے ہم موجودہ حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
جب ہم مرکزی حکومت کی سطح پر وزارت برائے تعلیم کے لیے تعلیمی بجٹ کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حکومت وزارت برائے تعلیم کے لیے 93,224 کروڑ روپے 2021 -22 کے بجٹ میں مختص کیے ہیں جو کہ 2020- 21 کے بجٹ سے 6.13% کم ہے یہ کمی بڑی حد تک اسکولی تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے ہے جبکہ بجٹ تقریر (Budget Speech) میں’’تعلیم سب کے کے لیے‘‘ اور آتم نربھر بھارت “کے تحت حکومت کے حتمی مقصد کو سراہا گیا تھا جبکہ بجٹ مختص کرنے کے معاملے میں اس وزارت کو خاطرخواہ حمایت نہیں ملی ہے۔
کورونا وبا کے سبب ہندوستان میں تقریبا 320ملین بچے پورا تعلیمی سال گنوا چکے ہیں اور اب بچوں کے ایک بڑے حصے کی رسائی آن لائن تعلیم کے اس نئے اکیڈمک سیشن تک ممکن نہیں ہے۔یہ ایک ایسی وجہ ہے جو اسکولوں کے دوبارہ کھلنے کے بعد بھی بچوں کو اسکول سے دور کر سکتی ہے لہذا اس مسئلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ تمام باشندوں کی رسائی معیاری تعلیم تک ممکن ہو سکے اور جو طلباء تعلیم کو موقوف یا ترک کر دیتے ہیں ان کی شرح میں کمی آے اور انکی ضرورتوں کی تکمیل کی جا سکے۔
حالیہ دنوں میں تعلیمی میدان میں جو چیز دیکھنے میں آ رہی ہے وہ نئی تعلیمی پالیسی ہے جس میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور سب کی شمولیت کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ آئیے درج ذیل سطور میں یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ نئی تعلیمی پالیسی کیا ہے ۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020:
قومی تعلیمی پالیسی 2020 اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ یہ اکیسویں صدی کے اہم ترقیاتی اہداف کو پورا کرنے کے لئے ایک طویل مدتی پالیسی فریم ورک ہے۔اس نئی پالیسی کا بنیادی ہدف اقوام متحدہ سے منسلک SDG گول نمبر (4) کے مستحکم ترقیاتی اہداف (SDG) كو حاصل کرنا ہے۔
2020 قومی تعلیمی پالیسی (National Education Policy) کے تجاویز کی بنا پر 18 اگست 2020 کو وزارت برائے فروغ انسانی وسائل (Ministry of human resource development), کا نام بدل کر وزارت برائے تعلیم کر دیا گیا ہے، اس پالیسی كو 2030-40 کی دہائی کے دوران نافذ کیا جائے گا۔
l مرکزی اور ریاستی حکومت تعلیمی میدان میں عوامی سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے کام کریں گے تاکہ :
l سرمایہ کاری مجموعی جی ڈی پی (GDP)کے 6فیصد یا عوامی اخراجات کے 20 فیصد تک پہنچ جائے۔
l اسکولی نصاب”10+2″ کے ڈھانچے کو "5+3+3+4” کے نصابی ڈھانچے سے تبدیل کیا جائیگا۔جس میں 5 سال کی بنیادی تعلیم درجہ 2تک ہوگی۔ تیاری کے مرحلے کے تین سال (درجہ تین سے پانچ تک) درمیانی مرحلے کے تین سال (درجہ 6 سے 8 تک) سیکنڈری اسکول کے چار سال (درجہ نو سے 12 تک) مختصراً یہ کہ 2020 نیشنل ایجوکیشن پالیسی میں (NEP)تین سالہ پری اسکولنگ/ آنگن باڑی کو 15سالہ اسکولنگ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے۔
l اس پالیسی کا مقصد 2030 تک اسکولی تعلیم کے مجموعی اندراج تناسب(Gross Enrollment Ratio) کو 100% تک ہمہ گیر بنانا ہے ساتھ ہی اعلی تعلیم کو50% تک پہنچانا ہے۔
l 2030تک GER کو 100% پہنچانے کے لیے 6 سے 17 سال کی عمر تک کے 3.22 کروڑ بچوں کو اسکول واپس لایا جائیگا۔
l اضافی کیندریہ ودیالہ (KVs) اور نوودیہ ودیالہ (NVs) خواہشمند اضلاع (Aspirational district) اور خصوصی تعلیمی زون (Social education zones) میں قائم کیا جائیگا۔
l نیشنل مشن آف ایجوکیشنل لٹریسی اینڈ نمریسی (NMFLN) کے تحت سال 2025 تک تمام پرائمری اسکولوں میں پڑھنے والے گریڈ 3(تھرڈ) تک کے بچوں کو عالمگیر بنیادی خواندگی اور عددی معلومات عطا کرنا ہے۔
l آٹھ سال کی عمر تک کے بچوں کے شروعاتی بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم کے لیے قومی نصابی اور تدریسی فریم ورک (NCPFECCE) کو NCERT کے تحت بنایا جائے گا۔
l اساتذہ کی ٹریننگ کے لیے ایک جامع قومی نصاب کا فریم ورک (NCFTE) کو سال 2021 تک نیشنل کونسل فار ٹیچرس ایجوکیشن (NCTE) اور (NCERT) کے ساتھ مشاورت سے تیار کیا جائیگا۔
l اسکول کی تعلیم میں سہ زبانی فارمولہ , (Three language furmula) مادری زبان علاقائی یا مقامی زبان کو تعلیمی اداروں میں استعمال کیا جائے گا نیز اسے آٹھویں درجے یا اس سے آگے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
l تحقیق و اختراع پر زور دینے کے اعتبار سے ہمارے ملک میں بھی جی ڈی پی(GDP) کا حصہ محض0.69% ہی ہے جبکہ امریکا میں.82% ، اسرائیل میں4.3% اور جنوبی کوریا میں4.2% ہیں لہذا تحقیق و اختراع میں سرمایہ کاری میں اضافہ کرنا ہے۔
l طلباء اساتذہ کا تناسب 30:1 (PTR) ہونا چاہیے جیسا کہ (RTE) ایکٹ 2009 میں بتایا گیا ہے کے اسے اسکول میں ہر سطح پر یقینی بنایا جائے۔
درج بالا سطور میں ہم نے دیکھا کہ جہاں نئی تعلیمی پالیسی میں بجٹ کے بڑھانے اور اس کے معیار میں بہتری لانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں اس بات کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ تعلیم کو مکمل زعفرانی رنگ میں رنگ دیا جائے جو کہ تعلیمی نظام کے لیے ایک بہت ہی بڑی خرابی ہوگی۔تعلیمی میدان میں مرکزی حکومت کے زیر انتظام سمگر شکشا اسکیم حکومت کی سب سے بڑی تعلیمی اسکیم ہے جسے نئی تعلیمی پالیسی میں شامل کر دیا گیا ہے
آئیے اس بارے میں مختصراً سمجھتے ہیں :
سمگر شکشا اسکیم :
سمگر شکشا اسکیم حکومت کی سب سے بڑی تعلیمی اسکیم ہے اس کے تحت نیشنل ایجوکیشن پالیسی (NEP) کے تقریباً 86 فقروں (Paras) کا احاطہ کیا گیا ہے۔
سمگر شکشا یہ ایک ایسا وسیع پروگرام ہے جو اسکول کی تعلیم کے شعبے میں پری اسکول سے درجہ 12 تک کو محیط ہے۔اس کو اس بنا پر لاگو کیا جا رہا ہے کہ اسکول کی تعلیم میں مساوی مواقع اور سیکھنے (پڑھنے) میں مساوی نتائج کے لحاظ سے اسکول کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے وسیع ہدف کو پورا کیا جا سکے۔
اس اسکیم کا ویژن یہ ہے کہ پری اسکول سے لیکر سینئر سیکنڈری مرحلے تک مساوی اور جامع معیاری تعلیم کو مستحکم ترقیاتی اہداف (SDG) کے مطابق یقینی بنایا جا سکے۔
اس اسکیم کے اصل نتیجے کا تصور تعلیم کی عالمگیر رسائی نیز مساوات اور معیار کو بڑھانے کیلئے کیا گیا ہے جس میں پیشہ وارانہ تعلیم، جامع تعلیم، ٹیکنالوجی کا اضافی استعمال،ٹیچر ایجوکیشن، انسٹیٹیوشن کو تقویت بخشنا شامل رہا ہے ور اس میں اسکول کی کل تعلیم کو پری اسکول سے درجہ 12 تک مکمل طور سے پیش کیا گیا ہے۔
اب آئیے اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف تعلیمی اسکیموں کا جو مختص بجٹ خرچ ہے وہ کل مختص شدہ بجٹ کا کتنا فیصد ہے
:1.1وزارت برائے تعلیم کے تحت سال 2021-22 میں اہم اسکیموں پر بجٹ مصارف(جدول-1.1ملاحظہ کریں)
محکمہ اسکولی تعلیم اور خواندگی ڈیپارٹمنٹ آف اسکول اینڈ لٹریسی ( Department of School and Literacy) کے تحت کل گیارہ اسکیمیں ہیں جس میں سے 6 اسکیمیں "(1)سمگر شکشا (2) اسکولوں میں مڈڈے مل نیشنل پروگرام (3) پڑھنالکھنا ابھیان (4) لینگویج ٹیچر کی تقرری(5) اقلیتوں کی ترقی کیلئے امبریلاپروگرام- مدارس اور اقلیتوں کی خاطر تعلیمی اسکیمیں- (6) STARS Strengthing Teacher- Learning and Results for) (Statesر یہ سب مرکزی اسپانسرڈ اسکیمیں ہیں ۔
ان کے علاوہ 5 مرکزی سیکٹر اسکیمیں بھی ہیں جیسے: (1) نیشنلمشن کم میرٹ اسکالرشپ اسکیم(National Means cum Merit Scholership Scheme) (2) سیکنڈری ایجوکیشن کے لیے لڑکیوں کو تعلیم میں ترغیب دینے کے لیے قومی اسکیم (National Scheme for incentive to Girl Child for Secondry Education)اساتذہ کے لئے قومی ایوارڈ (National Award to Teachers)(4) آپریشن ڈیجیٹل بورڈ(Operation Digital Board) (5) پردھان منتری اختراعی تعلیمی پروگرام (DHRUV) Paradhan Mantri Innovative Learning Programe ۔
: 1.2 محکمہ اسکول ایجوکیشن اینڈ لٹریسی کی منتخب اسکیموں میں مختص بجٹ اور استعمال
(جدول-1.2ملاحظہ کریں)
درج بالا جدول 1.2 سے ہم اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وزارت برائے تعلیم کی اسکیمیں جس قدر فنڈز کا مطالبہ کرتی ہیں ان کو مرکزی حکومت کی جانب سے وہ فنڈز نہیں گرانٹ کیا جا رہا ہے جس کے سبب روز بروز اسکولی تعلیم کا معیار گرتا ہی جا رہا ہے، مثلا سمگر شکشا اسکیم نے سال 2021-22 میں 57914.1 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا مگر اسے محض 31050.16 کروڑ روپے ہی گرانٹ کیا گیا۔ اسی طرح پڑھنا لکھنا ابھیان اسکیم نے 1000 کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا مگر اسے بھی محض 250 کروڑ ہی گرانٹ کیا گیا، ٹھیک اسی طرح کیندریہ ودیالیہ سنگٹھن اسکیم نے 10450 کروڑ کا مطالبہ کیا تھا مگر اسے بھی محض 6800 روپے ہی گرانٹ کیا تھا اور یہی حال تقریباً ساری ہی تعلیمی اسکیموں کا ہے۔
1.3 محکمہ اعلیٰ تعلیم کی اسکیمات کے لیے مختص شدہ بجٹ(جدول-1.3ملاحظہ کریں)
اسی طرح جب ہم محکمہ ہائر ایجوکیشن کی اسکیموں کے بجٹ ڈیمانڈ اور بجٹ گرانٹ کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسکیموں کو ان کے ڈیمانڈ اور ضرورت کے اعتبار سے مرکزی حکومت بجٹ گرانٹ نہیں کر رہی ہے بلکہ اس میں کٹوتی کر رہی ہے اور نتیجتاً اعلیٰ تعلیم کا حصول پرائیوٹ سیکٹرس کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے اور حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے اس طرح عوام کے لیے تعلیم کا حصول دشوار تر ہوتا جا رہا ہے۔
درج بالا بحث اور تجزیہ سے ہمارے سامنے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ہندوستان میں معیاری اور عالمگیر تعلیم کی کس قدر ضرورت ہے۔ تعلیم کے معیاری اور عالمگیر ہونے کے لیے ضروری ہے کہ مطالبہ کے مطابق اسکیموں اور اداروں کو بجٹ مختص کیا جائے ۔ تعلیم کے لیے نہ صرف اضافی بجٹ ڈیمانڈ کو مختص کیا جائے بلکہ اسے بڑھا کر موجودہ بجٹ کے کلGDP کے 4 فیصد سے 6 فیصد کیا جائے جیسا کہ آج سے تقریباً 55 برس قبل ہی کوٹھاری کمیشن کی سفارش رہی ہے۔ تعلیمی بجٹ کے بڑھانے میں نہ صرف مرکزی حکومت کلیدی کردار ادا کرسکتی ہے بلکہ ریاستوں کو بھی اس کے لیے آگے آنا ہوگا تبھی ہم تعلیمی معیار کو بہتر اور مستحکم بنا سکتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی قوم اور ملک کی اصل ترقی اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ سارے ہی باشندوں کو ایک ساتھ لے کر آگے بڑھا جائے اور انہیں یکساں مواقع فراہم کئے جائیں نا کہ کسی کا استحصال کیا جائےاور تعلیم جیسے شعبے کے بھگواکرن کرکے انہیں تعلیم سے دور اور ہراساں کیا جائے۔ پس حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیم میں سب کی شمولیت اور اسے عالمگیر بنانے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  30 جنوری تا 5فروری 2022