اداریہ

اکھنڈ بھارت بنام ہندو راشٹر

کیا واقعی ملک کے عوام اگلے‌ بیس پچیس برسوں میں آر ایس ایس کے خوابیدہ "اکھنڈ بھارت” کی تعبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں؟
لیکن سنگھ کے اس تازہ دعوے کی تصدیق آخر کون کرے گا کہ ‘سناتن دھرم ہی ہندو راشٹر ہے؟
١٩٥٠ میں مشہور سماج وادی لیڈر رام‌ منوہر لوہیا نے لکھا تھا کہ یہ جھگڑا ہندو بمقابلہ ہندو ہے۔ دراصل ملک میں اب تک کا سب سے طویل جھگڑا لبرل اور بنیاد پرست ہندوؤں کے درمیان پچھلے پانچ ہزار برسوں سے چلا آ رہا ہے جو انجام کو پہنچتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ آج ملک میں جو کچھ حالات پیدا ہوئے ہیں ان کے پیچھے بھی وہی ‘ہندو بمقابلہ ہندو’ کی جنگ ہی ہے۔”
بہتر سال قبل کہی گئی بات آج کے حالات پر بھی من و عن چسپاں ہوتی ہے۔ دیگر عالمی مذاہب اور نظریات میں یہ نظریاتی جنگ کسی نہ کسی طرح اپنے انجام کو پہنچی لیکن ہندو مذہب کے مذکورہ دونوں گروپوں کے مابین جنگ بدستور جاری ہے۔ بہت زیادہ خون خرابہ بھلے ہی نہ ہوا ہو لیکن اس جنگ میں کبھی ایک گروہ غالب آتا ہے، تو کبھی دوسرا۔ لیکن مسئلہ جوں کا توں برقرار رہتا ہے۔
ذات پات، عورت، جائیداد اور برداشت و تحمل یہ وہ چار بڑے اور نہایت اہم سوالات ہیں جن کے تعلق سے ہندو دھرم گاہے بہ گاہے ‘لبرل’ یا ‘بنیاد پرستانہ’ موقف اختیار کیا کرتا ہے۔
اس تجزیہ کے تناظر میں موہن بھاگوت کے بیانوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔
آر ایس ایس کا دیرینہ موقف یہ رہا ہے کہ ہندوستان میں رہنے والا ہر شخص، چاہے وہ کسی بھی مذہب پر عمل کرتا ہو، ہندو ہی ہے۔ لیکن اب موہن بھاگوت کا دعویٰ ہے کہ جو لوگ ہندو نہیں ہیں لیکن خود کو بھارتیہ کہلانا پسند کرتے ہیں، تو ان کے جذبات کا بھی احترام کیا جائے گا۔ ستمبر ٢٠١٨ میں ہندوتوا نظریہ کی علم بردار تنظیم آر ایس ایس کے سربراہ بھاگوت نے ‘مستقبل کا بھارت’ کے عنوان سے منعقدہ ایک تقریب میں کہا تھا کہ ہمیں اس جذبے کو واپس لانا ہے جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا تھا۔ ‘اگر وہ (مسلمان) یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہندو مت کہو، جیسا کہ ہم کہتے ہیں، ہمیں بھارتیہ کہو تو ہم اس کا احترام کریں گے۔۔۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ یہاں مسلمان نہیں چاہئیں، اس دن ہندوتوا کا تصور بھی ختم ہو جائے گا کیونکہ ہندوتوا کا بنیادی نظریہ ہی یہ ہے کہ پوری دنیا ایک خاندان ہے۔’
ایک جانب وسودھیو کٹمبکم کے نظریہ کے مطابق سارے عالم کو ایک خاندان تصور کرنا اور دوسری جانب متحدہ بھارت کے تحت اپنی استعماری ذہنیت کو آشکار کرنا! آخر اس کا مطلب کیا ہے؟
اگر مان لیا جائے کہ ارد گرد کے ممالک ہمارے ساتھ ضم ہونے کے لیے راضی نہیں ہوتے ہیں تو موہن بھاگوت کے نزدیک ان کو بزور قوت شامل کر لیا جائے گا۔ بقول ان کے "آر ایس ایس عدم تشدد کی بات رکھے گی لیکن ہاتھ میں ‘ڈنڈا’ لے کر۔” سادھو سنتوں کے آشیرواد سے پاکستان، افغانستان، بھوٹان، میانمار، تبت، بنگلہ دیش اور سری لنکا وغیرہ کو ملا کر سنگھ چاہتا ہے کہ ان ملکوں میں بھارت ترقی کے پھل کھلائے۔
بظاہر اسے ان کی نیک نیت مان بھی لیا جائے تو اپنے شہریوں اور پڑوسیوں کے ساتھ ان کا موجودہ رویہ تو اس کے بر عکس ہے۔
کیا سنگھ سے پوچھا جا سکتا ہے کہ ان کے پاس مستقبل کے متحدہ بھارت کا کونسا خاکہ ہے؟
مشہور مصنف مولانا عبدالحمید نعمانی کے مطابق ‘بھارت اب تک 24 مرتبہ تقسیم ہو چکا ہے۔ اکھنڈ بھارت قائم کرنے کا آخری موقع اگست 1947ء میں ملا تھا لیکن اس وقت آر ایس ایس یا ہندو مہاسبھا نے ہند و پاک کی تقسیم روکنے کی کوشش نہیں کی۔’ تو کیا یہ موجودہ ناکامیوں سے باشندگان ملک کی توجہ ہٹانے کی کوشش ہے یا سنگھ اپنی ‘سیوک’ خادم کے رول کو فراموش کر کے اب پس پردہ ‘شاسک’ کے کردار میں خود کو مزید عرصہ تک بنائے رکھنے کے لیے کوئی چال چل رہا ہے؟
بہر صورت سنگھ کو اپنی تضاد بیانی اور خوابوں کی نامعقول تعبیرات کی صفائی ضرور پیش کرنی ہو گی تاکہ ہم بھی ان کے نظریہ کو میرٹ کی بنیاد پر اور انسانیت، فلاح اور ترقی و نجات کے پیمانوں پر جانچ کر حتمی رائے قائم کر سکیں۔ ان کو یہ بتانا ہو گا کہ بھارت کی ۱۳۰ کروڑ آبادی کے ساتھ دیگر ملکوں کی تقریباً چالیس پچاس کروڑ مزید آبادی کی فلاح و ترقی کے لیے کیا لائحہ عمل موجود ہے۔ فی الحال تو ہمارے شہری بنیادی ضروریات کے تک محتاج بنا کر کارپوریٹ شعبہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔
اس مسئلے کا حل کیا ہو؟
مشہور مجاہد آزادی رام منوہر لوہیا کمیونزم اور فاشزم دونوں کو ‘عوام مخالف’ اور ‘دماغ کی گندگی’ سے تعبیر کرتے تھے۔ انہوں نے جولائی ١٩٥٠ میں ملک کی پریشانیوں کا حل بتاتے ہوئے لکھا تھا کہ صدیوں سے جمع ہوتی آرہی گندگی کو ہندو ہی نکال کر صاف کرے، زندگی کی اصلیتوں کا ادراک کرے اور ورن ویوستھا، عورت، جائیداد اور تحمل کے بنیادی سوالات میں بنیاد پرست ہندوؤں کو ہمیشہ کے لیے شکست دی جائے۔
دوسرا بلکہ سب سے زیادہ پائیدار حل یہ ہے کہ ملک کے کلمہ گو مسلمان حق کی قولی و عملی شہادت کا فریضہ انجام دیں، دعوت و تبلیغ کے لیے “یا قومی” کہہ کر باشندگان وطن کے دلوں پر دستک دیں اور دین کو تمام دکھوں کا مداوا بنا کر پیش کرنے میں جی جان سے لگ جائیں اور اس میں کسی کو اپنا ازلی دشمن خیال نہ کریں کہ
پاسباں کعبے کو صنم خانے سے بھی مل جاتے ہیں!

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  24 تا 30 اپریل  2022