پچہتر سال کا عرصہ کسی قوم کی تاریخ میں بہت بڑا عرصہ نہیں ہوتا لیکن اتنا کم بھی نہیں کہ اس کو نظر انداز کیا جا سکے۔ برصغیرِ میں ایک سے دو اور بعدہُ تین ممالک کا عالمی نقشے پر وجود میں آنا ایک تاریخ ساز واقعہ ہے، بھلے ہی اکھنڈ بھارت کے متوالے اس ملک کی تاریخ کو پانچ ہزار برس پرانی بتاتے ہوں۔اور اس دوران کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ سَناتن دور بہت ترقی یافتہ تھا، کوئی کہتا ہے کہ جینیوں یا بودّھوں کے زمانوں میں ملک نے شاندار ترقیوں کا مشاہدہ کیا تھا۔ کوئی سمجھتا ہے کہ مقامی و غیر مقامی خاندانی حکمرانوں بشمول مغلوں کے دور میں بھارت سونے کی چڑیا تھا۔ ان تمام باتوں کا جائزہ لیا جاتا رہے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے ایک نئے دور میں قدم رکھا ہے اور لوگوں کو کسی نئے خوش حال "وشوگرو” بھارت کی خاطر مصائب جھیلنے کے لیے ذہنی اور عملی لحاظ سے تیار کیا جا رہا ہے۔ بے شک اس ملک نےمادی اعتبار سے کافی ترقی کی ہے،حالانکہ ان کے پھل تمام طبقات تک نہیں پہنچے ہیں۔ سائنس، زراعت، تعلیم، تکنیک، دفاعی قوت، انسانی وسائل، کھیل کود، آرٹ وفن اور میڈیا کی وسعت وغیرہ قابلِ رشک ہے۔ اس دوڑ میں کئی افراد اور گروہوں کو کچھ شکایات بھی رہی ہوں گی اور وہ اپنی اپنی جگہ ان کا مداوا کرنے کے لیے کام بھی کر رہے ہیں۔ جن گروہوں نے طویل المیعاد منصوبوں پر مستقل مزاجی کے ساتھ کام کیا آج اگر وہ اس محنت کا پھل کھا رہے ہیں تو اس صورت حال نے ہمیں بھی مجبور کر دیا ہے کہ ہم اپنا احتساب کریں۔
ماؤں نے آزاد جَنا ہے:
مصر کے گورنر عَمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے خود کو اِبنُ الاَکرَمین (معززین کی اولاد) قرار دیا تھا۔ وقت کے خلیفہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مصری کو انصاف دلانے اور حقیقی مساوات کو قائم کرنے کے لیے ملزم کو کھجور کے پیڑ کے تنے سے باندھا اور کوڑے لگوائے، کیوں کہ وقت کے گورنر کے بیٹے نے اس مصری کو بلا قصور کوڑے مارے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے اس مظلوم سے کہا: ’’اب تو اس معزز فرد کے بیٹے کو مار‘‘ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا "تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا رکھا ہے، حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا؟”
آج ہو یا آج سے قبل کے تمام ادوار ہوں، بھارت کے ظالم و مظلوم، حاکم اور جمہور کے لیے اس جیسی عدل و انصاف پر مبنی مثال پیش کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ آزادی ہی نہیں بلکہ دور حاضر میں قابلِ اعتراض ٹہرائے گئے الفاظ یعنی کفر، کافر، جہاد اور امت وغیرہ کے حقیقی تصورات سے برادرانِ وطن کو پھر اسی طرح آشنا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اسلام کی روح پرور اور نجات دہندہ تعلیمات ان کو ہزار سجدوں سے نجات دلا دیں اور وہ اس آفاقی نظامِ عدل و مساوات کی پناہ میں آجانے پر اعتراض تو کجا، فخر کرنے لگیں۔
گرچہ ملک کے سرکردہ افراد و دانشور موجودہ حالات اور مستقبل کے بارے میں مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں، لیکن ہمیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ بھارت کی تقدیر سے یہاں کے مسلمانوں کی تقدیر بھی وابستہ ہو گئی ہے،آزادی کے وقت ہم نے سوچھ سمجھ کر اپنا ایک انتخاب کر لیا تھا۔ چنانچہ اگر ان سخت ترین آزمائشوں میں ہم نے استقامت نہ دکھائی تو کیا یہاں کی پس ماندہ، خدا سے غافل اور مقصد زندگی سے بے بہرہ قومیں اس بات کی متحمل ہیں کہ وہ اس ملک کی تقدیر کو سنوار سکیں گی؟ دین و دنیا کے بہترین أسوہ زندگی کی امین ‘امت’ ہی انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرا سکتی ہے، بس ان کو ‘کفر’ کے اندھیروں سے باہر نکالنے کے لئے مطلوبہ پر امن، جمہوری ‘جہاد’ کو سمجھنا ہے۔ ہمیں ایک خدا، ایک رسول اور ایک کتاب کے نظریے پر متحد ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح تربیت یافتہ اجتماعیت کے روپ میں جمہور کے سامنے متبادل پیش کرنا ہو گا۔ سیاست دانوں کی جانب سے عوامی شراکت داری کی کوششیں ہوں یا نہ ہوں عوامی سطح پر شمولیتی معاشرے کی تشکیل کی کوششوں کو آگے بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ آج لوگ کہنے لگے ہیں کہ ’جمہوریت ڈھکوسلہ، دھوکے اور اکثریتی غلبے کے سوا کچھ نہیں‘۔ ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے مایوسی کے عالم میں غیر جمہوری، متشدد اور انتہا پسندانہ راستوں کو اختیار کرنے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ موجودہ اقتدار آیا ہی عوامی ذہن سازی کے ذریعے سے ہے۔ اور اب وہ اپنی گرفت کو مزید مضبوط کرنے کے سارے جتن کر رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس جبر کے نظام سے آزادی کے لیے ہمارے علاوہ دیگر نظریات بھی سرگرم ہیں لیکن ان کے پاس ویسا ماڈل، عملی نمونہ اور نظریہ موجود نہیں ہے جو ہمارے پاس ہے۔ دراصل ہمارے نظریے کی طاقت یہی ہے کہ وہ مایوسی سے آزاد کرنے والا اور امید کی راہ دکھانے والا ایک عالم گیر نسخہ پیش کرتا ہے۔ جس میں جمہور کو یہ یقین دلایا گیا کہ ایک دن آئے گا جب ایک عورت تنِ تنہا یمن سے حضرموت تک سفر کرے گی، وہ قیمتی زیورات سے لدی ہو گی لیکن وہ خدا کے سوا ہر طرح کے خوف و خطر آزاد ہو گی۔ اس وقت کے عوام و خواص کو یہ امید دلائی گئی تھی کہ قیصر و کسریٰ جیسے سپر پاوروں کے ظلم وستم سے عوام کو تم ہی آزادی دلاؤگے۔
سُنّت اللہ:
اللہ کی سنت میں ایک اصول یہ بھی ہے کہ غلبے کے لیے تعداد کوئی شرط نہیں ہے۔ ‘کَم مِن فِئۃ قَلیلتہ غلبت فِئۃ کثیرۃ‘۔ اصل چیز یہ ہے کہ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے آزاد کرنے کے لیے ویسی جد و جہد کی جائے جیسا کہ اس کے کرنے کا حق ہے اور فی زمانہ وہ ‘جہاد’ صرف اور صرف فرد، عوام، جمہور کی فکر و نظر اور سوچ کی تبدیلی کے راستے سے ممکن ہے نہ کہ کسی جبر یا اسلحے کی قوتوں سے؟ اسی لیے بانیِ تحریک اسلامی سید مودودی رحمہ اللہ علیہ بار بار کے استفسار کے باوجود ایک ہی موقف پر قائم رہے کہ کارکنانِ تحریک کو غیرقانونی اور غیر آئینی طریق کار اختیار کرنے سے بچنا چاہیے اور کہا کہ عوامی تحریک سے اور عوام کی ذہن سازی کے ذریعے تبدیلی برپا کیجیے۔
‘’میرے نزدیک یہ طے کرنا ہر ملک کی اسلامی تحریک کے کارکنوں اور قائدین کا کام ہے کہ جس قسم کا ظلم و استبداد ان پر مسلط ہے اس کے مقابلے میں وہ کس طرح کام کریں؟ ہر ملک میں اس کی صورتیں اور کیفیتیں اتنی مختلف ہیں کہ سب کے لیے کوئی ایک طریقِ عمل تجویز کرنا مشکل ہے۔ البتہ جو چیز میں ان سب کے لیے ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ ان کو خفیہ تحریکات اور مسلّح انقلاب کی کوششوں سے قطعی باز رہنا چاہیے اور ہر طرح کے خطرات و نقصانات برداشت کر کے بھی علانیہ، پُرامن طریقہ پر اعلائے کلمۃ الحق کا راستہ ہی اختیار کر نا چاہیے، خواہ اس کے نتیجے میں ان کو قید و بند سے دوچار ہونا پڑے۔۔۔‘‘ (تصریحات، ص 175_ 176)
اگر حکمراں جماعت ہر گھر میں اپنے کام، نظریے اور حصولیابیوں کو ترنگے میں لپیٹ کر لے کر جا رہی ہے تو آخر ہم کو کس نے روکا ہے کہ ہم اپنی انسانیت نواز اور عالم گیر دعوت توحید کو لے کر باشندگان ملک کے پاس جائیں، ان کو اصلی "امرت” پیش کریں اور ان کے دلوں پر دستک دیں۔ اسی سوال کے جواب میں ہمارے حال اور مستقبل کی تصویر پنہاں ہے، اس لئے کہ:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2022