اس سال ۲۶ جنوری کو ہمارا ملک بھارت اپنی جمہوریت کی ۷۳ ویں سالگرہ منا رہا ہے۔ ہمارے ملک کو ایک عوامی جمہوریہ بنے ہوئے ۷۲ سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ان ۷۲ برسوں کے دوران ملک نے کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اگرچہ ہمارے ملک نے مختلف میدانوں میں غیر معمولی ترقی کی ہے لیکن مختلف النوع سماجی و معاشی مسائل کا بھی وہ شکار رہا ہے۔ ملک کی باگ ڈور سوشلسٹ رجحان کے حامل رہنماوں سے ہوتی ہوئی آج ہندوتوا کے فسطائی نظریات کے حامل افراد کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہے۔ آزادی کے بعد ملک کے معماروں نے دستور میں اپنے ملک کے لیے کچھ مثالی تصورات اور ان کو حاصل کرنے کے لیے درکار ادارے اور طریقہ ہائے کار سب کچھ طے کردیے تھے۔ یہ مثالی تصورات قومی یکجہتی اور ایک جمہوری و مساویانہ سماج کے قیام پر مبنی تھے۔ یہ بات بھی طے کردی گئی تھی کہ اس مثالی سماج کی منزل کا حصول ایک سماجی و معاشی انقلاب کے ذریعے ہو، جس کے لیے دستوری و جمہوری اداروں کا استعمال کرتے ہوئے جمہوری روح کے ساتھ جدوجہد کی جائے۔ معماران ملک کا خیال تھا کہ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اتحاد، سماجی و معاشی انقلاب اور جمہوریت دراصل ایک اٹوٹ جال کے تانے بانے ہیں اور ان میں کسی بھی ہدف کے لیے نہ تو علیحدہ سے کوشش کی جاسکتی ہے اور نہ ایک ہدف کو چھوڑ کر دوسرے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ یہ باہم ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔ ملک میں مذہبی منافرت، آپسی دشمنی اور شر انگیزی سے کسی ایک مذہبی گروہ کو ہی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ پورے ملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ مذہبی منافرت اور عدم مساوات اور ناانصافی کے ساتھ آپ ملک کو نہ معاشی لحاظ سے طاقتور بناسکتے ہیں اور نہ اسے ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے باقی رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ اسی وجہ سے بانیان دستور نے یہ خواب دیکھا تھا کہ بھارت ایک عوامی فلاحی ریاست بنے، یہاں کے باشندے مل جل کر پوری ہم آہنگی و محبت کے ساتھ رہیں، اور بیرونی و اندرونی حکمرانوں کے ظلم و جبر کا شکار لوگوں کو وہ سماجی و معاشی آزادی، مساوات اور خوشحالی نصیب ہو جس کی تمنا جدوجہد آزادی کے دوران کی گئی تھی۔ لیکن بسا آرزو کہ خاک شدہ کے مصداق ملک کے عوام کی آرزوئیں تمنائیں اور امنگیں ہر گزرتے دن کے ساتھ دم توڑتی نظر آ رہی ہیں۔ نہ تو سماجی انصاف کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکا اور نہ ہی معاشی برابری کا ہدف پورا ہو پایا۔
گزشتہ دنوں پیرس میں قائم ایک بین الاقوامی ادارے عالمی عدم مساوات لیب نے دنیا میں پائے جانے والے عدم مساوات پر ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ یہ رپورٹ ہندوستان کے عوام اور ان کے سیاسی و سماجی رہنماوں کے لیے آنکھیں کھولنے والی ہے۔ بلکہ یہ رپورٹ ان افراد اور سماجی تنظیموں کے لیے بھی حیرت انگیز ہے جو یہ جانتے ہیں کہ ملک میں معاشی تفاوت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان اس وقت ان ممالک میں شامل ہے جہاں سب سے زیادہ عدم مساوات کی صورتحال پائی جاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ تین سال سے مرکزی حکومت کی جانب سے جو معلومات اور اعداد وشمار فراہم کیے جا رہے ہیں ان میں بہت کچھ چھپایا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود جو صورت حال ابھر کر سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کی نچلی سطح کی نصف آبادی کی آمدنی میں ۱۳ فیصد گراوٹ آئی ہے۔ جب کہ اوپری سطح کے محض ۱۰ فیصد افراد قومی سطح کی ۵۷ فیصد آمدنی پر قابض ہیں اور قومی آمدنی کا ۲۲ فیصد حصہ ملک کے محض ایک فیصد دولت مندوں کی تجوریوں میں جا رہا ہے۔ ملک میں نجی دولت میں اضافے اور دولت مندوں کے درمیان اس کے ارتکاز کی شرح بھی بہت ہی تشویشناک ہے۔ ملک کی نچلی سطح کی نصف آبادی کے پاس ملک کی دولت کا محض ۶ فیصد حصہ ہے جب کہ ایک فیصد دولت مند طبقہ ملک کی دولت کے ۳۳ فیصد حصے کا اور ۱۰ فیصد دولت مند لوگ ملکی دولت کے ۶۶ فیصد حصے کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ایک اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ایک جانب نجی دولت میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے تو دوسری جانب عوامی و سرکاری دولت میں مسلسل کمی نوٹ کی جا رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قومی آمدنی کے بالمقابل نجی آمدنی میں اضافے کا تناسب ۱۹۸۰ میں ۲۹۰ فیصد زیادہ تھا جو ۲۰۲۰ میں بڑھ کر ۵۵۵ فیصد ہو گیا اور قومی آمدنی کے بالمقابل نجی آمدنی میں اضافے کی یہ شرح اب تک کی تاریخ کی سب سے زیادہ شرح ہے۔ کووڈ وبا نے گزشتہ دو برسوں کے دوران دولتمند اور غریب دونوں طبقوں کے درمیان آمدنی کے فرق کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح ہو جانی چاہیے کہ ملک میں پائی جانے والی یہ عدم مساوات کی کیفیت ہمہ جہتی ہے۔ یہ عدم مساوات صرف دولت اور آمدنی ہی میں نہیں ہے بلکہ اس کا اثر ان کے رہن سہن اور سماجی برتاو میں بھی صاف نظر آتا ہے۔ نچلے طبقے کی سیاسی بے وزنی نے اس صورتحال کو اور بھی تشویشناک بنا دیا ہے، وہ نہ تو اپنی بات کہیں پیش کر سکتے ہیں اور نہ وہ ملکی پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہمارا ملک اس وقت گنتی کےچند انتہائی دولت مند افراد اور کروڑوں بے حد غریب عوام کا ملک بن چکا ہے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ایسے ممالک نے کبھی دنیا میں ترقی کی ہے نہ کر سکتے ہیں۔ ملک کی سماجی قیادت اور باشعور عوام کو یوم جمہوریہ کے اس جشن کے موقع پر احتساب کرنا ہو گا کہ کن مثالی تصورات اور اہداف کو لے کر سفر کا آغاز کیا گیا تھا، کس سے کہاں اور کیا کوتاہی ہوئی اور کیوں منزل کھوٹی ہوئی۔ اس معاملے میں سب سے اہم ذمہ داری تو سیاسی قیادت کی ہے لیکن موجودہ سیاسی قیادت سے اس بات کی توقع فضول ہے کہ اسے اپنے نفرت کے ایجنڈے کے علاوہ کچھ اور سجھائی ہی نہیں دیتا۔ لیکن عوام کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے، انہیں چاہیے کہ وہ وقت کے رہتے موجودہ حالات کو تبدیل کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 30 جنوری تا 5فروری 2022