دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کی حقیقت
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بھگوا دھاری پارٹی سچ کا ایک سرا پکڑ کر جھوٹ کی دوکان چلانے میں مصروف
2021کی آخری سہ ماہی کے اعداد و شمار کے مطابق بھارتی معیشت، برطانوی معیشت کو پس پشت ڈال کر پانچویں بڑی معیشت بن گئی ہے۔ یہ جی ڈی پی کا ڈاٹا آئی ایم ایف کا جاری کردہ ہے۔ اس میں سب سے اوپر امریکہ، چین، جاپان اور جرمنی ہیں۔ بین الاقوامی مالیاتی تنظیم (آئی ایم ایف) کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت کی جی ڈی پی 3.2ٹریلین ڈالر ہے اگر بھارت کا شرح نمو سالانہ 7 فیصد رہا اور جرمنی کی معیشت میں ٹھہراو آیا تو بھارت چار سالوں میں جرمنی کو پیچھے چھوڑ کر چوتھی بڑی معیشت بن جائے گا۔ عالمی جیو پالٹیکل صورتحال اور کورونا قہر کے اثرات کی وجہ سے مغربی ممالک پر مندی کے بادل منڈلا رہے ہیں ۔ اب بھارت کا مقام پانچواں ہو یا تیسرا یا ہم پانچ ٹریلین ڈالر کی بڑی معیشت بن جائیں،مگر ہمیں حقیقت کی دنیا میں رہ کر پالیسی سازی کرنی ہوگی اور روزگار کی فراہمی، پیداوار میں اضافہ، مالیاتی خسارہ پر کنٹرول اور تجارتی خسارہ کے توازن کو برقرار رکھنے کے لیے محاسبہ کرنا ہوگا کچھ دنوں پہلے نیشنل اسٹیٹسٹیکل آفس (این ایس او) نے بتایا کہ اپریل تا جون کے درمیان بھارت کی جی ڈی پی 36.85لاکھ کروڑ تھی جو حقیقی جی ڈی پی ہے اس میں مالیاتی خسارہ کے اثرات شامل نہیں ہیں۔ یہ اعداد و شمار گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی سے 13.5فیصد زیادہ ہے جو ہماری معیشت کے لیے خوش آئند ہے۔ اس اضافہ کو ہمیں کورونا قہر اور لاک ڈاون کے پس منظر میں دیکھنا ہوگا جب کاروبار مندی کے برے دور سے گزر رہا تھا۔ ویسے 2019میں جی ڈی پی کا ڈاٹا 35.67لاکھ کروڑ روپے تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ اس سہ ماہی میں جی ڈی پی محض 3.3فیصد ہی بڑھی ہے جو زیادہ تر مالی توسیع کی وجہ سے ممکن ہوا ہے اور یہ ضروری بھی تھا۔ بارکلیج(Barclays) کی رپورٹ کے مطابق جنوری تا مارچ اور اپریل تا جون سہ ماہی تک جی ڈی پی 3.3فیصد تنزلی کا شکار ہوئی ہے۔ یعنی ترقی منفی رہی۔ اس میں موسم کی سختی کا اثر بھی شامل حال رہا ہے۔ مگر اس سے قبل تیوہاروںکا سیزن ہونے کی وجہ سے خرید و فروخت اچھی ہوئی ہے۔ ان تمام حالات کے باوجود بھارتی معیشت دنیا میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے بڑھنے والی معیشت ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ رفتار دھیمی ہے۔ امیدوں کے چند اشارے بھی مل رہے ہیں جیسے جی ایس ٹی میں مسلسل 4ماہ سے ماہانہ 1.4لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کی وصولی۔ مئی اور جون میں صنعتی پیداواری اشاریے میں دو ہندسہ والا اضافہ اور اگست میں 11سالوں کے بعد بینک کریڈٹ میں سب سے زیادہ اچھال دیکھا گیا ہے۔
موڈیز انوسٹر سروس نے بھارت کی کریڈٹ ریٹنگ کو برقرار رکھتے ہوئے بھارتی معیشت کی تیز رفتاری سے بڑھنے کی توقع ظاہر کی ہے۔ ریٹنگ ایجنسی کو امید ہے کہ تیزی سے بڑھتی ہوئی معیشت پر معاشی مندی کا اثر ہونے والا نہیں ہے۔ موڈیز کے بھارت کے لیے سہ ماہی ساورن ریٹنگ BAA3 کو برقرار رکھا ہے۔ ایجنسی نے ریٹنگ آوٹ لک کو منفی سے مستحکم کیا تھا۔ جیو پالٹیکل حالات میں روس اور یوکرین کے درمیان چلنے والی لگاتار جنگ، زیادہ مالیاتی خسارہ اور عالمی مالی حالت کے سخت رہنے کے باوجود بھارت کی معیشت سرگرمیوں کے پٹری سے اترنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ موڈیز کے مطابق بھارت کی شرح نمو کا جاریہ مالی سال میں 7.6فیصد رہنے کا امکان ہے۔ جبکہ گزشتہ مالی سال 2021-22میں یہ 8.7فیصد تھی۔ 2023-24میں بھارتی جی ڈی پی کے شرح نموکے 6.3فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔ موڈیز کے مطابق بھارت کی ساورن کریڈٹ ریٹنگ کو آئندہ اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے یہ اسی وقت ہوگا جب معاشی ترقی امید سے زیادہ بہتر ہو۔ جو معیشت کے مالی شعبہ کے امور میں اصلاحات سے ممکن ہوگا یعنی اگر حکومت کے قرض کے بوجھ میں کمی ہوتی ہے اور قرض لینے کی قوت و صلاحیت میں اصلاح ہوتی ہے۔ دوسری طرف کمزور معاشی حالت یا مالیات کے شعبہ میں خطرات بڑھنے سے ریٹنگ کے نیچے آنے کا اندیشہ بھی لگا رہتا ہے۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے جاریہ مالی سال میں جی ڈی پی کے شرح نمو کے ہدف کو کم کرکے 7.7فیصد کردیا ہے- سیٹی گروپ نے بھی مالی سال 2022-23کے لیے اپنے 8فیصد کے شرح نمو کو کم کرکے 6.7فیصد کردیا ہے۔ اس طرح ایس بی آئی نے اپنے شرح نمو کے ہدف کو 7.8فیصد سے گھٹا کر 6.8فیصد کردیا ہے کیونکہ مالی سال 2022-23میں بھارت کا کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ 9سال کی اونچی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ حالیہ دنوں میں درآمدات کے مقابلے میں برآمدات میں بڑی سستی دیکھی جارہی ہے۔ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک میں مندی کے خوف سے عالمی طلب کمزور ہوئی ہے اس سے اگست میں بھارت کی برآمدات 1.15فیصد کم ہوکر 133ارب ڈالر ہوگئی ہے۔تجارتی خسارہ دوگنے سے بھی زیادہ بڑھ کر 28.68ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ اس لیے حکومت کو برآمدات میں اضافہ کے لیے زیادہ توجہ دینا ہوگا۔ ساتھ ہی فی کس جی ڈی پی کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ واضح رہے کہ برطانیہ کی فی کس جی ڈی پی 47ہزار ڈالر سالانہ ہے جبکہ ہماری فی کس جی ڈی پی محض 2200ڈالر سالانہ ہے۔ فی کس جی ڈی پی کے معاملے میں ہم 205ممالک کی فہرست میں انتہائی غریب ممالک کے ساتھ 58ویں مقام پر ہیں۔ ان زمینی حقائق کو بالائے طاق رکھ کر سوشل میڈیا پر اندھ بھکتوں اور سنگھیوں کے ذریعہ خوب پرچار کیا جارہا ہے کہ بھارت کی معیشت انگریزوں کی معیشت کو پیچھے چھوڑ کر پانچویں بڑی معیشت بن چکی ہے۔ وہی انگریز جن کا بھارت کبھی غلام تھا۔ دراصل یہ بھگوا دھاری سچ کا یک سرا پکڑ کر جھوٹ کا خوب بیوپار کررہے ہیں۔ محض جی ڈی پی کی بنیاد پر مضبوط معیشت کا اندازہ لگانا خود کو بیوقوفوں کی جنت میں رکھنا ہے۔ ہمارے ملک میں آج 25 کروڑ لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جے این یو کے ریٹائرڈ پروفیسر اور ماہر اقتصادیات ارون کمار کا موجودہ حالت پر تبصرہ چشم کشا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارت کی آبادی برطانیہ سے 20گنا زائد ہے اگر ہماری جی ڈی پی برطانیہ کے قریب قریب ہے تواس کا مطلب ہے کہ ہم فی کس آمدنی میں 20گنا کمتر ہیں۔ یہ فقط نادانی ہے کہ بھارت اور برطانیہ کی جی ڈی پی کا خوب موازنہ کیا جارہا ہے خوشحالی کا نہیں۔ مگر کچھ لوگ جی ڈی پی کے حجم کو دیکھ کر اسے بڑی کامیابی سمجھ رہے ہیں۔ ارون کمار کہتے ہیں کہ 2019-20سے قبل بھی ہم سوچ رہے تھے کہ ہم برطانیہ سے آگے بڑھ جائیں گے۔ حکومت یہ بھی دعویٰ کررہی ہے کہ ہماری معیشت پٹری پر دوڑنے لگی ہےاور شرح نمو 7فیصد ہوگئی ہے۔ یہ محض منظم شعبہ کے اعداد و شمار ہیں۔ اس میں غیر منظم شعبہ کی شمولیت نہیں ہے ۔ پروفیسر ارون کمار کے جائزے کے مطابق بھارت کی معیشت حقیقی اعداد و شمار کے مطابق پانچویں سے ساتویں نمبرپر آگئی ہے کیونکہ ملک میں 94فیصد محنت کش غیر منظم شعبوں سے منسلک ہیں اور یہ ملک کی پیداوار کا 45فیصد ہوتا ہے جہاں بے روزگاری آسمان کو چھورہی ہے۔
اب ہمیں کھوکھلی نعرہ بازی سے نکل کر اپنی معیشت کو بہتری کے لیے چین کی طرح مینو فیکچرنگ ہب بننا ہوگا تاکہ نوجوانوں کی بڑی آبادی کو باہنر بناکر دنیا کی بڑی بڑی کمپنیوں کو اپنے ملک کی طرف راغب کرسکیں۔ ہمارے ملک میں چین ہی کی طرح سستے مزور اور صنعتی سہولیات فراہم کرنا بہت مشکل نہیں ہے لیکن اس کے لیے ملک میں امن و امان کی فضا قائم کرنا ہوگا اور نفرت کے کاروبار کو بند کرنا ہوگا۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے ایشیائی پڑوسی ممالک میں جاپان اور کوریا سے سبق لے کر مضبوط اور بہتر ساز و سامان کی صنعتیں قائم کرکے دنیا میں بنانا ہوگا۔
***
***
سارے انبیاء علیہم السلام کی سرگزشت اس اصول کو پیش کرتی ہے کہ دعوت الی اللہ و شہادت علی الناس جہاں ایک عظیم شاہراہ سعی وجہد ہے تو اقامتِ دین اس کی حتمی منزل ہے۔دعوت الی اللہ کےمیدان میں اتمامِ حجت کے بعد ہی اگلے محاذ کھلنےکا آغاز ہوتا ہے۔ورنہ ترجیحات کی ترتیب میں فطری اور الہی اصولوں سے انحراف تحریکوں کو ناقابلِ تلافی نقصانات سے دوچار کرتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 25 ستمبر تا 1 اکتوبر 2022