دھرم سنسد: الٹی ہوگئیں سب تدبیریں

مذہبی منافرت سے توہین عدالت تک نفرتی عناصر بے لگام

ڈاکٹر سلیم خان ، ممبئی

فسطائی عفریت روبہ زوال۔ مسلمانوں کے خلاف مغلظات بکنے والے اپنے ہی جال میں پھنس گئے
ایک زمانے میں آسا رام باپو کا بڑا زور ہوا کرتا تھا ۔ اٹل جی سے اڈوانی اور مودی سے لے کر راجناتھ تک سبھی اس کے پیر چھوتے تھے لیکن اب وہ جیل میں چکی پیس رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ یتی نرسنگھا نند بھی اسی راستے پر سرگرم سفر ہوگیا ہے۔ آسا رام تو خیر جنسی زیادتی کے معاملے میں پھنسا مگرنرسنگھا نند نے پہلے دین اسلام ، قرآن مجید اور پھر نبی ٔ کریم ﷺ کی توہین کی ۔ اس کے بعد بی جے پی کی خواتین کارکنوں کو رکھیل کہا اور پھر مسلم خواتین کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیےنیز مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کیا۔ چندماہ قبل اس نے ایک 10سال کے انس پرقتل کا الزام لگایا جبکہ یوگی کی پولس نے اسے بے قصور قرار دیا۔ اب اس کا ایک نیا ویڈیو ذرائع ابلاغ میں ہےجس میںاس سے ہری دوار میں منعقد ہونے والی دھرم سنسد پر پولس کارروائی کے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے اپنے انٹرویو میں کہا:’’ ہمیں سپریم کورٹ اور سمویدھان (آئین) پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔دستور ہند اس ملک کے 100 کروڈ ہندووں کو کھا جائے گا۔ جو اس آئین کو مانتے ہیںوہ مارے جائیں گے۔ جو اس سسٹم (نظام) پر ، ان رہنماوں پر ، سپریم کورٹ پر، فوج پر بھروسہ کررہے ہیں وہ سارے لوگ کتے کی موت مرنے والے ہیں ‘‘۔ ایک اور ویڈیو کلپ میں وہ کہتا ہے:’’ جب جیتندر سنگھ تیاگی نے وسیم رضوی کے نام سے کتاب لکھی ، تب ان ہیجڑے پولس والوں اور رہنماوں میں سے ایک نے بھی انہیں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کی ‘‘۔
وشال سنگھ نامی نوجوان کو دیا جانے والا یہ انٹرویو 14؍جنوری کو ٹوئیٹر پر وائرل ہوگیا تھا۔ اس ویڈیو میں مسلمانوں کے بجائے عدلیہ ، انتظامیہ اور سیاسی رہنماوں کو برا بھلا کہا گیا ہے۔ اس اہانت آمیز انٹرویو کو منسلک کرکے شاچی نیلی نامی ایک سماجی کارکن نے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کو خط لکھ کر توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کی اجازت طلب کی ۔ اس مکتوب میں نرسنگھا نند کے تبصرے پرعدالتِ عظمیٰ کے اختیار اور وقار کمزور کرنے کی کوشش کا سنگین الزام لگایا گیاہے۔ دستور اورعدلیہ کے تئیں اس تضحیک آمیز بیان بازی اور بے بنیادحملے کے ذریعہ عدل و انصاف کے طریقۂ کار کو متاثر کرنے کی کوشش قرار دیا گیاہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کے تئیں باشندگانِ وطن کے اعتمادکی کمی کے نتیجے میں افراتفری اور ہنگامہ برپا ہوسکتاہے۔نیزیہ تاریخ میں عدالت عظمیٰ پر سب سے شاطرانہ حملہ ہےکیونکہ سپریم کورٹ ہی آئین کی محافظ اورمفسر ہے۔ ملک کے بنیادی ڈھانچے پر اعتماد کی کمی اور توہین خوفناک ہے ایسا کرنے کا مقصدعدلیہ میں انصاف کرنے کی صلاحیت کو کم کرناہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ہندو سنت یہ بات اس عدالت کے بارے میں کہہ رہا ہے جس نے تمام شواہد کو بالائے طاق رکھ کر بابری مسجد کے خلاف فیصلہ سنا دیا تھا ۔
یتی نرسنگھانند چلا تو تھا مسلمانوں کو مشتعل کرنے لیکن اب آپے سے باہر ہوکرخود جال میں پھنس گیا ہے۔ وہ اپنے دام میں اس طرح گرفتار ہوچکا ہے کہ سرکار کے لیے بھی اس کو بچانا ممکن نہیں ہے ۔فسطائی عفریت روبہ زوال ہونے کی دوسری علامت علی گڑھ میں دھرم سنسد کی اجازت کا نہ ملنا ہے۔ کسی حکیم کا آزمودہ نسخہ جب ناکام ہونے لگے تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ عنقریب اس کے مطب پر قفل لگنے والا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے فرقہ واریت وہ ’رام بان اپائے‘(تیر بہدف) ہے جسے ہر برے وقت میں استعمال کیا جاتاہے اور بیشتر مواقع پر وہ ’زندہ طلسمات‘ کی مانند اپنا اثر دکھاتا ہے۔ زعفرانیوں کو بھی اس گولی کے کڑوی ہونے کا احساس ہے مگر جب ان کی جان پر بن آتی ہے تو وہ اسے بادلِ ناخواستہ نگل جاتے ہیں جیسے منڈل کے خلاف یا گجرات کے فساد میں کیا گیا تھا۔ پانچ صوبوں کے حالیہ انتخابات بی جے پی کے لیے کسی اگنی پریکشا سے کم نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے چار کے اندر اس کو اپنی سرکار بچانی ہے اور ایک اترپردیش ہے جہاں طوطے کی جان اٹکی ہوئی ہے۔
یو پی کے اندر جب یوگی کی نیاّ ڈوبنے لگی تو بی جے پی فسطائیت کے تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئی ۔اس سلسلے میں یہ حکمت عملی بنائی گئی کہ نفرت کی آنچ کو آس پاس کے علاقوں میں تیزکرنے کے بعد اترپردیش میں بھڑکایا جائے ۔ ہری دوار کے اندر پہلی دھرم سنسد کے آس پاس دہلی اور چھتیس گڑھ میں یہ کھیل کھیلا گیا۔ اس کے بعد اگلا ہدف اترپردیش میں غازی آباد اور علی گڑھ تھا۔ ان سب سے فارغ ہونے کے بعد پھر سے اتراکھنڈ میں دھرم سنسد منعقد کرنے کا منصوبہ تھا لیکن اس کی تاریخ کو صیغۂ راز میں رکھا گیا تھا۔ ہری دوار دھرم سنسد کے مہتمم یتی نرسنگھا نند نے ابھی حال میں دعویٰ کیا تھا کہ 2012 سے ہر 6 ماہ میں دھرم سنسد کا اہتمام ہوتا رہا ہے۔ سوال یہ ہے اگر یہ تقریب 6 ماہ میں ایک بار ہوتی رہی ہے تو اچانک اس ایک مہینے میں 6 مرتبہ اس کے انعقاد کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟
ہری دوار کے دھرم سنسد کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلانا اور پھر ان کے احتجاج کو انتظامیہ کے ذریعہ بزور قوت کچل کر اس کا سیاسی فائدہ اٹھانا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے اتراکھنڈ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج تو کیا لیکن مشتعل ہوکر تشدد کی کوئی کارروائی نہیں کی جس سے انتظامیہ کو سختی کرنے کا موقع نہیں ملا ۔ اس طرح دھرم سنسداپنے اولین مقصدمیں ناکام ہوگئی۔ مسلمانوں کےاحتجاج نے یہ بات بھی ثابت کردی کہ وہ اس طرح کی گیدڑ بھپکیوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے اپنے ہر احتجاج میں بلا خوف و خطرنہایت پر وقار انداز میں فتنہ پرور لوگوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے نہایت اعتماد کے ساتھ اسے قومی امن و سلامتی کے لیےخطرہ قرار دیا۔
دھرم سنسد کے منتظمین کے اندر ابتداء میں بلا کی خود اعتمادی تھی ۔الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق وہ لوگ خود ہری دوار پولس تھانہ میں پہنچ گئے اور مسلم علماء کے خلاف ایک ایف آئی آر درج کروا دی۔ اس موقع کی ایک ویڈیو بھی منظر عام پر آگئی جس میں تمام ملزم پولس کے ساتھ ہنستے بولتے نظر آرہے تھے ۔ سادھوی اناّ پورنا کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا تھا کہ آپ لوگوں (پولس) کی جانب سے یہ پیغام جانا چاہیے کہ انتظامیہ غیر جانبدار ہے اور تفتیش بھی غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے۔ یہ بات یتی نرسنگھا نند کے گلے سے نہیں اتری تو وہ آگے بڑھ کر کہتا ہے غیر جانبدا رکیوں؟ لڑکا تو ہماری طرف ہوگا ۔ گیروا لباس میں چھپے شیطانوں کے اچھل کود کی بنیادی وجہ’ یہ اندر کی بات ہے پولس ہمارے ساتھ ہے‘ والی پرانی سوچ تھی۔ یہ احمق نہیں جانتے کہ سرکار سے تنخواہ لینے والی پولس اسی کی وفادار ہوتی ہے۔ حکومت کوہمیشہ کرسی عزیز ہوتی ہے،اس لیے جب تک کسی سے سیاسی فائدہ ملتا رہتا ہے تب تک اس کو گلے سے لگایا جاتا ہےمگرجب نقصان ہونے لگے تو اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا جاتا ہے۔ سادھو سنتوں کے ساتھ فی الحال یہی ہورہا ہے۔
سنگھ پریوار نے اس الزام سے بچنے کے لیے کہ یہ نوٹنکی صرف بی جے پی کے زیر انتظام ریاستوں میں کیوں ہورہی ہے ایک دھرم سنسد کانگریسی صوبے چھتیس گڑھ میں رکھ دی ۔ یہ ان کی پہلی غلطی تھی مگر دوسری چوک یہ ہوئی کہ وہاں پر کالی چرن مہاراج نے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ گاندھی جی کے قتل کو بھی حق بجانب ٹھہرا دیا ۔ بی جے پی والے جانتے تھے کالی چرن کو گرفتار کرنا وزیر اعلیٰ بھوپیش بگھیل کی مجبوری ہے اور جب وہ ایسا کریں گے تو ملک بھر کے ہندو عوام کو یہ فرق بتایا جائے گا کہ ان کی سرکار تو سادھو سنتوں کا تحفظ کرتی ہے اس کے برعکس کانگریس انہیں جیل بھیجتی ہے۔ اس لیے کہ وہ ہندو دھرم کی دشمن ہے۔سنگھ پریوار کو یہ توقع تھی کہ کالی چرن کی گرفتاری کے خلاف ہندو عوام سڑکوں پر اتر کر بی جے پی کے حق میں فضا بنائیں گے لیکن الٹا ہوگیا ۔
گاندھی جی کی حمایت میں ہندو سماج سڑکوں پر آگیا اور اس نے مسلمانوں کی نسل کشی کی بھی مذمت شروع کردی ۔ اس طرح بازی الٹ گئی ۔
اس دوران حکومت کو آئینہ دکھانے متبادل والے میڈیا نےدھرم سنسد کی ٹیلی ویژن ، اخبارات اور سوشیل میڈیا میں خوب جم کر مخالفت کی۔ اس طرح یہ معاملہ قومی سطح سے اٹھ کر عالمی بن گیا ۔ دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اس پر تبصرے ہونے لگے ۔ اقوام متحدہ تک نے اس کا نوٹس لیا۔ امریکہ کے اندر نسل کشی کے خلاف کام کرنے والی تنظیم ’جینو سائیڈ واچ ‘ نے اسے امریکی ایوان پارلیمان میں اٹھانے کا اعلان کردیا اور دنیا بھر میں ملک کی شبیہ بگڑتی چلی گئی۔ حکومت ہند کے اہم ترین ذمہ دار صدر مملکت ،وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے تو اس پر پراسرار خاموشی اختیار کیے مگر نائب صدر وینکیا نائیڈو اور وزیر مواصلات نتن گڈکری نے کھل کر مخالفت کی ۔ اس کے بعد مختلف سادھو سنتوں کی جانب سے اس دھرم کی تنقیدکی یہاں تک کہ سنگھ کے بغل بچہ وشو ہندو پریشد کے سربراہ نے بھی اس سے دامن جھاڑ لیا اور نسل کشی جیسی دھمکی کو ہندو مذہب کے خلاف بتایا ۔
ان کے علاوہ ملک کے نامور وکلاء نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس نفرت انگیزی پر از خود توجہ دینے کی درخواست کی ۔ دانشوروں کی بہت بڑی تعداد نے صدر مملکت کو خط لکھ کر اسے ملک و قوم کے لیے خطرناک قرار دیا۔ سابق فوجی سربراہوں نے فوج کو قتل عام پر اکسانے پر شدید برہمی کا اظہارکیا ۔ بالآخر اس کے خلاف عدالت عظمیٰ میں مفادِ عامہ کے تحت مقدمہ درج ہوگیا اور عدلیہ کی جانب سے اتراکھنڈ پولیس کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا گیا۔ اس کے بعد مجبوراً اتراکھنڈ پولیس کوحرکت میں آکر اگلی سماعت سے قبل کارروائی کرنی پڑی ۔ سب سے پہلے نرم چارہ جیتندر تیاگی کو گرفتار کیا گیا ۔ آگے چل کر اسے بچانے کی خاطر دھمکیاں دینے اور بھوک ہڑتال کرنے والے نرسنگھانند کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا اس طرح ساری ہیکڑی نکل گئی۔
اس دوران پہلے تو غازی آباد کے ڈاسنا اور بعد میں علی گڑھ کی دھرم سنسدپر بھی روک لگادی گئی ۔ یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ یکم جنوری کو ڈاسنا میں جہاں دیوی مندر کا سربراہ یتی نرسنگھانند رہتاہےخود اپنے علاقہ میں دھرم سنسد نہیں کرسکا جبکہ 6؍ جنوری کو بریلی کے عیدگاہ میدان میں زور شور کے ساتھ مسلم دھرم سنسد کا اہتمام مولانا توقیر رضا خان نے کردیا۔ اس کے بعدسادھوی اناّ پورنا جو علی گڑھ کی رہنے والی ہیں اور ہر سال بڑے فخر سے گاندھی جی کی برسی پر ان کی تصویر کو گولی سے چھلنی کرکے اس کی ویڈیو نشر کرواتی ہیں ۔ وہ گاندھی کے سزا یافتہ قاتل ناتھورام گوڈسے کی تعریف و توصیف کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں محسوس کرتیں مگر اپنے ہی علاقہ میں دھرم سنسد منعقد کرنے میں ناکام رہیں۔
یوگی کی دبنگ شبیہ پر یہ بدنما داغ ہے کہ ان کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے اترپردیش میں دھرم سنسد نہیں ہوپائی۔ یوپی کے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریہ نے بی بی سی کے ساتھ اپنے انٹرویو میں دھرم سنسد پر تنقید کرنے کے بجائے صاف طور پر کہا تھا کہ سادھو سنتوں کو اپنے اسٹیج سے اپنی بات رکھنے کا حق ہے ۔ یعنی ان کے سارے اعلانات حق بجانب ہیں ۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کشمیری طلباء کوتو پاکستان کی جیت پر خوش ہونے کے نتیجے میں ملک کا باغی قرار دے دیا گیا مگر سادھو سنتوں کو نسل کشی کی دھمکی کے باوجود چھوڑ دیا گیا وہ آپے سے باہر ہوگئے۔ انہوں نے اپنا مائیک کھول کر پھینک دیا ۔ بی بی سی ترجمان کو مخالفین کا ایجنٹ قرار دے کر اس سے ویڈیو ڈیلیٹ کروادی لیکن جب اوپر سے دباؤپڑا تو سارے انجر پنجر ڈھیلے ہوگئے ۔ وہی اترپردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتیں جو کل تک بالواسطہ یا بلاواسطہ دھرم سنسد کی حامی تھیں اب مخالفت پر اتر آئیں ۔
بی جے پی کے اس بدلے ہوئے رخ سے دھرم سنسد میں شریک ہونے والے سادھو سنت اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے ہیں۔ ان سنتوں نے دھرم سنسد میں اشتعال انگیز تقریر کے معاملے میں جتیندر نارائن تیاگی اور اس کے خلاف احتجاج کرنے والے یتی نرسنگھا نند کی گرفتاری کے خلاف ہری دوار میں ’پرتیکار سبھا‘ (احتجاجی پروگرام) کاانعقاد کرکے ریاست کی بی جے پی حکومت کی مذمت کی۔ دھرم سنسد کے آرگنائزر سوامی آنند سوروپ کے مطابق گرفتارشدہ جتیندر نارائن تیاگی سماجی نقطہ نظر سے اونچامقام رکھتے ہیں اور مہامنڈلیوشوریتی نرسنگھا نند گری قابل احترام سنت ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا سنتوں کے خلاف مقدمے درج کرنا اور حکومت کا دباؤ ڈالنے کے لیے آناً فاناً ایس آئی ٹی تشکیل دینا اس بات کا عکاس ہے کہ سنتوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہو رہی ہے۔ اس کے تحت انتظامیہ بھی سادھوؤں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اب یہ حالت ہے کہ بی جے پی جن سادھو سنتوں کے ذریعہ ہندو عوام کو اپنے قریب کرنے کی منصوبہ بندی کررہی تھی وہ خود اس کے خلاف ہوگئے ہیں یعنی فرقہ وارانہ دھرم کرم کا یہ مکروہ کھیل ا یک عبرتناک انجام سے دوچار ہوگیا ہے۔ ایسے میں میرتقی میر کا یہ شعر یاد آتا ہے؎
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
سرکار کے خلاف سادھووں کا یہ احتجاج پہلی بار نہیں ہوا بلکہ کسان تحریک کی کامیابی کے فوراً بعد دہلی کے کالکا جی مندر میں کئی آشرموں کے سنتوں نے مٹھ مندر کی مکتی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم مرکزی اور ریاستی حکومت کو پہلے پرامن طریقہ پر سمجھائیں گے لیکن اگر وہ نہیں مانے توہتھیار بھی اٹھائیں گے ۔ کسانوں کی مانندحسبِ ضرورت سادھو بھی راستوں پر ڈیرہ ڈال دیں گے ۔ یہ خطرناک دھمکی تھی کیونکہ کسانوں کو تو کاشتکاری کرنی پڑتی ہے مگر ان کے پاس تو کوئی کام ہی نہیں ہیں اس لیے مندر کے بجائے راستوں پر بیٹھ جائیں انہیں کیا فرق پڑےگا۔ سرکار اگر ان پر زور زبردستی کرے تو عوامی ناراضی کا بھی بڑا خطرہ پیدا ہوجائےگا ۔ اس احتجاجی تقریب کا اہتمام’سنت سمیتی ‘ نے کیا تھاجس کے صدر مہنت سریندر ناتھ اودھوت ہیں۔ موصوف وشو ہندو مہا سنگھ نامی عالمی ہندو تنظیم کے کارگزار صدر بھی ہیں مگر اس کے قومی صدر یوگی ادیتیہ ناتھ ہیں۔ اس طرح یوپی کے وزیر اعلیٰ سے اس کےڈانڈے مل جاتے ہیں ۔ ویسے یہ لوگ یوگی اور مودی سے بہت پرامید ہیں ۔کل ہند سنت سمیتی کے جنرل سکریٹری راجندر داس نے دہلی میں یہ بھی کہا تھا کہ اتراکھنڈ کے 51 مندروں کو قبضے میں لینے والے دیواستھان بورڈ کو لے کر لڑائی جاری ہے۔
بی جے پی کے وزیر اعلیٰ ترویندرسنگھ راوت نے یہ بورڈ قائم کیا تھا ۔ ان کے بعد آنے والے تیرتھ سنگھ راوت نے اسے ختم کرنے کا وعدہ کیا اور پورا کیے بغیر چلے گئے ۔ ترویندر سنگھ راوت کو تحریک چلانے والوں نے کیدار ناتھ مندر میں درشن سے روک دیاتھا ۔ آگے چل کر سادھو سنتوں نے ریاستی وزراء کے علاوہ وزیراعلیٰ دھامی کے گھر پر دھرنا دیا۔ اس دباو کے نتیجے میں انتخابی ناکامی کے ڈر سے دھامی نے بورڈ کو برخواست کرنے کا اعلان تو کردیا لیکن اس طرح سے اس کو بنانا خود سنگھ کی سازش کا پتہ دیتا ہے۔ نومبر 2019 میں ترویندر سنگھ راوت کی کابینہ نے چار دھام بورڈ کے قیام کا فیصلہ کیا اور جون میں ریاستی اسمبلی کے اندر اسے پیش کرکے مخالفت کے باوجود منظورکروایا۔ جنوری 2020 میں گورنر کی منظوری کے بعد وہ قانون نافذ ہوگیا ۔ اس بورڈ کی صدارت وزیر اعلیٰ اور نائب صدر مذہبی امور کے وزیر بنائے گئے۔ اس میں 7 سینئر آئی اے ایس افسر اور 20 نامزد ارکان کی گنجائش رکھی گئی ۔اس طرح سادھو سنت کنارے لگا دیئے گئے۔ ان کے نہ صرف اختیارات ختم ہوگئے بلکہ آمدنی بھی بند ہوگئی اور وہیں سے مخالفت شروع ہوئی۔ اس مثال کے ذریعہ سنگھ پریوار کےسادھو سنتوں کے خلاف خفیہ منصوبے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
روایتی ہندو سماج مندروں اور مٹھوں سے جڑا ہواہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار مندروں اور مٹھوں کے ساتھ بہت سارے معتقد منسلک ہوتے ہیں اور ان کابہت سارا دھن دولت بھی جمع ہوجاتا ہے۔ ان لوگوں کا سنگھ پریوار پر اعتماد نہیں ہے گویا وہ سنگھ اور ہندو سماج کے درمیان سادھو رکاوٹ ہیں۔ ان سادھووں کو ساتھ لینے کی خاطر میناکشی پورم میں تبدیلیٔ مذہب کے بعد وشوہندو پریشد قائم کی گئی ۔ اس کے بعد رام مندر کی تحریک چلائی گئی اور سادھو سنتوں کو ساتھ لینے کی کوشش کی گئی۔ اس تحریک کی آڑ میں اقتدار حاصل کرلینے کے بعد عظیم الشان مندر بنانے کی خاطر چھوٹے موٹے مندر ختم کردیئے گئے اور ایک سرکاری ٹرسٹ کی نگرانی میں رام مندر کی تعمیر شروع ہوگئی ۔ طاقتور سادھووں کی ناراضی سے بچنے کے لیے ان میں سے چند کو نیاس (بورڈ) میں لے لیا گیا لیکن لگام سنگھ کے ہاتھ میں رہی۔ کاشی کاریڈور میں سیاحوں کی خاطر سرکاری نگرانی میں بڑا مندر تعمیر ہوا تو چھوٹے موٹے مندر ختم ہوگئے اور وہاں بھی کمان سرکار کے ہاتھ میں چلی گئی۔ اب متھرا میں بھی انہیں خطوط پر کام ہورہا ہے یعنی ہندو عوام کو ساھووں سے دور کرکے اپنے نرغے میں لیا جارہاہے۔ یہ فریب کاری اس خوبی سے ہو رہی ہے کہ کسی کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا ۔ سادھو سنتوں کو سنگھ پریوار دھرم سنسد کی آڑ میں مسلمانوں کے پیچھے لگائے رکھے گااور جس وقت یہ خطرناک منصوبہ ان کی سمجھ میں آئے گا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  30 جنوری تا 5فروری 2022