بلقیس بانو کیس کے مجرموں کو صرف اس لیے معاف نہیں کیا جا سکتا کہ متاثرہ مسلمان ہے: شیو سینا

نئی دہلی، اگست 29: بلقیس بانو کیس میں عصمت دری اور قتل کے قصوروار تمام 11 افراد کو رہا کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے پر سوال اٹھاتے ہوئے شیوسینا نے اتوار کو کہا کہ صرف اس لیے کہ وہ ایک مسلمان ہے، اس کے خلاف کیے گئے جرم کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔

پارٹی نے اپنے ترجمان میگزین ’’سامنا‘‘ میں لکھا ’’جب ہمسایہ ممالک پاکستان اور بنگلہ دیش میں ایسے ہی مظالم ہوتے ہیں تو ہم زور سے پکارتے ہیں۔ پھر بلقیس بانو کے معاملے میں ہماری حساسیت کہاں گئی؟‘‘

شیوسینا نے اس معاملے میں مجرموں کی رہائی پر وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی خاموشی پر بھی سوال اٹھایا۔

گجرات میں فسادات کے دوران 3 مارچ 2002 کو احمد آباد کے قریب ایک گاؤں میں 11 افراد نے بانو کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی تھی۔ وہ اس وقت 19 سال کی تھیں اور حاملہ تھیں۔ تشدد میں ان کے خاندان کے چودہ افراد بھی مارے گئے تھے، جن میں ان کی تین سالہ بیٹی بھی شامل تھی جس کا سر مجرموں نے زمین پر پٹخ دیا تھا۔

15 اگست کو ان مجرموں کو گودھرا جیل سے رہا کر دیا گیا، جب گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت ان کی درخواست منظور کر لی۔ اسی دن رہائی کے بعد ان کے لواحقین نے مجرموں کا استقبال مٹھائی سے کیا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ایک رکن نے بھی انھیں مبارکباد دی۔

ان کی رہائی سپریم کورٹ کے رہنما خطوط کے تحت گجرات حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ ایک پینل کی سفارش پر مبنی تھی۔ پینل کے دس ارکان میں سے پانچ بی جے پی کے عہدیدار ہیں۔ ان میں سے دو فی الحال ایم ایل اے ہیں۔

18 اگست کو گجرات کے ایم ایل اے سی کے راول جی نے، جو پینل کا حصہ تھے، کہا تھا کہ جیل میں مجرموں کا برتاؤ اچھا تھا۔ راول جی نے یہ بھی کہا کہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں اکثر بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجرموں کے اہل خانہ ’’ایماندار‘‘ ہیں۔

اتوار کو شیوسینا نے کہا کہ نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے سربراہ شرد پوار بھی محسوس کرتے ہیں کہ مودی خواتین کو بااختیار بنانے کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں، جس کے بارے میں انھوں نے اپنی یوم آزادی کی تقریر میں طویل بات کی تھی۔

پارٹی نے کہا ’’یہ ہندو مسلم کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ ہندوتوا کی روح اور ہماری عظیم ترین ثقافت کے فخر کے بارے میں ہے۔ اگر بلقیس کی عصمت دری کرنے والوں کو گجرات کے آئندہ انتخابات میں ہندو ووٹوں کی خاطر رہا کر دیا گیا تو یہ رجحان ہمیں تباہ کر دے گا۔‘‘

ان 11 مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی کئی شہری حقوق گروپوں اور کارکنوں نے مذمت کی ہے۔ ایک رپورٹ میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ مجرموں نے مبینہ طور پر کیس کے گواہوں کو دھمکیاں دی تھیں اور پیرول پر باہر آنے کے دوران سیاسی تقریبات میں شرکت کی تھی۔