کانگریس کی کیرالہ یونٹ نے ترواننت پورم میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کی
نئی دہلی، جنوری 27: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق کانگریس کی کیرالہ یونٹ نے جمعرات کو ترواننت پورم میں بی بی سی کی اس دستاویزی فلم کی اسکریننگ کی جس میں 2002 کے گجرات فسادات میں وزیر اعظم نریندر مودی کے مبینہ کردار کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم جس کا عنوان ہے ’’انڈیا: دی مودی کویشچن‘‘ پولیس کی بھاری تعیناتی کے درمیان دکھائی گئی۔ 21 جنوری کو مرکز نے یوٹیوب اور ٹویٹر کو ہدایت کی تھی کہ وہ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے لنکس کو ہٹا دیں، جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی نے، جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، پولیس کو تشدد کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے سے روکا تھا۔
دستاویزی فلم کا دوسرا حصہ، جو مودی کے 2019 میں دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد کے ٹریک ریکارڈ کا جائزہ لیتا ہے، 24 جنوری کو ریلیز کیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق کیرالہ پردیش کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری جی ایس بابو نے کہا ’’ہمیں عام لوگوں کی طرف سے اسکریننگ کا مثبت جواب ملا۔ بہت سے لوگ اسے دیکھنے آئے۔ مثبت ردعمل کے پیش نظر ہم اسے آنے والے دنوں میں ریاست بھر میں مختلف مقامات پر دکھائیں گے۔‘‘
یہ اسکریننگ کانگریس لیڈر انل انٹونی کے ذریعے دستاویزی فلم پر مرکز کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے کانگریس پارٹی چھوڑنے کے ایک دن بعد ہوئی ہے۔ سابق مرکزی وزیر اے کے انٹونی کے بیٹے انل انٹونی نے بی بی سی کو بھارت کے خلاف ’’تعصب کی ایک طویل تاریخ کے ساتھ ریاستی سرپرستی والا چینل‘‘ قرار دیا تھا۔
کانگریس کے علاوہ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) کے یوتھ ونگ، ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا نے بھی منگل کو ریاستی دارالحکومت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے احتجاج کے درمیان دستاویزی فلم کی نمائش کی۔
بی جے پی لیڈر ایس سریش نے ہندوستان ٹائمز کو بتایا ’’دونوں جماعتوں کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے، ملک اور اس کے وزیر اعظم کو بدنام کرنا ہے۔ یہ خوشامد کی سیاست کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
حیدرآباد یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کا اہتمام کیا، جب کہ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے، جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا طلبا ونگ ہے، دی کشمیر فائلز کی اسکریننگ کی۔
وویک اگنی ہوتری کی ہدایت کاری میں دی کشمیر فائلز 1990 کی دہائی میں کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے اخراج کو بیان کرتی ہے۔
بی بی سی کی دستاویزی فلم طلبا کو دکھائے جانے کے بعد 21 جنوری کو اے بی وی پی نے حیدرآباد یونیورسٹی انتظامیہ سے شکایت درج کرائی تھی۔
اس ہفتے کے شروع میں دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں دستاویزی فلم کی اسکریننگ میں خلل پڑا۔ بدھ کے روز دہلی پولیس نے دستاویزی فلم کی منصوبہ بند اسکریننگ سے قبل کم از کم بارہ طلبا کو حراست میں لے لیا۔
منگل کے روز جے این یو کے طلبا نے الزام لگایا تھا کہ کیمپس میں بجلی اور انٹرنیٹ کی بندش کے ذریعے اسکریننگ کو روکنے کے بعد ان پر پتھروں سے حملہ کیا گیا۔ طلبا نے یہ بھی الزام لگایا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے جان بوجھ کر بجلی کاٹ دی تھی۔
واضح رہے کہ دستاویزی فلم میں 2002 کے گجرات فسادات کا جائزہ لینے کے لیے برطانوی حکومت کی طرف سے بھیجی گئی ایک انکوائری ٹیم کی تیار کردہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹیم نے الزام لگایا تھا کہ مودی نے گجرات پولیس کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے تشدد کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے سے روکا تھا۔
برطانیہ کی حکومت کی طرف سے بھیجے گئے تفتیش کاروں میں سے ایک سابق برطانوی سینئر سفارت کار نے دستاویزی فلم میں کہا ہے کہ تشدد کی منصوبہ بندی وشو ہندو پریشد نے کی تھی، جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سے وابستہ ہے۔