مرکز نے گجرات کے 2 اضلاع سے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو شہریت دینے کے لیے کہا

نئی دہلی، نومبر 1: دی انڈین ایکسپریس کی خبر کے مطابق مرکزی وزارت داخلہ نے پیر کو گجرات کے مہسانہ اور آنند کے ضلعی کلکٹروں سے کہا کہ وہ شہریت ایکٹ 1955 کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی، بدھ اور جین برادری کے لوگوں کو شہریت کا سرٹیفکیٹ دیں۔

اخبار کے مطابق یہ نوٹیفکیشن قانونی تارکین وطن کے لیے جاری کیا گیا ہے، جنھوں نے شہریت ایکٹ 1955 کے سیکشن 5 (بذریعہ رجسٹریشن) اور سیکشن 6 (نیچرلائزیشن) کے تحت پہلے ہی شہریت کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔

2019 میں منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان کی چھ غیر مسلم کمیونٹیز کے افراد کو شہریت دیتا ہے، جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے ہندوستان آئے ہوں۔ تاہم اس قانون کے تحت قواعد ابھی تک نہیں بنائے گئے ہیں۔

دی ہندو کی خبر کے مطابق وزارت داخلہ نے پیر کو حکام سے کہا کہ تینوں ممالک کے تارکین وطن کی درخواست آن لائن لی جائے۔ درخواستوں کی تصدیق ضلع کلکٹر کے ذریعہ کی جائے گی اور پھر اسے مرکزی ایجنسیوں کو بھیج دیا جائے گا۔

ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اگست میں گجرات کے وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے 40 پاکستانی ہندوؤں کو ہندوستانی شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے تھے۔ اخبار کے مطابق 2016 سے احمد آباد میں کلکٹر کے دفتر نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے 1,032 ہندوؤں کو شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے ہیں۔

وزارت داخلہ اکثر ریاستوں کی ضلعی انتظامیہ کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ پاسپورٹ یا ویزا پر ہندوستان میں داخل ہونے والے چھ کمیونٹیز کے تارکین وطن کو شہریت کا سرٹیفکیٹ فراہم کریں۔

دریں اثنا سپریم کورٹ 2019 میں منظور کیے گئے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف 200 سے زیادہ درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مذہب کی بنیاد پر امتیاز کو فروغ دیتا ہے اور آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی کرتا ہے، جو قانون کے سامنے مساوات سے متعلق ہے۔

ناقدین کو خدشہ ہے کہ شہریت ترمیمی قانون، 2019 کو شہریوں کے قومی رجسٹر کے ساتھ جوڑ کر ملک میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے غلط استعمال کیا جائے گا۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا مطلب قانونی ہندوستانی شہریوں کی فہرست ہے۔