بلقیس بانو پر ’اتیا چار‘ اور ’برہمن سنسکار ‘
سفاک مجرمین کی رہائی ناقابلِ معافی ناانصافی
ڈاکٹر سلیم خان، ممبئی
ہزاروں سال کی ثقافت کی کیا یہی وراثت ہے؟
بلقیس بانو کے مجرمین کی قبل ازوقت رہائی پر وزیر اعظم نریندر مودی سمیت بی جے پی کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اس معاملے میں عدالت عظمیٰ کا کردار تو چائے سے گرم کیتلی کا سا ہے۔ عدالت کے اس منفی رویہ کی جانب اکثر لوگوں کی توجہ نہیں جاتی ۔ یہ بات پھر ایک بار سبھی کو معلوم ہوچکی ہے کہ گجرات میں گودھرا حادثے کے بعد رونما ہونے والے فسادات میں بلقیس بانو کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ فسادیوں نے ان کے خاندان کی کئی خواتین کی عصمت ریزی کرکے قتل کر دیا تھا۔ گجرات میں مودی سرکار اور انتظامیہ کی جانب داری نے بدمعاشوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی ۔ ریاست میں خوف و ہراس کا ماحول تھا اس لیے سپریم کورٹ نے اس مقدمہ کی سماعت احمد آباد سے ممبئی منتقل کر دی تھی۔ ممبئی کی عدالت نے مجرموں کے علاوہ پولیس اہلکار اور ڈاکٹر کو بھی سزا سنائی تھی ۔بلقیس بانو معاملےمیں عصمت دری اور قتل کے جرم کی وجہ سے گیارہ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔
ان میں سےایک مجرم رادھے شیام نے 15 سال 4ماہ کی سزا کاٹنے کے بعد قبل از وقت رہائی کی درخواست دی جسے گجرات ہائی کورٹ نے اس بنیاد پر مسترد کردیا کہ خود گجرات سرکار نے کہا ہے چونکہ یہ فیصلہ ممبئی کے ہائی کورٹ میں سنایا گیا اس لیے اسے وہاں کی سرکار سے رجوع کیا جائے۔ اس طرح گجرات ہائی کورٹ ایک ظلم کا حصہ بننے سے بچ گئی ۔ فاضل جج حضرات کو پتہ تھا کہ اگر سماعت شروع ہوجاتی ہے تو انہیں کیا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جائے گا ؟ مذکورہ ناکامی کے بعد رادھے شیام نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی ۔بلقیس بانو کیس کے مجرمین کو15 سال سے زیادہ وقت جیل میں گزار نے کے باوجود قبل ازوقت رہائی کی خاطر مختلف رکاوٹوں کا سامنا تھا۔ ان میں سب سے پہلی رکاوٹ تو یہی تھی کہ مہاراشٹر میں رائج قوانین کی روشنی میں ان کی رہائی مشکل تھی۔ رادھے شیام اسی لیے مہاراشٹر کے بجائے گجرات کی پالیسی کےمطابق فیصلہ کروانا چاہتا تھا ۔
گجرات کے قبل ازوقت رہائی قوانین میں بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی 2014کے اندر تبدیلیاں کی گئی تھیں اور وہ رادھے شیام کے راہوں کی دوسری رکاوٹ تھی اس لیے وہ چاہتا تھا کہ 1992 کی قبل از وقت رہائی پالیسی کے مطابق اس کی رہائی درخواست پر غور کرنے کا حکم دیاجائے ۔اس کے علاوہ مرکزی وزارت داخلہ نے 10 جون 2022 کو آزادی کی 76 ویں سالگرہ کے موقع پر بعض زمروں کے قیدیوں کی سزا کو معاف کرنے اور رہا کرنے کی تجویز رکھی اس میں بھی ایک سے زیادہ قتل اور ریپ کے معاملے میں عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کو معاف نہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ ایسے مجرم جن کی تفتیش سی بی آئی کے ذریعہ کی گئی وہ بھی اس سہولت سے قانوناً محروم ہیں۔ اس لیے رادھے شیام کے لیے یہ نیا اعلان بھی کسی کام کا نہیں تھا لیکن سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان اجے رستوگی اور وکرم ناتھ نے ان ساری رکاوٹوں کو دور کرکے اس طرح رہائی کو آسان بنایا کہ عدلیہ کا سر شرم سے جھک گیا ۔ ان میں سے اجے رستوگی ایک زمانے میں گجرات کے اندر ہواکرتے تھے۔
عدالت عظمیٰ نے پہلے تو یہ کہا کہ فیصلہ مہاراشٹر میں ضرور ہوا مگر جرم کا ارتکاب گجرات کے اندر کیا گیا اس لیے موخرالذکر ریاست کا قانون لاگو ہوگا۔ اس طرح گویامقدمہ گجرات پہنچا دیا گیا جبکہ وہ وہاں کی عدالت اور حکومت جان چھڑا رہی تھی ۔ سپریم کورٹ نے مزید کہا چونکہ یہ فیصلے کے وقت 2014والی ترمیم نہیں ہوئی تھی اس لیے اس کااطلاق نہیں ہوگا یعنی اس معاملے میں 1992 کا قانون نافذ کیا جائے جس میں ان مجرمین کی رہائی سے متعلق کوئی شرط نہیں ہے ۔ اس طرح ایک فرسودہ قانون میں خاموشی کا غلط استعمال کرکے رہائی کی گنجائش نکالی گئی۔ 2014کی ترمیم دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نقص دور کرنے کی کوشش تھی مگر رادھے شیام کو بچانے کی خاطر ناقص قانون استعمال کی اجازت دی گئی اور حکومت کے حالیہ حکمنامہ کو بھی نظر انداز کیا گیا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ گویا عدالت کسی نہ کسی طرح ان سفاک مجرمین کی رہائی پر تُل گئی تھی۔ دراصل اس معاملے میں سب سے بڑی چوک یہ ہوئی کہ اگر نربھیا کی مانند ان سفاک مجرمین کو سزائے موت دے دی جاتی تو یہ موقع ہی نہیں آتا ۔ نہ ہوتا بانس نہ بجتی بانسری۔
معروف صحافی برکھا دت نے اس با بت حال میں ٹویٹ کیا کہ : ’میں وہ رات نہیں بھول سکتی جس رات میں بلقیس بانو سے ایک ریلیف کیمپ میں ملی تھی، ان کا بازو ان لوگوں نے توڑ دیا تھا جنہوں سب سے پہلے ان کی ماں، ان کی دو بہنوں کا ریپ کیا ، ان کی تین سالہ بیٹی کو قتل کیا اور پھر باری باری حاملہ بلقیس پر حملہ کیا ۔ بلقیس اور یعقوب نے اپنے نومولود کا نام اپنے مردہ بچے کے نام پر رکھا۔‘ اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے بعد برکھادت ایک اور ٹویٹ میں لکھتی ہیں :’ ایک ایسے ملک میں جہاں بہت سے لوگ انصاف کے نام پر انکاؤنٹر کو درست ٹھہراتے ہیں کیا آپ وہاں ماں اور خاندان کے دوسرے افراد کے سامنے ریپ کرنے والی حاملہ بلقیس کے سامنے اس کی تین سال کی بیٹی صالحہ کو قتل کر نے والوں کے لیے عمر قید سے کم سزا سنیں؟‘۔ ایک طرف تو سزا کم اور دوسری جانب اس میں بھی تخفیف یہ تو گویا عدل و انصاف کی آبرو ریزی ہے۔
حیدرآباد میں دِشا نامی ڈاکٹر کی آبروریزی اور قتل کے بعد جب پولیس نے ملزمین کا انکاونٹرکیا تو ملک بھر میں خوشی منائی گئی اور چند ماہ بعد تفتیشی کمیٹی نے اسےجعلی قرار دے دیا ۔ اس کے برعکس عدالت میں ثابت ہوجانے کے باوجود بلقیس معاملے میں مجرموں کو صرف عمر قید کی سزا سنائی گئی اس لیے معروف صحافی راجدیپ سر دیسائی کا گینگ ریپ کی شکار نربھیا سے بلقیس کا موازنہ قابلِ توجہ ہے۔ انہوں نے لکھا: ’ یہ فیصلہ کیسے کیا جائے کہ ایک گینگ ریپ اور قتل (نربھار) کا معاملہ دوسرے کیس (بلقیس بانو) سے زیادہ گھناؤنا ہے۔ ایک کے لیے موت کی سزا کا مطالبہ کا جاتا ہے، دوسرے کے لیے نہیں؟ کیا قانون/معاشرے کا اجتماعی ضمیر متاثرہ اور مجرم کی شناخت پر منحصر ہے؟‘ بدقسمتی سے مودی یُگ کے اندر اس سوال کا جواب ’ہاں‘ ہے۔ جہاں تک اجتماعی ضمیر کا سوال ہے افضل گرو کو پھانسی دیتے وقت فاضل جج نے اجتماعی ضمیر کا سہارا لیا تھا۔ سابق وزیر قانون اور بی جے پی کے رکن شانتی بھوشن نے افضل گرو کی پھانسی کے فیصلے پر علی الاعلان تنقید کرتے ہوئے اسے غلط ٹھہرایا تھا لیکن بلقیس کے معاملے میں اس ضمیر کا گلا گھونٹ دیا گیا۔
دہلی میں2012 میں نربھیا کے ساتھ جب اجتماعی ریپ اور قتل کے معاملہ کی مانندبلقیس کے مقدمہ میں بھی پھانسی دے دی جاتی تو آج دنیا بھر میں یہ رسوائی نہیں ہوتی ۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق امریکی کمیشن کے نائب صدر ابراہم کوپر کو یہ بیان نہیں دینا پڑتا کہ یو ایس سی آئی آر ایف گجرات فسادات کے دوران ایک حاملہ مسلم خاتون سے اجتماعی زیادتی کرنے اور مسلمانوں کے قتل کا ارتکاب کرنے والے گیارہ افراد کی قبل از وقت اور غیر منصفانہ رہائی کی مذمت کرتا ہے۔یو ایس سی آئی آر ایف کے کمشنر اسٹیفن شنیک بھی یہ ٹوئٹ نہیں کرتے کہ گجرات فسادات میں جسمانی اور جنسی تشدد میں ملوث مجرموں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہنا، انصاف کا مذاق ہے۔ان کے مطابق یہ معاملہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ تشدد کرکے سزا سے بچ جانے کی روایت کا حصہ ہے۔ اسی طرح کی حرکتوں کے سبب وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو امریکہ میں داخل ہونے پر پابندی لگا ئی گئی تھی جسے ان کے وزیر اعظم بن جانے کے بعد مجبوراً اٹھانا پڑا لیکن کل جب ان کا عہدہ چھن جائے گا تو بعید نہیں کہ یہ پابندی پھر سے لگ جائے۔ مودی جی ایک طرف تو اپنے دامن سے گجرات فساد کے دھبے دھونا چاہتے ہیں اور دوسری جانب اس طرح کی حرکتیں انہیں مزید گہرا کردیتی ہیں ۔
رادھے شیام اور اس کے ساتھیوں نے گجرات فساد کے زخموں کو پھر سے ہرا کردیا ہے۔ ملک کے اندر بھی مختلف شعبوں سے متعلق چھ ہزار سے زائد شخصیات نے ایک مشترکہ بیان میں سپریم کورٹ سے سے مطالبہ کیا ہے کہ اس فیصلےکو منسوخ کرکے اور ان سفاک مجرموں کودوبارہ گرفتار کیا جائے۔اس بیان میں 15؍ اگست کی صبح کو تاریخی لال قلعےمیں وزیرِ اعظم نریندر مودی کےخطاب کا حوالہ دے کر یاد دلایا گیا کہ ایک طرف تو انہوں نے خواتین کے حقوق، ان کے احترام اور انہیں بااختیار بنانے کی بات کی لیکن اسی دن انصاف کے لیے طویل لڑائی لڑنے والی گجرات کی بلقیس بانو کو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ اجتماعی زیادتی کرکے ان کی تین سالہ بیٹی سمیت ان کے خاندان کے 14؍ افراد کو قتل کرکے سزا پانے والوں کو جیل سے رہا کر دیا گیا۔عدلیہ سے اس ناعاقبت اندیش معافی سے عدالتی نظام پر اس سنگین جرم سے متاثر ہونے والی خواتین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچنے کی فریاد کی گئی ہے۔ اس سے انصاف کے لیے آواز اٹھانے والوں کی حوصلہ شکنی اور ایسے جرائم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی بات بھی کی گئی ہے۔بلقیس بانو پر ہونے والی اس دوسری ناانصافی نے بی جے پی سرکار کے ساتھ ہندوتونواز جماعتوں کو بھی ننگا کردیا ہے۔ ان لوگوں کی سزا میں تخفیف سے نہ تو جرم کا انکار ہوتا ہے اور نہ وہ معاف ہوجاتا ۔
یہ لوگ اب بھی مجرم ہیں اس لیے ان کی رہائی پر شرمندہ ہونے کے بجائے مٹھائی بانٹنا اور تلک لگانا نہایت شرمناک حرکت ہے ۔ یہ تو خیر ان کے اہل خاندان نے کیا مگر دوسرے دن وشو ہندو پریشد نے تہنیتی تقریب کا اہتمام کرکے گلپوشی کی اور ثابت کردیا کہ وہ خواتین کی بے حرمتی کرنے والوں کا احترام کرنے والے لوگ ہیں ۔ کیا یہی وہ ہندو توا ہے جس پر سنگھ پریوار سمیت مختلف ہندو تنظیمیں فخر کرتی ہیں؟ کیا یہی پانچ ہزار سال قدیم و عظیم تہذیب و تمدن ہے اگر ہے تو اس پر لعنت ہے۔ فی الحال ملک کے اندر 70فیصد قیدی ایسے ہیں جن پر ابھی تک جرم ثابت نہیں ہوا ۔ یہ زیر سماعت قیدی قبل از وقت رہائی کے حقدار نہیں ہیں۔ فی الحال 1649 معافی کی درخواستیں توجہ کی منتظر ہیں اور 752 درخواستوں کو مسترد کردیا گیا ہے ایسے میں نہایت گھناونے جرائم کا ارتکاب کرنے والے درندوں کو رہا کردینا ناقابلِ معافی ناانصافی ہے۔
اس گھناونی حرکت کے پس پردہ فرقہ وارانہ ارادوں سے تو ساری دنیا واقف ہے مگر ذات پات کا ایک نہایت بدنما پہلو بھی اس سے منسلک ہوگیا ہے۔ریاست گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے گودھرا سے رکن اسمبلی اور قیدیوں کے معاملے پر غور کرنے والی کمیٹی کے ایک رکن سی کے راول نے ایک بیان میں کہا کہ جیل میں ان قیدیوں کا اخلاق و کردار اچھا تھا۔ یہ تو فطری بات ہے کیونکہ اگر کل راول جی بھی جیل بھیج دئیے جائیں تو وہ بھی سادھو بن جائیں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان لوگوں نے چونکہ جیل میں کوئی دنگا فساد نہیں کیا اس بنیاد پر انہیں رہا کرنے کی سفارش کی گئی۔ کیا راول جی کو یہ توقع تھی کہ یہ لوگ جیل کے اندر بھی دنگا فساد کریں گے؟ اور چونکہ یہ لوگ اندر اپنے یہ ارمان نہیں نکال سکے اس لیے ان کو فساد کرنے کی خاطر رہا کیا گیا ہے؟ ان لوگوں کا جیل میں فساد نہ کرنا کوئی احسان نہیں مجبوری تھی جسے دور کردیا گیا ہے اور اب وہ اس کے لیے آزاد ہیں۔
راول جی نے اپنے بیان میں یہ کہہ کر سب کو چونکا دیا کہ یہ تمام قیدی برہمن ہیں جو کہ اعلیٰ کردار اور اقدار کے مالک ہیں۔ اس بیان پر راول جی کی مذمت ہورہی ہے لیکن اس اعترافِ حق پر ان کی پذیرائی ہونی چاہیے۔ بی جے پی ایک ہندووں کی جماعت ہے ۔ اس لیے راول جی یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ یہ اعلیٰ کردار کے حامل قیدی ہندو ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ ان کا تعلق عام ہندو سماج سے نہیں بلکہ اس میں سے ایک مخصوص طبقہ برہمن سماج سے ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عموماً برہمن سماج کا اخلاق و کردار کیسا ہوتا ہے؟ وہ کس طرح خواتین کی عصمت ریزی اور قتل وغارتگری پر فخر کرتے ہیں ۔ راول جی نے برہمنوں کی نفسیات کو بے نقاب کرکے جس حق گوئی کا مظاہرہ کیا اس کے لیے ان کی پذیرائی کی جانی چاہیے ورنہ سنگھ پریوار تو ان کو گھاس پوس پر چرنے والا نہایت بے ضرر اور مہذب سماج کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان مجرمین کے متعلق عدالتی فیصلوں کو راول جی کے بیان کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے تاکہ برہمنوں کے سنسکار سے متعلق جو غلط فہمی پائی جاتی ہے وہ دور ہوجائے۔ بدترین سفاکی کے باوجود ذات پات کی بنیاد پر شرافت کا تمغہ عطا کرنا ایک پسماندہ ذات کے وزیر اعظم کی قیادت میں حکومت کرنے والی بی جے پی کی پیشانی پر بدترین کلنک ہے۔برہمنوں سے متعلق اس طرح کے خیالات صرف ایک جاہل سیاسی رہنما کے ہی نہیں بلکہ کیرالا جیسی ترقی یافتہ ریاست کے فاضل جج وی چتمبریش بھی اس طرح کے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں ۔تمل برہمنوں کی عالمی تنظیم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نےکہا تھا۔ دوبار پیدا ہونے والے برہمنوں کی چند مخصوص صفات ہوتی ہیں اس لیے انہیں ہمیشہ سربراہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے برہمنوں کو ذات کے بجائے سماج کی بنیاد پر ریزرویشن کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کی ترغیب دی۔ یہی مسئلہ سیاستدانوں کا بھی ہے ۔ ملک کے پہلے صدر مملکت نے عوامی سطح پر دو سو برہمنوں کے پیر دھوئے تھے ۔ ان کی اس حرکت پر تنقید کرتے ہوئے معروف دانشور رام منوہر لوہیا نے ذات پات کے نظام کو فروغ دینے کا الزام لگایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ عوامی سطح پر یہ ایک فحش حرکت ہے اور کسی کا پیر محض اس کے برہمن ہونے کی وجہ دھونا ذات پات کے نظام کو جاری رکھنے کا افسوسناک عمل ہے۔ لوہیا نے کہا تھا اس طرح کے برےافعال کی روح ملک کی فلاح و بہبود یا خوشحال کا منصوبہ نہیں بناسکتے۔ اس کے سبب کروڑوں لوگ دبے کچلے رہیں گے ۔یہ عوام کو سماجی اور معاشی مساوات کے علاوہ روحانی مساوات سے بھی محروم کردے گی۔ بلقیس کے معاملے میں حالیہ فیصلہ لوہیا کی پیشنگوئی کا منہ بولتا نمونہ ہے۔
بابو راجندر پرشاد کی مانند سارے سیاستداں برہمنوں کے قدر داں نہیں ہوتے ۔ گجرات کی ہم سایہ ریاست مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے ہی ایک رہنما پریتم سنگھ لودھی سابق وزیر اعلیٰ اوما بھارتی کے قریبی مانے جاتے ہیں۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر وہ 2013 اور 2018 کے اسمبلی انتخابات لڑ چکے ہیں ۔ ضلع شیو پوری میں ان کا کافی اثر و رسوخ ہے۔ انہوں نے دو مرتبہ کانگریس کے ۶؍ بار کامیاب ہونے والے رکن اسمبلی کے پی سنگھ ’ککاجو‘ کا مقابلہ کیا اور2018 کے انتخابات میں تو صرف 2500 سے ووٹوں کے کم فرق سے ہارے۔پریتم سنگھ نے ابھی حال میں کھریہ گاؤں میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فی زمانہ برہمن لوگوں کے پیسے اور وسائل سے خوشحال ہو رہے ہیں ۔ وہ بولے ’’اچھے گھرانوں کی خوبصورت عورتوں کو دیکھ کر وہ (برہمن) ان کے گھروں میں کھانے کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ میزبانی کے دوران وہ چاہتے ہیں خوبصورت جوان عورتیں آگے اور بوڑھی خواتین پیچھے بیٹھیں ۔ گھر کے بھیدی کی بیان کردہ اس کڑوی حقیقت کو بی جے پی برداشت نہیں کرسکی اور انہیں نکال باہر کیا ۔ 62 سالہ پریتم سنگھ 37 مقدمات میں ملزم ہے جس میں قتل کی کوشش کے چار اور قتل کے دو مقدمات شامل ہیں۔ ایسا لگتا ہے بی جے پی مجرمین کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔
انصاف اور قانون کی بالادستی کے معاملے میں اس سال عالمی سطح پر کی جانے والی درجہ بندی میں 139ممالک کے درمیان ہندوستان 79 ویں مقام پر ہے۔ اس معاملہ میں مسلسل انحطاط ہورہا ہے پچھلے سال ہم لوگ 76 پر تھے اور 2018 میں تو 62واں نمبر تھا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مودی یگ میں عوام کی عدل سے محرومی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ 2018 کے اندر نظم و تحفظ کے معاملہ میں کل 113 ممالک میں ہندوستان 98نمبر پر تھا یعنی صرف 15 ممالک کی حالت ہم سےبدتر تھی ۔ بنیادی حقوق کی فہرست میں 75واں مقام تھا اور تعذیری انصاف کے معاملہ میں ہم 66ویں پر تھے ۔ دیوانی انصاف کی حالت سب سے زیادہ خراب تھی یعنی یہ ملک 97ویں نمبر پر تھا ۔ ملک میں اگر عدل و انصاف کی یہ صورتحال ہوتو محض اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت یا مادرِ جمہوریت کے خطاب سے نواز کر وزیر اعظم کا بغلیں بجانا بے معنیٰ ہے۔ بلقیس بانو کیس میں سنگین قسم کے مجرمین کی رہائی کے بعد آئندہ سال جب یہ فہرست مرتب کی جائے گی تو یہ ملک انصاف کے زینے پر نہ جانے کتنے پائیدان نیچے اتر چکا ہوگا ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***
مابعدگجرات فسادات اہم واقعات۔۔ بیک نظر
گجرات فسادات کی جانچ کے لیے قائم ایس آئی ٹی نے 8 فروری 2012 کو نریندر مودی کو کلین چٹ دی۔
26 مئی 2014 کو نریندر مودی نے ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔
30 دسمبر 2014 کو امیت شاہ سہراب الدین شیخ کیس سے بری ہوئے
30 جولائی 2014 کو مایا کوڈنانی کی ضمانت پر رہائی
25 اپریل 2017 کو پرگیہ ٹھاکر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا
23 اگست 2017 کو کرنل پروہت کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا
7 مارچ 2019 کو بابو بجرنگی کی ضمانت پر رہائی۔ یہ وہی بابو بجرنگی ہے جس نے کیمرے پر دعویٰ کیا تھا کہ مودی نے اسے بدترین جرم کو انجام دینے کے لیے اکسایا تھا۔ یہ وہی بجرنگی ہے جو ایک حاملہ عورت کو مار کر اس کے جنین کو اپنی تلوار سے لٹکا کر خود کو رانا پرتاپ جیسا محسوس کیا تھا۔
23 مئی 2019 کو پرگیہ ٹھاکر پارلیمنٹ کی رکن بنیں۔
30 مئی 2019 کو نریندر مودی نے دوسری بار وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔
30 : مئی 2019 کو امیت شاہ نے وزیر داخلہ کے طور پر حلف لیا۔
20 جون 2019 سنجیو بھٹ کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
جون 2022 میں تیستا سیتلواد اور آر بی سری کمار گرفتار کیا گیا۔
آزادی کے امرت مہوتسو 15 اگست 2022 کو بلقیس بانو کی عصمت دری کرنے اور اس کے پورے خاندان، بشمول نوزائیدہ بچوں اور اس کی تین سالہ بیٹی کے قاتلوں کو گجرات حکومت نے اپنی معافی کی پالیسی کے تحت رہا کیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 28 اگست تا 3 ستمبر 2022