بھارت، سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا ملک

روسی اسلحہ برآمدات میں کمی۔ امریکی و فرانسیسی برآمدات میں اضافہ

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

تخفیف اسلحہ کی بات کرنے والے ممالک ہی ہتھیاروں کی تجارت میں مصروف
اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ
دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جو ہتھیار بناتے اور فروخت کرتے ہیں۔ کئی ممالک ایسے ہیں جو خود بھی ہتھیار بناتے ہیں اور دوسرے ممالک سے بھی خریدتے ہیں۔ بعض ممالک ہتھیاروں کو صرف برآمد کرتے ہیں اور بعض صرف درآمد کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائے تو یہ ممالک دراصل ایک دوسرے کی تباہی کے اسباب پیدا کر رہے ہیں اور تباہی کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ جن ہتھیاروں کو بناتے ہیں انہی ہتھیاروں کو دوسرے ممالک پر آزماتے بھی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا ملک کون سا ہے؟ اس فہرست میں سب سے پہلا نام ہمارے مہان دیش بھارت کا ہی آتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا میں دفاعی اخراجات پر خرچ کرنے میں ہمارا ملک امریکہ و چین کے بعد تیسرے درجے پر ہے۔ اسی بیچ ہمارے ملک نے خانگی اداروں کو بھی دفاعی شعبے میں سرمایہ کاری کا موقع دیا ہے، ان سب کے باوجود ہمارے ملک ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے، یعنی اب بھی دفاعی سامان کی خریداری میں ہمارا ملک دوسرے ممالک پر منحصر ہے۔ اسی لیے بھارت دنیا کا سب سے بڑا ہتھیاروں درآمد کرنے والا ملک بنا ہوا ہے۔
دنیا بھر کی جملہ درآمدات میں ہمارا ملک 11 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے جو معمولی مقدار نہیں ہے۔ درآمدات کے اعداد وشمار کے مطابق دوسرے درجے میں سعودی عرب ہے جو بین الاقوامی درآمدات کا 9.6 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے۔ حیرت انگیز طور پر تیسرے درجے میں قطر ہے جو 6 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے اور چوتھے مقام پر آسٹریلیا ہے جو 4.7 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے اور چین تقریباً 4.5 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے۔ فخر کی بات یہ ہے کہ ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں ہمارا ملک سرفہرست ہے۔
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ ہم کن ممالک سے ہتھیار درآمد کرتے ہیں؟ ہم جن ممالک سے ہتھیار درآمد کرتے ہیں ان میں پہلے نمبر پر روس ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنی دفاعی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہم اب تک روس پر ہی منحصر ہیں، گو کہ اس دوران ہمارا انحصار روس پر کچھ کم ہوا ہے، لیکن ایک وقت تھا جب ہماری دفاعی ضروریات کا 70 فیصد سامان روس سے ہی خریدا جاتا تھا۔ اس بیچ ہم نے روس سے درآمدات میں کمی لائی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ہم جملہ ہتھیاروں کی درآمدات میں سے 45 فیصد حصہ روس سے درآمد کر رہے ہیں۔ دوسرے نمبر پر فرانس ہے جس سے ہم جملہ ہتھیاروں کی درآمدات کا 29 فیصد درآمد کر رہے ہیں۔ اس سے قبل ہمارے ملک کو دوسرا سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرنے والا ملک امریکہ تھا لیکن اب فرانس ہوگیا ہے، اس کی وجہ فرانس کی ایک کمپنی رافائل سے ہم نے 59 ہزار کروڑ روپیے کے قیمتی 36 رافائل جنگی جہاز خریدنے کا معاہدہ کیا ہے، جس کے نتیجے میں ہندوستان کو ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں فرانس کا مقام دوسرے درجے پر پہنچ گیا ہے، یعنی فیصد کے حساب سے جملہ درآمدات میں 29 فیصد حصہ داری فرانس کی ہے۔ اس فہرست میں تیسرا ملک امریکہ ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرنے والا ملک ہے۔ بھارت اس سے اپنی جملہ درآمدات کا 11 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے۔ بنیادی طور پر ہم ان تین ممالک سے ہی دفاعی ساز و سامان درآمد کرتے ہیں۔ یہ ہے ہمارے ملک کی ہتھیار درآمد کرنے کی صورت حال۔
آئیے ہم اپنے ملک کے ہتھیار برآمد کرنے کا جائزہ لیتے ہیں۔ سر فہرست دو ایسے ممالک جو ہتھیار برآمد کرتے ہیں اس فہرست میں ہمارے ملک کا نام شامل نہیں ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار برآمد کرنے والا ملک امریکہ ہے۔ دنیا کی جملہ ہتھیاروں کی درآمدات میں 40 فیصد ہتھیار امریکہ بہادر ہی برآمد کرتا ہے۔ اس فہرست میں دوسرے مقام پر روس ہے جس کی حصہ داری 16 فیصد ہے۔ اس ہتھیار یا دفاعی ساز و سامان برآمد کرنے والی فہرست میں ہمارے پڑوسی ملک چین کی بھی 6 فیصد کی حصہ داری ہے۔ اس فہرست میں فرانس ہے اور یہاں تک کے اسرائیل بھی ہے لیکن ہمارا ملک دس سر فہرست ممالک میں شامل نہیں ہے۔ ہمارا ایک اور پڑوسی ملک پاکستان بھی ہے جو دنیا بھر کے ممالک کا 3.7 فیصد ہتھیار درآمد کرتا ہے۔ پاکستان کو سب سے زیادہ ہتھیار فراہم کرنے والا ملک چین ہے۔ پاکستان جتنے ہتھیار دنیا بھر سے درآمد کرتا اس کا 77 فیصد حصہ چین سے آتا ہے۔ امریکہ سے وہ کلیدی دفاعی اشیاء درآمد کرتا ہے، جیسے ایف 16 جنگی طیاروں کی خریداری وغیرہ، یعنی ہتھیاروں کی درآمدات میں مقدار و قیمت سے زیادہ وہ ٹکنالوجی خرید رہا ہے۔
یہ ساری معلومات ہمیں ’اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ نے فراہم کیں۔ یہ اعداد و شمار 2018 تا 2022 یعنی گزشتہ چار سالوں کے دورانیہ میں ممالک کے درمیان ہونے والی ہتھیاروں کی تجارت پر مبنی ہیں، ہتھیاروں کی تجارت سے متعلق ساری تفصیلات ان کی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ بنیادی طور پر اس ادارے کا کام دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خرید وفروخت کے ڈیٹا کو جمع کرنا اور اس کا تجزیہ کرنا ہے کہ کونسا ملک کتنے ہتھیار خریدتا ہے اور کن ممالک سے خریدتا ہے، اس ملک کا بین الاقوامی سطح پر ہتھیاروں کی درآمدات کا تناسب کتنا ہے، دس سرفہرست ہتھیار برآمد کرنے والے ممالک کون سے ہیں۔ ان تمام کی تفصیلات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ ہمارا ملک آج بھی دفاعی معاملات میں دوسرے ممالک پر منحصر ہے۔ وہ آج بھی بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی درآمدات کر رہا ہے اور ابھی تک دفاعی ضروریات کے معاملے میں خود کفیل نہیں بن پایا ہے۔ اب بھی ہمارا ملک ہتھیاروں خریداری پر خطیر رقم خرچ کرتا ہے، دفاعی ساز و سامان ملک میں تیار کرنے کی سمت کچھ کوششیں میک ان انڈیا کے نام سے ضرور ہوئی ہیں لیکن ان میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ تباہ کن ہتھیار آخر کیوں خریدے جا رہے ہیں؟ بلاشبہ ان ہلاکت خیز ہتھیاروں سے انسانوں کا تو بھلا نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ ان میں سے ہر ایک ہتھیار انسانوں کی تباہی کے لیے ہی بنا ہے۔ ایک طرف بین الاقوامی سطح پر تخفیف اسلحہ یا اسلحہ کو ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی تجارت بھی ہو رہی ہے، وہی ممالک جو تخفیف اسلحہ کی باتیں کرتے ہیں دھڑلے سے ہتھیاروں کی تجارت میں مصروف ہیں، اسلحے کی تجارت کو بڑھانے کے لیے یہ ممالک پڑوسی ممالک کو آپس میں لڑاتے ہیں اور دونوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ آپس میں لڑا کر انسانوں کی تباہی کا تماشا دیکھنے والے یہ ممالک ہی دراصل امن عالم کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
***

 

***

 ایک طرف بین الاقوامی سطح پر تخفیف اسلحہ یا اسلحہ کو ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں تو دوسری طرف بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی تجارت بھی ہو رہی ہے، وہی ممالک جو تخفیف اسلحہ کی باتیں کرتے ہیں دھڑلے سے ہتھیاروں کی تجارت میں مصروف ہیں، اسلحے کی تجارت کو بڑھانے کے لیے یہ ممالک پڑوسی ممالک کو آپس میں لڑاتے ہیں اور دونوں کو اسلحہ فراہم کرتے ہیں۔ آپس میں لڑا کر انسانوں کی تباہی کا تماشا دیکھنے والے یہ ممالک ہی دراصل امن عالم کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023