’’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘‘ : ہندوتوسیاست کا عروج اور مسلم مسائل کی تفہیم پر ایک مفید کتاب

ہندوتوسیاست کا عروج اور مسلم مسائل کی تفہیم پر ایک مفید کتاب

 

کتاب کا نام : بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت
مصنف : پروفیسر محمد سجاد
ناشر : براون بک، علی گڑھ
صفحات : 215
قیمت : 300 روپے
تبصرہ نگار : ڈاکٹر امتیاز احمد

ملک میں زعفرانی و فسطائی طاقتوں کا روز بروز بڑھتا ہوا غلبہ تمام ہی پر امن اور انصاف پسند لوگوں کے لئے تشویش کا موجب بنا ہوا ہے۔ دور حاضر میں انہیں نہ صرف سیاسی بالا دستی حاصل ہے بلکہ ان کے افکار و نظریات کے اثرات معاشرے کی تہوں تک سرایت کر چکے ہیں جس کا اظہار مسلمانوں اور دلتوں پر ان کے ظلم و تشدد کی شکل میں آئے دن ہوتا رہتا ہے۔زعفرانی قوتوں کا ملک کی سیاست پر غلبہ حاصل کرنا ان کی چند مہینوں یا چند سالوں کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کے دور غلامی سے ہی وہ اپنے اس مشن میں پوری یکسوئی و جانفشانی سے لگے رہے اور آج وہ اپنے خواب کی تعبیر کے بالکل قریب آپہنچے ہیں۔ ہندوستان کے وہ تمام علاقے جہاں فرقہ واریت رہی ہے یا جہاں مسلم کش فسادات ہوئے وہاں یہ فسطائی طاقتیں مضبوط اور توانا ہوئی ہیں نیز، مسلم اقلیت کے خلاف نفرت اور تشدد ان کا ہمیشہ سے واحد ایجنڈا رہا ہے جس پر وہ اپنے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے آج ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں۔ آج ہندوستانی سماج کا شاید ہی کوئی ایسا شعبہ ہو جو ان کے اثرات سے محفوظ و مامون ہو۔ ملک کے تمام ہی ادارے اس کے آگے سر تسلیم خم کر چکے ہیں۔ غرضیکہ ہندوتوا کے عروج سے ملک کی سماجی ساخت (Social Structure) پر بہت گہرے منفی اثرات پڑے ہیں۔

زیر بحث کتاب ’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘ ہندوتوا کی سماجی و سیاسی غلبے کے اسباب وعوامل کی ایک علمی Academic وضاحت ہے۔کتاب کے مصنف پروفیسر محمد سجاد کا نام علمی حلقوں میں ایک معروف نام ہے۔ آپ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ سے منسلک ہیں۔ یہ کتاب ان مختلف مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف اوقات میں الگ الگ پورٹل اور رسالوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ کتاب کل 215 صفحات پر مشتمل ہے جسے براون بک پبلی کیشنز نئی دہلی نے شائع کیا ہے۔ اس میں بھگوا سیاست پر 23 مضامین ہیں جو قسط وار شائع ہوئے ہیں۔

ان قسط وار مضامین میں ملک کے الگ الگ حصوں میں بھگوا سیاست کے آغاز و عروج کا تاریخی تجزیہ کیا گیا ہے نیز، مسلم تنظیموں کی جانب سے مخلتف صوبوں میں تعلیم، صحت اور دوسری سماجی خدمات کی وضاحت کے ساتھ ساتھ مصنف نے مسلمانوں کی الگ سیاسی پارٹی کے تجربات پر بھی تفصیل سے بحث کی ہے اور اس بات کا تحقیقی جائزہ لیا ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کے حصول کی کوششوں کے مقابلے میں ان کی تعلیمی و اقتصادی میدان میں capacity-building کی کوششیں کس قدر بار آور ثابت ہوئی ہیں۔ہندو نوجوانوں کے اندر بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور مسلمانوں اور دلتوں کے تئیں ان کی نفرت کے اسباب پر مصنف نے بہت ہی لطیف تجزیہ کیا ہے۔ اس حوالے سے زیر بحث کتاب کا ایک اقتباس یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

صاحب کتا ب رقم طراز ہیں”کسی شہر یا گاؤں میں اگر مسلمانوں کی یا دیگر غریب پسماندہ دلت کی خوش حالی دکھائی دی، پکے مکان کی تعمیر کرائی، یا کالونی وجود میں آنے لگی، یا کالونی کی توسیع نمایاں ہوئی، مسجدیں، گنبد، محراب، ترقی کرتی ہوئی تجارت دکھائی پڑنے لگی، تو حسد، نفرت اور سبق سکھانے، انہیں ان کی ماضی کی نیچی وقعت دکھا دینے کا جذبہ ابھرنا شروع ہو گیا۔ یہیں سے ہنساو تشدد کا جواز اس سماج میں بننا شروع ہو جاتا ہے۔ گلوبلائزیشن کے اس کھیل میں جو پچھڑ گیا وہ آگے بڑھے ہوئے کو سبق سکھانے کی دھن میں لگ جاتا ہے۔ اسی سے ’لو جہاد‘ کے خلاف اور ’گو رکشا‘ کے لیے تنظیمیں وجود میں آنے لگتی ہیں ۔ ذات ، مذہب، قوم کا غنڈہ اور اس کی سماجی پرستش بھی اسی اجتماعی جذبے کے تحت پیدا ہوتی ہے۔۔ اس ماحول اور تناظر میں وہ اپنے موجودہ وزیر اعظم کو کچھ اس طرح دیکھتے ہیں کہ انہیں کام کروانے آتا ہے۔ وہ ایسا بہادر شخص ہے جس نے مسلمانوں کو ان کی اوقات بتا دی ہے‘‘۔

عام طور پر ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ فرقہ واریت صرف اکثریت طبقے میں ہی پائی جاتی ہے اور اقلیت طبقے کے یہاں اس قسم کے مسائل نہیں ہیں یا اگر اس میں فرقہ واریت کا کچھ اثر ہے بھی تو وہ اکثریت طبقے کی فرقہ واریت کا رد عمل ہے۔اس تصور کے علی الرغم مصنف نے زمینی حقائق کی بنیاد پر اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مسلم اقلیت میں بھی فرقہ واریت کے جراثیم موجود ہیں جسے ہم کسی نہ کسی بہانے نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ اس ضمن میں فاضل مصنف نے یہ وضاحت کی ہے کہ بعض علاقوں میں مسلمانوں نے قومی سطح پر ہندوؤں میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے ردعمل میں اپنے یہاں مسلم غنڈے اور شر پسند عناصرکو شہ دینا شروع کیا جس کی وجہ سے وہاں کی مذہبی اور سماجی رواداری مکدر ہوئی۔ اس حوالے سے کتاب میں تین ایسے مضامین ہیں جس میں اس بات کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے کہ کس طرح سے مسلم غنڈےمقامی مسلمانوں کی حمایت حاصل کر کے سیاسی اقتدار کا خواب دیکھتے ہیں۔

کتاب کی دو ایسی نمایاں خصوصیات ہیں جس کی وجہ سے ہر اس شخص کو جو ہندوتوا سیاست کا عروج، ہندو مسلم تعلقات اور مسلم مسائل کو علمی سطح پر سمجھنا چاہتا ہو اسے اس کتاب کو ضرور پڑھنا چاہئے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کتاب میں بے شمار علمی و تحقیقی مقالات سے مدد لی گئی ہے۔ موضوع سے متعلق کوئی بھی پہلو خواہ الگ الگ صوبوں میں ہندوتوا کا عروج ہو، مسلم کش فسادات ہوں، دنگوں میں مسلمانوں کے خلاف دلتوں کی شمولیت ہو، بی جے پی کے سیاسی غلبے میں بھگوا گجراتی این آر آئی جو انگلینڈ، امریکہ، کینیڈا، افریقہ وغیرہ میں مقیم ہیں کا کردار ہو، مسلم تنظیموں کی خدمت خلق کے میدان میں سرگرمی ہو، خدمت خلق اور دیگر فلاحی کاموں میں ہندو شر پسندوں کی جانب سے رکاوٹیں ہوں، ہندو نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی ہو، مسلمانوں کا ایک الگ سیاسی پارٹی بنانے کا تجزیہ ہو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا حب الوطنی کا ٹسٹ ہو، دلت مسلم اتحاد کا تجزیہ ہو وغیرہ ان تمام پہلوؤں پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف نے جذبات نہیں بلکہ تحقیقی رویہ اختیار کیا ہے اور اپنے موقف کی تائید میں لٹریچرس (ریسرچ پیپر، رپورٹ اور کتاب) کی ایک لمبی فہرست حوالہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ لہٰذا عام قارئین کے علاوہ ریسرچ و تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب اس لحاظ سے مفید ہوگی کہ اس میں انہیں اس موضوع پر مزید مطالعہ کرنے کے لئے بہت مواد (Materials) ملے گا۔

اس کتاب کی دوسری اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں مسائل کا باریک بینی سے تجزیے کے دوران مصنف نے کچھ ایسے دلچسپ اور بنیادی سوالات اٹھائے ہیں جن پر غورو فکر ہندوتوا کی سیاست اور ریاست کا اقلیت پر ہو رہے تشدد کے تئیں مجرمانہ خاموشی کو سمجھنے میں مفید ہوں گے۔ مثال کے طور پر شمالی ہند کے مسلمانوں کو خود احتسابی اور مسائل میں ترجیحات کے تعین پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا شناخت پر مبنی سیاست (Identity Politics) کو ترجیح دینی چاہئے؟ یا پھر تعلیمی و معاشی اقدامات کو ترجیح دیا جائے اور یہی مذہبی اور تہذیبی شناخت کی ضمانت ہوں گے؟ کیا ریاست کے تعاون کے بغیر اقلیت کے حقوق کی حفاظت ممکن ہے؟ میرٹھ میں جماعت اسلامی ہند کو سماجی و فلاحی خدمات کی راہ میں کسی طرح کی رکاوٹوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ بنارس میں چند افراد کی جانب سے اسی نوعیت کے کاموں میں ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی ہنگامہ آرائی آخر کیوں؟ کیا انتخابی سیاست کا راستہ چھوڑ کر اگر صرف سماجی و فلاحی خدمات کی طرف توجہ دیں تب بھی ہندو شدت پسند تنظیمیں اور حکومت اس راہ میں رکاوٹیں پیدا کریں نہیں کریں گی؟

اس طرح موضوع کی نوعیت کے اعتبار سے مصنف نے بے شمار سوالات اٹھائے ہیں جن پر غور و فکر اور بحث و مباحثہ سے نئی راہیں نکل سکتی ہیں اور یہی اس کتاب کا بنیادی مقصد ہے۔کتاب کی جملہ خصوصیات کے باوجود دوران مطالعہ اس بات کا احساس ہوا کہ کچھ پہلو تشنہ رہ گئے ہیں، اگر ان پر تفصیلی گفتگو کی جاتی تو کتاب کی افادیت اور بڑھ جاتی مثلاً نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی مسلمانوں سے متعلق مسائل پر مجرمانہ خاموشی کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ لیا جا نا چاہئے تھا، اسی طرح اس پر بھی گفتگو کی جانی چاہئے تھی کہ مسلمان اگر کچھ وقت کے لئے انتخابی سیاست سے پہلو تہی اختیار کرتے ہوئے تعلیمی و اقتصادی میدان کو اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں تو کیا گارنٹی ہے کہ انہیں ہندو شدت پسندوں کی جارحیت کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا جبکہ ہندوتوا کی بنیاد ہی مسلم دشمنی پر ہے۔

مختصر یہ کہ اردو زبان میں اس طرح کے موضوعات پر تحقیقی کام کمیاب ہیں۔ مصنف نے مسائل اور اس کے اسباب کو دیانت داری سے قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس میں اٹھائے گئے سوالات پر سنجیدگی سے غور و فکر کیا جائے نیز، اردو اور ہندی زبان میں اس طرح کی مزید کتابیں لکھی جائیں تاکہ ہندوتوا کی سیاست کو اچھے طرح سمجھا جا سکے اور اقلیت کو اپنا لائحہ عمل تیار کرنے میں ان علمی تحقیقات سے مدد مل سکے۔
***

اس کتاب میں مسائل کا باریک بینی سے تجزیے کے دوران مصنف نے کچھ ایسے دلچسپ اور بنیادی سوالات اٹھائے ہیں جن پر غورو فکر اقلیت پر ہندوتوا کی سیاست اور ریاست کے تشدد کے تئیں مجرمانہ خاموشی کو سمجھنے میں مفید ہوں گے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 24 جنوری تا 30 جنوری 2021