’ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک نئی یونیورسٹی قائم کی جارہی ہے اور اس کے لیے کوئی اسپیشل بجٹ نہیں ہے۔‘ — پروفیسر محمد سجاد

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ پروفیسر محمد سجاد کی خاص بات چیت

افروز عالم ساحل

’ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک اسٹیٹ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھنے کے لیے ملک کا وزیراعظم چلا گیا ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کے سنگ بنیاد میں سیاست اور سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش زیادہ ہے۔ یونیورسٹی بنانےکے لیے جس سنجیدگی کی ضرورت تھی وہ مفقود نظر آتی ہے۔ اگر سنجیدگی ہوتی تو اس یونیورسٹی کے لیے علیحدہ بجٹ بنایا جاتا۔ یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے کہ ایک نئی یونیورسٹی قائم کی جارہی ہے اور اس کے لیے کوئی اسپیشل بجٹ نہیں ہے۔‘

یہ باتیں ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر محمد سجاد نے کہیں۔

پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ بی جے پی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر صرف سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہے۔ حکومت کو ان کے نام سے قائم کی جانے والی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کمشنری ہیڈکوارٹر میں ایک اسٹیٹ یونیورسٹی ہوتی ہے، اگر نہیں ہے تو ہونا چاہیے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی اسٹیٹ یونیورسٹی قائم کی جائے اور اس کے لیے الگ سے بجٹ نہ رکھا جائے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آگرہ یونیورسٹی کے بجٹ میں سے 101 کروڑ روپے کاٹ کر اس یونیورسٹی کو دیے گئے ہیں۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ہر نئی یونیورسٹی کا ایک ویژن ہوتا ہے۔ حکومت کو بتانا چاہیے کہ اس کا ویژن کیا ہے اور یونیورسٹی کی خصوصی توجہ کس موضوع پر ہوگی۔ اس کا خاص فوکس کس طرح کے اسٹڈی پر ہوگا۔ اگر حکومت کو واقعی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی فکر ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ تو جن سنگھ اور آر ایس ایس کی سیاست اور اس کے نظریے کے خلاف تھے۔ آر ایس ایس کے نظریے کی حامی حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نظریے سےکس طرح مصالحت کرے گی؟ ان دونوں کے درمیان جو نظریاتی اختلاف ہے اسے کیسے دور کرے گی؟

پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ عام طور پر ہر اسٹیٹ یونیورسٹی پر کوئی نہ کوئی خاص سماجی گروپ حاوی ہوتا ہے۔ میرٹھ کے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں جاٹوں کا غلبہ ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے پروفیسر کریگ جیفرے نے بتایا کہ چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور میرٹھ کے جاٹوں کی یونیورسٹی کی سیاست اور یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ علاقائی سیاست میں کتنی مداخلت اور اثر ہے اور اس میں میرٹھ اور آس پاس کے جاٹوں کا کیا رول ہے۔ پروفیسر کریگ جیفرے نے اس پر ریسرچ کے بعد ایک تحقیقی مضمون لکھا تھا جو بعد میں ایک کتاب ’ٹائم پاس‘ کا حصہ بنا، اس تحقیق سے یہ ثابت ہوگیا کہ جاٹوں کا غلبہ ایک اسٹیٹ یونیورسٹی پر پہلے سے قائم ہے اور اب ایک اور یونیورسٹی قائم کی جا رہی ہے۔ چونکہ ملک میں کسانوں کا حکومت کے خلاف احتجاج چل رہا ہے اس لیے یہ جاٹوں کو خوش کرنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔ اب یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ جاٹ اس سے خوش ہوں گے یا نہیں؟

وہ مزید کہتے ہیں کہ اگر حکومت کو حقیقت میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ سے محبت ہے تو وہ ان کے ذریعے قائم شدہ ’پریم مہاودیالیہ‘ کو یونیورسٹی بنا دیتی۔ اسی کو 101 کروڑ روپے کا بجٹ دے دیتی۔ لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ ’پریم مہاودیالیہ‘ اس وقت خستہ حالت میں ہے۔

پروفیسر محمد سجاد کہتے ہیں کہ اس پورے معاملے میں میڈیا اور آر ایس ایس کے نظریے سے جڑے لوگ، دونوں نے مل کر سال 2014 کے بعد سے ہی ملک میں یہ ماحول بنایا ہے کہ اے ایم یو اور راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کو ایک دوسرے کا مخالف دکھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بی جے پی کے ذریعے بھی اس جھوٹ کے سہارے سیاست کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ بے حد افسوسناک ہے۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ علی گڑھ میں باضابطہ طور پر بی جے پی رہنماؤں کے ذریعے یہ جھوٹ پھیلایا گیا کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی وجہ سے ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنی، انہوں نے ہی اس کے لیے زمین دی تھی۔ اس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے گویا پوری یونیورسٹی انہی کی زمین پر بنی ہوئی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ وزیر اعظم سب کا ہوتا ہے، پورے ملک کے لوگوں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ انہوں نے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی کے سنگ بنیاد رکھتے وقت جو تقریر کی، اس میں جھوٹ کا پردہ فاش کردیتے۔ یہ اس عہدے کے وقار کا تقاضا بھی تھا کہ وزیر اعظم یہ کہتے کہ اے ایم یو اور راجہ مہندر پرتاپ سنگھ سے متعلق جو باتیں کی جا رہی ہیں وہ سب جھوٹ ہیں۔ آپ لوگ جھوٹ پھیلا کر ملک میں نفرت نہ پھیلائیں تو یہ یقیناً ایک بڑی بات ہوتی۔ لیکن وزیراعظم نے ایسا نہیں کیا۔ جو کہ مزید افسوسناک ہے۔

کون ہیں پروفیسر محمد سجاد؟

پروفیسر محمد سجاد علی بہار کے ضلع مظفر پور میں پیدا ہوئے۔ وہ اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے سنٹر آف ایڈوانس اسٹڈی ان ہسٹری کے پروفیسر ہیں۔ گزشتہ 18 سالوں سے یہاں طلبا کو جدید اور عصری تاریخ پڑھا رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جدید تاریخ پڑھاتے تھے۔ ان کے والد محمد عقیل مرحوم کا تعلق بھی درس و تدریس سے تھا، جو بہار کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔

پروفیسر محمد سجاد نے کلکتہ یونیورسٹی سے اردو اور تاریخ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ سب سے پہلے ان کی مشہور کتاب Muslim Politics in Bihar: Changing Contours کو Routledge نے شائع کیا۔ اسی سال مظفر پور کے مسلمانوں پر 1857 سے 2012 تک کا احاطہ کرنے والی کتاب Contesting Colonialism and Separatism: Muslims of Muzaffarpur Since 1857 شائع ہوئی۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ گزشتہ سال قومی اردو کونسل نے شائع کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘‘ گزشتہ سال ہی منظر عام پر آئی ہے۔ ابھی اسی مہینے ان کی کتاب ’ہندوستانی مسلمان : مسائل و امکانات‘ کا تیسرا ایڈیشن بھی شائع ہوکر آچکا ہے۔ اس کے علاوہ سال 2019 میں Remembering Muslim Makers Of Modern Bihar ایڈیٹ کیا تھا۔ پروفیسر محمد سجاد اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں ملک کے متعدد اخباروں اور ویب سائٹس پر کالم لکھتے ہیں۔    

 

***

 ہر نئی یونیورسٹی کا ایک ویژن ہوتا ہے۔ حکومت کو بتانا چاہیے کہ اس کا ویژن کیا ہے اور یونیورسٹی کی خصوصی توجہ کس موضوع پر ہوگی۔ اس کا خاص فوکس کس طرح کے اسٹڈی پر ہوگا۔ اگر حکومت کو واقعی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کی فکر ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ تو جن سنگھ اور آر ایس ایس کی سیاست اور اس کے نظریے کے خلاف تھے۔ آر ایس ایس کے نظریے کی حامی حکومت کو یہ بتانا چاہیے کہ وہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نظریے سےکس طرح مصالحت کرے گی؟ ان دونوں کے درمیان جو نظریاتی اختلاف ہے اسے کیسے دور کرے گی؟


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 26 ستمبر تا 02 اکتوبر 2021