کسانوں سے کھلا فریب! ابھی تک کوئی وعدہ وفا نہ ہوا

کسانوں سے کھلا فریب! ابھی تک کوئی وعدہ وفا نہ ہوا

زعیم الدین احمد، حیدرآباد

تیرہ ماہ تک چلنے والے کسانوں کا احتجاج گیارہ ڈسمبرکو ختم ہوگیا۔ مرکزی حکومت نے احتجاجی کسانوں کے تقریباً سارے مطالبات قبول کر لیے اور انہیں پورا کرنے کا وعدہ بھی کیا۔ اس وقت کسان تنظیموں نے یہ کہا تھا کہ ہم احتجاج ختم نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم صرف احتجاجی جگہوں کو خالی کر رہے ہیں۔ ایک ماہ بعد ہم پھر بیٹھیں گے اور جائزہ لیں گے کہ آیا حکومت نے ہمارے مطالبات کی تکمیل کی ہے یا نہیں؟ مرکزی حکومت نے کسانوں کے مطالبات ماننے کا وعدہ لکھ کر دیا تھا کہ وہ اس پر مکمل طور پر عمل کرے گی۔ اس خط کو مرکزی حکومت نے مرکزی سکریٹری برائے زراعت سنجے اگروال کے دستخط کے ساتھ کسانوں کے حوالے کیا تھا۔ اس خط کے موصول ہونے کے بعد ہی کسانوں نے اپنا احتجاج ختم کیا تھا۔ تو آئیے مرکزی حکومت کے ان وعدوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں جو اس نے کسانوں سے کیے تھے۔
پہلا وعدہ : مرکزی حکومت ’’ایم ایس پی‘‘ پر ایک کمیٹی بنائے گی جس میں مرکزی اور ریاستی حکومت کے ماہرین زراعت اور کسان تنظیموں کے نمائندے شامل ہوں گے اور اس کمیٹی میں خاص طور پر ایس کے ایم (یعنی متحدہ کسان مورچہ) کے نمائندوں کو شامل کیا جائے گا۔ کمیٹی اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرے گی کہ کسانوں کو اپنی فصل پر کس طرح ایم ایس پی ملے اور اس بات کی یقین دہانی کی گئی کہ جب تک ایم ایس پی پر قانون سازی نہیں ہوجاتی اس وقت تک اس کی حیثیت جوں کی توں برقرار رہے گی۔ حکومت کے اس وعدے کا کیا ہوا اور اب تک اس میں کسی بھی قسم کی کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟ اس سلسلے میں اب تک کوئی اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا، یہاں تک کہ متحدہ کسان مورچہ سے کمیٹی کے سلسلے میں کوئی بات چیت تک نہیں کی گئی ہے۔
دوسرا وعدہ : احتجاج کے دوران کسانوں پر لگائے گئے مقدمات کو ختم کرنے کا تھا۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، مدھیہ پردیش اور ہریانہ کی حکومتوں نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کی تھی کہ احتجاج کے دوران کسانوں پر لگائے گئے سارے مقدمات فوری اثر کے ساتھ واپس لے لیے جائیں گے، اسی سے جڑا ہوا ایک دوسرا حصہ (۲ اے) بھی تھا جس میں مرکزی حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ کسان احتجاج کے دوران مرکزی حکومت کے اداروں، دلی کی حکومت اور سبھی مرکزی زیر انتظام علاقوں کی جانب لگائے گئے سارے مقدمات فوری اثر کے ساتھ واپس لے لیے جائیں گے اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا جائے گا کہ وہ بھی احتجاج کے دوران کسانوں پر لگائے گئے مقدمات کو واپس لے لیں۔ لیکن یہ وعدہ بھی وفا نہ ہوا۔ مقدمات کو واپس لینے کا کام مرکزی حکومت کا ہے کیوں کہ پولیس کا محکمہ راست طور پر مرکز کے زیر انتظام ہوتا ہے جس کے کرتا دھرتا امیت شاہ ہیں، پھر انہیں کیا رکاوٹ پیش آئی کہ وہ ریاستوں کو ایک خط بھی نہیں لکھ سکے؟ دوسری طرف ریاستوں نے بھی کوئی مقدمہ واپس نہیں لیا۔ اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش اور ہماچل پردیش کسی ریاست نے بھی اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ البتہ ہریانہ میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس میں متحدہ کسان مورچہ اور حکومت کے نمائندے شامل ہیں لیکن حکومت نے کہا ہے کہ وہ سارے مقدمات واپس نہیں لے گی۔ یہاں پر بھی حکومت ٹال مٹول کا رویہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
تیسرا وعدہ : احتجاج کے دوران فوت ہونے والے کسانوں کو معاوضہ دینے سے متعلق تھا۔ اس سلسلے میں ہریانہ، اتر پردیش اور پنجاب کی حکومتوں نے قانونی رضامندی ظاہر کر دی اور پنجاب حکومت نے تو معاوضے دینے بھی شروع کردیے لیکن اتر پردیش اور ہریانہ کی حکومتوں نے رضامندی کے باوجود اس سلسلے میں کوئی کاروائی نہیں کی ہے۔
چوتھا وعدہ : چوتھا وعدہ تھا لکھیم پور کھیری کے واقعہ پر غیر جانب دارانہ تحقیقات اور مرکزی مملکتی وزیر داخلہ کی برخواستگی کا تھا۔ مرکزی و ریاستی حکومتوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ وزیر اور اس کے بیٹے کو بچایا جائے، خود وزیر صاحب نے پہلے پہل یہ کہا کہ اصل میں یہ کارنامہ کسانوں نے انجام دیا ہے لیکن جیسے ہی کسانوں کو کچلنے کی ویڈیو منظر عام پر آئی ان کی جھوٹ کا پردہ فاش ہو گیا پھر کہنے لگے کہ وہ گاڑی ان کی تو تھی لیکن اس کارروائی میں ان کے بیٹے کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، پھر ایس آئی ٹی کی تحقیقات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کا بیٹا بھی اس میں شامل ہے تو کہنے لگے کہ اس میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں۔ ادھر کسانوں کا کہنا ہے کہ اس کارروائی کا اصل سرغنہ وزیر ہی ہے، جب تک اس کو برخواست نہیں کیا جاتا اس وقت تک تحقیقات شفاف طور پر نہیں کی جاسکتیں لہٰذا اس کو فوری طور پر برخواست کیا جائے۔ اس معاملہ میں حکومت کی زبان گنگ ہے کیوں کہ اس وزیر کا تعلق نام نہاد اونچی ذات سے جو ہے اور یو پی میں انتخابات بھی سامنے ہیں۔ بی جے پی اپنے وزیر کو برخواست کر کے اس کی ذات برادری کی ناراضگی مول لینا نہیں چاہتی۔ اس پر کسانوں کی تنظیم نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس دغا بازی کا بھر پور جواب دیں گے۔ انہوں نے یہ طے کیا کہ
آئندہ ہفتہ کو لکھیم پور کھیری میں ایک احتجاجی مورچہ لگایا جائے گا جس کی قیادت بذات خود راکیش ٹکیٹ کریں گے۔
ایسا لگتا ہے کہ پہلے ہی سے حکومت کی نیت میں کھوٹ تھا، وہ کسانوں کے مطالبات کو پورا کرنا ہی نہیں چاہتی تھی، وہ چاہتی تھی کہ کسان کسی طرح یہاں سے اٹھ جائیں اور احتجاج ختم کردیں، کسی طرح ان سے جان چھوٹے، وعدوں کی ایک چٹھی لکھ کر ان کو تھما دی جائے، یہ لوگ یہاں سے اپنا مورچہ اٹھالیں گے پھر دیکھا جائے گا کہ ان وعدوں کو پورا کرنا ہے یا نہیں۔ کم از کم اب تک کی صورت حال تو یہی ہے۔ کسانوں کو وعدوں کی چٹھی تھمادی گئی اور اپنی جان چھڑا لی گئی۔ ادھر کسان تنظیموں کے رہنما بھی ان وعدوں کی چٹھی کو لے کر خوش ہوگئے اور احتجاج کو ختم کردیا۔ اور اب ایک مہینے کے بعد کسان تنظیموں نے جائزہ اجلاس میں کہا کہ حکومت نے کھلی وعدہ خلافی کی ہے اور وہ اس وعدہ خلافی کا سخت نوٹ لیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس حکومتی دغا بازی کے خلاف دوبارہ احتجاج منظم کریں گے اور ۳۱ جنوری بروز پیر کو سارے ملک میں ’’وشواس گھات دیوس‘‘ (یوم دغا بازی) منائیں گے اور ہر ضلع، ہر تحصیل میں احتجاج منظم کریں گے۔ متحدہ کسان مورچہ نے یہ بھی طے کیا ہے کہ وہ اس کسان مخالف حکومت کے خلاف ہر محاذ پر کھڑے ہوں گے خاص طور پر اتر پردیش کی حکومت کے خلاف ہر ضلع اور ہر تحصیل میں مخالفت کریں گے اور اس کی دھوکہ بازیوں کو عوام کے سامنے اجاگر کریں گے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  30 جنوری تا 5فروری 2022