بیمار معیشت اور تشویشناک بے روزگاری
نوجوانوں کی امید ٹوٹ رہی ہے۔ بے راہ رو معاشی پالیسی کو صحیح سمت دینے کی ضرورت
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
ہمارے ملک کی خواہش ہے کہ 2025تک وہ 5ٹریلین ڈالر کی معیشت بن جائے جو تقریباً ناممکن ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہماری فی کس جی ڈی پی کا درجہ 190 معیشتوں میں 135ہی رہے گا۔ فی الحال ہماری فی کس جی ڈی پی، سری لنکا، بنگلہ دیش، بھوٹان اور دیگر جنوب مشرقی ایشیائی معیشتوں سے کم ہے۔ ضرورت ہے کہ حکومت اس محاذ پر خصوصی توجہ دی جائے۔ ملک کو پانچویں بڑی معیشت بننے کے لیے عام لوگوں کی معیشت کو بہتر کرنا ہوگا۔ فی الوقت ایک فیصد لوگوں کے پاس 33فیصد اور 10 فیصد لوگوں کے پاس 64.6فیصد ملک کی دولت ہے۔ )عالمی عدم مساوات رپورٹ 2022)۔ اس لیے ضروری ہے کہ دولت کے اضافہ میں سب کی شراکت ہونی چاہیے۔ نہیں تو بھارت دولت مند ملک بن جائے گا مگریہاں کے عوام مفلس ہی رہیں گے اس لیے عدم مساوات میں تخفیف ضروری ہے۔ موجودہ غربت اور مفلسی کے جال سے نکلنے کے لیے لوگوں کو روزگا فراہم کرنے ہوں گے کیوںکہ ہماری ’’ترقی بے روزگار‘‘ ہے۔ یہاں بنیادی تبدیلیوں کی اشد ضرورت ہے۔ جنوب مشرقی ممالک میں آبادی کا کرشمہ بہت خوب ہے۔ عوامی صحت تعلیم اور روزگار نے وہاں کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا یا ہے۔ چین کا جی ڈی پی گروتھ 1999-2000کے درمیان تقریباً دہرے ہندسے میں تھا۔اب تو وہاں شرح آبادی غوطہ کھارہی ہے۔ اس لیے چین کی شرح نمو میں تنزلی کے ساتھ بھارت کی معیشت میں بہتری رفتار پکڑ رہی ہے۔ اس کے لیے انسانی ترقی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ہمارے 131ویں انسانی ترقی اشاریے (HD1) کے ساتھ ہماری آبادی کبھی بھی خوشحال نہیں ہوسکتی ہے۔ ہمارے محنت کش نوجوانوں کی آبادی بہت متحرک (Dynamic) ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی 93کروڑ آبادی 67فیصد ورکنگ ایج گروپ جو 15سے 64سالوں پر مشتمل ہے توقع ہے کہ ایک دہائی میں بڑھ کر 100کروڑ سے زیادہ ہوجائے۔ ویسے ہماری شرح پیدائش میں ٹھہراو ہے۔ اس کے باوجود عالمی پیمانہ پر 22.5فیصد ورک فورس بھارت سے ہوں گے۔ مگر ہم اس جوان آبادی سے کلی طور سے مستفید ہونے سے قاصر رہے ہیں۔ ممکن ہے اس طرز عمل کی وجہ حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی ہے۔ بے راہ رو معاشی پالیسی کی وجہ سے اپنے آبادیاتی اثاثہ (ڈیمو گرافک ڈیویڈنڈ) کو روزگار نہیں دے سکے۔ ہم نے اپنے آبادیاتی اثاثہ پر فخر تو کیا ہے مگر انہیں روزگار دینے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہم نے جملہ بازی زیادہ کی ہے۔ الیکشن جیتنے کے لیے ہندو۔ مسلم ، مندر مسجد مسائل میں نوجوانوں کو فرقہ پرستی کا نشہ پلا کر پھنسائے رکھا۔ حال یہ ہے کہ لوگوں نے حصول روزگار کی کوشش بھی ترک کردی ہیں۔ نومبر 2020میں ایسے بے روزگارلوگوں کی تعداد 2کروڑ 74لاکھ تھی جو حصول روزگار میں مسلسل ناکامی کی وجہ سے مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے۔ مگر حکومت گودی اور درباری میڈیا کے ذریعے عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ سب ٹھیک ہے۔
کورونا کی تیسری لہرکے ساتھ ملک کی بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ درج کیاگیا ہے۔ پرائیوٹ تھنک ٹینک، سنٹر فارما نیٹرنگ انڈین اکانومی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دسمبرمیں شرح بے روزگاری 7.9فیصد ہوگئی ہے جو نومبر میں 7.0فیصد تھی جبکہ اگست 2021میں یہ شرح 8.3فیصد تھی۔ CMIEکے حالیہ ڈ یٹا کے مطابق دسمبر میں شہری شرح بے روزگاری 9.3فیصد پہونچ گئی جبکہ دیہی بے روزگاری 7.3فیصد ہوگئی ہے۔ ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ اومیکرون گزشتہ سہ ماہی میں ہونے والی معیشت میں بہتری کو متاثر کرسکتی ہے۔ واضح رہے کہ مئی 2021میں شرح بے روزگاری 11.84فیصد تک پہونچ گئی تھی جو ستمبر میں 6.86فیصد پر آگئی لیکن اب اس میں پھر سے اضافہ ہورہا ہے۔ CMIEکے مطابق بھارتی معیشت کی صحت کا انحصار شرح بے روزگاری پر بہت زیادہ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری آبادی میں کتنے لوگ بے روزگار ہیں۔ ماہرین کو امید ہے کہ ربیع فصل کی کاشت اور بوائی میں تیزی رہےگی جس سےجاریہ مالی سال میں زرعی شعبہ ایک بار پھر شاندار مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے مہاجر مزدوروں کی واپسی زراعت کی طرف ہوگی۔ دسمبر 2021میں شرح بے روزگاری 7.9فیصد رہنے کا مطلب ہے کہ کام کےقابل فی ہزار مزدوروں میں 79لوگ روزگار سے محروم رہے ہیں۔
CMIE ماہانہ پندرہ سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کے گھر گھر جاکر سروے کرتی ہے جس سے روزگار کی کیفیت کا اندازہ ہوتا ہے پورے ماہ چلنے والے سروے میں مختلف شہروں کے 32166کنبوں کے 105,025سے زائد لوگوں سے تفتیش کی جاتی ہے اور اسی کو چھان پھٹک کر رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ یقینی طور سے مختلف ریاستوں کے حالات مختلف ہیں۔ سی ایم آئی ای کے ڈیٹا کے مطابق دسمبر 2021میں سب سےزیادہ بے روزگاری ہریانہ میں 34.1فیصد ، راجستھان میں 27.1فیصد ، جھار کھنڈ میں 17.5فیصد اور بہار میں 16فیصد ہے جو بہت ہی تشویشناک ہے۔ دوسرا ڈیٹاCMIE-CEDA (جنوری 2019تا 2021کے درمیان) کا ہے۔ دراصل NSSO کے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 45سال کی مدت کی سب سے زیادہ بے روزگاری 2019کی ہے۔ اس وقت شرح بے روزگاری 34فیصدتھی۔ خاص طور سے 20سے 24سال کے نوجوان جن کا آبادی میں تناسب 37.5ہوتا ہے جو CMIEکے ڈیٹاکے قریب تر ہے۔ اسی طرح 20سے 29 سال کے محنت کشوں کی تعداد ہے جو 28فیصد کے تناسب سے 3کروڑ 8 لاکھ ہوتے ہیں جبکہ 2017 میں یہ تعداد ایک کروڑ 78لاکھ تھی ۔ ڈراونی حقیقت یہ ہے کہ 63.4فیصد گریجویٹس جن کی عمریں 20تا24سال ہیں جن کی بے روزگاری میں وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں تک جنس کا تعلق ہے اس میں عورتوں کی شرح بے روزگاری مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے خواہ وہ شہری ہوں یا دیہی۔ شہروں میں خواتین کی بے روزگاری کی شرح 14.28فیصد ہے جبکہ شہری مردوں کی شرح بے روزگاری 7.88فیصد ہے۔ 92.1فیصد شہری عورتوں کو کوئی کام نہیں مل رہا ہے جبکہ 54.8فیصد دیہی خواتین روزگار سے محروم ہیں۔ گرچہ زیادہ لڑکیاں اسکول اور کالجز بھی جارہی ہیں دیہی عورتوں کو محض زرعی روزگار ہی میسر ہے۔ مینو فکچرنگ شعبوں میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارت کے لیبر فورس میں کم نمائندگی دراصل مردوں کی بالادستی والی سوچ ہے اس لیے اب عورتوں نے روزگار کی بازار میں جانے کا خیال بھی ترک کردیا ہے کیونکہ ان کے بھائیوں کو ہی روزگار نہیں مل رہا ہے۔
ہم اپنے پڑوسی بنگلہ دیش سے کچھ بھی سیکھنے سے قاصر رہے ہیں۔ اس نے 2003تا2016کے درمیان روزگار میں خواتین کی شمولیت کو 10فیصد سے بڑھا کر 36فیصد کردیا ہے اس لیے بنگلہ دیش کی فی کس جی ڈی پی بھارت سے کہیں بہتر ہے۔ جولائی تا ستمبر 2020کی سہ ماہی کے اختتام پر بھارتی روزگار بازار میں خواتین کی شراکت محض 16.1فیصد کے ساتھ دنیا کی بڑی معیشتوں میں سب سے کم ہے۔
ہمارے ملک میں بے روزگاری کا منظرنامہ اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک نجی سرمایہ کاری نہیں بڑھے گی کیونکہ طلب کمزور ہے سرمایہ کاری کا گراف 2011سے تنزلی کی طرف ہے جو 2020تک 34.3فیصد سے کم ہوکر 27فیصد پر آگیا ہے اسی لیے کمپنیاں سرمایہ کاری سے کترا رہی ہیں اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی ختم ہوگئی ہے۔ دوسری طرف عدم مساوات دنیا کے ملکوں کے مقابلہ میں ہمارے یہاں سب سے زیادہ ہے۔ متوسط طبقہ ختم ہوگیا ہے۔ بھارت میں آسمان کو چھوتی بے روزگاری تشویشناک ہے۔ جس سے معاشی بہتری کی توقع معدوم ہوتی جارہی ہے۔ دوسری طرف مینو فیکچرنگ شعبوں میں 2021دسمبر تک سال بھر میں 98لاکھ لوگوں کی چھٹی ہوگئی۔ تنخواہ دار ملازمین 2019-20میں 21.2فیصد سے گھٹ کر دسمبر 2021تک 19فیصد پر آگئے ہیں۔ اس طرح 95لاکھ افراد غیر منظم یا نجی شعبہ کا حصہ بننے پر مجبور ہوئے۔ بھارت میں سالانہ ایک کروڑ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جہاں مزدور قوت کی حصہ داری (ایل پی آر) دوسری ابھرتی ہوئی معیشت سے کسی طرح بھی مناسبت نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارتی معیشت کی بحالی غیر متعدل اور غیر مستحکم ہے۔
***
***
مینو فیکچرنگ شعبوں میں 2021دسمبر تک سال بھر میں 98لاکھ لوگوں کی چھٹی ہوگئی۔ تنخواہ دار ملازمین 2019-20میں 21.2فیصد سے گھٹ کر دسمبر 2021تک 19فیصد پر آگئے ہیں۔ اس طرح 95لاکھ افراد غیر منظم یا نجی شعبہ کا حصہ بننے پر مجبور ہوئے۔ بھارت میں سالانہ ایک کروڑ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جہاں مزدور قوت کی حصہ داری (ایل پی آر) دوسری ابھرتی ہوئی معیشت سے کسی طرح بھی مناسبت نہیں رکھتی ہے۔ اس لیے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارتی معیشت کی بحالی غیر متعدل اور غیر مستحکم ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 30 جنوری تا 5فروری 2022