زندگیوں سے دور ، لیکن زندگیوں سے جڑی برف کی دنیا!

انسان پگھلتی تباہی کی سمت بڑھ رہا ہے۔ ماحول شکن طرز زندگی سے گریز ضروری

شجاعت حسینی ، حیدرآباد

5؍جون :عالمی یوم ماحولیات پر خصوصی مضمون
ہم دھرتی پر بدستور سانس لیتے رہیں اس کے لیے بہت ضروری ہے کہ ہم سے ہزاروں کلومیٹر دور واقع انٹارکٹیکا کی وادیاں برف کی موٹی تہوں سے مستقل ڈھکی رہیں ۔سائنس کہتی ہے کہ وہاں برف پگھل جائے تو یہاں ہماری زندگیاں پگھل جائیں گی ۔ شائد یہ بات چونکادے ، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک پگھلتی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ’’ یوم ماحولیات ‘‘ کے موقعہ پر آئیے اسی پراسرارکیفیت پر بات کرتے ہیں جو ہماری نظروں سے ہزاروں میل دور ہوکر بھی ہماری زندگیوں سے بہت قریب ہے ۔
زمین کا جنوبی کنارہ ( قطب جنوبی ) ۔ پینگوئین کا دیس ، یعنی انٹارکٹیکا ۔ یہ کرہ ارض کا سب سے سرد مقام ہے ۔ قطب شمالی ( آرکٹیک ) سمند ر کی منجمد وسعت ہے اس لیے اسے کوئی باضابطہ بر اعظم ( کانٹیننٹ ) نہیں سمجھا جاتا ۔ لیکن جنوبی قطب انٹارکٹیکا ایک بہت بڑا بر اعظم ہے جو ویران ضرور ہے لیکن دنیا میں پھیلی کروڑوں زندگیوں سے جڑا ہے ۔ سابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے ۲۰۱۶ میں انٹارکٹیکا کا دورہ کیا تھا ۔ وہاں ماحولیاتی تبدیلی پر سائنسدانوں سے گفتگو اور مشاہدات کے بعد کیری کا تاثر یہ تھا کہ : It’s mind-blowing what’s going on down there!جغرافیہ : زمین کی کروی (گلوبل ) ساخت کی وجہ سے عالمی نقشوں میں انٹارکٹیکا کی جسامت چغلی کھاتی ہے ۔ انٹارکٹیکا یا تو نظروں سے اوجھل ہوجاتا ہے یا مختصر نظر آتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ انٹارکٹیکا کا جملہ رقبہ14200000 ( ایک کروڑ بیالیس لاکھ) مربع کلومیٹر ہے زمین کےخشک حصے کا 9.5فیصد، یعنی بھارت سے کم وبیش ساڑھے چار گنا بڑا ۔ عالمی نقشہ ( سٹیلائیٹ ویو ) میں انٹارکٹیکا مکمل سفید نظر آتا ہے ۔ اس کا سبب ہیں یہاں موجود برف کی موٹی تہیں ۔قریب ایک فیصد کھلی زمین کے علاوہ بقیہ تمام علاقہ برف کی موٹی چادر میں لپٹا ہے ۔ یہاں قیامت خیز گلیشیرس ، برف کے پہاڑ ، برفانی طوفان اور آئیس شیلفس ( کناروں پر تیرتے برفانی تودے ) موجود ہیں۔سورج کی شعاعیں مدھم ہوتی ہیں ، زمین کے زاویائی جھکاو کے سبب طویل راتیں اور طویل دن ( چھ ماہ پر مشتمل ) ہوتے ہیں ۔ زندگی سے ناآشنا ( لائیف لیس ) ویران سرزمین ، سردی بیان کرنے کے لیے ’’خون جمانے ‘‘ والا محاورہ بھی بے وزن ٹھہرتا ہے ۔ اور دنیا کے سب سے تیز ہوائی طوفان کی یہاں دن رات دھوم مچی رہتی ہے ! تصور کیجیے یہ کیسا علاقہ ہوگا جہاں سائنس دانوں کی ٹیمیں سال بھر کام کرتی ہیں ۔
یہاں موجود آئیس شیلف زمینی تپش کے بدلتے رجحان کا آئینہ ہوتے ہیں ۔ سب سے بڑا آئس شیلف راس ، بھارت کی سب سے بڑی ریاست ( رقبہ کے لحاظ سے ) ، راجستھان سے بھی بڑا ہے ۔ انٹارکٹیکا کا مغربی ساحل اس اعتبار سے بڑا حساس ہے جہاں برف پگھلنے کی رفتار زیادہ ہے ۔
انٹارکٹیکا کا یہ سخت جان علاقہ بظاہر ہماری دھرتی کا حصہ ہے لیکن کسی دوسرے سیارے جیسا اجنبی اور ویران ہے ۔ آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہماری زندگیوں سے اس کا کیا رشتہ ہے ۔ اور یہ کہ وہاں ایسی کونسی تبدیلیاں ہورہی ہیں جو اس پرانے رشتے کو بگاڑ رہی ہیں ۔
انٹارٹیک باٹم واٹر اور اوشین کرنٹس : انٹارکٹیکا کے ساحل سے متصل سمندری علاقے میں موجود پانی ، زمین کا سرد ترین اور کثیف ترین (densest)گہرے پانی کا ذخیرہ ہے جسے Antarctic Bottom Water (AABW کہا جاتا ہے ۔ اسکی کثافت ( ڈینسیٹی ) 1.02789 گرام فی کیوبک سینٹی میٹر تک ہوتی ہے جو کثیر آکسیجن اپنے اندر رکھتا ہے ۔ اسی لیے اسے سمندروں کا وینٹیلیشن کہا جاتا ہے ۔ کثافت کی وجہ سے یہ پانی وزنی ہوتا ہے جو گہرائیوں میں اتر کر انٹارکٹیکا کے مغربی علاقے سے ساوتھ امریکہ کے ساحلوں سے گذر کر شمال میں شمالی اوقیانوس ( نارتھ ایٹلانٹک ) کی سمت خط استوا تک گہرے سمندر میں سفر کرتا ہے ۔ خط استوا ( ایکویٹر ) کا گرم پانی لطیف اور ہلکا ہوتا ہے اور اس کا رخ الٹا ہوتا ہے ۔پانی کے ان ہمالیائی ریلوں کے سمندری گہرائیوں میں سفر کی وجہ سے طاقتور سمندری دھارے ( اوشین کرنٹس ) وجود میں آتے ہیں ۔ انٹارکٹیکا سے ابھرنے والا ایک اور اوشین کرنٹ انٹارکٹک سرکم پولار کرنٹ ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا سمندری دھارا مانا جاتا ہے جو بے شمار ارضیاتی ( جیولوجیکل ) امورکا سبب ہوتا ہے ۔ ۔ڈاکٹر مائیک ولیمس (National Institute of Water and Atmospheric Research (NIWA), کے مطابق یہ کرنٹ دنیا کی تمام ندیوں میں بہنے والے پانی سے 150 گنا زیادہ پانی بہالے جاتا ہے۔
(۱) سمندر کی گہرائیوں میں ترتیب پانے والے کرنٹس کا ہماری زندگیوں سے گہرا تعلق ہے ۔ سمندری کرنٹس زمین کی ساخت میں اہم رول ادا کرتے ہیں ، سمندری ریت کے پھیلاو اور ساحلوں کے ماحولیات میں ان کرنٹس کا اہم کردار ہوتا ہے۔سمندر وں کے درجہ حرارت ( ٹمپریچر ) کو بنائے رکھتے ہیں ۔زمین پر بہنے والی ہواوں میں بھی ان کرنٹس کا کردار ہوتا ہے ۔انٹرنیشنل جیو فزکس ( ۲۰۱۳) میں شائع مضمون ( اوشین سرکولیشن اینڈ کلائیمیٹ ) کے مطابق حالیہ دنوں میں پانی کے ذخائر کی سب سے بڑی ڈرامائی تبدیلیاں انٹارٹیک باٹم واٹر میں دیکھی گئیں ۔ اسکی کثافت تیزی سے کم ہورہی ہے ۔ پانی کی کثافت ہی ان کرنٹس کی سب سے اہم تحریک ہے ۔ ظاہر ہے جب یہ اہم اوشین کرنٹ کمزور ہوں گے تو کئی مقامات پر ساحلی ماحولیات ، سمندر ی حیوانات، موسم اور زمینی توازن سب کچھ متاثر ہوسکتا ہے ۔
(۲) آئیس شیلف کا پگھلاو اور سطح سمندر کا اضافہ : انٹارکٹیکا میں برف کی صور ت میں موجود پانی کے ذخیرے کا اندازہ لگانا مشکل ہے ۔ بھارت سے ساڑھے چار گنا سے زائد علاقے پر پھیلے برفانی پہاڑ وں کی اونچائی چند مقامات پر چار ہزارمیٹر سے زائد ہے ۔ دنیا میں موجو د میٹھے پانی کا 70 فی صد سے زائد حصہ منجمد شکل میں یہاں موجود ہے ۔ اس کا منجمد رہنا بےحد ضروری ہے ۔فرض کیجیے کہ یہ مکمل طور پر پگھل جائے تو پوری دنیا کے سمندروں کی سطح 61 میٹر مزید اونچی ہوجائے گی ۔ ظاہر ہے یہ بات ممکن نہیں ، لیکن گلوبل وارمنگ کے سبب ان برفانی پہاڑوں میں بتدریج پگھلاو ضرور درج کیا جارہا ہے ۔
مغربی انٹارکٹیکا میں موجود تھوارٹ گلیشیر یہاں موجود بڑا گلیشیر ہے جس کا سائز تقریبا ریاست گجرات کے مساوی ہے ۔المیہ یہ ہے کہ یہ تیزی سے پگھل رہا ہے ۔ ایٹلانٹک کونسل سے وابستہ ماہر ماحولیات جیف گوڈیل نے رولنگ اسٹون میں اپنے مشاہدات درج کیے کس طرح ۲۰۱۹ میں انھوں نے انٹارکٹیکا کے تھوارٹ گللیشیر کو اپنے جہاز سے قریب سے دیکھا لیکن دوسرے ہی دن یہ منظر تھا کہ گلیشیر کے سامنےائیر کرافٹ سے بڑے آئس برگ تیررہے تھے ۔ بعد میں سٹیلائیٹ امیجس سے پتہ چلا کہ ۲۱ میل چوڑا برفانی پہاڑ پگھل کر گلیشیر سے ٹوٹ چلا ۔ امسال ماہ مارچ میں ایک بڑا گلیشیر ٹوٹ گرا جسکا سائز 1200 مربع کلومیٹر تھا۔ یعنی کم و بیش شہر حیدرآباد سے دوگنا ! (۳)
تھوارٹ گلیشیر جسے ڈومس ڈے گلیشیر ( قیامت خیز گلیشیر ) بھی کہا جاتا ہے ، انٹارکٹیکا کے بے شمار برفانی تودوں کے لیے بڑے ڈیم کی طرح کام کرتا ہے اور انھیں سمندر میں لڑھکنے سے روکے رکھتا ہے ۔ اس کے پگھلتے ٹوٹتے منظر نے دنیا کو فکرمند کردیا ۔ مانا جاتا ہے کہ اس کے بکھراو کے اگلے مراحل بتدریج نہیں بلکہ کار کی ونڈ اسکرین کے ٹوٹنے کی مانند یکلخت ہوں گے ۔ کئی سائنسداں یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ سانحہ اگلے پانچ سالوں میں ممکن ہے ( یہ ایک سائنسی قیاس بھی ہوسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی قدرتی کرشمہ اس انہونی کو ٹال دے ) ۔ لیکن اسٹڈیز یہ کہتی ہیں کہ تھوارٹ گلیشیر ڈھ جاتا ہے تو اسکے سبب سطح سمندر ۶۵ سینٹی میٹر اونچی ہوسکتی ہے ۔ تھوارٹ بہہ جائے تو مغربی انٹارکٹیکا کے کئی گلیشیر س بھی سمندر میں چل پڑیں گے جنھیں تھوارٹ نے روک رکھا ہے ۔ اس کے سبب سمندری سطح مزید اونچی ہوسکتی ہے ۔ دنیا میں نچلی سطح ( لو ٹائیڈ ) کے ساحلی علاقوں میں ۲۵ کروڑ لوگ رہتے ہیں ۔ اتنی کثیر آبادی کے متاثر ہونے کے امکانات ہیں ۔اوہیو اسٹیٹ جیولوجسٹ ایان ہوواٹ کے مطابق بڑی ماحولیاتی تباہی کا ممکنہ نقطہ آغاز تھوائیٹس ہی ہوں گے ۔ (۴،۵)
ہوائی طوفان اور کیٹبیٹک ونڈس : انٹارکٹیکا میں چلنے والی ہوائیں زمین پر بہنے والی تیز ترین ہوائیں ہوتی ہیں ۔ جو درمیانی علاقے (ساوتھ پول ) سے سمندری ساحل کی طرف بہتی ہیں ۔ ہڈیوں کو چٹخانے والی ان سرد ہواوں کے بارے میں سائنسدان یہ کہتے ہیں کہ وہاں کی سردی ( جو موسم سرما ، یعنی اگست و ستمبر میں منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہوجاتی ہے ) کے مقابل یہ طوفانی سرد ہوائیں زیادہ پریشان کن ہوتی ہیں ۔ کیٹبیٹک ونڈس کی رفتار چند اسٹیشنس پر 324 کلو میٹر فی گھنٹہ بھی ریکاڑد کی گئی ۔ یہ تیز طوفان انٹارکٹیکا کے اندرونی علاقوں سے برف کو اڑا کر ساحل پرپھینکتی ہیں ۔ جسکی وجہ سے اندرون براعظم کچھ مقامات پر سوکھی وادیاں نمودار ہوتی ہیں جنھیں انٹارکٹیکا اویسس کہا جاتا ہے ۔
انٹارکٹیکا کا برف سورج کی تیز شعاوں کے لیے انعکاسی آئینے ( ریفلیکٹر ) کا کام کرتا ہے ۔ اگر برفانی علاقے سکڑتے جائیں تو زمین زیادہ تپش جذب کرے گی اور گلوبل وارمنگ بڑھے گی جو مزید برف پگھلائے گی اور یہ ایک مستقل سائیکل بن سکتا ہے ۔ مزید یہ کہ انٹارکٹیکا کا موسم ان ہوائی جھکڑوں پر منحصر ہوتا ہے ۔ دباو کی تبدیلی کے ساتھ یہ ہوائی طوفان مرکزی علاقے سے ساحل یا ساحل سے مرکز کی سمت بہتے ہیں ۔ انھیں ساودرن انیولار موڈ SAM کہا جاتا ہے ۔ ہواوں کے رخ کا مرکز سے ساحل اور ساحل سے مرکز کی سمت تبادلہ برف کی مقدار کو اڑا کر متوازن اور برقرار رکھنے کا سبب ہوتا ہے ۔ لیکن گذشتہ دہائیوں کا ڈیٹا بتاتا ہے کہ SAM زیادہ وقت یک رخی ہورہے ہیں ۔ جو برف کے ہموار تبادلے کو متاثر کرنے کا سبب ہوسکتے ہیں ۔ یہ بھی ایک تشویش کا سبب ما نا جاتا ہے کہ یہ تبدیلی جنوبی نصف کرے کی ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر ہے ۔
اوزان تہہ : یہی نہیں بلکہ جنوبی نصف کرے کی ماحولیاتی تبدیلیوں نے انٹارکٹیکا کے اوپر اوزون تہہ میں شگاف پیدا کردیا ہے ۔ ہم جانتے ہیں کہ زمین کےتقریباً 15 کلومیٹر اوپر موجود اوزون تہہ کئی نقصان دہ شعاوں سے زمین کی حفاظت کرتی ہے ۔ انٹارکٹیکا کے عین اوپر اوزون کے شگاف نے دنیا کو زیادہ و فکر مند کردیا ہے ۔ کیوں کہ یہاں ان شعاوں کی رسائی کا راست مطلب ہے ٹمپریچر میں اضافہ اور برف کا پگھلاو اور اس پگھلاو سے جڑے کئی عالمگیر نقصانات !
انسانی مداخلت : کسی خاص توازن اور حکمت کے تحت قدرت نے انٹارکٹیکا کی غیر ساحلی وسیع سرزمین کو انسانوں اور دیگر جانداروں سے دور رکھا تھا ۔ اندرون انٹارکٹیکا میں کسی زندگی کے آثار بھی نہیں ۔ ( چند سائنس دانوں نے خوردبینی بیکٹریا کی موجودگی تلاش کی تھی جو ہنوز زیر تحقیق ہے ) ۔ لیکن انسانی مداخلت یہاں تیز ہوگئی ۔ ابتدائی رسائی کے بعد کئی ممالک کے سائنسدانوں نے اپنے اسٹیشنس یہاں تعمیر کرلیے۔ پاور اسٹیشنس ، جنریٹرس ، گاڑیاں ، برف کاٹنے والی مشینیں اور وہ سب کچھ اٹھا لائے جن سے یہاں کے اکلوتے ساحلی شہری ( پینگوئین ) کو سخت الرجی ہے ۔ ساحلوں سے نکل کر اب اندرون بر اعظم بھی اسٹیشنس قائم ہوگئے ہیں ۔ یہی نہیں حالیہ دنوں میں انٹارکٹیکا کا ساحلی ٹورزم بھی خوب بڑھا ہے ۔ متمول لوگ آئس بریکر جہازوں میں سازوسامان سے لدے پھندے انٹارکٹیکا کے چکر کاٹتے ہیں اور برف کی کٹائی ، دھواں ، کچرا ور نت نئے خوردبینی جانداروں کی ترسیل کا سبب بنتے ہیں ۔ وایون نیوز پورٹل نے یہ بھی رپورٹ کیا تھا کہ ہم انسانوں نے دسمبر ۲۰ میں انٹارکٹیکا تک کورونا وائرس کی ترسیل بھی کردی ۔
International Association of Antarctica Tour Operators اس ٹورزم کا اہتمام اور کنٹرول کرتی ہے ۔ 2017 میں 44000 سیاحوں نے انٹارکٹیکا کا رخ کیا تھا ۔ 1989 میں ایک جہاز سے خارج ہونے والے تیل نے یہاں بڑی تباہی مچائی تھی ۔
( بحوالہ : Tourism in Antarctica: Exploring the future challenges of regulating the Deep South)
کئی ممالک یہاں برف کی تہوں میں معدنیات کی تلاش میں جٹے ہیں ۔ گرچہ عالمی معاہدے ( انٹارکٹک ٹریٹی ) ہر قسم کی کان کنی پر پابندی عائد کرتی ہے ۔ تاحال انٹارکٹیکا اس کھدائی سے محفوظ ہے ۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آج وہاں زیر برف کانکنی بڑا مہنگا سودا ہے ۔ اور یہ بھی کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک جو یہاں اپنے اسٹیشن بنائے ہوئے ہیں ( شمالی امریکہ ، روس اور یوروپی ممالک ) ، قطب جنوبی سے بہت دورشمالی کناروں پر واقع ہیں اور یہاں سے کوئی چیز اٹھا لے جانا ، فی الحال بڑا مہنگا سودہ ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بدلتے سیاسی حالات میں انٹارکٹک ٹریٹی میں ڈھیل کا امکان بھی ہے ، اسکے بعد ہونے والی ممکنہ لوٹ کی خاموش تیاریوں اور اسکے ناقابل تصور اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔
بحری حیوانات : قدرت نے سختیوں سے بھرے اس دور افتادہ زمین کی رکھوالی ایک ننھے پرندے کے سپرد کررکھی ہے ایسا انوکھا پرندہ جو اڑ نہیں سکتا ، لیکن اولمپک تیراک سے تیز تیر سکتا ہے ۔امپرر پینگوئین یہاں کا پرکشش آئیکونک جاندار ہے ۔انٹارکٹیکا کے کناروں پر اس کی کثیر موجودگی یوں لگتی ہے جیسے بارڈر سیکوریٹی فورس تعینات ہو ۔ انسانوں کی طرح چلنے والے اس بے ضرر جاندار کو ہم بس تصویروں میں دیکھتے ہیں ۔یہاں پینگوئین ْ کالونیز کی شکل میں رہتی ہیں ۔
برٹش انٹارکٹک سروے انٹارکٹیکا میں پینگوئین کی آبادی پر سٹیلائیٹس سے خصوصی نظر رکھتا ہے ۔ ادارے سے وابستہ سائینسداں فل ٹریتھن کہتے ہیں کہ مستقل کیا جانے والا یہ سروے کئی ماحولیاتی ا اثرات کا آئینہ ہوتا ہے ۔ کئی وجوہات کی بنا پر پینگوئین کی موجودگی کو سمندروں کی صحت سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔ (۶) (۷)
پینگوئین کے فضلات انٹارکٹیکا کے ساحلی علاقوں کی حیاتیاتی توازن ( جن میں چھوٹی مچھلیاں ، کریلس وغیرہ شامل ہیں ) کو برقرار رکھنے کا اہم ذریعے ہیں ۔ اسےا ٓرنتھو جینک اثر کہتے ہیں ۔ پینگوئین اس علاقے کی فوڈ چین کنٹرول کرنے کا ایک اہم سبب ہیں ۔
اوشین پورٹل میں درج ایک تجزیے کے مطابق پینگوئین کی آبادی گذشتہ 20 سالوں میں 24 ٖفیصد کم ہوئی ہے ۔ امپیرر پینگوئین کے انڈوں کی بارآوری کے لیے ایک خاص برفانی ماحول درکار ہوتا ہے۔ ان کے انڈے دینے کی رفتار اور بچوں کی نشونما بھی بہت سست ہوتی ہے ۔ یہ مزید سست ہوتی جارہی ہے ۔ انھیں غذائی قلت کا بھی سامنا ہے ۔ پینگوئین کی اس سکڑتی دنیا کا ایک سبب انسان کی ماحول شکن سیاست، تیل کا بے دریغ استعمال اور اس کا پر تعیش طرز زندگی بھی ہے ۔ پینگوئین اپنی سمٹتی محفل ( کالونیز ) دیکھ کر یقینا زبان حال سے یہی کہتی ہوں گی :
الہی آگ ہی لگ جائے اس ’’طرز سیاست‘‘ کو
جلے کوئی مرے کوئی اندھیرا میری محفل میں
(شجاعت حسینی انجینئر کالم نگار اور سماجی جہد کار ہیں۔ رابطہ:9014879013
https://www.facebook.com/shujat.husaini

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  12 جون تا 18 جون  2022