آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے مساجد کی بے حرمتی پر حکومت اور سیکولر جماعتوں کی خاموشی پر سخت تنقید کی، عدالتوں سے بھی مایوسی کا اظہار کیا
نئی دہلی، مئی 18: فرقہ پرست طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو نشانہ بنا کر جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) نے نفرت پھیلانے والوں کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے اپنے فرائض ادا نہ کرنے پر نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کے علاوہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں پر بھی سخت تنقید کی۔
AIMPLB ایک اعلیٰ مسلم ادارہ ہے جو اسلام کے تمام مکاتب فکر کے مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ بورڈ کا بنیادی مقصد ہندوستان میں مسلم کمیونٹی کے مذہبی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشش کرنا ہے۔
بورڈ نے عدالتوں سے بھی مایوسی کا اظہار کیا۔
بورڈ نے یہ تبصرے گزشتہ رات آن لائن منعقدہ اپنی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں کیے۔
یہ میٹنگ وارانسی کی گیانواپی مسجد اور دیگر مساجد اور مسلمانوں کے مقدس مقامات کے تئیں فرقہ پرست طاقتوں کے رویہ پر تبادلۂ خیال کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
بورڈ نے محسوس کیا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں، جن کی آئین اور قانون کو نافذ کرنے کی آئینی ذمہ داری ہے، اس معاملے پر خاموش ہیں۔
بورڈ نے محسوس کیا کہ وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو ’’سیکولر‘‘ کہتی ہیں، وہ بھی فرقہ پرست طاقتوں کی مخالفت میں اس طرح آگے نہیں آرہی ہیں جس طرح انھیں آنا چاہیے تھا۔
’’سیکولر‘‘ پارٹیوں سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہتے ہوئے بورڈ نے امید ظاہر کی کہ سیکولر پارٹیاں آئین اور ملک کے سیکولر کردار کے تحفظ کے لیے اپنی آواز بلند کریں گی۔
بورڈ نے مزید کہا کہ ’’عدالتیں بھی اقلیتوں اور مظلوموں کو مایوس کر رہی ہیں۔ اور اس کی وجہ سے فرقہ پرست طاقتوں، جنھوں نے لاقانونیت کا راستہ اختیار کیا ہے، کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔‘‘
بدھ کو جاری ہونے والا بیان ڈاکٹر محمد وقار الدین لطیفی کا دستخط شدہ ہے۔
بورڈ کے ارکان نے کہا کہ ’’الہ آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناعی کے باوجود مسلمانوں کے داخلے اور گیانواپی مسجد کے اندر نماز پڑھنے پر پابندی لگانے کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ انتہائی مایوس کن اور پریشان کن ہے۔‘‘
بورڈ نے عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے ایکٹ اور بابری مسجد سے متعلق فیصلے کا جائزہ لینے اور کیس کو موثر انداز میں پیش کرنے کے لیے ایک قانونی کمیٹی بھی تشکیل دی۔ کمیٹی مساجد سے متعلق تمام معاملات کا تفصیلی جائزہ لے گی اور مناسب قانونی کارروائی کرے گی۔
بورڈ نے مذہبی عبادت گاہوں اور دیگر مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے دیگر اقلیتی برادریوں کے ارکان کو اعتماد میں لے کر ضرورت پڑنے پر پرامن عوامی تحریک شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
حکومت سے عبادت گاہوں سے متعلق 1991 کے ایکٹ پر اپنی پوزیشن واضح کرنے کو کہتے ہوئے بورڈ نے کہا کہ ’’اس طرح کے واقعات پر حکومت کی خاموشی ایک مجرمانہ فعل ہے، جسے کسی بھی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
بورڈ نے مساجد کے مبلغین اور علما سے کہا کہ وہ اگلے تین ہفتوں تک اپنے ہفتہ وار جمعہ کے خطبات میں مساجد کی اہمیت سے متعلق مسائل کو اجاگر کریں۔
بورڈ نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ صبر سے کام لیں اور بغیر کسی اشتعال کے اپنا کیس لوگوں کے سامنے پیش کریں۔
بورڈ کے جنرل سکریٹری خالد سیف اللہ رحمانی نے میٹنگ کا انعقاد کیا اور اس کے صدر سید محمد ربیع حسنی ندوی نے اس کی صدارت کی۔ میٹنگ میں شامل دیگر افراد میں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی، رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی، ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس، ایڈوکیٹ طاہر حکیم اور مسز عطیہ صدیقہ اور مسز فاطمہ مظفر شامل تھیں۔