علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا کشن گنج سنٹر سیاست کا شکار
این جی ٹی کی جانب سے تعمیر پرپابندی اورفنڈس بھی ندارد
افروز عالم ساحل
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کا کشن گنج سنٹر سیاست کے مکڑ جال میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ اس سنٹر کے لیے جو جگہ دی گئی ہے وہ مہانندا ندی کے کنارے پر ہے۔ حالت یہ ہے کہ مہانندا کے کٹاؤ والے علاقے میں اس سنٹر کا ایک بڑا حصہ افادیت کے لحاظ سے بیکار ہو چلا ہے۔ اور جو رقم اس سنٹر کے نام پر مختص کی گئی تھی ان سے کسی بھی ٹھوس کام کی شروعات نہیں کی جا سکی۔ وہیں اب نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) نے اس کے تعمیراتی کام پر روک لگا دی ہے۔
ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں اس سنٹر کے موجودہ قائم مقام ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن امام کا کہنا ہے ’ابھی اس سنٹر کے پاس خود کی بلڈنگ نہیں ہے جو زمین بہار حکومت کی جانب سے دی گئی ہے اس پر این جی ٹی نے کسی بھی تعمیراتی کام کے لیے پابندی عائد کردی گئی ہے‘ ڈاکٹر امام نے 15 اکتوبر 2019 کو یہ عہدہ سنبھالا ہے۔ این جی ٹی کے ذریعہ پابندی لگانے کی وجہ پوچھنے پر وہ کہتے ہیں، کسی نے این جی ٹی میں یہ شکایت کر دی کہ اے ایم یو سنٹر کی تعمیر سے مہانندا ندی آلودہ ہو جائے گی۔ جبکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، صرف 68 ایکڑ زمین ہی ریور بیلٹ پر ہے، اگر اس کو چھوڑ دیا جائے تو باقی زمین کا ندی سے کافی فاصلہ ہے۔ اور ویسے بھی ہم اس 68 ایکڑ زمین پر کچھ کر بھی نہیں رہے ہیں۔ این جی ٹی کو روک لگانا تھا تو اس پر روک لگا سکتی تھی لیکن اس نے تمام زمین پر ہی تعمیراتی کام روک دیا ہے۔
سوچنے والی بات یہ ہے کہ اس مہانندا ندی کے کنارے حکومت بہار کا اے پی جے ابوالکلام اگریکلچر کالج چل رہا ہے۔ جبکہ یہ کالج اے ایم یو سنٹر کے عمل میں آنے کے بعد تعمیر ہونا شروع ہوا تھا۔ یہ ندی سے بالکل لگا ہوا ہے۔
اس سنٹر کی مسائل کو ڈاکٹر حسن امام دسمبر 2019 میں وزیر اعلیٰ کے سامنے بھی رکھ چکے ہیں۔ وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے بارے میں ڈاکٹر امام بتاتے ہیں ’ہم نے اس ملاقات میں نتیش کمار کو سنٹر کی سرگرمیوں اور پریشانیوں سے آگاہ کرایا اور یہ مطالبہ رکھا کہ ہماری باؤنڈری سے متصل مزید 10ایکڑ مہیا کرا دیں تاکہ کم از کم یہاں ایک اکیڈمک بلاک بنالیا جائے۔ نتیش کمار جی اس پر راضی نظر آئے لیکن ابھی اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔‘
بتاتے چلیں کہ اے ایم یو کا کشن گنج سنٹر فی الحال اس وقت محض خانہ پری کے طور پر چل رہا ہے۔ عمارت کی عدم موجودگی میں حکومت بہار نے اقلیتی طلبا کے لیے جو ہاسٹل بنایا تھا اسی ہاسٹل کے طلبہ کو منتقل کر کے یہ سنٹر چلایا جا رہا ہے۔ یعنی اس سنٹر کی نہ تو مستقل عمارت ہے اور نہ ہی اس کے تعمیر کا کوئی امکان نظر آ رہا ہے۔ پورا کا پورا پروجکٹ ہی ایک عارضی معاہدے کے تحت عمل درآمد کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جارہا ہے، جسے کبھی بھی کسی نہ کسی بہانے بند کیا جا سکتا ہے۔
ہم نے اس جگہ کو بھی جاکر دیکھا، جہاں اے ایم یو کا یہ مجوزہ سنٹر بننا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس 224 ایکڑ اراضی کے چاروں جانب بنائی گئی باؤنڈری وال کا کافی حصہ گر کر غائب ہوچکا ہے۔ حکومت کی جانب سے اس کی تعمیرِ نَو کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جارہی ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب یہ سنٹر مرکزی حکومت کی مسلمانوں سے نفرت کی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔
واضح رہے کہ حکومت ہند کی ایجوکیشنل کنسلٹنٹ انڈیا لمیٹڈ نے مرکزی حکومت کو اس بات سے خبردار کیا ہے کہ اس زمین پر کسی بھی عمارت کی تعمیر کرنا فضول ہے۔ وہیں اکتوبر 2017 کے مہینے میں این جی ٹی نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو ایک سخت حکم دیا کہ وہ مہانندا ندی کے کنارے چلائے جانے والے اے ایم یو کشن گنج سنٹر کے تعمیراتی کام کو روکے۔ این جی ٹی نے یہ حکم مانجھی پرگنہ ابھین بیسی نامی شخص کے ذریعے دائر اپیل کے بعد دیا ہے ۔ اس اپیل میں کہا گیا تھا کہ اے ایم یو سنٹرکی بن رہی باؤنڈری وال غیر قانونی ہے کیونکہ اس کی وجہ سے ندی کی بہاؤ میں تبدیلی ہو رہی ہے جو ندی اور ماحولیات کے لیے نقصان کا سبب ہے۔
اے ایم یو کشن گنج کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن امام نے بتایا کہ اب تک اس سنٹر کے نہ کھل پانے کی اصل وجہ فنڈ ہے۔ مرکزی حکومت نے اب تک فنڈ ریلیز نہیں کیا ہے اور یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
واضح رہے کہ 30 جنوری 2014 کو یو پی اے کی چیئر پرسن سونیا گاندھی نے اس سنٹر کا سنگ بنیاد رکھنے کے دوران 136.82 کروڑ کے فنڈ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد مرکز میں حکومت بدل گئی۔ کافی مشقت کے بعد مرکز کی مودی سرکار سے ابھی تک صرف 10 کروڑ روپئے ہی حاصل ہوسکے جو اس زمین کے آس پاس باؤنڈری وال و دیگر کاموں میں خرچ کیے جاچکے ہیں۔ یہ رقم مالی سال 16-2015 کے دوران یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کے ذریعہ ملی تھی۔
یہاں صرف دو کورس تھے جس میں سے ایک بند ہو چکا ہے
اے ایم یو کے کیرالا کیمپس کی مدد سے اس سنٹر کو قائم کیا گیا تھا۔ اس کے بعد یہاں بی ایڈ اور ایم بی اے جیسے دو کورسیز کی شروعات ہوئی۔ دونوں کورسیز میں 60-60 سیٹیں رکھی گئی تھی۔ لیکن 2017 میں بی ایڈ کورس کی نیشنل کاؤنسل فار ٹیچر ایجوکیشن (این سی ٹی ای) سے اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اس کورس میں ایڈمشن بند کر دیا گیا۔ وہیں ایم بی اے میں پہلے اور دوسرے سال سمیت طلبہ کی تعداد صرف 46 ہے۔ یعنی یہ سنٹر ان 46طلباء کو پڑھانے کے لیے چل رہا ہے۔ اس کے لیے یہاں 7 ٹیچنگ اسٹاف اور 12 نان ٹیچنگ اسٹاف ہے۔ جبکہ ایک بڑی سچائی یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ایک بھی پوسٹ اس سنٹر کے لیے منظور شدہ نہیں ہے۔ یہ لوگ فی الحال یہاں ایڈہاک بنیادوںپر کام کر رہے ہیں۔
بی ایڈ کورس کے بند کیے جانے کے بعد ایک وفد نے دسمبر 2019 میں اے ایم یو کے وائس چانسلر سے ملاقات کی۔ وائس چانسلر طارق منصور نے بتایا کہ این سی ٹی ای کے ذریعہ بی ایڈ کورس کی منظوری نہیں دیے جانے پر یونیورسٹی نے پٹنہ ہائی کورٹ میں رٹ پٹیشن داخل کیا ہے۔ عدالت کی ہدایت پر آگے کی کارروائی کی جائے گی۔
مقامی لوگوں میں ناراضگی
اس پورے معاملے میں مقامی لوگ بہار حکومت سے بیحد ناراض نظر آتے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں کا کہنا ہے کہ مہانندا ندی کے کنارے 224 ایکڑ بیکار زمین دے کر نتیش حکومت اس مسئلے پر ہمیشہ خاموش رہی ہے۔ ہر بار انتخابات میں یہ سنٹر سیاسی موضوع بنتا ہے لیکن حکومت نے کیا کچھ بھی نہیں۔ یہاں کے رکن پارلیمنٹ کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی اور ایم ایل اے کا بھی وہی حال ہے۔ ان لوگوں کے ہونے نہ ہونے کا کچھ مطلب نہیں ہے۔
ان لوگوں کی شکایت اس سنٹر کو چلانے والے لوگوں سے بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جان بوجھ کر داخلے کے لیے ٹیسٹ سنٹر کشن گنج کے بجائے پٹنہ رکھ دیا جاتا ہے جس سے ہماری لڑکیاں اس کورس سے محروم رہ جاتی ہیں۔ ان لوگوں کی سنیں تو کشن گنج میں واقع اس سنٹر میں کشن گنج کے طلبا برائے نام ہی ہیں۔ ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سب سے پہلے لڑکیوں کے لیے ڈگری اور پولی ٹیکنک کالج کھولنے کی ضرورت تھی، لیکن اے ایم یو انتظامیہ نے ایسا نہیں کیا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ مقامی طور پر تعلیم کی ضرورت لڑکیوں کو زیادہ ہے، لڑکے تو باہر جاکر بھی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
اس بارے میں بات کرنے پر ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن امام بتاتے ہیں اس بار ان کی کاوشوں سے کشن گنج میں بھی ایک ٹیسٹ سنٹر بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی فاصلاتی تعلیمی مرکز بنائے جانے کی اے ایم یو انتظامیہ سے گزارش کی گئی ہے۔
مقامی سیاستداں اور خود اے ایم یو بھی ہے ذمہ دار
کشن گنج میں اے ایم یو سنٹر قائم کرنے کی مہم میں شروع سے شامل رہے غلام شاہد مقامی سیاستداں سے بیحد ناراض نظر آتے ہیں۔ ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت میں وہ کہتے ہیں کہ اصل ذمہ دار تو یہاں کے سیاستداں ہیں، جنہوں نے اس اہم مسئلے پر صرف اور صرف سیاست کی اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ان لوگوں کے اندر اگر اخلاص ہوتا تو اپنی سیاست کی بساط بچھانے کے بجائے ایک پلیٹ فارم پر آتے اور پورے اتحاد کے ساتھ اس سنٹر کے قیام کے لیے محنت کرتے۔ لیکن سب نے اس پر صرف اپنی اپنی سیاسی روٹیاں سینکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس سنٹر کا خواب بکھر چکا ہے۔
غلام شاہد کے مطابق اے ایم یو کشن گنج سنٹر کے قیام کی تحریک کی شروعات ان کے ہی کریسنٹ پبلک اسکول سے ہوئی تھی۔ پھر نئے نئے لوگ اس تحریک میں جڑتے گئے۔ ان کی دوسری شکایت اے ایم یو سے ہے۔ وہ سوالیہ انداز میں پوچھتے ہیں کہ کیا اے ایم یو کو اپنی جائداد خریدنے کا حق نہیں ہے یا وہ اس سے بھی محروم ہے؟ آپ پہلے خود کے بھروسے تیار ہوجائیے آپ کو زمین خود بخود مل جائے گی۔ کشن گنج میں ایسے افراد موجود ہیں جو اس علاقے کی پسماندگی دور کرنے اور تعلیم کے خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔ آپ بی ایڈ کالج تو چلا ہی سکتے تھے۔ ایسے میں مَیں دیکھتا ہوں کہ خود اے ایم یو بھی ذمہ دار ہے۔ کم از کم بی ایڈ کورس بچانے کی خاطر اس نے وہ کوشش نہیں کی جو اسے کرنی چاہیے تھی۔ حکومتوں کی بے رخی کو غلام شاہد اس علاقے کے لوگوں کو پسماندہ اور جاہل بنائے رکھنے کی ایک منظم سازش کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ اس سنٹر کے قیام کی امید دل میں لیے یہاں کے مقامی لوگ مرکزی حکومت سے مسلسل گزارش کر رہے ہیں۔ عوامی نمائندوں سے ملاقات کرکے مداخلت کی التجا بھی کر رہے ہیں، مگر کسی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ شاید یہ سنٹر مودی حکومت کی ترجیح میں ہے ہی نہیں۔ شاید مرکزی حکومت نے یہ طے کر لیا ہے اسے اعلان تک ہی سمیٹ دینا ہے۔ کل ملا کر اے ایم یو کا یہ سنٹر سیاست اور سرکاری یقین دہانیوں کے اعلان کی آگ میں جھلسنے کی دہانے پر آچکا ہے۔
پارلیمنٹ میں خوب ہو چکا ہے ہنگامہ
پچھلے دنوں 9 جنوری 2019 کو راجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ کہکشاں پروین نے اس سنٹر کی بدحالی کی داستان پارلیمنٹ میں سنا چکی ہیں۔ وہیں 7 فروری 2019 کو راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ احمد اشفاق کریم نے اس سنٹر کے فنڈ پر سوال کیا تھا۔ جواب تھا یو جی سی نے مالی سال 16-2015 کے دوران اس سنٹر کو 10 کروڑ روپے کی رقم جاری کی ہے۔
یہی نہیں میڈیا میں آئی خبریں بتاتی ہیں کہ جولائی 2017 میں کشن گنج میں زیر تعمیر اے ایم یو سنٹر کے کیمپس کی تحقیقات کے لیے ایچ آر ڈی کی ٹیم پہنچی تھی۔ پنجاب سینٹرل یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر آر کے کوہلی کی قیادت میں ٹیم نے تعمیراتی کام کا معائنہ کیا۔ اس ٹیم نے ایک نجی ہوٹل میں مقامی رکن پارلیمنٹ اور ڈی ایم، ایس پی سمیت تمام اراکین اسمبلی سے بھی ملاقات کی۔ اس مرکزی ٹیم نے عوامی نمائندوں کو یقین دلایا کہ اے ایم یو سنٹر کی بہتری کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ اب یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس ٹیم نے کن تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیا جبکہ زمین پر کوئی کام نہیں ہے۔
یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اے ایم یو کی خود مختاری میں حکومت کی مبینہ مداخلت پر اپوزیشن جماعتیں راجیہ سبھا میں ہنگامہ بھی کر چکی ہیں جس کی وجہ سے اس وقت راجیہ سبھا کا اجلاس ملتوی کرنا پڑا تھا۔ سماجوادی پارٹی کے جاوید علی خان نے راجیہ سبھا میں اپنی بات رکھتے ہوئے بتایا تھا کہ اے ایم یو کے ذریعے اپنے کیمپس سے باہر کھولنے والے پانچ مراکز میں سے تین مراکز کھولے گئے ہیں اور دو کو کھولنا باقی ہے لیکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا بیان آیا ہے کہ انسانی وسائل کے وزیر نے ان مراکز کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں دی جانے والی مالی امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔
یہاں انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اس یونیورسٹی کے وزیٹر فیلو خود صدر جمہوریہ ہیں اور ان کی منظوری کے بغیر یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل اور ایگزیکٹو کمیٹی کوئی فیصلہ نہیں لے سکتی۔ ان دونوں نے مل کر اے ایم یو ایکٹ کی دفعہ 12 کے تحت سال 2008 میں کیمپس کے باہر پانچ مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پھر وزارت انسانی وسائل و ترقی اے ایم یو مراکز کو دی جانے والی گرانٹ کو کیسے روک سکتی ہے؟
یہ بات بھی واضح رہے کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں اقلیتوں کی پسماندگی اور ان کی حالت کے بارے میں اعداد و شمار پیش کیے جانے کے بعد اس وقت کی یو پی اے حکومت نے اس سلسلے میں ایک پالیسی بنائی تھی جس کے تحت اے ایم یو نے یونیورسٹی کیمپس کے باہر پانچ مراکز کھولنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیرالا کے ملپورم، مغربی بنگال میں مرشدآباد اور بہار کے کشن گنج میں تین مراکز کھولے گئے اور باقی دو مراکز کھولے جانے ہیں۔ لیکن اب بی جے پی حکومت اس فیصلے پر سوال اٹھا رہی ہے اور کھلے تین مراکز کو کوئی فنڈ نہیں دیا جا رہا ہے