علامہ سید سلیمان ندوی کی تحریریں ادب کا گنج گراں مایہ
مولانا بے مثال مؤرخ، محقق، سیرت نگار اور ادیب تھے۔ تصنیف سیرت النبی ﷺ ‘ ناقابل فراموش کارنامہ
پروفیسرمحسن عثمانی ندوی
علامہ شبلی نے اپنی تعلیم وتربیت سے علم وادب کی ایک کہکشاں تیار کی تھی اور علامہ سید سلیمان ندوی اس کہکشاں کے کوکبِ تاباں تھے، ایک متبحر عالم اور دقیقہ رس مصنف تھے۔ ان کے اندر جتنی جامعیت اور جتنی ہمہ گیر ی تھی اس کی نظیر ان کے معاصرین میں آسانی کے ساتھ نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے مذہبی تحقیق کا جو معیار قائم کیا وہ بھی بہت قابل تعریف ہے۔ لسانی، ادبی اور تنقیدی موضوعات پر جو کچھ انہوں نے لکھا وہ اردو ادب کے لیے سرمایہ افتخار ہے۔ قرآن وسیرت و تاریخ وسوانح کے موضوعات پر ان کی جو تصنیفات ہیں، وہ شاہ کار کا درجہ رکھتی ہیں، لیکن خالص ادبی موضوعات پر بھی ان کی تصنیفات ’’نقوشِ سلیمانی‘‘ ’’خیام‘‘ ’’حیاتِ شبلی‘‘ اور ’’یادِ رفتگاں‘‘ وہ کتابیں ہیں جو ادبِ عالیہ کی سرحدوں میں داخل ہوتی ہیں۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ ۲۲؍ نومبر ۱۸۸۴ء کو صوبہ بہار کے ایک مردم خیز قصبہ دسنہ ضلع پٹنہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا خانوادہ علم وفضل، تہذیب وشائستگی اور علم وتقویٰ میں بہت ممتاز تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں ہوئی تھی، پھر بغرضِ تعلیم خانقاہِ مجیبیہ پھلواری شریف میں ان کا قیام رہا۔ ۱۹۰۱ء میں انہوں نے دارالعلوم ندوۃ العلماء مین داخلہ لیا اور وہاں پانچ سال رہ کر تعلیم مکمل کی جہاں ان کے جوہر کھلے۔ علامہ شبلی کے سایہ تربیت میں ان میں مضمون نگاری کا ذوق بھی پیدا ہوا۔
علامہ سید سلیمان ندوی بے مثال مؤرخ، محقق، سیرت نگار اور ادیب تھے۔ سید صاحب کا ناقابل فراموش کارنامہ سیرت النبیﷺ کی سات جلدیں ہیں۔ سیرت النبی اول اور دوم علامہ شبلی کی تصنیف ہے، لیکن اس کا مسودہ ناتمام تھا، جس کی انہوں نے تکمیل کی۔ اس طرح سے وہ بھی شریکِ تصنیف ہوئے۔ پھر سیرت النبی کی تیسری جلد شائع ہوئی جس میں معجزے کی حقیقت فلسفہ جدید وقدیم اور قرآن کی روشنی میں بیان کی گئی ہے۔ چوتھی جلد کا موضوع منصبِ نبوت ہے اور پانچویں جلد کا موضوع عبادات ہے اور چھٹی جلد کا موضوع اخلاقی تعلیمات اور فلسفۂ اخلاق ہے۔ ساتویں جلد اگرچہ نامکمل ہے لیکن جو مقالے اس میں شائع کیے گئے ہیں وہ اپنے موضوع پر بے نظیر ہیں۔ اس جلد کا موضوع دین وسیاست کا رشتہ ہے۔ اس موضوع کو لکھتے ہوئے بہت سے لوگ عدم توازن کا شکار ہوئے ہیں لیکن سید صاحب کے قلم نے اپنا کمال دکھایا اور پورے توازن کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ ۱۹۲۴ء میں سید صاحب کی کتاب سیرتِ عائشہؓ شائع ہوئی۔ ۱۹۲۵ء میں سید صاحب نے مدراس میں سیرت النبی پر آٹھ خطبات دیے جو ’’خطباتِ مدراس ‘‘کے نام سے شائع ہوئے۔ یہ سیرت نبوی ؐ کا عطر وجوہر ہیں اور اس کتاب کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ سیکڑوں واعظین نے ان کو زبانی یاد کیا ہے۔ پھر سید صاحب کی ایک اور مایۂ ناز تصنیف عرب وہند کے تعلقات کے نام سے ۱۹۲۹ء میں شائع ہوئی۔ یہ خطبات تلاش وتحقیق اور گہرے مطالعے کے آئینہ دار ہیں، اور اسی طرح سے سید صاحب کی ایک اور مایہ ناز تحقیقی کتاب ’’عربوں کی جہاز رانی‘‘ ہے۔ یہ بھی سید صاحب کی علمی بصیرت اور تاریخی ذوق اور تحقیق کی آئینہ دار ہے۔ پھر اکتوبر ۱۹۳۳ء میں ’’خیام‘‘ کے نام سے ان کی ایک تحقیقی تصنیف سامنے آئی جس کے معیارِ تحقیق کی علماء اور دانش وروں نے داد دی۔ اردو زبان وادب اور اس کی تاریخ سے متعلق سید صاحب نے جو مضامین لکھے تھے وہ نقوشِ سلیمانی کے نام سے شائع ہوئے تھے اور پھر سیرت کے موضوع پر بچوں کے لیے سید صاحب نے آسان اور سلیس زبان میں ’’رحمتِ عالم‘‘ کے نام سے کتاب لکھی اور سید صاحب نے حیات امام مالک ؒ کے نام سے بالکل ابتدا میں کتاب لکھی تھی اور حیاتِ شبلیؒ سید صاحب کی ایک ضخیم اور آخری تصنیف ہے جو نو سو صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ صرف علامہ شبلی کی سوانح عمری نہیں بلکہ مسلمانانِ ہند کی ادبی، سیاسی، تعلیمی، مذہبی اور قومی واقعات کی مستند تاریخ ہے۔
علامہ سید سلیمان ندویؒ کا علمی مقام اتنا بلند تھا کہ علامہ اقبال ان کو علومِ اسلامیہ کی جوئے شیر کا فرہاد کہا کرتے تھے۔ ان کی تحقیقات اور علمی فتوحات اور تبحر کا ہر شخص کو اعتراف تھا۔ علامہ سید سلیمان ندویؒ آخر میں مولانا اشرف علی صاحب تھانوی ؒ سے بیعت اور دست گرفتہ ہوگئے تھے اور مولانا تھانوی ؒ کو شریعت اور طریقت کی وحدت کا ترجمان سمجھتے تھے اور اسی لیے دنیا نے ان کو حکیم الامت کہہ کے پکارا تھا۔ ایک جگہ علامہ اقبال نے سید صاحب کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے۔
’’آج سید سلیمان ندوی ہماری علمی زندگی کے سب سے اونچے زینہ پر ہیں وہ عالم ہی نہیں امیر العلماء ہیں، مصنف ہی نہیں رئیس المصنفین ہیں، ان کا وجود علم وفضل کا ایک دریا ہے جس سے سیکڑوں نہریں نکلتی ہیں اور ہزاروں سوکھی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں۔‘‘
علامہ اقبال ہمیشہ ان کو علوم اسلامیہ کی جوئے شیر کا فرہاد کہا کرتے تھے۔ علامہ اقبال نے شاید ہی کسی اور کو اتنا اونچا اعزاز عطا کیا ہوگا۔
سید سلیمان ندوی علامہ شبلی کے شاگرد، ان کے جانشین، ان کے ادبی اور شعری ذوق کے خوشہ چیں تھے۔ شعر العجم کے مصنف کا ذوق اور حسن طبیعت اور مذاق شعر وادب ان کے اندر منتقل ہوا تھا وہ آبروئے غزل جگر مرادآبادی کا تعارف ان الفاظ میں کراتے ہیں:
’’جگر مست ازل ہے، اس کا دل سرشار است ہے، وہ محبت کا متوالا ہے اور عشق حقیقی کا جویا، وہ مجاز کی راہ سے حقیقت کی منزل تک اور بت خانہ کی گلی سے کعبے کی شاہ راہ کو اور خم خانے کے بادۂ کیف سے خود فراموش ہوکر بزم ساقی کوثر تک پہنچنا چاہتا ہے۔ جگر بظاہر سرشار مگر درحقیقت بیدار ہے، اس کی آنکھیں پر خمار مگر اس کا دل ہوشیار ہے۔ اور کیا عجب کہ خود جگر کو بھی اپنے دل کی خبر نہ ہو۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے کلام میں اثر نہ ہو۔‘‘
علامہ سید سلیمان ندوی نے جگر کے دیوان شعلہ طور کا جو یہ بے مثل تعارف کرایا ہے وہ ایک خوبصورت طرز ادا ہے، اس کے اندر ندرت بیان ہے روانی ہے ،شیرینی ہے، نغمگی ہے۔
خطبات مدراس کے موضوعات کا انتخاب، طرز استدلال، زبان اور اسلوب بیان جس قدر مؤثر ودل نشین ہے، اہل نظر سے مخفی نہیں، چنانچہ معروف ادیب نقاد اور مسلم یونیورسٹی کے استاد پروفیسر رشید احمد صدیقی کا بیان ہے کہ
’’سید صاحب کی تصانیف میں سے جس تصنیف نے مجھے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کے خطبات مدراس ہیں۔ مجھے کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی عقائد اور شعائر سے متعلق اتنی اچھی اور مختصر کتاب شاید اسلامی ممالک میں بھی نہیں لکھی گئی۔‘‘
ہندوستان کی ماضی قریب کی تاریخ میں ایک قد آور شخصیت مسلم سیاست کے افق پر نمودار ہوئی جس کا نام محمد علی جوہر تھا۔ مولانا عبد الماجد دریابادی نے دو جلدوں میں کتاب ان کی شخصیت پر محمد علی ذاتی ڈائری کی نام سے لکھی۔ رشید احمد صدیقی نے طویل نثری مرثیہ لکھا جو ان کی کتاب گنج ہائے گراں مایہ کا افتتاحی مضمون ہے۔ علامہ سید سلیمان ندوی نے بھی ایک پر درد تعزیتی مضون لکھا جسے ادب کا شذرات الذہب کہا جاسکتا ہے اس کی چند سطریں ملاحظہ ہوں:
’’وہ پر درد آواز جو ۱۹۱۱ء سے ۱۹۳۰ء تک ہندوستان اور دنیا کے اسلام کے ہر قیامت آفریں سانحے پر صدائے صور بن کر بلند ہوتی رہی، ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی، وہ آتشیں زبان جو رزم میں تیغ برّاں بن کر چمکتی تھی، اب کسی معرکہ میں ہم کو نظر نہ آئے گی، وہ پر جوش سینہ جو ہمارے مصائب کے پہاڑ سیلاب بن کر بہا لے جاتا تھا، اس کا تلاطم ہمیشہ کے لیے تھم گیا۔ وہ پر زور دست وبازو جو شب وروز کی نبرد آزمائی اور خدمت گزاری میں مصروف تھے وہ اب ایسے تھکے کہ پھر نہ اٹھیں گے، افسوس! کہ شکست خوردہ فوج کا آخری سپاہی جو اعدا کے نرغے میں تنہا لڑ رہا تھا، آخر زخموں سے چور ہو کر ایسا گرا کہ پھر کھڑا نہ ہوگا، وہ مشرق کا آفتاب تھا، یہ آفتاب بھی اگر مشرق سے طلوع ہو کر مغرب میں ڈوبا تو دنیا کا کوئی نیا واقعہ نہ ہوا اور اس لیے حق تھا کہ مشرق و مغرب کا متحدہ مرکز اس کا مدفن بنے۔ اے مشرق و مغرب کے مالک! تو اپنی رضا مندیوں کے پھولوں سے اس کا دامن بھر دے۔‘‘
سید سلیمان ندوی کی تحریر کا ایک اور اقتباس ایک مذہبی شخصیت یعنی حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی سے متعلق بھی ملاحظہ ہو جن سے وہ بیعت اور دست گرفتہ ہوگئے تھے:
’’جس کا سینہ چشتی ذوقِ عشق اور مجددی سکون کا مجمع البحرین تھا جس کی زبان شریعت و طریقت کی وحدت کی ترجمان تھی جس کے قلم نے فقہ وتصوف کو ایک مدت کی ہنگامہ آرائی کے بعد باہم ہم آغوش کیا تھا اور جس کے فیض نے تقریباً نصف صدی تک اللہ تعالیٰ کے فضل و توفیق سے اپنی اعلیٰ تعلیم وتربیت اور تزکیہ وہدایت سے ایک عالم کو منور کر رکھا تھا اور جس نے اپنی تحریر و تقریر سے حقایق ایمانی ودقایق فقہی، اسرار احسانی اور رموز حکم ربانی کو بر ملا فاش کیا تھا اور اس لیے دنیا نے اس کو حکیم الامت کہہ کر پکارا۔‘‘
سید صاحب کی جامع کمالات شخصیت کے تصنیفی پہلو پر اور اسلوب بیان پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف اسکالر پروفیسر سعید احمد اکبرآبادی نے ایک جگہ لکھا ہے:
’’سید صاحب کی وسعت مطالعہ، ذوق تحقیق، دقیقہ رسی اور علم وفضل کے علاوہ ان کا قلم گرم مزاج ہونے کے بجائے نرم رو اور سبک خرام تھا جو تنقید کے نازک سے نازک موقع پر بھی جادۂ احتیاط و اعتدال سے منحرف نہیں ہوتا تھا۔ اس کی طبیعت میں متانت وسنجیدگی اور حلم وبردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے خامۂ گوہر افشاں کی پیشانی پر کبھی بھی جھنجھلاہٹ اور غیض وغضب کے تیور ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ مزاج میں استقلال، طبیعت میں صلح پسندی، مزاج میں مسکنت تھی۔ فکر پر بجائے عقلیت کے اشعریت بلکہ سلفیت غالب تھی۔ ان خداداد اوصاف وکمالات کے باعث وہ جس محفل میں بھی بیٹھا، صدر بزم ہوکر رہا، جس انجمن میں شرکت کی، شمع انجمن کہلایا۔
یہ وہ ذاتی اوصاف و کمالات تھے جہاں مولانا شبلی کامیاب نہ ہو سکے، وہ کامیاب ہوئے۔ اور جو عام اور ہمہ گیر اعتماد ان کو حاصل ہوا وہ ان کے استاد کو حاصل نہ ہو سکا۔‘‘
سید صباح الدین عبدالرحمن سید سلیمان ندوی کے تلمیذ رشید بھی ہیں اور عاشق صادق بھی ہیں اور ایک عمر انہوں نے دار المصنفین میں گزاری ہے۔ وہ سیرۃ النبی کو علامہ سید سلیمان ندوی کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیتے ہیں اور انہوں نے اس کتاب کو زبان کی شگفتی اور قلم کی روانی کا نمونہ قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’پوری کتاب ایک عاشق اسلام کے قرار دل، ایک دیدہ ور متکلم کے مستحکم دلائل اور ایک رمز شناس عالم کی گہری نگاہ کے ساتھ لکھی گئی ہے جس میں قرآن مجید کی آیتوں کے ہیروں کی کانکنی بھی کی گئی ہے اور حدیث کے خزانہ سے زمرد اور یاقوت بھی بکھیرے گئے ہیں، اس کو پڑھتے وقت یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت تک سید صاحب کی علمی معرفت اور تحقیقی نظر اپنے اوج پر پہنچ رہی تھی، جس کو قلم بند کرنے میں ان کے قلم کی شگفتگی اور تحریر کی روانی ان کا پورا ساتھ دے رہی تھی، اور انہوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ لیلیٰ کے خطوط اور مجنوں کی ڈائری لکھنے یا پھول کو زیب چمن بنا کر اس کی شمیم انگیزی کرنے یا بوئے گل کو نسیم سحری سے پھیلا نے یا حسینوں کی مشکیں زلفوں کی شامہ نوازی اور عنبریں بانہوں کی مرقع آرائی کرنے میں تو انشا پردازی کا جوہر دکھانا بہت آسان ہے، لیکن موضوع کی سنگلاخی کے ساتھ، افکار ومباحث کا قصر شیریں تعمیر کر کے اس کے اندر سے زبان کی جوئے شیر بہانا بہت مشکل ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ اردو زبان کو ایسا پیرایہ بیان مل رہا تھا جس سے اور دوسری ترقی یافتہ زبانوں کی طرح، اس میں بھی غوامض اور دقائق کو شگفتہ اور شستہ طرز ادا میں پیش کیا جاسکتا ہے‘‘۔
اس کتاب (سیرۃ النبی) کی تمہید ہی خاص انشا پردازانہ رنگ میں لکھی گئی جس کے کچھ ٹکڑے یہ ہیں:
’’جب روئے زمین پر گناہوں کی تاریخی اور بدیوں کی ظلمت محیط ہو جاتی ہے تو صبح کا تڑکا ہوتا ہے اور آفتاب ہدایت نمودار ہوتا ہے، باغ عالم میں جب برائیوں کی خزاں چھا جاتی ہے تو موسم بدلتا ہے اور بہار نبوت رونق افروز ہوتی ہے۔‘‘
موضوع اگر شراب کا ہو شباب کا ہو رباب کا ہو تو سخن پروری کے پھول کھلانا آسان ہوتا ہے۔ سید صاحب کا کمال یہ ہے کہ نماز روزہ کے بیان میں بھی وہ انشاء کے پھول کھلاتے ہیں۔ سیرۃ النبی جلد پنجم میں عبادات کے بیان میں ان کا قلم حسن تحریر کی پری کاغذ پر اتارتا ہے نماز کے بارے ان کے قلم کی جادو گری ملاحظہ ہو:
’’ نماز کیا ہے مخلوق کا اپنی دل زبان اور ہاتھ سے پاوں سے اپنے خالق کے سامنے بندگی اور عبودیت کا اظہار، اس رحمان ورحیم کی یاد اور اس کے بے انتہا احسانات کا شکریہ، حسن ازل کی حمد وثنا اور اس بڑائی اور یکتائی کا اقرار اپنے محبوب سے مہجور روح کا خطاب ہے۔ یہ اپنے آقا کے حضور میں جسم وجان کی بندگی ہے یہ ہمارے اندرونی احساس کا عرض نیاز ہے۔ یہ ہمارے دل کے ساز کا فطری ترانہ ہے۔ یہ خالق و مخلوق کے درمیان تعلق کی گرہ اور وابستگی کا شیرازہ ہے۔ یہ بے قرار روح کی تسکین مضطرب قلب کی تسلی اور مایوس دل کی دوا ہے۔ یہ فطرت کی آواز ہے احساس اور اثر پذیر طبیعت کی اندرونی پکار ہے۔ یہ زندگی کا حاصل ہے اور ہستی کا خلاصہ ہے‘‘
یہ علامہ سید سلیمان ندوی کی عبارت آرائی اور انشا پردازی ہے۔ ایسی عبارت آرائی ادب لطیف کے موضوع پر خامہ فرسائی میں یا چمن وگلزار کے ذکر میں تو آسان ہے لیکن نماز روزہ کے بیان میں لفظوں کے پھول کھلانا سید صاحب کا کمال ہے۔
***
***
سید صاحب کی وسعت مطالعہ، ذوق تحقیق، دقیقہ رسی اور علم وفضل کے علاوہ ان کا قلم گرم مزاج ہونے کے بجائے نرم رو اور سبک خرام تھا جو تنقید کے نازک سے نازک موقع پر بھی جادۂ احتیاط و اعتدال سے منحرف نہیں ہوتا تھا۔ اس کی طبیعت میں متانت وسنجیدگی اور حلم وبردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے اس کے خامۂ گوہر افشاں کی پیشانی پر کبھی بھی جھنجھلاہٹ اور غیض وغضب کے تیور ظاہر نہیں ہوتے تھے۔ مزاج میں استقلال، طبیعت میں صلح پسندی، مزاج میں مسکنت تھی۔ فکر پر بجائے عقلیت کے اشعریت بلکہ سلفیت غالب تھی۔ ان خداداد اوصاف وکمالات کے باعث وہ جس محفل میں بھی بیٹھا، صدر بزم ہوکر رہا، جس انجمن میں شرکت کی، شمع انجمن کہلایا۔
یہ وہ ذاتی اوصاف و کمالات تھے جہاں مولانا شبلی کامیاب نہ ہو سکے، وہ کامیاب ہوئے۔ اور جو عام اور ہمہ گیر اعتماد ان کو حاصل ہوا وہ ان کے استاد کو حاصل نہ ہو سکا۔
( پروفیسر سعید احمد اکبرآبادی )
ہفت روزہ دعوت – شمارہ 21 مئی تا 27 مئی 2023