نعمان بدر فلاحی
مولانا نے باطل نظریات کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت و بالا دستی کو نقلی وعقلی دلائل سے ثابت کیا
’سیاسی کشمکش‘ پر سلسلہ وار مضامین نے ذہنوں کو جھنجوڑڈالا۔ سابق طلبہ کی یادداشتیں اور تاثرات
انیسویں صدی کی تیسری دہائی تک مغربی افکار، مادہ پرستانہ معاشرت اور الحادی تہذیب و تمدن کا مقابلہ کرنے اور ان کے منفی اثرات سے معصوم اور نوخیز طلبہ و نوجوانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے جدید اسلوب، منطقی انداز اور سائنٹفک طرز استدلال پر مبنی اسلامی لٹریچر موجود نہیں تھا جو تعلیم یافتہ نسل کو اپنے بنیادی عقائد، تہذیبی اقدار اور اسلامی طرز معاشرت کا گرویدہ بناتا۔ اکبر الٰہ آبادی ] ۱۶؍نومبر ۱۸۴۶ء – ۹ ؍ستمبر ۱۹۲۱ء[ اورشاعر مشرق علامہ اقبال ]۹ ؍ نومبر ۱۸۷۷ء- ۲۱؍ اپریل ۱۹۳۸ء[ کے بعدابو الاعلیٰ مودودی ] ۲۵ ؍ ستمبر ۱۹۰۳ء- ۲۲؍ ستمبر ۱۹۷۹ء[ وہ پہلے فرد تھے جنہوں نے مغربی افکار اور الحادی تمدن پر نہ صرف یہ کہ کاری ضرب لگائی‘ بلکہ تمام باطل نظریات کے مقابلے میںاسلام کی حقانیت ،صداقت اور بالا دستی کو نقلی اورعقلی دلائل کے ساتھ ثابت کیا ۔
شاہ ولی اللہ ] ۱۷۰۳- ۱۷۶۲ء[ کے بعد مولانامودودیؒ نے برصغیر میں پہلی بار منطقی استدلال کے ساتھ دین کی تعبیر و تشریح کی اور اسلام کو ایک صوفیانہ خانقاہی مذہب کے بجائے مکمل نظام زندگی اورتحریک کی شکل میں پیش کیا۔
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بیشتر طلبہ الحاد اور دہریت کا شکارہورہے تھے ‘مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کی تحریروں ، ماہ نامہ ترجمان القرآن میں(جس کا اجراء ۱۹۳۲ء میں حیدر آباد دکن سے ہوا ) ’’ سیاسی کشمکش ‘‘ اور’’ مسئلہ قومیت ‘‘ پر ان کے سلسلہ وار مضامین نے طلبۂ علی گڑھ کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ لاہور کی سیرت کمیٹی اور مسلم لیگ ان مضامین کو علی گڑھ میں بار بار مفت تقسیم کررہی تھی۔چنانچہ طلبہ کے فکر و نظر میں ایک نمایاں تبدیلی محسوس کی گئی اوراسلام کو ایک نظام زندگی کی حیثیت سے تسلیم کرنے والے طلبہ کا ایک اسلامی حلقہ قائم ہوا ۔ (۱)
مولانا مودودیؒ علی گڑھ سے اپنے ربط و تعلق کے بارے میں خود بیان کرتے ہیں :
’’میرے والد مرحوم مولوی سید احمد حسن صاحب ۱۸۵۷ء کے ہنگامے سے ۲ سال پہلے دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے بالکل ابتدائی دور کے طالب علموں میں سے تھے ۔ سرسید مرحوم نے جب مدرسہ قائم کیا تھا تو وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں میں سے بھی بہت سے لڑکوں کو چن کرعلی گڑھ لے گئے تھے۔ چونکہ میری دادی کی مرحوم(سر سید) سے قرابت ہوتی تھی‘( نعیم صدیقی نے اپنی کتاب ’’ المودودی ‘‘میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ’’سرسید احمد خاں ایک قریبی رشتہ سے میری دادی کے بھائی ہوتے تھے اور میرے والد اُن کے بھانجے تھے ‘‘۔) اس لیے میرے والد مرحوم کا انتخاب بھی اسی سلسلے میں ہوا ۔مدرسہ میں سر محمد رفیق اور سر بلند جنگ وغیرہ ان کے رفیق جماعت تھے ۔ اس زمانے میں انگریزی تعلیم اور انگریزی تہذیب کے خلاف مسلمانوں میں جو شدید نفرت پھیلی ہوئی تھی اس کا حال سب جانتے ہیں۔ میرے دادا کو والد کا علی گڑھ میں تعلیم پانا سخت ناگوا رتھا مگر سر سید کے خیال سے خاموش تھے ۔ ایک مرتبہ ان کے ایک عزیز علی گڑھ تشریف لے گئے اور اتفاقاً ایک جگہ کرکٹ کا کھیل دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ وہاں ان کی نظر والد مرحوم پر پڑی اور یہ دیکھ کر انہیں سخت رنج ہوا کہ ایک پیر طریقت کا لڑکا انگریزی لباس پہنے انگریزی طرز کا کھیل کھیل رہا ہے ۔ دہلی واپس ہوئے تو دادا صاحب سے مل کر کہا کہ ’’ بھائی صاحب ! احمد حسن سے تو ہاتھ دھو لیجئے، میں نے اس کو علی گڑھ میں دیکھا کہ کافر کرتی پہنے گیند بلا کھیل رہا تھا ۔ یہ سن کر دادا کا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا اور انہوں نے فوراً والد مرحوم کو علی گڑھ سے واپس بلا لیا ۔ اس طرح وہ وہاں تکمیل تعلیم نہ کرسکے‘‘ ۔(۲)
یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمد یوسف بُھٹّہ نے مولانا کے بھائی ابو الخیر مودودی کے حوالے سے لکھا ہے :
’’ مولانامودودی کے والد احمدحسن صاحب غالباً دوسرے یا تیسرے بیج کے علی گڑھ کے تعلیم یافتہ تھے،جب اُن کے والد کویہ معلوم ہوا کہ کافر کرتی پہنے فرنگیوں کے ساتھ گیند بلا کھیلتا ہے تو انہوںنے اپنے بیٹے کو فی الفور واپس بلالیااور تطہیر کے لیے مولانا رشید احمدگنگوہیؒ کے پاس بھیج دیا جہاں احمد حسن صاحب نے اُن سے باقاعدہ درس حدیث لیا۔صحیح مسلم پراُن کے جو نوٹس تھے مولانا گنگوہی بعد میں آنے والے بیج کے طالب علمو ںسے کہا کرتے تھے کہ وہ یہ نوٹس لے کر دیکھ لیں ۔ مولانا وحید الزماں حیدرآبادی جنہوں نے صحاح ستہ اور قرآن مجید کا اردو میں ترجمہ کیا ہے ‘ان کے ساتھ احمد حسن مودودی نے سات مرتبہ صحاح ستہ کا دورکیا ۔ بخاری اور مسلم وغیرہ کا جو ترجمہ وہ کرتے‘ نظر ثانی کے لیے احمد حسن صاحب کے پاس بھیجتے ۔(۳)
سابق طلبہ کی یادداشتیں اور تاثرات
سابق صدر شعبۂ انگریزی پروفیسر اسلوب احمد انصار ی ]۲۸؍ جولائی ۱۹۲۴ء- ۳؍ مئی ۲۰۱۶ء[ کے مطابق :
’’میں نے ۱۹۳۹ء میں علی گڑھ میں گیارہویں کلاس میں داخلہ لیا تھا۔ اس سے پہلے یونیورسٹی میں کمیونسٹوں کا غلبہ تھالیکن ۱۹۳۶ء کے بعد اسلام پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا تھا۔ یونیورسٹی میں سال میں ایک بار اسلامی ہفتہ منایا جاتا تھا جس کے دوران مباحثہ اور تحریری مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ باہر کے ذی علم ،بزرگ اور جید علماء کو اسلام پر لکچر دینے کے لیے مدعو کیا جاتاتھا۔ اسٹریچی ہال میں بعد نماز مغرب ان کی تقاریر ہوتی تھیں۔مولانا ابوالاعلیٰ مودودی تشریف لاتے اور پورا ہفتہ قیام کرتے۔ اسی طرح سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجددریاآبادی، قاری محمد طیب اور مولانا اسلم جیراج پوری وغیرہ بھی تشریف لاتے تھے، چنانچہ کمیونسٹ اثرات کے خلاف اسلامی ماحول اور مزاج پیدا ہونے لگا تھا۔ ایک بارمولانا مودودی کا’اولڈ بوائز لاج‘ میں قیام تھا، میں بھی ان سے ملنے گیا تھا۔ گیارہویں کا طالب علم تھا مگر ان کی کتابیں ’سیاسی کشمکش‘ وغیرہ اور ترجمان القرآن کا مطالعہ کرتا تھا ۔کمیونسٹوں کی وجہ سے کیمپس میں لادینیت پھیلی ہوئی تھی مگر انیس سو چالیس میں ماحول تبدیل ہوگیا تھا، شمشاد مارکیٹ میں ایک دار المطالعہ قائم تھا ۔‘‘ (۴)
شعبۂ عربی کے سابق استاذ پروفیسر ریاض الرحمان خاں شروانی ]اگست ۱۹۲۴ء- ۴؍ نومبر ۲۰۱۹ء[ کے مطابق :
’’ میں ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۲ء تک یونیورسٹی اسکول اور ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۷ء تک یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہوں۔ سال میں ایک بار اسلامی ہفتہ منایا جاتا تھا، ۴۰ء سے قبل یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا ۔ تاریخ کے استاد امیر حسن صاحب اور فلسفہ کے استاذ ڈاکٹر سید ظفر الحسن صاحب اس میں پیش پیش رہتے ۔ اسلامی ہفتے کے دوران اُن علماء کو مدعو کیا جاتاجو کانگریس سے دور اور اس کے مخالف تھے ۔طلبہ کی اکثریت اس زمانے میں مولانا سید سلیمان ندوی سے متاثر تھی اور ان کی تقریر سننے کے لیے بڑی تعداد میں جمع ہوتی تھی ۔ کچھ طلبہ جماعت اسلامی سے بھی وابستہ تھے ۔میں نے جماعت اسلامی کا لٹریچر اسی زمانے میں پڑھا تھا ۔ ترجمان القرآن کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا۔ مولانا مودودیؒ کو اسٹریچی ہال میں سنا ہے اوران سے ملاقات بھی کی تھی‘‘ ۔ (۵)
شعبۂ کیمسٹری کے سابق استاد پروفیسر احمد سورتی ]۱۳؍ فروری۱۹۲۲ء -۲۴؍ اگست۲۰۱۷ء [ کے مطابق :
’’ میں نے ۱۹۴۰ء میں گیارہویں کلاس میں داخلہ لیا تھا ‘مگرمولانا مودودی کی سیاسی کشمکش حصہ اول اور ترجمان القرآن کا مطالعہ نویں کلاس میں ہی شروع کردیاتھا۔ ۱۹۴۰ء میں اسٹریچی ہال میں مولانا مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے ‘‘کے موضوع پر تقریر کی تھی۔ میں اس جلسہ میں شریک تھا۔ اس زمانے میں’سیاسی کشمکش‘ کے تمام حصے پڑھ لیے تھے اور ترجمان القرآن کا مطالعہ پابندی سے کرتا تھا ۔ شمشاد مارکٹ میں طلبہ کے اسلامی اجتماع میں شریک ہوتاتھا ۔راؤ شمشاد علی اس زمانے میں کافی متحرک تھے ۔ مولانا مودودی کے مضامین اور ان کا رسالہ ترجمان القرآن اسلام پسند طلبہ میں کافی مقبول تھا ‘‘۔(۶)
محفوظ الحق حقی علیگ زمانہ ٔ طالب علمی کی یادداشتوں میں لکھتے ہیں :
’’اسلامی ہفتہ منانا علی گڑھ کی قدیم روایات میں سے ایک ہے۔ یہ ہفتہ ہرسال بڑے احترام اور شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس زمانے میں ڈاکٹرامیرحسن صدیقی اس کے نگراں ہوا کرتے تھے۔ ہفتوں پہلے ہندوستان کے جیدعلماء کو اس میںشرکت کی دعوت دی جاتی۔ ایک سال مولانا عبدالماجد دریابادی اور نواب بہادر یار جنگ تشریف لائے تواسٹریچی ہال میں اوپر نیچے تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔
پروگرام کے مطابق مولاناعبدالماجد دریابادی کو مقالہ پڑھنا تھا، چنانچہ وہ تشریف لائے اور مقالہ پڑھنا شروع کیا تواُن کامقالہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ادھر طلبہ نے بے چینی کا اظہار مختلف طریقوں سے کرنا شروع کردیا۔ مولانا اس بات کو تاڑ گئے اور مقالہ ختم کیے بغیر بیٹھ گئے۔صدر اجلاس ڈاکٹر امیر حسن صدیقی نے طلبہ کو ڈانٹ پلائی اور مولانا سے درخواست کی کہ وہ اپنا مقالہ مکمل کریں لیکن وہ تشریف نہ لائے۔آخر صاحب صدر نے قائدملت نواب بہادر یار جنگ سے تقریر کی درخواست کی۔اس وقت جلسہ کا ماحول بڑا خراب ہوگیا تھا ، ایک مقرر کے لیے بڑا ہی کٹھن وقت تھا‘ لیکن نواب صاحب کے لیے کچھ مشکل نہ تھا۔آپ ڈائس پرتشریف لائے اور بڑے اطمینان سے مخاطب ہوئے :
’’حضرات ! اِس سردی کے موسم میں آپ کی دعوت پر پانچ سو میل کی مسافت طے کرکے یہاںتک پہونچا ہوں، مولانا عبدالماجد نہیں ہوںکہ بیٹھ جاؤں گا۔ اچھی طرح سن لیجیے کہ جب تک ایک ایک لفظ نہ کہہ لوں گا اسٹریچی ہال سے جاؤں گااور نہ جانے دوں گا‘‘۔ اس کے بعد نواب بہادر یار جنگ بولے اوربڑے ہی دھڑلے کے ساتھ تقریر کی۔ تقریر کیا تھی ایک سحر تھا کہ کسی کو ہاتھ ہلانے کا بھی ہوش نہ تھا،ایک جوار بھاٹا تھا جس میںپتھر لڑھکنے کے بجائے موتی رول رہے تھے۔ ہر شخص ہمہ تن گوش بنا ہوا تھا‘‘۔(۷)
مبارک علی خاں میرٹھی جو ۴۰ کی دہائی میں یونیورسٹی کے طالب علم تھے‘ اپنی یاد داشتوں میں رقم طراز ہیں :
’’یہ واقعہ ۱۹۴۰ء کے آخری ایام کا ہے ،مسلم یونیورسٹی میں’ اسلامی ہفتہ‘ منائے جانے کی تیاریاں ہورہی تھیں ۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی اس کے کرتا دھرتا تھے۔اس ہفتہ میںشرکت کے لیے مولاناابو الاعلیٰ مودودی بھی مدعو کیے گئے تھے۔ ہم لوگ مولانا کی تحریروں سے ترجمان القرآن کے ذریعہ تین چار سال سے واقف تھے۔ یہ رسالہ دوسرے علمی و ادبی ماہناموں کے ساتھے یونین کی لائبریری میں آتا تھا اور علم دوست طلبہ اور اساتذہ کی خصوصی توجہ کا مرکز ہوتا۔ ترجمان میں سیاسی کشمکش کے مضامین کا سلسلہ قسط وار شروع ہواتو اُس نے بہت سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ دلکش انداز تحریر اور معقول و مضبوط دلائل نے نوجوانوں کو ہی نہیں بزرگوں کو بھی متاثر کیاہوا تھااور ہرشخص مولانا مودودی کی آمد کی اطلاع سے مسرور اور ان سے ملاقات کامشتاق تھا۔
یونیورسٹی نے جو اس زمانے میں علم و فن کا عظیم الشان مرکز بنی ہوئی تھی‘ ایک علم دوست کی حیثیت سے مولانا مودودی کا شایان شان استقبال کیا۔ مولانا صبح کو دس بجے یونیورسٹی کے تاریخی اسٹریچی ہال میں اپنا مشہور زمانہ مقالہ ’’اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے‘‘ پڑھنے والے تھے‘ لیکن وقت مقررہ سے بہت پہلے ہی ہال اس طرح بھر گیا کہ کھڑے ہونے کو بھی جگہ نہ رہی۔ پروفیسر محمد حبیب (صدر شعبۂ تاریخ و سیاست )نے اس نشست کی صدارت کی۔ مولانا اپنا مقالہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو پورے ہال میں سناٹا چھا گیا اور مقالہ ختم ہونے تک یہی عالم رہا۔ مولانا نے اس مقالہ میں بغیر نام لیے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک کے طریقۂ کار پر اچھی خاصی تنقید کی تھی۔ مقالہ کے بعد صدر جلسہ کی اجازت سے سوالات و جوابات کی بھرپور نشست ہوئی۔اس زمانے میں اکثر مسلم نوجوان مسلم لیگ سے بہت متاثر تھے، خود میرا تعلق نیشنلسٹ گروپ سے تھا۔ طلبہ نے خوب خوب سوالات کیے۔ بعض نوجوانوں نے مولانا سے بڑے اچھے سولات پوچھے لیکن بعض ایسے بھی تھے جن کا لہجہ کافی تلخ و تند تھا، مگر مولانانے ان سب کا جواب جس قدر سکون اور ٹھنڈے انداز سے دیا اس نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ آخر میں صدر مجلس پروفیسر محمدحبیب نے بھی مولانا سے ایک سوال کیا ’’آپ پھر کب ہمیں اپنا دوسرا مقالہ سننے کا موقع دیں گے؟ دوسرے دن انہوں نے اپنے شعبہ میں مولانا کو مدعو کیا اور اسلام کے نظریۂ سیاسی پر ایک لکچر دلوایا۔
مولاناکا قیام اولڈ بوائز لاج میں تھا۔ مجھے بھی مولانا سے بالمشافہ گفتگو کرنے کا اشتیاق ہوا۔ اس زمانے میں شعبۂ ریاضی میں ایک نئے استاد پروفیسر ڈاکٹر میاں ضیاء الدین صاحب آئے تھے، ان کی وساطت سے ہم کئی طلبہ مولانا سے ملنے گئے۔ مولانا کا مذکورہ مقالہ مجلس اسلامیات کی طرف سے شائع ہوکر تقسیم کیا جاچکا تھا۔ اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد جو سوالات ہمارے ذہن میں آئے‘ مولانا نے بڑے دل پسند انداز میں ان کے جواب دیے اور ہمارے شکوک و شبہات کو دور فرمایا۔آخر میں مولانا نے کہا’’ ہر انقلاب کے لیے نوجوان ہی کام کرتے ہیں، اس لیے میںآپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ لوگ غور کریں اور اگر میری بات صحیح معلوم ہو تو پھر اپنے آپ کو ذہنی اور علمی طور پر تیار کریں اور اپنی زندگیوں کو عملاً اس کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں‘‘۔(۸)
۳۰ کی دہائی میںیونیورسٹی کے طالب علم رام پور کے محمد یوسف بُھٹّہ ایک انٹر ویو کے دوران کہتے ہیں :
’’یہ زمانہ غالباً۱۹۳۳ء کے آخر کا ہے جب ہم علی گڑھ پہنچے تو وہاں کمیونسٹ تحریک زوروں پر تھی۔ انہی ایام میں ایک صاحب نے مجھے’’ الجہاد فی الاسلام‘‘پڑھنے کے لیے دی۔ اس کو پڑھنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ میں اسلامی کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ اسی مصنف کی دوسری کتابوں کی تلاش رہنے لگی۔ پتہ چلنے پر ترجمان القرآن بھی منگوانا شروع کردیا، اور یہ سلسلہ اُس وقت سے آج تک جاری ہے‘‘۔( ۹)
پروفیسر آسی ضیائی لاہور اپنے مضمون بعنوان ’’ تیری چنگاری ‘ چراغ انجمن افروز تھی ‘‘میں رقم طراز ہیں :
’’۴۶ء میں میں نے علی گڑھ میں داخلہ لیا اور وہاں جماعت اسلامی سے متاثر چند طلبہ اور ایک استاذ (جلیل الدین صاحب) سے رابطہ پیدا ہوا۔ یہاں تک کہ ایک زمانے میں طلبہ کے’ حلقۂ ہمدردان جماعت‘ کاامیر بھی مجھے بنادیا گیا ‘‘۔(۱۰)
(باقی سلسلہ آئندہ شمارے میں ملاحظہ کریں)
حواشی و تعلیقات
(۱) عکس راہ ۔عبدالعزیز سلفی فلاحی ۔ شعبۂ اشاعت : اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا ۱۵۱سی ذاکر نگر نئی دہلی ۲۵۔
(۲) مجدّد سید مودودی نمبر، ماہنامہ حیات نو ،جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ، اعظم گڑھ، یوپی ، اکتوبر ،نومبر ۱۹۷۹ء
(۳) تذکرۂ سیّد مودودی، ادارہ معارف اسلامی،منصورہ،لاہور،اپریل ۱۹۸۶ء،صفحہ نمبر۳۲۵۔
(۴) علی گڑھ میگزین ۹۵-۱۹۹۷ء /انٹرویو،بتاریخ ۱۴؍مئی ۲۰۱۴ء بمقام علی گڑھ
(۵) دھوپ چھاؤں،ریاض الرحمن شروانی،حبیب منزل ،میرس روڈ ،علی گڑھ۔ / انٹرویوبتاریخ ۲۹؍اپریل ۲۰۱۴ء بمقام حبیب منزل۔
(۶) انٹرویو ، بتاریخ ۱۴؍ مئی ۲۰۱۴ بمقام سر سید نگر ،علی گڑھ۔
(۷) علی گڑھ میںچار سال، محفوظ الحق حقی علیگ،پندرہ روزہ خبر نامہ ،شمشاد مارکٹ ،علی گڑھ ،۱۵فروری ۱۹۸۲ء
(۸) ہفت روزہ دعوت ، نئی دہلی،۶ جولائی ۱۹۸۰ء
(۹) تذکرۂ سیّد مودودی، ادارہ معارف اسلامی، منصورہ، لاہور، اپریل ۱۹۸۶ء صفحہ نمبر ۳۲۰،۳۲۱۔( محمد یوسف بُھٹّہ ’’ مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘‘نامی کتاب کے مصنف ہیں)
(۱۰) تذکرۂ سیّد مودودی، ادارہ معارف اسلامی،منصورہ،لاہور،اپریل ۱۹۸۶ء صفحہ نمبر ۴۰۰۔(پروفیسر آسی ضیائی کا وطن رامپور‘ یوپی اور ان کا اصل نام امان اللہ خاں تھا۔ستمبر ۱۹۴۸ء میں لاہور پاکستان منتقل ہوگئے تھے ۔پبلک لائبریری رامپور کے صدر مولوی ضیاء اللہ خاں اُن کے والد تھے ۔بحوالہ’ سید مودوی کا عہد میری نظر میں‘ سید علی نقی ،مکتبہ ذکریٰ رامپور،دسمبر ۱۹۸۱ء)
(مضمون نگار علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ریسرچ اسکالر ہیں)
[email protected]
***
***
شاہ ولی اللہ[ -۱۷۰۳ ۱۷۶۲ء]کے بعد مولانامودودیؒ نے برصغیر میں پہلی بار منطقی استدلال کے ساتھ دین کی تعبیر و تشریح کی اور اسلام کو ایک صوفیانہ خانقاہی مذہب کے بجائے مکمل نظام زندگی اورتحریک کی شکل میں پیش کیا۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 28 اگست تا 3 ستمبر 2022