بنت الاسلام
تعلق باللہ کے بغیر راہ خدا میں سرگرمی و ثبات قدمی ممکن نہیں
کلام پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (ترجمہ) ہم نے اس امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اسے اٹھالیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔ اس بار امانت کو اٹھانے کا لازمی نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں، اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول فرمائے اور اللہ تعالیٰ درگزار کرنے والا اور رحیم ہے۔ (الاحزاب ۷۲،۷۳)
ان آیات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے کوئی ایسا مشکل کام اپنے ذمہ لے لیا تھا، جس سے زمین، آسمان اور پہاڑ سب ڈر گئے تھے اور انہوں نے اس امانت کو اٹھانے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ مگر انسان نے آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں سے زیادہ کمزور ہونے کے باوجود اس ذمہ داری کو اٹھالیا۔ اور اب جب اٹھاہی لیا ہے تو ظاہر ہے، اگراس ذمہ داری کو پورا کرے گا تو انعام کا مستحق ٹھہرے گا اور اگر پورا نہ کرے گا تو سزا پائے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا :
’’تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو سزا دے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے۔۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ وہ ذمہ داری کیاتھی، جو انسان نے اٹھائی اور جسے یہاں امانت کا نام دیا گیا ہے؟
علماء نے اس لفظ ’’امانت‘‘ کی تشریح میں بہت کچھ کہا ہے جس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ انسان نے یہ ذمہ داری اٹھائی تھی کہ دنیا میں خدا کا نائب بن کر رہے گا اور اس کے بھیجے ہوئے احکام دین کو تسلیم کرے گا۔ یہ کام کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کا صحیح نائب بن کر رہے اوراس کے بھیجے ہوئے احکام دین کو خود بھی مانے اور دوسوں کو بھی ماننے کی دعوت دے، ایک بڑا ہی مشکل اور کٹھن کام ہے۔ جس نے اس کام کو بے انتہا مشکل بنادیا ہے، وہ یہ حقیقت ہے کہ اللہ نے انسان کو سیدھا راستہ اختیار کرنے یا غلط راہ پر چل نکلنے، دونوں کا اختیار بخش دیا ہے۔ وہ چاہے تو اپنے پیدا کرنے والے کو مانے اور چاہے تو انکار کرکے کسی حقیر سے حقیر چیز کے آگے سر جھکا دے۔ چاہے تو نیکی کا رویہ اختیار کرے اور چاہے تو اکڑ کر نافرمان بن بیٹھے۔
پھر ایک تو اسے برائی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے اور دوسرے اس کے ساتھ اس کے ازلی دشمن ’’شیطان‘‘ کو بھی لگادیا گیا ہے جو ہر وقت برائی کو خوشنما بنا بناکر اس کے سامے پیش کرتا اور اسے بہکانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ ان دونوں چیزوں نے مل کر انسان کے لیے یہ کام بے انتہا مشکل بنادیا ہے کہ وہ دنیا میں خدا کا فرماں بردار نائب بن کر رہے اور اس کے بھیجے ہوئے احکام پر اپنے دین و ایمان کو بچالینا جو ہم میں خون کی طرح گردش کرتا رہتا ہے، یہ منزل بڑی کٹھن ہے اور یہ راہ بڑی دشوار گزار راہ ہے۔
اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اب ایک اور حقیقت ہے جسے سمجھ لینا دشوار بہت ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ رب العالمین نے جو کام دنیا میں مشکل رکھے تھے ان میں آسانی پید کرنے والے اسباب بھی ساتھ ہی پیدا کردیے تھے۔ اور جذبہ محبت انہیں اسباب میں ایک سبب ہے۔ یہ جذبہ زندگی کی مشکلات میں آسانی پیدا کرتا ہے حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے سفر میں جو راہیں زیادہ کٹھن تھی وہاں اس جذبے کو زیادہ افراط سے رکھ دیا گیا ہے تاکہ مشکلات کے احساس کو کم کرتا رہے۔ مثال کے طور پر انسانی بچے کی پیدائش اور پرورش ماں کے لیے اتنی بڑی تکلیف دہ چیز ہےکہ صرف وہی جانتی ہے کہ وہ اس راہ میں کتنی مشقت برداشت کرتی اور ذہنی اور جسمانی اذیت سہتی ہے۔ مگر جہاں اس پر اتنا بوجھ ڈالا گیا ہے وہیں اس کے دل میں بچے کی محبت کا جذبہ اتنا شدید رکھ دیا گیا ہے کہ جو کچھ وہ سہہ جاتی ہے، اس کا پورا احساس بھی اسے نہیں ہو پاتا کیوں کہ اس کی مامتا اس کی ہر مشکل کو آسان کرتی چلی جاتی ہے۔
اسی مثال کو پوری زندگی پر قیاس کرلیجیے۔ انسان نے ایک بڑی بھاری ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے کہ دنیا میں خدا کا فرماں بردار نائب بن کر رہے گا۔ پھر یہ کام اسے اسی عالم آب وگِل میں کرنا ہے جہاں چاروں طرف آزمائشیں بکھری پڑی ہیں اور جہاں ایک کینہ پرور دشمن کا ہر دم کا ساتھ ہے جس نے دنیا میں آنے سے پہلے ہی چیلنج دے دیا تھا کہ: میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اسی طرح اب میں زمین میں ان کے لیے دل فریبیاں پیدا کرکے ان سب کو بہکا دوں گا (الحجر :۳۹)
جو کچھ شیطان نے اس وقت کہا تھا اسے وہ آج دنیا میں صبح وشام کیے چلا جارہا ہے۔ وہ نت نئے ہتھکنڈوں سے انسان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے تاکہ انسان اس ذمہ داری کو پورا نہ کر سکے جو اس نے اُس وقت اٹھائی تھی جب آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔
اس ازلی دشمن کو زیر کرنا اور دنیا میں نافرمان بننے کا اختیار ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ کے احکام کا مطیع بن کر رہنا، یہ اتنا کٹھن کام ہے کہ عام انسانی محبتیں اس میں آسانی پیدا کرنے سے عاجز محض تھیں۔ چناں چہ اس دشوار کام میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے چند بنیادی قسم کی محبتیں رکھ دی گئی ہیں، یعنی:
خدا کی محبت
خدا کے رسول (ﷺ) کی محبت
خدا کے بھیجے ہوئے دین کی محبت
یہ محبتیں جتنی شدید ہوں گی، خدا کا مطیع وفرماں بردار نائب بننے کا کٹھن کام اتنا ہی آسان ہوتا چلا جائے گا اور جتنی یہ محبتیں سطحی قسم کی ہوں گی، یہ راہ اتنی ہی دشوار لگنی شروع ہوجائے گی اور اگر خدانخواستہ یہ محبتیں دلوں سے مٹ گئیں تو پھر انسان کو کبھی یہ یاد بھی نہیں آئے گا کہ اس نے کبھی کسی بات کی ذمہ داری اٹھائی بھی تھی۔ پھر انسان کی یہ مجرمانہ غفلت ایسی مسلسل اور متواتر ہوجائے گی کہ اسے اسی وقت ہوش آئے گا جب خالق کائنات اسے مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کرکے بصد جاہ و جلال دریافت فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹو! وہ وعدے کیا ہوئے جو تو نے ہم سے کیے تھے اور وہ ذمہ داری کیا ہوئی جو تو نے اس وقت اٹھائی تھی جب آسمانوں، زمین اور پہاڑوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا تھا۔
دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی جگہ پکڑلینا وہ خوش بختی ہے کہ جب یہ حاصل ہوجائے تو یہ دنیوی زندگی ہی بہشت بن جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ دلوں میں اللہ کی محبت کے گہرا ہوجانے کے باعث دنیوی مشکلات و مصائب بالکل ختم ہوجاتے ہیں۔ انہیں تو بشر کی زندگی میں بہر حال رہنا ہی ہوتا ہے۔ تاہم حُب الٰہی کا جذبہ ان کی شدت اور اذیت کو بے انتہا کمزور کردیتا ہے اور بہت سے حادثات و واقعات جنہیں عام لوگ بڑی بڑی مصیبتیں سمجھتے ہیں۔ حُب الٰہی کا جذبہ رکھنے والوں کے لیے سرے سے مصیبتیں بنتی ہی نہیں۔
مثلاً دنیاوی جاہ وجلال اور مال وزر کا ضائع ہو جانا، عام لوگوں کے لیے بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے مگر خدا کو سچے دل سے چاہنے والوں کے لیے یہ کوئی مصیبت نہیں ہوتی ہے کیوں کہ حُب الٰہی کے باعث کی قلبی کیفیت ان نیک بزرگوں جیسی ہوجاتی ہے جن کے تجارتی جہاز کے ڈوب جانے اور سامان تجارت کے فنا ہوجانے کی خبر پہنچی تو انہوں نے جزع فزع کرنے کے بجائے الحمدللہ کہا۔
کچھ دیر کے بعد اطلاع آئی کہ وہ پہلی خبر غلط تھی، جہاز سالم ہے اور سامان تجارت بھی محفوظ ہے۔ یہ سن کر انہوں نے پھر الحمدللہ کہا۔ لوگوں نے پوچھا کہ حضرت! یہ کیا بات ہے کہ جب آپ کو نقصان پہنچنے کی خبر ملی تو بھی آپ نے خدا کا شکر ادا کیا اور جب نقصان سے بچ جانے کی اطلاع پہنچی تو بھی آپ نے خدا کا شکر ہی ادا کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ جب مجھے اتنے بڑے نقصان کی اطلاع پہنچی تو میں نے اپنے دل میں غور کیا کہ کہیں میرا دل اس نقصان کی خبر سن کر بہت پریشان تو نہیں ہوا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے دل پر اس نقصان نے کوئی خاص اثر نہیں ڈالا اس لیے میں نے خدا کا شکریہ ادا کیا کہ دل دنیاوی دولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے اسی طرح جب مجھے جہاز کے محفوظ ہونے کی اطلاع ملی تو دوبارہ میں نے غور کیا کہ کہیں دل یہ بات سن کر بہت زیادہ خوش تو نہیں ہوا۔ تو دوبارہ مجھے یہی پتہ چلا کہ جس طرح میرا دل نقصان کی خبر سے زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا، اسی طرح نقصان سے بچ جانے کی خبر سے بھی زیادہ متاثر نہیں ہوا۔ چناں چہ میں نے دوبارہ شکر ادا کیا کہ میرا دل دنیاوی دولت کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہا۔
اسی طرح دکھ،، بیماری یا کسی عزیز پیارے کا دنیا سے چلے جانا، دل رنجور کے لیے سخت اذیت کا باعث بنتا ہے۔ اور ان حادثات سے تو وہ لوگ بھی متاثر ہوجاتے ہیں جن کے دلوں میں خدا کی محبت جگہ پکڑ چکی ہوتی ہے۔ تاہم یہ تاثر انہیں بے قراری کے اس درجے پر نہیں پہنچا تاکہ وہ ہوش و حواس کھو بیٹھیں۔ یا اللہ تعالٰی سے شکوے شکایتیں شروع کردیں۔
حضورﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم اپنی آخری سانس لے رہے تھے۔ شدت غم سے حضور ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے لیکن زبان مبارک سے صرف یہی نکلا کہ:
اے ابراہیم! ہم تیری جدائی سے مغموم ہیں، مگر زبان سے وہی نکلے گا جو پروردگار کی مرضی کے مطابق ہوگا!‘‘ (مسلم)
عمرو بن علا خلیفہ ہشام سے ملنے چلے۔ راستے میں ان کے پاوں میں کوئی زہریلا مادہ پیدا ہوگیا۔ جب وہ شام پہنچے تو زہر پورے بدن پر حاوی ہوتا جا رہا تھا۔ اطبا کو بلایا گیا تو سب نے بالاتفاق رائے دی کہ جب تک پاوں نہ کاٹا جائے گا آرام نہیں آئے گا۔ لوگوں نے بے ہوش کرنے کی تیاریاں کیں مگر عمرو نے کہا
’’خدا کی قسم! میں نہیں چاہتا کہ خدا کے ذکر سے غافل رہوں‘‘
جب ٹانگ کاٹی گئی تو نگاہ آسمان کی طرف اٹھائی اور کہا:
’’اے اللہ ! اگر چہ تو نے میرا ایک عضو لے لیا۔ لیکن دوسرے اعضا تو باقی ہیں!‘‘
تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ انہیں اطلاع ملی کہ ان کا ایک بیٹا چھت سے گرکر مرگیا ہے انہوں نے پھر آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور کہا:
اے اللہ ! اگرچہ تو نے میرا ایک بیٹا لے لیا ہے لیکن تیرے دیے ہوئے دوسرے بیٹے تو موجود ہیں۔ اے اللہ! ہر حالت میں تیرا شکر ہے!‘‘
غرضیکہ حُب الٰہی کا جذبہ ایک ایسا مخلص، ہمدرد اور دل سوز رفیق ہے جو ہردم ساتھ رہتا، ہر پریشانی میں دل جوئی کرتا، ہر غم سے بچاتا اور ہر حال میں سہارا بنتا ہے۔ حُب الٰہی تمام محبتوں کی اصل اور جڑ ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت اور دین کی محبت بھی اسی سرچشمے سے نکلی ہے۔ کیوں کہ رسولﷺ بھی اسی لیے محبوب ہیں کہ وہ خدا کے رسول ہیں، اور دین بھی اسی لیے پیارا ہے کہ وہ خدا کا بھیجا ہوا دین ہے۔
جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں اور جس طرح اسلام وطن کے اندر بے وطن ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کے پیش نظر اسلام کی سربلندی کے لیے کوشش کرنے والوں کی منزل اتنی کٹھن ہوچکی ہے کہ ان بنیادی محبتوں کو دل میں نقش کیے بغیر یہ راہیں کبھی طے نہ ہوسکیں گی۔
***
***
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 30 جنوری تا 5فروری 2022