!عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان گرم جنگ

سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظارکیے بغیر جلدبازی میں نئے الیکشن کمشنرس کا تقرر

ڈاکٹر سلیم خان

سرکاری تحفظ اور روٹی کے ٹکڑوں نے میڈیا کاگلا گھونٹ دیا
مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ نظامِ سیاست کی تین ستون ہیں۔ ان میں اول الذکر دو چونکہ حزب اقتدار کے تابع ہوتے ہیں اس لیے توازن قائم کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کا اضافہ کیا گیا اور ان دونوں کو سرکاری عتاب سے محفوظ رکھنے کے لیے حزب اختلاف کی پناہ گاہ بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیا کی ذمہ داری واچ ڈاگ یعنی پہرے دار کتے کی ہے جو چوری چکاری پر نظر رکھتا ہو۔ اس کام میں سرکار ی چوکیدار چونکہ دلیر ہوتا ہے اس لیے میڈیا اس پر بھونک کر عوام کو خبردار کرتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس واچ ڈاگ کو لیپ ڈاگ یعنی گودی کا کتا بنا لیا ہے۔ ایسے میں وہ بے چارہ جس کی گود میں بیٹھا ہے اس کے خلاف تو بھونک نہیں سکتا اس لیے حزب اختلاف سے سوال کرتا ہے اور حکومت کے اشارے پر کاٹ کھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔یہ عام مشاہدہ ہے کہ جب کوئی آقا اپنے کتے کا پٹہ ہاتھ میں لے کر چہل قدمی کے لیے نکلتا ہے تو اس کے دوسرے ہاتھ میں ڈنڈا بھی ہوتا ہے۔ یہ ڈنڈا اپنے کتے کے لیے نہیں ہوتا کیونکہ پٹہ ہاتھ میں ہونے کے سبب اس سے کسی گستاخی کی توقع ہی نہیں ہوتی۔ اس ڈنڈے کا استعمال حملہ آور کتوں کو دوڑا کر اپنے پالتو کتے کی حفاظت کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسی سرکاری تحفظ اور روٹی کے ٹکڑوں نے میڈیا کاگلا گھونٹ دیا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی حمایت سے محروم حزب اختلاف اور عوام کی واحد پناہ گاہ فی الحال عدلیہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے بنیادی حقوق کی خاطر سیاسی جماعتیں اور عام لوگ بھی اکثر وبیشتر عدالت کے چکر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان بھی ایک اندرونی مفاہمت ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے عدلیہ کسی نہ کسی حدتک حکومت کا پاس ولحاظ کر دیا کرتی تھی۔ موجودہ حکومت کے ججوں کو بلیک میل کرنے اور ان کے حرص و ہوس نے اسے آسان تر کر دیا ہے نیز، ایسے واقعات میں اضافہ ہی ہوگیا ہے۔بابری مسجد کا فیصلہ اس کی سب سے روشن مثال ہے جس میں مسلم فریق کے دلائل کو تسلیم کرنے کے باوجود ہندو فریق کے حق میں فیصلہ سنایا گیا اور اس کو لکھنے والے سارے ججوں کو کھلے عام نواز کر عدلیہ کی بلا واسطہ کردار کشی کی گئی۔ حکومت کو دھڑا دھڑ ملنے والی کلین چٹ بھی اس کی جانب اشارہ ہے مثلاً رافیل اور ہنڈن برگ کے معاملات میں مدعا الیہ کا چھوٹ جانا۔ ویسے مؤخر الذکر کا بظاہر سرکار سے تعلق نہیں ہے مگر مودانی معیشت کے ماڈل میں وہ دونوں ایک جان دو قالب ہیں۔
عدلیہ کے مختلف چیف جسٹس اپنی دل پذیر نصیحتوں میں حکومت پر بلا واسطہ تنقید بھی کرتے رہے ہیں لیکن فیصلے کی گھڑی میں سرکاری پلڑا بھاری ہوتا رہا جو اندرونی مفاہمت کا غماز تھا لیکن پچھلے سال جنوری 2023 میں اس رشتے کے اندر حکومت کی دھاندلی سے ایک دراڑ آگئی۔ وہ معاملہ الیکشن کمیشن میں تقررات کا تھا۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے انوپ برنوال کیس میں یہ تبصرہ کیا تھا کہ الیکشن کمشنر کی تقرری کا انتظامیہ کے ہاتھ میں ہونا آزاد جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے۔عدالت عظمیٰ کی آئینی بنچ نے 02 مارچ 2023 کو یہ فیصلہ سنایا تھا کہ جب تک کوئی قانون نہیں بن جاتا، چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز کی تقرری ایک کمیٹی کے مشورے سے ہوگی۔ صدر مملکت کی مقرر کردہ کمیٹی میں وزیر اعظم، حزب اختلاف کے قائد اور چیف جسٹس شامل ہوں گے۔ اس فیصلے میں حکومت کی من مانی پر قدغن لگائی گئی تھی کیونکہ اگر سرکار اور عدلیہ کے درمیان کسی فرد پر اختلاف ہو جائے تو حزب اختلاف تو لازماً عدلیہ کا ساتھ دے گا۔ اس طرح عملاً وزیر اعظم کا عدلیہ کی مرضی کے خلاف تقرر کرنا ناممکن ہوگیا ۔
مودی جیسے انانیت پسند وزیر اعظم نے اسے اپنی توہین سمجھا اور ایک ایسا قانون بنا دیا جس میں چیف جسٹس کا ہی کانٹا نکال دیا گیا اور تقرری پر اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے کمیٹی میں وزیر اعظم کے ساتھ حزب اختلاف کے رہنما اور ایک کابینی وزیر کی سفارش کردی۔اس طرح کمیٹی میں حزب اختلاف کی موجودگی کو بھی بے معنیٰ کر دیا گیا کیونکہ کابینی وزیر سے وزیر اعظم کی مخالفت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ توہین تھی جس کو عدلیہ نے دل پر لے لیا اور ایک سرد جنگ کا آغاز ہوگیا۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً حکومت کے خلاف فیصلوں کا سلسلہ چل پڑا مثلاً راہل گاندھی کی پارلیمانی رکنیت کا بحال ہونا، تیستا سیتلواد کی ضمانت اور بلقیس بانو پر ظلم کرنے والوں کی جیل واپسی وغیرہ لیکن انتخاب کے قریب آتے ہی انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور سرد جنگ اچانک گرم ہوگئی۔ فی الحال جو یکے بعد دیگرے فیصلے ہو رہے ہیں ان کو انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان گرم جنگ کہا جا سکتا ہے۔
چنڈی گڑھ میئر انتخاب کا معاملہ اس سلسلے کی پہلی کڑی تھا۔ پہلے تو اس پر معمولی تبصرہ کرکے ہائی کورٹ میں بھیجا گیا مگر جب پتہ چلا کہ سرکاری دباو میں اسے ٹھنڈے بستے میں ڈالا جا رہا ہے تو سپریم کورٹ کے تیور چڑھ گئے اور پھر جو کچھ ہوا وہ حیرت انگیز تھا۔ یہ توقع تھی کہ سپریم کورٹ زیادہ سے زیادہ دوبارہ انتخاب کرنے کی سفارش کردے گا۔ بی جے پی نے اس کی تیاری میں حسبِ روایت کچھ عآپ کونسلروں کو خرید بھی لیا تھا اور میئر سےاستعفیٰ دلوا کر اس کی راہ ہموار کردی تھی مگر سپریم کورٹ نے ریٹرننگ آفیسر انل مسیح کوطلب کرلیا۔ ان کی جب پیش ہوئی تو سی جے آئی سوال کیا کہ آپ کیمرے کی طرف کیوں دیکھ رہے تھے؟ انیل مسیح نے کہا ’’کیمرے کی طرف بہت شور تھا، اس لیے میں وہاں دیکھ رہا تھا۔‘‘ عدالت نے پوچھا کہ آپ نے کچھ بیلٹ پیپرز پر ایکس کا نشان لگایا ہے یا نہیں؟ مسیح نے کہا ہاں، میں نے 8 پرچوں پر نشان لگایا تھا۔ لیکن عام آدمی پارٹی کا میئر امیدوار بیلٹ پیپر چھین اور پھاڑ کر بھاگ گیا۔ عدالت نے پوچھا لیکن آپ کراس کیوں ڈال رہے تھے؟ آپ نے یہ اقدام کس اصول کے تحت کیا؟ مسیح نے جواب دیا کہ وہ غیر قانونی پیپر مارک کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ سرکار نے اس موقع پر عدالت کو ایک سازش میں پھنسانے کی مذموم کوشش کی کیونکہ جب سی جے آئی نے پوچھا’’ اس کا مطلب ہے کہ آپ (انیل مسیح) تسلیم کر رہے ہیں کہ آپ نے وہاں نشان لگایا‘‘ تو مسیح نے ہاں میں سر ہلایا۔ اس کے بعد عدالت نے سرکاری وکیل تشار مہتا نے کہا کہ مسیح نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے نشان لگایا ہے۔ ایسے میں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ یعنی پہلے تو سرکاری مہرے کو بلی بکرا بنانے کی سفارش کی اور اس کے بعد یہ پیشکش کہ ’’ہم ڈپٹی کمشنر سے نیا ریٹرننگ افسر تعینات کرنے کے لیے کہیں گے۔ ہم پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے رجسٹرار جنرل سے اس کی نگرانی کروائیں گے‘‘۔ یہ دوبارہ انتخاب کروانے کا مایا جال تھا جس کو سپریم کورٹ نے تتر بتر کر دیا۔ چیف جسٹس نے جن 8 ووٹوں کو کالعدم قرار دیا تھا، انہیں درست قرار دے دیا اور انیل مسیح کی آڑ میں حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کا مذاق ہے۔ اس الیکشن میں ریٹرننگ افسر کی حرکتوں کی ویڈیو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوریت کا قتل ہوا ہے، یہ ریٹرننگ آفیسر کیا کر رہے ہیں؟ ہم نہیں چاہتے کہ ملک میں جمہوریت کا قتل ہو۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایسی صورت حال میں سپریم کورٹ آنکھیں بند کر کے نہیں بیٹھے گی۔
موجودہ حکومت کو انتخاب کے قریب یہ پہلا جھٹکا لگا تھا مگر جب الیکٹورل بانڈ کا معاملہ زیر سماعت آیا تو عدالت نے اسے غیر آئینی قرار دے کر سرکار کے ہوش اڑا دیے۔ اس معاملےمیں ایس بی آئی کی آڑ میں چھپ کر حکومت نے تفصیل چھپانے کے لیے تیس جون تک کی مضحکہ خیز مہلت طلب کی مگر اس کو بھی عدالتِ عظمیٰ نے پھٹکار لگا کر ٹھکرا دیا اور پھر جب ادھوری معلومات دے کر عدلیہ کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کی گئی تو اس کوشش کو بھی ناکام کر دیا۔ اس طرح انتخاب سے عین پہلے عدالت نے حکومت کی کمر پر ایسی لات رسید کی کہ سرکار دربار درد سے کراہ رہی ہے۔ اور ابھی الیکشن کمیشن کا معاملہ ہنوز زیر سماعت ہے اور اس پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ وطن عزیز میں کہنے کو ایک سہ نفری الیکشن کمیشن موجود تو ہے لیکن مودی سرکار نے اس کی حالت بھی ای ڈی، سی بی آئی اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ جیسی کر دی ہے۔ اس کو بالکل کمل کے پنجرے کا طوطا بنا دیا گیا ہے۔
الیکشن کمیشن جیسے اہم آئینی ادارے کے تئیں سرکاری بے اعتنائی کا یہ عالم ہے کہ پچھلے ہفتہ اس میں تین ارکان کے بجائے صرف اکیلے چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار رہ گئے تھے۔ ان کے ایک ساتھی الیکشن کمشنر انوپ چندرا پانڈے اپنی عمر 65ویں سال میں ایک ماہ قبل ہی ریٹائر ہوچکے تھے۔ پی ایم مودی چونکہ فی الحال پوری طرح انتخابی مہم میں غرق ہیں اس لیے غالباً انہیں اس کا پتہ ہی نہیں چلا اور معلوم بھی ہوا تو انہیں نئے الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے میں دل چسپی نہیں تھی یا فرصت نہیں ملی ۔ خیر وجہ جو بھی ہو الیکشن کمیشن دو افراد تک محدود ہوگیا ہے۔ مودی کی اگر کام کرنے والی سرکار ہوتی تو پانڈے کی سبک دوشی سے پہلے
ہی ان کی جگہ آنے والے الیکشن کمشنر کا تقرر کر دیا جاتا اور وہ فوراً جگہ سنبھال لیتا لیکن ایسا نہیں ہوا کیونکہ یہ جملہ باز حکومت ہے جو صرف ڈرامہ کرنا جانتی ہے۔ تیسرے الیکشن کمشنر ارون گوئل نے اپنے ساتھی کی خالی جگہ پُر ہونے کا انتظار بھی نہیں کیا اور اچانک جھولا اٹھا کر یعنی استعفیٰ دے کر چل دیے ۔
ارون گوئل نے حکومت کے کہنے پر ہی استعفیٰ دیا ہوگا لیکن ان کی چھٹی کرنے والی مودی سرکار نے یہ نہیں سوچا کہ اس کی اس حماقت سے تین رکنی الیکشن کمیشن آف انڈیا میں صرف ایک فعال رکن رہ جائے گا۔ پی ایم مودی تو خیر بزبان خود’ ایک اکیلا سب پر بھاری‘ ہیں لیکن بے چارہ تنہا چیف الیکشن کمشنر تینوں کا متبادل کیسے بن سکتا ہے؟ یہ نازک صورت حال ایک ایسے وقت میں بنی جب قومی انتخاب کے بادل چہار سو چھائے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کے علاوہ کانگریس پارٹی بھی اپنے امیدواروں کی دو دو فہرستیں جاری کرچکی ہے۔ پی ایم مودی ان مشکلات سے بے نیاز ہیں کیونکہ ان کو نہ تو الیکشن کی ضرورت ہے نہ الیکشن کمیشن کی۔ وہ تو اپنے آپ کو ایسا اوتار سمجھتے ہیں جو انتخابی کامیابی کا محتاج نہیں ہے ۔
اس کے باوجود دکھاوے کے لیے مودی سرکار نے اپنی من مانی کرتے ہوئے سکھبیر سنگھ سندھو اور گیانیش کمار کو ملک کے اگلے الیکشن کمشنر کے طور پر مقرر کر دیا۔ ان دونوں بیوروکریٹس کو الیکشن کمشنر مقرر کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم مودی کی قیادت والی سلیکشن کمیٹی نے بڑی جلد بازی میں کیا کیونکہ اس بابت ایک مقدمہ عدالت میں زیر سماعت تھا اور وہ فیصلے سے قبل اس کام کو نمٹا دینا چاہتے تھے۔ اس طرح کی حکومتی دھاندلی کے خلاف ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمس (اے ڈی آر) اور کانگریس رہنما ڈاکٹر جیا ٹھاکر نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کر رکھا ہے۔ اس میں چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرس کی تقرری کے لیے بنائے گئے نئے قانون کو چیلنج کرتے ہوئے جلد از جلد سماعت کی درخواست کی گئی ہے۔ جس دن یہ معاملہ جسٹس کھنہ کی بنچ کے سامنے آیا دوسرے ہی دن گھبرا کر سرکار نے کمیشن میں دو لوگوں کی تقرری کر دی۔ ان میں ایک کو لوک پال بنے ہوئے ایک ماہ کا بھی عرصہ نہیں ہوا تھا۔ اس طرح ہڑبڑاہٹ کا شکار حکومت نے یہ فیصلے کیے تاکہ عدالت کی جانب سے کوئی حکم نامہ یا رکاوٹ آنے سے قبل اپنا آدمی مقرر ہو جائے۔ مذکورہ عرض داشت میں یہ کہا گیا ہے کہ اس نئے قانون سے آئین کے آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنرز کی تقرری کا معاملہ اس ماہ کی 11 تاریخ کو سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ عدالت میں درخواست دائر کرتے ہوئے حکومت کو نئے ایکٹ کے مطابق چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنر کی تعیناتی سے روکنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی درخواست میں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلے کے مطابق الیکشن کمیشن کے ممبر کی تقرری کی ہدایات دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ الیکشن کمشنر ارون گوئل کے استعفیٰ کے بعد یہ معاملہ زور پکڑ گیا۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمشنروں کی تقرری سے متعلق مرکز کے نئے قانون کو چیلنج کرنے کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہنوز زیر التوا تھا کہ اچانک 14؍ مارچ کو سلیکشن کمیٹی کا اجلاس ہوگیا۔ مرکزی وزیر قانون ارجن رام میگھوال کو دونوں عہدوں کے لیے پانچ پانچ ناموں کے دو الگ الگ پینل تیار کرنے تھے لیکن انہوں نے نہیں کیے۔ اس لیے 220 لوگوں کی طویل فہرست پکڑا کر اچانک 6 لوگوں کی شارٹ لسٹ پیش کر دی گئی اور اس میں سے دو کے نام پر مہر ثبت کر دی گئی۔
سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور الیکشن کمشنروں کی تقرری سے متعلق معاملے میں دائر کردہ درخواست کے اندر مرکز کے موجودہ نظام پر بھی سوالات اٹھائے ہیں جس میں اپنی پسند کے حاضر سروس بیوروکریٹس کو بطور سی ای سی اور ای سی تعینات کیا گیا ہے۔ ایسے میں نئے الیکشن کمشنر گیانش کمار اور ڈاکٹر سکھبیر سنگھ سندھو کی بطور الیکشن کمشنر تقرری پر عدم استحکام کی تلوار لٹکنے لگی ہے۔ حالانکہ وزارت قانون و انصاف کے نوٹیفکیشن پر چند گھنٹوں کے اندر صدر مملکت دروپدی مرمو نے دستخط کردیے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ تیار بیٹھی تھیں اور انہوں نے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ کانگریس کے سینئر رہنما ادھیر رنجن چودھری بھی اس کمیٹی میں شامل تھے لیکن انہوں نے ان تقرریوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اس پر اختلافی نوٹ لکھ دیا جسے بڑے آرام سے کوڑے دان کی نذر کر دیا گیا۔
اس کمیٹی سرکار کی جانب سے وزیر داخلہ امیت شاہ کا تقرر کیا گیا مگر اس ضابطے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر قانون ارجن رام میگھوال کو بھی بلا لیا گیا۔ وہ اگر مختصر لسٹ بنانے کی اپنی ذمہ داری ادا کرتے تب تو اس کا جواز تھا لیکن ویسا بھی نہیں ہوا۔ اب اگر وزیر قانون خود ضابطوں کو پامال کرے تو کس سے توقع کی جائے۔ ادھیر رنجن چودھری کو شکایت ہے کہ میٹنگ میں شرکت سے پہلے انہوں نے مختصر فہرست مانگی تھی اور یہی روایت ہے مگر انہیں جو فہرست دی گئی ہے اس میں 212 نام تھے، اس لیے تمام ناموں کے بارے میں جاننا مشکل تھا۔ ویسے بھی چونکہ کمیٹی میں اکثریت حکومت کے حق میں ہے، اس لیے ان کے کچھ کہنے یا نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، فیصلہ تو وہی ہوتا جو حکومت چاہتی ہے یعنی سرکاری منشا کے مطابق ہی الیکشن کمشنر کا تقرر ہونا تھا۔ ادھیر رنجن چودھری کے خیال میں چیف جسٹس آف انڈیا کو اس کمیٹی میں ہونا چاہیے تھا لیکن گزشتہ سال مودی حکومت کی جانب سے بنائے گئے قانون نے اس میٹنگ کو ایک رسمی نشست میں بدل دیا ہے۔ زیر سماعت مقدمہ کی چیف جسٹس کا دو دن کے اندر سماعت کی تاریخ دلوانا ان کے تیور ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کے خلاف سپریم کورٹ کے موجودہ فیصلوں کو نظر انداز کرنا اب ذرائع ابلاغ کے لیے ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ موجودہ رسہ کشی کے سبب اگر سپریم کورٹ کا اس بابت حکومت کے خلاف کوئی سخت فیصلہ آجائے تو انتخابی موسم میں مودی سرکار کو کہیں منہ چھپانے کے لیے جگہ نہیں ملے گی ۔
(ڈاکٹر سلیم خان نیوکلیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں جن کی تحریریں ملک و بیرونِ ملک بڑے پیمانے پر پڑھی جاتی ہیں۔)
***

 

***

 سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) اور الیکشن کمشنروں کی تقرری سے متعلق معاملے میں دائر کردہ درخواست کے اندر مرکز کے موجودہ نظام پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں جس میں اپنی پسند کے حاضر سروس بیوروکریٹس کو بطور سی ای سی اور ای سی تعینات کیا گیا ہے۔ ایسے میں نئے لیکشن کمشنر گیانش کمار اور ڈاکٹر سکھبیر سنگھ سندھو کی بطور الیکشن کمشنر تقرری پر عدم استحکام کی تلوار لٹکنے لگی ہے حالانکہ وزارت قانون و انصاف کے نوٹیفکیشن پر چند گھنٹوں کے اندر صدر مملکت دروپدی مرمو نے دستخط کردیے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ تیار بیٹھی تھیں اور انہوں نے عدالت کے فیصلے کا انتظار کرنے کی بھی زحمت نہیں کی۔ کانگریس کے سینئر رہنما ادھیر رنجن چودھری بھی اس کمیٹی میں شامل تھے لیکن انہوں نے ان تقرریوں سے اتفاق نہیں کیا بلکہ اس پر اختلافی نوٹ لکھ دیا جسے بڑے آرام سے کوڑے دان کی نذر کر دیا گیا۔


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 24 مارچ تا 30 مارچ 2024