ابوظبی میں مودی اور وارانسی میں راہل

کانگریس مُکت بھارت یا ’کانگریس یکت (ملی) بی جے پی؟

ڈاکٹر سلیم خان

للن شرما نے کلن مشرا سے پوچھا: یار یہ بتاو کہ اپنے پردھان جی ابوظبی کے مندر سے لوٹے یا نہیں؟
کلن بولا یار تم یہ احمقانہ سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟ وہ پوری انسانیت کو اپنا کنبہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے اگر یو اے ای میں بھی رہ جائیں تو تمہیں کیا اعتراض؟
للن نے کہا یار اپنے پردھان جی کو اس حقیقت کا احساس ملک کے اندر کیوں نہیں ہوتا۔ وہ جب باہر جاتے ہیں تبھی ’واسودھیوا کٹمبکم‘ کا نعرہ لگاتے ہیں؟
ارے بھیا گھر کی مرغی دال برابر ہوتی ہے اس لیے وہ ہمیں اپنے خاندان کا فرد نہیں سمجھتے اور دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں اس لیے باہر جا کر کہتے ہیں۔
یار کلن تمہیں شرم آنی چاہیے کہ تم نے پردھان جی کو سبزی خور سے گوشت خور بنا دیا۔
ارے بھیا میں یہ مہا پاپ کیسے کر سکتا ہوں مگر سچائی یہی ہے کہ کوئی بھی شخص کسی اور کو نہ تو گوشت خور بنا سکتا اور نہ حرام خور۔ یہ صفات تو انسان خود اختیار کر لیتا ہے۔
اچھا! تم نے پردھان جی کو پہلے تو مرغی خور اور اب یہ کیا کہہ دیا ۔۔۔۔۔۔میں تو یہ الفاظ اپنی زبان پر بھی نہیں لا سکتا۔ تم پر یو اے پی اے لگے گا۔
کلن ہنس کر بولا اوہو، سمجھتے کیوں نہیں گھر کی مرغی تو محاورہ ہے اور حرام خوری ایک تمثیل ہے۔ یہ بات میں نے کسی فردِ خاص کے بارے میں نہیں کہی۔
للن نے کہا میں ابوظبی سے واپسی کے بارے میں سوال کر رہا تھا تم نے بات بدل دی۔
یار مجھے تو لگتا ہے وہ سبکدوش ہونے کے بعد کا منصوبہ بنا رہے ہیں کیونکہ بزرگوں کا جو عیش دبئی میں ہے وہ احمد آباد میں کہاں؟
کیا! مودی اور سبکدوش؟ وہ بھلا کیسے ریٹائر ہوسکتے ہیں؟
کیوں اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ ہر انسان ایک نہ ایک دن مارگ درشک منڈل میں جاتا ہے الاّ یہ کہ اس سے پہلے جہانِ فانی سے کوچ کر جائے۔
جی ہاں تم نے صحیح کہا ہر انسان کی یہ مجبوری ہے لیکن مودی تو بھگوان ہیں۔ ان کو ریٹائر ہونے کی کیا ضرورت؟
کلن نے کہا اچھا! تو کیا ہمارے سارے بھگوان ابھی موجود اور اقتدار میں ہیں؟
یار کلن میرے ایک آسان سے سوال کا جواب دینے کے بجائے تم ادھر اُدھر نکل جاتے ہو۔ یہ بتاؤ کہ وہ واپس آئے یا نہیں؟
ارے بھیا آگئے، آگئے، آگئے۔ اب بولو کہ آخر تم اتنے پریشان کیوں ہو؟
یار میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر وہ گئے ہی کیوں تھے۔ ایودھیا میں رام مندر کے بعد انہیں آرام کرنا چاہیے تھا کیونکہ انتخاب تو ہم لوگ جیت ہی چکے ہیں۔
جی ہاں! لیکن بہت بڑی جیت کے لیے اگر وہ تھوڑا بہت ہاتھ پیر مار لیں تو تم کو کیا اعتراض ہے؟
یار مجھے تو لگتا ہے کہ زیادہ کے چکر میں ہم اپنا بہت زیادہ نقصان نہ کر بیٹھیں کیونکہ بڑے بوڑھے کہتے ہیں کہ لالچ بری بلا ہے۔
یار للن تم ایسا کیوں سوچتے ہو؟ مودی جی اس بار ایوانِ پارلیمان کی ساری نشستیں جیت کر ورلڈ ریکارڈ بنانا چاہتے ہیں تو اس سے تمہیں کیا پریشانی ہے؟
بھائی دیکھو، ابھی حال کی مثال ہے وہ باہر کیا گئے کہ سپریم کورٹ نے موقع دیکھ کر چوکا مار دیا۔
کلن نے پوچھا یار کس عدالت کی ہمت ہے کہ وہ مودی جی کے چشم ابرو کی خلاف ورزی کرسکے؟ یہ ناممکن ہے۔
یہ تمہارا خیالِ خام ہے کلن، ہوش میں آؤ۔ سپریم کورٹ نے ہماری تجوری پر ڈاکہ ڈال دیا میرا مطلب ہے الیکٹورل بانڈ پر پابندی لگا دی۔
اچھا اس کی یہ مجال؟ لگتا ہے سی جی آئی اندر سے کانگریسی ہے۔ ہم اس کو سبق سکھائیں گے اور کانگریس کا خزانہ سیل کر دیں گے۔
للن بولا بھیا! اپنے شاہ جی نے تمہارے مشورے کو پہلے ہی عملی جامہ پہنا دیا مگر پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گئے۔
کلن بولا کیا بکواس کرتے ہو۔ شاہ جی سے سب ڈرتے ہیں۔ وہ کسی سے نہیں ڈرتے۔
میں بھی یہی سوچتا تھا کلن مگر ان کی اس بزدلی کے بعد میری رائے بدل گئی ہے۔ قسم سے میرا تو دل ہی ٹوٹ گیا۔
یار تم چانکیہ کی حکمت عملی نہیں سمجھتے۔ اس پیچھے ہٹنے کے پیچھے بھی کوئی بہت بڑی چال ہوگی۔
کاہے کی چال اور کیسا چرتر؟ جیسے ہی راہل گاندھی اپنی یاترا پر وارانسی پہنچا شاہ جی کی ہوا ٹائٹ ہوگئی۔
کلن نے چونک کر پوچھا راہل کی مجال کہ وہ پردھان جی کے کچھار میں بلا روک ٹوک قدم رکھے۔ اس سے بڑھ کر شرم کی بات کیا ہوسکتی ہے؟
بھیا روکنے کی کوشش تو کی گئی لیکن وہ تو سیدھا کاشی وشو ناتھ مندر میں گھس گیا۔
اچھا ! میں نے تو اس کی مندر والی تصویر نہیں دیکھی؟
تصویر کیسے دیکھتے؟ یوگی انتظامیہ اسے نہیں روک سکا تو تصویر لینے پر پابندی لگا دی۔
کلن نے سوال کیا اچھا! لیکن میں نے آج ہی بھکتوں کے گروپ میں یوگی جی کی گیانواپی مسجد کے اندر جاکر پوجا کرتے ہوئے تصویر دیکھی ہے۔
بھیا وہ تو راہل کی کامیاب یاترا کے اثرات زائل کرنے کی ایک بھونڈی کوشش تھی لیکن افسوس کہ اس معاملے میں یوگی جی راہل کی نقالی کرتے نظر آئے۔
کلن بولا یار لیکن یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وزیر اعلیٰ اپنی ویڈیو پھیلائیں اور راہل کی تصویر بھی دبا دیں۔ اس سے تو مہاراج کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے۔
ہاں وہ تو ہے لیکن آخر انہیں راہل سے اتنا ڈرنے کیا ضرورت ہے؟
بھیا راہل گاندھی کو عوام کی جو زبردست حمایت ملی اس سے یوگی تو کیا خود مودی بھی ڈر گئے ہوں گے۔
کیا بکواس کرتے ہو کلن۔ مودی جی کسی سے نہیں ڈرتے۔ تمہارا یہ گمان سراسر غلط ہے۔
کلن بولا اندر کی بات بتاوں؟ مودی جی نیا حلقہ انتخاب ڈھونڈ رہے ہیں کیونکہ اگر وارانسی سے پرینکا گاندھی لڑ جائیں تو مشکل کھڑی ہو سکتی ہے۔
یار لیکن اگر پردھان جی بھاگ جائیں تو بڑی بے عزتی ہوگی۔
وہ بھاگیں گے نہیں بلکہ ساتھ میں کسی اور محفوظ حلقہ انتخاب سے قسمت آزمائیں گے کیونکہ کہیں نہ کہیں سے سہی پردھان تو بننا ہی ہے۔
للن بولا کیسی باتیں کرتے ہو کلن؟ انہوں نے تو کہا تھا کہ میں اپنے لیے نہیں غریبوں کی خدمت کے لیے پھر وزیر اعظم بننا چاہتا ہوں۔
ارے بھیا ایسا تو کہنا ہی پڑتا ہے لیکن اس کے لیے بھی تو الیکشن جیتنا پڑے گا۔
تو کیا تمہارا مطلب ہے اپنی پوری پارٹی میں ان کے علاوہ کوئی غریبوں کی خدمت نہیں کرے گا؟
کلن نے کہا ایسی بات نہیں ہے۔ ہم سبھی کریں گے لیکن ان کی طرح خدمت کوئی اور نہیں کرسکتا۔
جی ہاں وہ تو ہم نے دیکھ لیا ہے۔ دس سالوں میں ان کی خدمت کے طفیل بیاسی کروڑ لوگ سرکاری اناج کے محتاج ہوچکے ہیں۔
اچھا تو تم کہنا کیا چاہتے ہو؟
یہی کہ اگلے پانچ سال کے لیے اقتدار میں آگئے تو اڈانی اور امبانی جیسے چند لوگوں کے سوا سبھی کے ہاتھ میں بھیک کا کٹورا پکڑا دیں گے۔
کلن پوچھا ایسا اشبھ مت بولو ۔یہ بتاؤ کہ راہل کی یاترا میں ایسا کیا تھا جو پردھان جی ڈر گئے؟
ارے بھیا کیا نہیں تھا یہ پوچھو۔ پہلی بات تو اس یاترا نے ہمارے سارے مخالفین کو متحد کر دیا۔ اس کے ساتھ سماجوادی پارٹی اور اپنا دل دونوں آگئے۔
تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟
کانگریس کے ساتھ پسماندہ ہوں تو ہماری نیّا ڈوب جائے گی۔ اور تمہیں تو معلوم ہے پچھلی بار پلوی پٹیل نے نائب وزیر اعلیٰ کیشو پرشاد موریا کو ہرا دیا تھا۔
یار لیکن حزب اختلاف کے اتحاد کو توڑنا ہم جانتے ہیں اس لیے کوئی فکر مندی کی بات نہیں ہے۔
للن بولا بھائی دیکھو اس بار راہل نے سارے طبقات کو ساتھ لینے کی کوشش کی ہے۔
سب طبقات! کیا مطلب؟
مطلب یہ کہ وہ مندر بھی گیا اور ہندو یونیورسٹی بھی پہنچ گیا۔
وہاں یونیورسٹی کس لیے گیا تھا؟
ووٹ کے لیے اور کس کے لیے؟ ہمارے لوگوں نے طالبہ کی عزت لوٹی۔ اس نے مرہم رکھا۔ اب وہ طلباء ہمارے ساتھ آئیں گے یا اس کے ساتھ جائیں گے؟
کلن نے کہا ہاں یار پچھلی مرتبہ جب پردھان جی آئے تو اس وقت احتجاج جاری تھا اور انہیں اس کے سامنے سے گزرنا تھا۔
اچھا تو کیا ہوا؟
ہم نے مشورہ دیا کہ ان سے مل لیں۔ آپ ان کے نمائندہ ہیں۔ ان کی بات سنیں اور انہیں اطمینان دلائیں۔
ہاں یار وہ تو ضروری تھا۔ پھر کیا ہوا؟
ہوا یہ کہ پردھان جی نے راستہ بدل دیا اور پتلی گلی سے منہ چھپا کر نکل گئے۔ قسم سے بہت برا لگا۔
للن بولا ہاں یار تب تو یہ نوجوان ہمیں ووٹ نہیں دیں گے۔
وہی کیوں۔ ان کے اہل خانہ اور اڑوس پڑوس کے لوگ بھی ہمیں دوبارہ ووٹ دینے کی غلطی نہیں کریں گے۔
ہاں یار لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان آئی ٹی سیل کے بدمعاشوں نے یہ حماقت کیوں کی؟
ارے بھیا جب شیطان سوار ہوجائے تو انسان حیوان بن جاتا ہے اور پھر ہماری تربیت بھی ایسی ہے کہ وہ آدمی کو درندہ بنا دیتی ہے۔
لیکن یار یوگی جی ان کو بچا بھی تو سکتے تھے۔ انہیں پکڑانے کی کیا ضرورت تھی؟
کلن نے کہا یوگی تو یہی چاہتے تھے اسی لیے مدھیہ پردیش انتخابی مہم میں انہیں بھیج دیا۔
وہ تو پتہ ہے لیکن کام نکلنے کے بعد جیل بھیج دیا۔ یہ تو مہا خود غرضی ہے؟
بھیا ایک تو دباؤ بہت تھا۔ بد نامی ہو رہی تھی دوسرے سیاست میں دھوکہ بازی ہم کرتے ہی رہتے ہیں کبھی غیروں سے تو کبھی اپنوں سے۔
یار میں نے سنا ہے راہل سرو سیوا سنگھ نامی گاندھی جی کے آشرم میں بھی گیا تھا۔ وہی جس پر ہم لوگوں نے بلڈوزر چلا دیا تھا۔
کلن نے کہا جی ہاں، وہاں تو ایسی بھیڑ تھی کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
یہ کیسے ہوگیا؟ یوگی نے اس بھیڑ کو بلڈوزر سے کیوں نہیں کچلا؟ خیر اب ہم ان کے گھروں پر بلڈوز چلوا دیں گے۔
یار دیکھو نظریے کو طاقت سے کچلنے کی کوشش کی جائے تو وہ اور بھی طاقتور ہوجاتا ہے اس لیے یہ حماقت دوبارہ نہیں کرنا۔
ہاں یار تمہاری بات میں دم ہے۔ پہلے تو وہاں کوئی پھٹکتا نہیں تھا اور اب تم کہہ رہے ہو کہ بہت لوگ تھے۔
جی ہاں پہلے مسلمان بھی کانگریس کی ریلی میں کہاں جاتے تھے لیکن اس بار جب راہل ان کے محلے سے گزرا تو کمال کا جوش تھا۔
للن بولا یار مسلمانوں کا کیا ہے کہ جو بھی ہماری مخالفت کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔
کیوں نہ ہوں۔ ہم بھی تو دن رات ان کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں۔ اس کے جواب میں کیا تم محبت کی توقع رکھتے ہو۔
ہاں یار یہ بھی صحیح ہے۔ وہ لوگ اسی سے محبت کریں گے جو ان سے محبت کی بات کرے گا۔
وہی تو ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ہماری نفرت کی دکان کے بند ہونے کا وقت قریب آرہا ہے، لوگ اس سے اوب رہے ہیں۔
جی ہاں لیکن ہم کچھ اور کر بھی نہیں سکتے ہمارے پاس اس افیون کے سوا کچھ ہے بھی نہیں اس لیے اسی پر گزارا کرنا پڑے گا۔
اچھا یہ بتاؤ کہ جب راہل وارانسی میں دندناتا پھر رہا تھا تو ہمارے لوگ کیا چوڑیاں پہن کر بیٹھے تھے؟
للن نے سوال کیا۔ کیا مطلب؟ میں نہیں سمجھا؟
ارے بھئی یہی کہ انہوں نے راہل کو روکا کیوں نہیں؟ بھڑ جاتے اور ان کی حالت خراب کر دیتے؟
تمہارا مطلب ہے بسوا سرما کی طرح یوگی نے مخالفت کیوں نہیں کی؟
جی ہاں اب تو سرما کا قد اونچا ہوگیا اور یوگی وہی پستہ قد رہ گئے۔
یار ہم لوگ کبھی کبھار اپنی غلطی سے سبق سیکھ لیتے ہیں۔ آسام میں یاترا کی مخالفت سے اس کی مقبولیت بہت بڑھ گئی اس لیے یو پی میں گریز کیا گیا۔
کلن نے پوچھا۔ اچھا لیکن ہمارے لوگوں نے کچھ تو کیا ہوگا؟
جی ہاں! اپنے لوگوں نے نندی چوک کو گنگا جل سے شُدھ (پاک) کیا؟
یہ کیا بات ہوئی۔ سانپ نکل جانے کے بعد رسی پیٹنے سے کیا فائدہ؟ اچھا اس کی کیا وجہ بتائی گئی؟
یہ کہا گیا کہ راہل سناتن دھرم میں ایمان نہیں رکھتا کیونکہ گوشت خور ہے۔
لیکن شردھا کا پتہ اپنے لوگوں کو کیسے چل گیا؟ اور اگر ملک کے سارے گوشت خور غیر سناتنی مان لیے جائیں تو یہ دھرم اقلیت میں چلا جائے گا۔
ہاں یار یہ بات تو ہے۔ ویسے کوئی گوشت خور کہیں سے گزرے تو کیا ہم اس راستے کو گنگا جل سے پاک کریں گے؟
وہی تو اگر راہل کے قدم رکھنے سے نندی چوک ناپاک ہوگیا تو وشوناتھ کا مندر کیسے بچ گیا۔ اس کو پاک کیوں نہیں کیا گیا؟
للن بولا ہاں یار اگر ایسی بات تھی تو اسے اندر جانے کی اجازت ہی کیوں دی گئی؟
بھائی کیا کریں۔ یہ ہماری سیاسی مجبوری ہے۔
یار اتر پردیش میں یوگی وزیر اعلیٰ ہے اس کے باوجود اگر وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب میں ہم مجبور ہیں تو لعنت ہے ایسی ڈبل انجن سرکار پر۔
بات بگڑنے لگی تو للن نے موضوع بدلنے کے لیے کہا یار کلن، تم مسلمانوں سے کافی قریب ہو، یہ بتاو اتنا کچھ کرنے کے باوجود یہ ڈرتے کیوں نہیں؟
للن نے کہا بھیا ایسا ہے کہ وہ اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہیں اسی سے ڈرتے ہیں اس لیے کسی سے نہیں ڈرتے۔
ہاں یار یہ مسئلہ تو ہے ہم لوگ ہمیشہ کسی نہ کسی سے ڈرتے رہتے ہیں۔ جیسے مودی جی ہار کے ڈر سے کانگریسیوں کو پارٹی میں بھرے جا رہے ہیں۔
ہاں بھیا یہ بہت بڑی مصیبت ہے کل تک ہم اشوک چوہان کو کارگل کا غدار کہہ کر استعفیٰ مانگتے تھے اور اب وہ ہمارا رکن پارلیمان ہے۔
ارے بدعنوانی تو چھوڑو کل تک ہم کمل ناتھ کو رام کا دشمن راون کہتے تھے اب وہ لکشمن ہوگیا۔ آخر ہم لوگوں کو کیا منہ دکھائیں گے؟
یار میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا نعرہ ’کانگریس مکت بھارت‘ کا تھا اب ’کانگریس یکت بی جے پی‘ ہوگئی ہے۔
یہی تو مشکل ہے۔ ہم لوگ دن رات محنت کرکے پارٹی کو مضبوط کرتے ہیں اور یہ کانگریسی پارٹی میں شامل ہو کر پارلیمنٹ کے رکن بن جاتے ہیں۔
یار مجھے تو ان بدعنوان لوگوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوکر جئے شری رام کا نعرہ لگاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ یہ رام کی مریادا کے خلاف ہے۔
کلن بولا بھیا ہمارا اگلا ہدف دوبارہ اقتدار میں آنا ہے۔ رام نام جپنے کے لیے بہت عمر پڑی ہے۔
یار تم کو پتہ ہے مودی جی نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ غیر ملکی حکمراں ان کو ابھی سے اگست اور ستمبر میں دورے کی دعوت دے رہے ہیں؟
یار اس سے بڑی حماقت کی بات تو کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی؟
کیوں اس میں کیا غلط ہے۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ آئے گا تو مودی ہی؟
ارے بھیا وہ مودی جی کو اپنے بیٹے کی شادی میں نہیں بلا رہے ہیں۔ وہ تو ہندوستان کے وزیر اعظم کو دعوت دے رہے ہیں۔
للن بولا جی ہاں وزیر اعظم تو مودی ہی ہیں اس میں کیا غلط ہے؟
غلط کچھ نہیں غلط فہمی ہے۔ مودی اگر وزیر اعظم نہ ہوتے تو انہیں بلایا جائے گا اور اگر نہیں ہوں گے تو نہیں بلایا جائے گا۔
تمہاری یہ جلیبی جیسی منطق میں نہیں سمجھ پایا۔
ارے بھائی اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے انتخاب کے بعد جو بھی وزیر اعظم ہوگا وہ دعوت اس کو منتقل ہو جائے گی۔
تو کیا تمہیں لگتا ہے کہ انتخاب کے بعد مودی وزیر اعظم نہیں ہوں گے؟
مجھے تو لگتا ہے مگر انہیں خود نہیں لگتا۔
کلن نے پوچھا یہ تم سے کس نے کہا؟
ان کے عمل اور ان کی گھبراہٹ تو یہی کہتی ہے۔
میں نہیں سمجھا ۔
بھیا اگر ان کو اپنی جیت کا یقین ہوتا تو وہ کانگریسیوں کو توڑ توڑ کر اپنی پارٹی میں بھرتی نہیں کرتے۔
اب تم کہو گے کہ ابوظبی کے مندر کے افتتاح میں نہیں جاتے ۔
جی ہاں بالکل کہوں گا کیونکہ یہی سچ ہے۔
کلن بولا تمہاری بات درست ہے، پردھان جی اگر ابو ظبی نہ جاتے تو اچھا تھا۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت – شمارہ 25 فروری تا 2 مارچ 2024