آزادی کی 75ویں سالگرہ
صبرآزما حالات کے باوجود بھارتی مسلمان حوصلہ مندی کی تاریخ لکھ رہے ہیں
نور اللہ جاوید، کولکاتا
سیاسی خوداختیاری کے بغیر دینی شناخت کے ساتھ عزیمتوں کا سفر
ملک کے تعلیمی و معاشی منظرنامے پر عظیم مسلم شخصیتوں کے انمٹ نقوش
آزادی کی 75ویں سالگرہ جمہوریت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے،ان سات دہائیوں کے دوران ملک میں نہ صرف جمہوریت زندہ رہی بلکہ چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مستحکم جمہوری روایات اورتوانااقدار کے ساتھ ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے خود کفیل ہندوستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔نوآبادیاتی دنیا میں ہندوستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے متنوع تہذیب، کثیر لسانی اور کثیر مذہبی معاشرے کے باوجود جامع جمہوریت کی تعمیر کے چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ ہندوستان کے آئین نے تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق اور مذہب اور اظہار خیال کی آزادی فراہم کی ہے۔اگرچہ گزشتہ 75سالوں میں آئین کو اس کے روح اور اقدار کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے ہندوستانی معاشرہ بڑے پیمانے پر ناہمواریوں کاشکار ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی مضبوط معیشت اور فعال جمہوریت کسی خاص جماعت اور طبقات کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ ہندوستانی جمہوریت کو استحکام بخشنے میں ملک کے تمام طبقات اور ملک کا ہر علاقہ اہم کردار ادا کررہا ہے ۔بالخصوص ملک کی اقلیت، پسماندہ طبقات اور قبائلیوں کا کردارسب سے اہم اس لیے بھی ہے کہ تعلیمی ، معاشی اور سماجی پسماندگی کے باوجودملک کے جمہوری روایات اور جمہوری اداروں پر ان کا اعتماد سب سے زیادہ ہے۔جب کہ ان کے مقابلے میں جمہوریت اور ملک کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والے افراد مشکل آن پڑنے پر ملک چھوڑنے میں ذرابھی نہیں ہچکچاتے ۔
’’نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ ان انڈیا‘‘ کے حالیہ سروے میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقے کی طرح ملک کے اقلیتی طبقات بالخصوص مسلمان ملک کے جمہوری ادارے ، آئین اور عدلیہ پر یکساں اعتماد اور یقین رکھتے ہیں ۔ اگلی سطور میں ہم ’’نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ ان انڈیا‘‘ کی رپورٹ کے اعداد و شمار پیش کریں گے جس سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ 75سالوں میں تمام تر مشکلات، تعصب اور سماجی و معاشی ناہمواروں کے باوجود ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں نے اہم کردار اداکیا ہے۔
ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں سے روشن و منور ہے،مگر آزادی سے قبل 40کی دہائی میں فرقہ واریت میں اضافہ اور اس کے بعد جو حالات رو نما ہوئے وہ ملک کی تقسیم پر منتج ہوئے۔ تقسیم ہند کے سانحہ نے دو کروڑ سے زاید انسانوں کی زندگیوں کو براہ راست متاثرکیا ، اربوں روپے کی مالیت دونوں طرف ضائع ہوئی مگر ہندوستان میں تقسیم کے سانحہ سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوئے ۔شمالی ہندوستان بالخصوص دہلی میں مسلمانوں کو اجاڑ دیا گیا ، دشمن کی املاک (انیمی پراپرٹی)کے نام پر ہندوستان میں رہ جانے والوں کی جائداد اور کارخانوں پر قبضہ کرلیا گیا ۔تعصب اور نفرت کا عالم یہ تھا کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم اور عظیم مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کے دفتر کو ’’پاکستانیوں کی جائے پناہ ‘‘قرار دے دیا گیا تھا۔ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی صورت حال پر تحقیق و ریسرچ کرنے والے مشہورمصنف عمر خالدی نے اپنی کتاب’’Muslims in Indian Economy‘‘میں لکھا ہے کہ
ardar Patel as Home Minister, in fact removed Muslim Official who had opted to stay in India according to S.Gopal. Azad’s Ministry of Education , such as K.G Saiyidain, 1904-1971 Reacting on the Maulana;s refuge to a few frightened Muslim officials, Patel branded his Colleague’s Ministry a ” miniature Pakistan”. as recorded b J.N Sahni, a contemporary journalist. Inder Malotra later wrote tha "several of his cabinet colleagues used to say openly” if you want to see Pakistan . you don’t need a passport or a visa .just go to the Ministry of Education in the North Block .
آزادی کی 75ویں سالگرہ جمہوریت کی تاریخ میں ایک سنگ میل ہے،ان سات دہائیوں کے دوران ملک میں نہ صرف جمہوریت زندہ رہی بلکہ چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے مستحکم جمہوری روایات اورتوانااقدار کے ساتھ ملک ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے خود کفیل ہندوستان کی طرف بڑھ رہا ہے۔نوآبادیاتی دنیا میں ہندوستان ان چند ممالک میں سے ایک ہے جس نے متنوع تہذیب، کثیر لسانی اور کثیر مذہبی معاشرے کے باوجود جامع جمہوریت کی تعمیر کے چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا ہے۔ ہندوستان کے آئین نے تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق اور مذہب اور اظہار خیال کی آزادی فراہم کی ہے۔اگرچہ گزشتہ 75سالوں میں آئین کو اس کے روح اور اقدار کے ساتھ نافذ نہیں کیا جاسکا جس کی وجہ سے ہندوستانی معاشرہ بڑے پیمانے پر ناہمواریوں کاشکار ہے۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی مضبوط معیشت اور فعال جمہوریت کسی خاص جماعت اور طبقات کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ ہندوستانی جمہوریت کو استحکام بخشنے میں ملک کے تمام طبقات اور ملک کا ہر علاقہ اہم کردار ادا کررہا ہے ۔بالخصوص ملک کی اقلیت، پسماندہ طبقات اور قبائلیوں کا کردارسب سے اہم اس لیے بھی ہے کہ تعلیمی ، معاشی اور سماجی پسماندگی کے باوجودملک کے جمہوری روایات اور جمہوری اداروں پر ان کا اعتماد سب سے زیادہ ہے۔جب کہ ان کے مقابلے میں جمہوریت اور ملک کی معیشت سے فائدہ اٹھانے والے افراد مشکل آن پڑنے پر ملک چھوڑنے میں ذرابھی نہیں ہچکچاتے ۔
’’نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ ان انڈیا‘‘ کے حالیہ سروے میں اس حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقے کی طرح ملک کے اقلیتی طبقات بالخصوص مسلمان ملک کے جمہوری ادارے ، آئین اور عدلیہ پر یکساں اعتماد اور یقین رکھتے ہیں ۔ اگلی سطور میں ہم ’’نیشنل کونسل آف اپلائیڈ اکنامک ریسرچ ان انڈیا‘‘ کی رپورٹ کے اعداد و شمار پیش کریں گے جس سے واضح ہوتا ہے کہ گزشتہ 75سالوں میں تمام تر مشکلات، تعصب اور سماجی و معاشی ناہمواروں کے باوجود ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلمانوں نے اہم کردار اداکیا ہے۔
ہندوستان کی تحریک آزادی کی تاریخ مسلمانوں کی قربانیوں سے روشن و منور ہے،مگر آزادی سے قبل 40کی دہائی میں فرقہ واریت میں اضافہ اور اس کے بعد جو حالات رو نما ہوئے وہ ملک کی تقسیم پر منتج ہوئے۔ تقسیم ہند کے سانحہ نے دو کروڑ سے زاید انسانوں کی زندگیوں کو براہ راست متاثرکیا ، اربوں روپے کی مالیت دونوں طرف ضائع ہوئی مگر ہندوستان میں تقسیم کے سانحہ سے سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوئے ۔شمالی ہندوستان بالخصوص دہلی میں مسلمانوں کو اجاڑ دیا گیا ، دشمن کی املاک (انیمی پراپرٹی)کے نام پر ہندوستان میں رہ جانے والوں کی جائداد اور کارخانوں پر قبضہ کرلیا گیا ۔تعصب اور نفرت کا عالم یہ تھا کہ ملک کے پہلے وزیر تعلیم اور عظیم مجاہد آزادی مولانا ابوالکلام آزاد کے دفتر کو ’’پاکستانیوں کی جائے پناہ ‘‘قرار دے دیا گیا تھا۔ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، تعلیمی اور معاشی صورت حال پر تحقیق و ریسرچ کرنے والے مشہورمصنف عمر خالدی نے اپنی کتاب’’Muslims in Indian Economy‘‘میں لکھا ہے کہ
عمر خالدی کی کتاب کا یہ اقتباس واضح کرتا ہے مسلمانوں کے خلاف تعصب و نفرت صرف نیچے کی سطح پر نہیں بلکہ اعلیٰ سطح پر پائی جاتی تھی ۔مولانا آزاد جنہوں نے آخری وقت تک قیام پاکستان کی شدید مخالفت کی تھی ان کی وزارت کو ’’منی پاکستان ‘‘ قرا دینا کسی المیے سے کم نہیں تھا۔ان حالات اور ماحول میں مولانا آزاد نے1949میں منعقدہ لکھنو کانفرنس میں واضح لفظوں مسلمانان ہند کو پیغام دیا کہ ہندوستان ہی اب ان کا مقدر ہے ، جس طریقے سے اس ملک کی آزادی کے لیے ہم نے قربانیاں دی ہیں اسی طرح اس ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے پوری قوت صرف کی جائے گی اس ملک کے مفادات میں ہی مسلمانوں کا مفادات مضمر ہے۔اس کے ساتھ ہی مولانا آزاد نے مسلمانوں کی شناخت پر برادران وطن کو پیغام دیا کہ مسلمان اپنی 13سو سالہ قدیم شاندار مذہبی روایات سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں ۔ ہندوستانی شہری ہونا اور مذہبی شناخت پر اصرار کوئی متضاد شئے نہیں ہے ۔ بلکہ یہ دونوں ایک ساتھ باقی رکھے جاسکتے ہیں ۔ڈاکٹر رفیق زکریا نے اپنی کتاب ’’سردار پٹیل اور بھارتی مسلمان‘‘ میں ہندوستان کی آزادی کے بعد سردار پٹیل کے کردارکا بھر پور دفاع کیا ہے اور انہیں مسلمانوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس کے باوجود اس کتاب میں انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ ’’لکھنو کانفرنس ‘‘ کی تقاریر بالخصوص مولانا آزادکی تقریر پٹیل کو بالکل پسند نہیں آئی اور انہوں اس پر سخت تنقید بھی کی۔ تاہم آئین ساز اسمبلی کے بیشتر اراکین نے متفقہ طور پر سیکولر، لبرل اور مساوات پر مبنی دستور کو تشکیل دینے میں کامیابی حاصل کی ۔اس آئین میں اظہار خیال ، مذہب و کلچر اور زبان کو اختیار کرنے کی مکمل آزادی فراہم کرنے کے ساتھ ملک کے تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور مواقع فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ دستور میں تمام ہندوستانیوں کے بنیادی اور شہری حقوق کے تحفظ کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ کوئی بھی آئین خود بخود نافذ نہیں ہوجاتا بلکہ نفاذ کرنے والے افراد اور اداروں کو قوت فکر کے ساتھ قوت ارادی کا متحمل بھی ہونا پڑتا ہے۔اس کے لیے بار بار چیلنجز کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جیسا کہ اِس وقت فرقہ وارانہ تحریکوں کی وجہ سے دستور کے بنیادی اقدار پامال ہورہے ہیں۔چناں چہ ہندوستان کی آزادی کے وقت بھی قومی لیڈروں کو اس بات کا ادارک تھا کہ مستقبل میں ملک کی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کو ناانصافی اور غیر مساویانہ سلوک کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔چناں چہ جولائی 1948 میں نہرو نے لکھا تھاکہ میرا یقین ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ریاست ہے جس میں تمام مذاہب اور ثقافتوں اور ان کے درمیان تعاون باہمی کی مکمل آزادی ہے۔ میرا ماننا ہے کہ ہندوستان اسی وقت عظیم بن سکتا ہے جب وہ اپنی جامع ثقافت کو برقرار رکھے گا۔اس لیے میں فکر مند ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دیگر مذہبی گروہوں کو بھی اپنی ترقی کے لیے مکمل آزادی اور موقع ملنا چاہیے۔
مسلمانوں نے جمہوری اداروں پر یقین و اعتماد قائم رکھا
تقسیم ہند اور اس کے بعد لگاتار رونما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات نے مسلمانوں کی زندگی کی راہوں کو مسدود کردیا، شناختی بحران کے ساتھ جان و مال کی حفاظت کسی بھی چیلنج سے کم نہیں ہے۔حکومت ہند کی مختلف رپورٹس اور سروے اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں مسلمانوں کو تعصب اور ناانصافیوں کا سامنا ہے۔ہندوستان کی آزادی کے فوری بعد سے مسلسل فرقہ وارنہ فسادات بڑے پیمانے ہورہے ہیں مسلمانوں کے جان و مال کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔ملک کے اعلیٰ اداروں کے دروازے مسلمانوں کے لیے بند کردیے گئے۔ہفت روزہ دعوت کے انہی صفحات میں ڈاکٹر عمر خالدی کی ایک اورکتاب Khaki and Ethnic Violence in India: Army, Police and Paramilitary Forces During Communal Riots کے حوالے سے میں نے لکھا تھا کہ ہندوستانی افواج اور سیکورٹی فورسیس کے اعلیٰ عہدوں پر مسلمانوں کو پہنچنے سے کس طرح روکا جاتا ہے۔آزادی کے فوری بعد ہی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں وشوہندو پریشد ، بجرنگ دل اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مسلسل مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔منصوبے بند طریقے سے مسلمانوں کی معیشت کو ٹھیس پہنچائی گئی ۔جس میں میرٹھ ، مردآباد، علی گڑھ، بھاگلپور اور فیروز آباد جیسے شہر وں میں جہاں کی مقامی صنعت پیتل کے برتن ، تالے ، کپڑے اور چوڑی کے مینوفیکچرنگ اور تجارت پر مسلمانوں کا غلبہ تھا وہاں فسادات کرواکراس کاروبار سے مسلمانوں کو بے دخل کردیا گیا۔ان واقعات کے رد عمل میں مسلمانوں نے اجتماعی طور پر بنیاد پرستی اور مسلح مزاحمت کی راہ اختیارنہیں کی بلکہ جمہوری طریقے سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔عدالتوں کادروازہ کھٹکھٹایا اور انصاف کی امید لگائی۔گرچہ 99فیصد واقعات میں مسلمانوں کو انصاف نہیں ملے مگر یہ مسلمانوں کی ناکامی نہیں ہے بلکہ اس ملک کے نظام عدل کی ناکامی ہے جو قاتل اور غنڈوں کو انجام کار تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔جب کہ اسی ملک میں سکھوں کی مسلح تحریک، مائونوازو ں کی مسلح تحریک ، اFلفا، شمالی مشرقی ریاستوں میں علیحدگی پسند گروپ کی مسلح تحریک رونماہوئی ہیں جس کی وجہ سے ملک کی معیشت اور استحکام کو خطرات لاحق ہوئے ہیں۔مائونوازوں کا خطرہ اب بھی برقرار ہے۔
1980 کی دہائی سے ملک میں فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی شروعات ہوئی ، اکثریتی طبقات کی مختلف تنظیموں کی مسلم مخالف مہمات ،1992میں بابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد بڑے پیمانے پر فرقہ وارنہ فسادات اورملک کے سیاسی اور معاشی دھارے میںپسماندگی کے احساس کے باوجودمسلمانوں نے جمہور ی اقدار کی حفاظت کو ہی ترجیح دی۔ 1980 کی دہائی میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو افغانستان میں ’عالمی جہاد‘ میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی ۔دنیا بھر سے تقریباً 100,000 افراد عالمی جہاد کا حصہ بنے۔مگر ان میں سے کوئی ایک بھی ہندوستانی مسلمان نہیں تھا۔ہندوستانی مسلمانوں نے 1990 کی دہائی میں اور بعد میں 11/9 کے بعد ، مغربی اور جنوبی ایشیا میں مقامی وابستگان کے ذریعے القاعدہ کی قیادت میں بین الاقوامی جہاد سے بھی خود دور رکھا۔اگرچہ ملک بھر میں وقتاً فوقتاً داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہوتی رہی ہیں مگر بیشتر معاملات میں الزامات ثابت نہیں ہوئے ۔ملک کے سابق وزیر داخلہ اور موجودہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے 14جولائی 2018کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیا ۔ ’’جہاں تک مسلم آبادی کا تعلق ہے، ہندوستان دنیا کا دوسرا بڑا ملک جہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے۔ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے کے باوجود آئی ایس آئی ایس یہاں اپنے قدم جمانے میں یہاں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے ’بنیاد پرستی‘ کو خارج کردیا ہے ‘‘۔اسی طرح گزشتہ چار دہائیوں سے کشمیر میں حالات خراب ہیں ، علیحدگی پسند تحریک اور مسلح مزاحمتیں ہورہی ہیں ۔مگر ملک کے دیگر علاقوں میں آباد مسلمانوں نے کشمیر کے حالات کو درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔بلکہ اس معاملے میں ہندوستان کے موقف کی حمایت کرتے رہے جبکہ مسلمانوں کو معطون اور نشانہ بنانے کے لیے آئی ایس آئی ایجنٹ اور پاکستانی وفادار ہونے کا طعنہ دیا جاتارہا ہے ۔ گزشتہ 75سالوں میں کئی ایسے مواقع آئے جس میں ہندوستانی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر ملک کے مفادات کے تحفظ کے لیے قربانیاں پیش کی ہیں ۔کشمیر میں پاکستانیوں کی چڑھائی کا مقابلہ کرنا ہو یا پھر کارگل جنگ یا پھر بنگلہ دیش کاقیام ہر موقع پر ہندوستانی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ ملک کے مفادات کی حفاظت کی۔
دنیا کا کوئی بھی ملک اسی وقت ترقی کی راہ پر گامزن رہ سکتا ہے جب تک ملک میں امن و امان کی فضا قائم رہے اور اس کے جمہوری اداروں پر شہریوں کا اعتمادو یقین باقی رہے۔2015کے ایک سروے میں کہا گیا ہے کہ ‘کمیونٹی کے اعتبارسے 2009کے عام انتخابات میں 58فیصد اور 2014میں 64فیصد ہندئوں نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ لیا جب کہ مسلمانوں نے 2009میں 59فیصد اور 2014 میں 65فیصد مسلمانوں نے حصہ لیا۔64فیصد ہندوئوں نے اور 63فیصد مسلمانوں نے حکومتی ادارے پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ایک سروے رپورٹ نے یہ اعتراف کیا ہے کہ ہندو انتہا پسند عناصر کی اشتعال انگیزی کے باوجود، مسلم کمیونٹی نے تشدد حتیٰ کہ بڑے پیمانے پر احتجاج کے ذریعے جوابی کارروائی کرنے سے بھی گریز کیاہے۔جمہوری حقوق کے تحفظ کے لیے مسلم کمیونیٹی نے 2019میں ملک بھر میں این آر سی اور سی اے اے کے خلاف پرامن احتجاج کرکے مثال قائم کی ہے۔اجتماعی تصادم کی راہ ترک کرکے جہوریت پر یقین و اعتماد کا اظہار جو مسلمانوں کی سیاسی پختگی، قومی تحفظات کے بارے میں اس کے گہرے ادراک اور اپنے آپ کو قومی معاملات کا ایک لازمی حصہ سمجھنے کی تصدیق کرتا ہے۔وہیں یہ بھی ثابت کرتا ہے کہ ملک میں لااینڈ آرڈر کی مجموعی صورت حال بہتر ہے تودراصل اس میں مسلمانوں کا اہم کردار ہی ہے۔اگر تعصب اور نفرت انگیز مہم کے رد عمل میں اگر ہندوستانی مسلمان بھی تشدد اور مسلح مزاحمت کی راہ اختیار کرتے تو کیا آج ملک میں جو استحکام اور سیاسی و جمہوری نظام مضبوط و توانا ہے وہ ہوتا ؟۔
ہندوستان کے تعلیمی نظام میں مسلمانوں کا کردار
ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا تاریخی پس منظر ہے، مغلیہ دور حکومت کے زوال ، انگریزوں کے عروج کے ساتھ ہی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کی شروعات ہوگئی تھی۔اگرچہ 19ویں صدی کے دوسرے نصف میں علی گڑھ میں سرسید احمد خان، بنگال میں نواب عبد اللطیف اور جسٹس سید امیر علی نے مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کے خاتمے اور عصری تعلیم کے فروغ کے لیے کوششیں شروع کردی تھیں۔ سرسید اور نواب عبد اللطیف جیسی شخصیات کا موقف تھا کہ مسلمانوں کو سیاسی جدو جہد اور مزاحمت کی راہ ترک کرکے صرف اور صرف تعلیم پر اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے اور اس کے لیے انگریز بہادر کی تائید کرنی پڑے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔20ویں صدی کے دوسری دہائی میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے ایما پرمولانا محمد علی جوہر اور حکیم اجمل خان نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام عمل میں لایا۔
تعلیم کے مواقع فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔جیسا کہ سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں میں اسکولوں کی قلت کی وجہ سے مسلم بچوں میںپرائمری کے بعد ڈراپ آئوٹ کی شرح دوسرے طبقات کے مقابلے بہت ہی زیادہ ہے۔2019 کے ایک تجزیاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے نوجوانوں کی شرح مسلمانوں میں سب سے کم ہے۔15تا24 سال کی عمر کے گروپ میں صرف 39 فیصد مسلمانوں کا اندراج ہوا جب کہ درج فہرست ذاتوں (SCs) میں 44 فیصد، دیگر پسماندہ طبقات (OBCs) میں51 فیصد اور ہندو اعلیٰ ذاتوں میں 59 فیصد رہا۔
2017-18میں مسلمانوں میں گریجویشن مکمل کرنے والے نوجوانوں کا تناسب 14 فیصد تھا جب کہ دلتوں میں 18 فیصد، او بی سی میں 25 فیصد اور ہندو اعلیٰ ذاتوں میں 37 فیصد تھا۔ 2017-18میں ایس سی اور مسلمانوں کے درمیان فرق چار فیصد ہے جب کہ چھ سال پہلے 2011-12ممیں، ایس سی کے نوجوان تعلیمی حصول میں مسلمانوں سے محض ایک فیصد اوپر تھے۔ مجموعی طور پر ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فرق 2011-12میں نو فیصد تھالیکن 2017-18میں یہ بڑھ کر 11 ہو گیا ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مسلمانوں میں تعلیمی رجحان میں کمی آئی ہے بلکہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں شیڈول کاسٹ ، شیڈول ٹرائب اور دیگر طبقات میں تعلیمی رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ مسلمانوں کے نقطہ نظر سے گرچہ یہ اعداد و شمار مایوس کن ہیں ۔اس کا اقتصادی پہلو بھی ہے۔مجموعی اقتصادی ترقی میں تعلیم کا کلیدی کردارہوتا ہے۔تعلیم پر خرچ ایک سرمایہ کاری ہے اور اس سے انسانی سرمائے کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں اعلیٰ تعلیم کا کردار سب سے اہم ہے۔ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم میں مساوات ہمیشہ ایک چیلنج رہاہے۔ اعلیٰ تعلیم تک رسائی سماجی اور معاشی طور پر خوشحال طبقوں تک ہی محدود رہی ہے۔ 2017-18میمیں مجموعی انرولمنٹ ریشو (GER) کے حساب سے اعلیٰ تعلیم تک رسائی 26 فیصد تک ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ اضافہ منصفانہ نہیں ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان اعلیٰ تعلیم تک رسائی کے معاملے میں دوسری برادریوں سے بہت پیچھے ہیں وہ نہ صرف او بی سی اور اونچی ذات بلکہ ایس سی سے بھی پیچھے ہیں۔ واضح رہے کہ دیگر مذہبی اقلیتیں جیسے عیسائی، سکھ، جین اور بدھ مت بھی مسلمانوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کی تصدیق تعلیم سے متعلق تازہ ترین نیشنل سیمپل سروے کے اعداد و شمار سے ہوتی ہے۔ مسلمانوں میں جی ای آر 16.6 فیصد ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ 27.8 فیصد ہے۔ دیگر مذہبی اقلیتوں میں GER بھی مسلمانوں سے زیادہ ہے۔ عیسائیوں میں یہ 33.6 فیصد، سکھوں میں 29.8 فیصد، جینوں میں 72.1 فیصد اور بدھ مت کے ماننے والوں میں 30.9 فیصد ہے۔اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ملک میں آج بھی مسلمان اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے کے مواقع سے محروم ہیں۔ اگرچہ وقت کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم تک ان کی رسائی میں اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ اضافہ معاشرے کے دیگر طبقات کے مقابلے کافی کم ہے۔ مگر ان اعدادو شمار کی روشنی یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ مسلمانوں نے تعلیم سے یکسر منھ موڑے رکھا ہے ۔ناانصافی ہوگی اور یہ حقائق کے برخلاف ہے۔دراصل یہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی نااہلیوں کا نتیجہ ہے کہ اس نے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی تعلیمی ضروریات اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔دوسری طرف حالیہ برسوں میں مسلمانوں میں تعلیمی شعور میں اضافہ ہونے کے ساتھ اپنے ادارے قائم کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں کی کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔
شمالی ہندوستان کے مقابلے جنوبی ہندوستان کے مسلمان تعلیمی شعور کے اعتبار سے ہمیشہ سے آگے رہے ہیں ۔چناں چہ ہندوستان کی آزادی کے بعدعثمانیہ یونیورسٹی اور اس کے میڈیکل کالج جہاں اردو میڈیم میں طب کی تعلیم دی جاتی تھی کو حکومت نے اپنے کنٹرول میں کرلیا تو 1954میں ڈاکٹر سید نظام الدین نے حیدرآباد میں پیپلز میڈیکل کالج قائم کیا ۔ڈاکٹر سید نظام الدین احمدکالج کے پہلے پرنسپل تھے۔ مگر ریاستی حکومت نے عثمانیہ میڈیکل کالج کی طرح اس کالج کو بھی اپنی تحویل میں لے لیا اور اس کا نام بدل کر گاندھی میڈیکل کالج رکھ دیا ۔ 1989میں ڈاکٹر اے پی مجید خان نے کنیا کماری میں نورالاسلام یونیورسٹی قائم کی مگر بعد میں یہ ایک سرکاری یونیورسٹی میں تبدیل ہوگئی۔جامعہ ہمدرد، نئی دہلی کو 1989 میں ایک ڈیمڈ یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ ہمدرد نے یونانی ادویات کے تحقیقی اور تعلیمی مرکز کے طور پر اپنا سفر شروع کیا۔ 1964 میں یونیورسٹی کے بانی حکیم عبدالحمید نے 1953 میں دہلی کے تغلق آباد میں ادارے کے لیے زمین کی خریداری شروع کی۔ ان کے تعلیمی خواب کی شکل 1963 میں ہمدرد طبی کالج اور انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز کے قیام کے ساتھ سامنے آئی۔
گزشتہ پندرہ سالوں میں مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے حکومتی اور غیر حکومتیسطح پرکئی یونیورسٹیاں قائم کی گئی ہیں جن میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدرآباد (1998)، انٹیگرل یونیورسٹی، لکھنو (2004)، محمد علی جوہر یونیورسٹی، رام پور (2006)، مولانا مظہر الحق عربی وفارسی یونیورسٹی، پٹنہ شامل ہیں (جو 1998 میں قائم ہوئی تھی لیکن 2008سے فعال ہے۔بی ایس اے عبدالرحمن یونیورسٹی، چنئی (2008)، یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ری-بھوئی، میگھالیہ (2008)، عالیہ یونیورسٹی،کلکتہ (2008)، دی آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج (2008)، خواجہ غریب نواز عربی اردو فارسی یونیورسٹی لکھنو (2009)، الفلاح یونیورسٹی، فرید آباد، ہریانہ (2014) اور مولانا آزاد یونیورسٹی، جودھپور (2014)عظیم پریم جی یونیورسٹی، بنگلور،جسے 2010 میں ملک کے سب سے بڑے مسلم ارب پتی و صنعت کار عظیم پریم جی نے اپنے نام پر قائم کی ہے۔
2005میں یوپی ا ے حکومت کے ذریعہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ قائم ہونے کے بعد مسلمانوں کے ذریعہ تعلیمی اداروں کے قیام کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے ۔کیرالامیں تعلیمی ادارے کے قیام کی شروعات بہت پہلے ہوگئی تھی ۔1964 میں قائم ہونے والی مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے تحت 150تعلیمی ادارے چلتے ہیں ۔تاہم جنوب کی دیگر ریاستوں کرناٹک، مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش و تلنگانہ میں بھی بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے تعلیمی ادارے قائم کئے ہیں جس میں کالجز اور پروفیشنل ادارے شامل ہیں ۔اس طرح مہاراشٹر میں 1874میں قائم ہونے والا انجمن اسلام کے تحت کئی کالجز اور پروفیشنل ادارے چل رہے ہیں۔
جون میں آسا م اورمیگھالیہ کے سفر کے دوران حیرت انگیزبات معلوم ہوئی کہ 1983میں آسام کے نیلی میں مسلمانوں کے قتل عام کے بعد آسام میں مسلمانوں میں کالجز اور تعلیم ادارے قائم کرنے کے رجحانات میں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت 42ایسے کالجز ہیں جن میں بڑی تعداد میںمسلم طلبا وطالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں۔اسی طرح آسام کے کریم گنج کے رہنے والے محبوب الحق جنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی ہے۔2008میں میگھالیہ میں یو ایس ٹی ایم (یونیورسٹی سائنس آف ٹکنالوجی میگھالیہ)قائم کی۔محض 14 سالوں میں اس یونیورسٹی نے شمالی مشرقی ہندوستان کی سب سے معیاری یونیورسٹی ہونے کا درجہ حاصل کرلیا ہے اور ایک سال قبل ہی اس یونیورسٹی نیشنل اسسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل (NAAC) نے اے گریڈ کا درجہ دیا ہے۔محبو ب الحق آسام کے کریم گنج میں خاتون یونیورسٹی قائم کرنے کا عزم کررکھا ہے ۔حال ہی میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسواس شرما نے اسمبلی سیشن میں خاتون یونیورسٹی کے بل کو پیش کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔اسی طرح آسام میں اجمل فائونڈیشن کے تحت کئی کالجز چل رہے ہیں اور اس وقت اجمل فائونڈیشن ایک یونیورسٹی کے قیام کے لیے کوشش کررہی ہے۔بنگال میں ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں نے کالجز اور بڑے تعلیمی ادارے قائم نہیں کیے ہیں۔تاہم سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد مسلمانوں میں تعلیم کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور بڑی تعداد میں اسکول قائم ہوئے ہیں ۔اس کے نتیجے میں بنگالی مسلمانوں کی تعلیمی صورت حال میں بہتری آئی ہے ۔بنگال میں حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مدرسوں میں بڑی تعداد میں غیر مسلم طلبا بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔مدرسہ بورڈ کی رپورٹ کے مطابق 18فیصد غیر مسلم طلبا مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
معیشت کے استحکام میں مسلمانوں کا کردار
انگریزوں کی آمد سے قبل ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح20فیصد سے زاید تھی، ہندوستان کو مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلقات قائم کرنے اور تجارتی مراکزقائم کرنے میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔جنوبی ہند کی ریاستوں بالخصوص کیرالاکے ساحلی علاقے کی معیشت کے استحکام میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا ۔بنگال کا مرشدآباد ضلع ریشم اور کپڑے کی تجارت کے لحاظ سے ایک بڑا مرکز تھا۔انگریزوں کی آمداور اقتدار کی محرومی کے ساتھ مسلمان معاشی اعتبار سے بھی کمزور ہوتے چلے گئے۔رہی سہی کسر تقسیم ہند کے سانحہ نے پوری کی۔
مسلمانوں کادولت مند اور تاجر طبقہ جو روایتی طور پر مسلم لیگ کا حامی تھا وہ پاکستان ہجرت کرکے چلا گیا۔چناں چہ انڈین یونین بینک جو آزادی سے قبل حبیب بینک ہو تا تھا وہ آزادی کے بعد یونین بینک ہوگیا۔اسی طرح مہندرا اینڈ مہندرا جو آج ہندوستان کی ٹاٹا گروپ کے بعد سب سے بڑی آٹوموبائل کمپنی ہے اور ایک لاکھ سے زائد افراد اس کمپنی میں کام کرتے ہیںجسے1945میں مہیندار برادران اور ملک محمد خان کے اشتراک سے قائم کیا گیا تھا ۔اس کمپنی نے دوسر عالمی جنگ کے دوران اپنی برانڈ جیپ کی وجہ سے کافی شہرت حاصل کی کیوں کہ یہ کچی سڑکوں پر بھی آسانی سے دوڑسکتی تھی۔ان دونوں کا اشتراک تقسیم ہند تک چلتا رہا مگر ملک کی آزادی کے بعد ملک محمد خان پاکستان ہجرت کرگئے اور وہ پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ بنے۔لیاقت علی خان کے بعد گورنر جنرل منتخب ہوئے اور جنرل ایوب کے ہاتھو ںان کا زوا ل ہوا۔ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں کے لیے حالات چیلنجوں اور مشکلات سے بھر پور تھے۔شمالی ہندوستان کے مقابلے میں جنوبی ہندوستان میں آباد مسلمانوں کو تقسیم ہند کے سانحے کے اثرات کا مقابلہ کم کرنا پڑا ہے چناں چہ جنوبی ہند کی ریاستوں کے علاوہ گجرات اور مہاراشٹر میں آباد مسلمانوں میںتجارت کا رجحان باقی رہا۔شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کا لیبر طبقہ باقی رہ گیا۔گجرات کے مسلمان ہو ں یا پھر غیر مسلم دونوںمیں تجارت کا رجحان رہا ہے۔چناں چہ آج دنیا بھر میں گجراتیوں کا تاجر طبقہ کارو بار کرتا ہوا نظر آتا ہے۔جن مسلم صنعت کاروں نے اپنی اہمیت کا لوہا منوایا ہے ان میں سب سے بڑا نام عظیم پریم جی کا ہے۔عظیم پریم جی کے والد ہاشم پریم جی کوکنگ آف رائس برما بھی کہا جاتا ہے۔ان کے والد نے مہاراشٹر کے جل گائوں میں خوردنی تیل کا کاروبار شروع کیا تھا۔ محمد علی جناح نے انہیں پاکستان ہجرت کرنے کی ترغیب دی مگر انہوں نے ہندوستان میں رہنے کو ترجیح دی ۔1966میں والد کے انتقال کے بعد عظیم پریم جی نے اس کمپنی کو سنبھالا اور چند سالوں بعد ہی انہوں نے بنگلورو میں سافٹ ویئر کمپنی ’’ویپرو‘‘ قائم کی اور آج یہ کمپنی ہندوستان کی پانچ سب سے بڑی سافٹ ویئر کمپنیوں میں سے ایک ہے۔عظیم پریم جی32.8 امریکی بلین ڈالر کے ساتھ ہندوستان کے دوسرے سب سے بڑے دولت مند تھے ۔مگر اس کے بعد 2013میں عظیم پریم جی نے اپنی دولت کا نصف حصہ چھوڑنے کا اعلان کیا اور ہندوستان میں تعلیم کے فروغ کے لیے انہوں نے عظیم پریم جی فائونڈیشن قائم کیا اور 2.2بلین امریکی ڈالر کا عطیہ دیا۔اس فائونڈیشن کے تحت عظیم پریم جی یونیورسٹی کے علاوہ چھتیس گڑھ ، کرناٹک اور راجستھان کے دیہی علاقوں میں اسکولس چلائے جارہے ہیں۔ جینرک دوا سازی کے لیے مشہور کمپنی ووکھارٹ (Wockhardt)کے مالک ہابیل خوراکی والاہندوستان کی معیشت میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ خوراکی والا نے ہندوستان میں پہلا ڈپارٹمنٹل اسٹور بھی قائم کیا تھاایک اور گجراتی مسلمان خواجہ عبدالحمید نے دوا سازی میں قدم رکھا اور سیپلا (Cipla)نام سے کمپنی قائم کی۔ میڈیکل کے شعبے میں سپلا کی خدمات اور اس کی دوائیوں کا اہم کردار ہے۔کورونا وائرس کی وبا کے دوران سپلا نے کم قیمت پر ریمیڈ جیسی دوائیوں کو فراہم کیا۔اس وقت خواجہ عبدالحمید کے فرزند یوسف خواجہ عبد الحمید اس کمپنی کو چلارہے ہیں ۔
اگرچہ مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے مسلم تاجروں کی طویل فہرست نہیں ہے تاہم چند ایسے معتبر نام ہیں جو ملک کی اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں ۔ان میں سراج احمد تکت (تک گروپ )،مظفر احمد نوری باجوہ (چیئرمین، میبیونکس)محمد علی اسماعیل (چیئرمین، Kweenbee Telecom Pvt. Ltd. )معراج منال (چیئرمین، ہمالیہ ہربل ہیلتھ کیئر)،ارشاد مرزا (چیئرمین، مرزا انٹرنیشنل)محمد ارشد (بانی، چیرسیز ٹیکنالوجیز اینڈ کوڈ وی ڈی او)،ساجد نڈیا والا (چیف مینٹر، نڈیاڈوالا گرانڈسن انٹرٹینمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ)فیروز نڈیا والا (چیف مینٹر، بیس انڈسٹریز گروپ)شاہ رخ خان (بانی، ریڈ چلیز انٹرٹینمنٹ پرائیویٹ لمیٹڈ)عرفان عالم (چیئرمین، سمان فاؤنڈیشن)شاہین مستری (بانی، اکانکشا فاؤنڈیشن)حاجی اے آر نور محمد (چیئرمین نظام تمباکو فیکٹری اور نظام گروپ، نظام سکول، پڈوکوٹائی)سراج قریشی (ہند گروپ آف انڈسٹریز کے سربراہ)ذاکر وہاب (ایم ڈی اور سی ای او، ڈیٹا سمارٹ ای ایس پی ایل)احمد میران (منیجنگ ڈائریکٹر پروفیشنل کورئیر اور ڈائریکٹر ریپوٹ گروپ آف کمپنیز – ریپیوٹ لاجسٹکس، ریپیوٹ ایکسپریس، ریپیوٹ انفو ٹیک، ریپیوٹ واٹرس، پریسٹن انٹرنیشنل کالج، اور یونٹی پبلک اسکول)۔شہناز حسین (شہناز حسین گروپ کی سربراہ)مسٹر کے نواس کانی ایس ٹی کورئیر، ایس ٹی ٹریولز اور ایس ٹی موبائلز کے ڈائریکٹر ہیں۔جناب پرویز قادر (لبرٹی گروپ کے ارب پتی سی ایم ڈی)حاجی ابو بکر، منیجنگ ڈائریکٹر ہوٹل صدر، چنئی، نائب چیئرپرسن حج کمیٹی انڈیا، اشفاق احمد عبدل، iSharp ٹیکنالوجیز کے بانی اور چیئرمین، iSpacehost.com اور Flipeasy.in، رفیق احمد، فریدہ گروپ کے بانی اور مالک (بھارت کے جوتے برآمد کرنے والے نمبر ایک)حاجی اے وی ایم جعفردین، چیئرمین نیو انٹیکس مل لمیٹڈ۔ عبدالرزاق الانہ، الانہ گروپ کے مالک (کھانے کی مصنوعات کی برآمد میں ماہر)ہمدرد (وقف) لیبارٹریز کے بانی حکیم عبدالحمید۔ آصف کھدر اورمکرم جان، کرینز سافٹ ویئر انٹرنیشنل لمیٹڈ کے بانی۔فائیو بنگلو کارپوریشن کے بانی رفعت قیوم۔(5 نمبر)ایکمی ایکسپورٹ کے بانی شاہد امین خان۔ عبدالقیوم خان، گریس انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ کے بانی اور ڈائریکٹر۔ لمیٹڈمسز کہکشاں خان، کہکشاں ایکسپورٹ پرائیویٹ لمیٹڈ کی سی ای او۔ لمیٹڈ حاجی شفیع منصوری بانی (دہلی دربار گروپ)اجمل گروپ ،پتاکا گروپ اور حال ہی لکھنو میں ہندوستان کا سب سے بڑا شاپنگ مال کھولنے والے لولو گروپ کے نام شامل ہیں۔
ہندوستان کی معیشت میں چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعت اور غیر منظم سیکٹر ریڑھ کی ہڈی ہیں۔سب سے زیادہ روزگار یہیں ملتا ہے ۔چناں چہ نوٹ بندی ، تیاریوں کے بغیر جی ایس ٹی کے نفاذ اور 2020میں کورونا کے بحران نے اس سیکٹرکو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ملک میں مسلم ملکیت والے رجسٹرڈ مائیکرو، اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائززکی تعداد12فیصد ہے ۔مسلمانوں کے ذریعہ چلنے والے روایتی کاروباروں میں ریشم اور ریشمی زراعت، ہاتھ اور پاور لومز، چمڑے کی صنعت، آٹوموبائل کی مرمت اور کپڑے سازی جیسی صنعتیں ہیں۔غیر منظم (MSMEs )میں مسلمانوں کی نمائندگی 12 فیصد ہے۔مگر حالیہ برسوں میں یہ کارروبار زوال کا شکار ہے۔
ماہرین بتاتے ہیں کہ بینک مسلم تاجروں کو قرض دینے سے عموماً گریز کرتے ہیں ۔مذکورہ بالاحقائق کے باوجود کچھ ایسے تلخ حقائق بھی ہیں جو ہندوستان کی معیشت کے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر میں مسلم نمائندگی کی شرح 3فیصد سے بھی کم ہے۔اس لیے تعلیم کے شعبے کے ساتھ معاشی ترقی کی جانب مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
***
ماہرین بتاتے ہیں کہ بینک مسلم تاجروں کو قرض دینے سے عموماً گریز کرتے ہیں ۔مذکورہ بالاحقائق کے باوجود کچھ ایسے تلخ حقائق بھی ہیں جو ہندوستان کی معیشت کے لیے بھی اور مسلمانوں کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ سیکٹر میں مسلم نمائندگی کی شرح 3فیصد سے بھی کم ہے۔اس لیے تعلیم کے شعبے کے ساتھ معاشی ترقی کی جانب مسلمانوں کو منصوبہ بند طریقے سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہفت روزہ دعوت، شمارہ 14 اگست تا 20 اگست 2022