2002 گجرات فسادات: سپریم کورٹ نے ذکیہ جعفری کے ایس آئی ٹی اور ملزمین کے درمیان تعاون کے دعووں پر اعتراض کیا

نئی دہلی، نومبر 17: این ڈی ٹی وی کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ نے منگل کو کانگریس لیڈر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری کی طرف سے 2002 کے گجرات فسادات کیس میں خصوصی تفتیشی ٹیم اور کچھ ملزمین کے درمیان تعاون کے بارے میں لگائے گئے الزامات پر اعتراض کیا۔

سپریم کورٹ کے سامنے ذکیہ جعفری نے 64 لوگوں کو دی گئی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی کلین چٹ کو چیلنج کیا ہے، بشمول وزیر اعظم نریندر مودی کے جو 2002 میں گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔

عرضی گزار کے شوہر ان 69 افراد میں شامل تھے جو 28 فروری 2002 کو احمد آباد کے گلبرگ سوسائٹی میں ہجوم کی طرف سے پتھراؤ اور گھروں کو آگ لگانے کے دوران مارے گئے تھے۔

منگل کو جسٹس اے ایم کھانولکر، دنیش مہیشوری اور سی ٹی روی کمار کی بنچ سینئر وکیل کپل سبل کے دعوے کا جواب دے رہی تھی، جو ذکیہ جعفری کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سماعت کے دوران سبل نے کہا کہ تحقیقاتی ایجنسی اور کچھ ملزمین کے درمیان ’’تعاون کے واضح ثبوت‘‘ موجود ہیں۔

کپل سبل نے کہا ’’سیاسی طبقہ ساتھی بن گیا۔ یہ ملزم کے ساتھ تعاون سے متعلق ایک سخت کہانی ہے۔‘‘

وکیل نے نوٹ کیا کہ شکایات میں مجرموں کا نام نہیں لیا گیا۔ درخواست گزار کے وکیل نے دعویٰ کیا کہ اس کوتاہی سے ’’ریاست کی مشینری کا تعاون‘‘ ظاہر ہوتا ہے۔

بنچ نے کہا کہ تعاون اس معاملے میں ایک ’’سخت‘‘ لفظ ہے کیوں کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم عدالت کی طرف سے تشکیل دی گئی تھی۔

عدالت نے پوچھا ’’آپ [سبل] ایس آئی ٹی کے ذریعہ کی گئی تفتیش پر اعتراض کررہے ہیں؟

یہ وہی ایس آئی ٹی ہے جس نے دیگر معاملات میں چارج شیٹ داخل کی تھی اور انھیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔‘‘

لیکن سبل نے نشان دہی کی کہ ملزمین کے خلاف خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے مقدمہ نہیں چلایا اور انکوائری کو ثابت کرنے کے لیے ریکارڈ پر کچھ نہیں ملا۔

جمعرات کی سماعت کے دوران سبل نے دعویٰ کیا تھا کہ کال ریکارڈ موجود ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ 2002 میں جب فسادات ہوئے تو پولیس اہلکار اور ہجوم مسلمانوں کے گھروں کی شناخت کر رہے تھے۔

بدھ کو ذکیہ جعفری نے دعویٰ کیا تھا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے اہم شواہد کو نظر انداز کیا اور مناسب تحقیقات کیے بغیر کلوزر رپورٹ دائر کی۔ انھوں نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

اس ٹیم نے 8 فروری 2012 کو اپنی کلوزر رپورٹ پیش کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ فسادات کے معاملات میں مودی سمیت ملزمین کے خلاف کوئی قانونی ثبوت نہیں ہے۔

2013 میں جب جعفری نے کلوزر رپورٹ کی مخالفت کرتے ہوئے ایک پٹیشن دائر کی تھی، تو رپورٹ موصول کرنے والے مجسٹریٹ نے ان کی درخواست کو خارج کر دیا۔

اس کے بعد انھوں نے گجرات ہائی کورٹ کا رخ کیا۔ 2017 میں ہائی کورٹ نے مجسٹریٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا اور ان کی درخواست کو خارج کر دیا۔

جعفری نے اس کے بعد سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے، جس نے کہا ہے کہ وہ کلوزر رپورٹ کی جانچ کرے گی۔