ملک کی آزادی میں اردو صحافت کا بے مثال رول

ملک وملت کی تعمیر میں معروضیت اور فکری پہلووں کو اجاگر کیا گیا

اے یو آصف

دارالحکومت دلی میں دو سو سالہ جشن اردوصحافت تقاریب میں ٹیپو سلطان سے لے کر ابن صفی تک مجاہدین اردو کو یاد کیا گیا

 پریس کلب آف انڈیا، نئی دلی میں اردو صحافت کے دو سو سالہ سفر پر منعقدہ سیمینار میں شہید صحافی مولوی محمد باقر کے پورٹریٹ کی رونمائی کی گئی۔ اس موقع پر موجود شخصیات: گوتم لاہری، صحافی؛ اوماکانت لکھیرا،  صدر، پریس کلب آف انڈیا؛ لولین تھڈانی، اردو فلم نقاد؛ اوپیندر رائے، ایڈیٹر ان چیف، سی ای او سہارا انڈیا؛ ونئے کمار، سیکریٹری جنرل، پی سی آئی؛ ستیش جیکب، سابق بی بی سی صحافی؛ شمس تبریز قاسمی، ملت ٹائمز؛ اے یو آصف، مجلس عاملہ، پریس کلب آف انڈیا؛عارف اقبال، مدیر اردو ریویو؛ قربان علی، سابق بی بی سی صحافی؛ روہنی سنگھ، ڈی این اے؛ شاہد صدیقی، صحافی و سابق رکن پارلیمان؛ سید نور الزماں، سابق ڈپٹی ایڈیٹر، دی ٹریبیون؛ سید خلیق احمد، مدیر، انڈیا ٹومارو؛ ڈاکٹر عرفان وحید، مدیر، پیش رفت؛ ڈاکٹر ابھئے کمار، آزاد صحافی؛ خالد ملا، کثیر لسانی صحافی، ٹی وی 18 نیٹ ورک؛ نوید حامد، صدر، مسلم مجلس مشاورت بھی موجود رہے۔

 

برصغیر میں میڈیا کی جڑیں بہت ہی گہری ہیں۔ 1780 میں کولکاتا سے ایک انگریز جیمز آگستس ہکی نے سب سے پہلا اخبار ’بنگال گزیٹ‘ نکالا تھا جو کہ دو برس تک اپنے جلوے دکھا کر انتظامیہ کے عتاب کا نشانہ بن گیا۔ لیکن انگریزی کے اس اخبار نے مختلف زبانوں میں اخبارات شائع کرنے کا جذبہ اور رجحان پیدا کیا۔ ان دنوں اردو ایک عوامی زبان تھی۔ لہذا اس زبان میں یہ امنگ شروع سے دیکھی گئی۔ حتمی طور پر تو یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ اردو کا پہلا اخبار کون سا تھا۔ بعض مورخین 1794 میں ٹیپو سلطان کے ذریعے نکالے گئے فوجی اخبار کو پہلا اخبار مانتے ہیں تو بعض 1810 میں کولکاتا سے ہی مولوی اکرم علی کے ’اردو اخبار‘ کے سر یہ سہرا باندھتے ہیں۔ مگر ان مذکورہ بالا اخبارات میں سے کسی کی کاپی دستیاب نہ ہونے کے سبب محققین کی اکثریت 28 مارچ 1822 کو ہری دت اور سد لعل کے ذریعے فارسی اخبار ’جام جہاں نما‘ کے اردو ایڈیشن کے پہلے اردو اخبار ہونے پر اتفاق کرتی ہے۔ دراصل اسی لحاظ سے پورے ملک میں 2022 میں اردو میڈیا کا دو سو سالہ جشن منایا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف گوشوں سمیت قومی دارالحکومت دہلی میں بھی یہ جوش وخروش دیکھا گیا۔ دہلی میں دو بڑے پروگرام ہوئے۔ ایک دس ہزار ارکان والی دنیا کی سب سے بڑی صحافتی انجمن پریس کلب آف انڈیا میں تو دوسرا معروف صحافی معصوم مراد آبادی کا انڈیا اسلامک کلچرل سنٹرل میں اہتمام کردہ جس میں سابق نائب صدر جمہوریہ محمد حامد انصاری اور سنیر کانگریس رہ نما غلام نبی آزاد کے علاوہ چند ریاستوں کے متعدد اردو اخبارات کے مدیران و نمائندے اور دیگر محبان اردو شریک رہے۔

اول الذکر پریس کلب آف انڈیا کا 27 مارچ کو منعقدہ پروگرام اس لحاظ سے مختلف تھا کہ اس کا اہتمام ملک کی مختلف زبانوں کے صحافیوں کی سب سے بڑی انجمن نے کیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ پریس کلب گذشتہ چند برسوں سے اردو میڈیا میں غیر معمولی دل چسپی لے رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے اس پروگرام میں اردو کے علاوہ مختلف زبانوں کے صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ خوشی سے پھولے نہ سمائے ہوئے پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیرا نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ آزادی کی جنگ میں اردو میڈیا کا کردار سب سے اہم اور اس تعلق سے اس کی خدمات اور قربانیاں سب سے بڑھ کر ہیں اور اتنا ہی نہیں ملک کی آزادی کے بعد بھی اس نے اس کی تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لہذا دو سو سالہ اس تقریب کا عنوان بھی اسی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ اس موقع پر انھوں نے اردو میڈیا کو یہ بھی آفر دیا کہ پریس کلب کے احاطے مخصوص پروگراموں کے لیے بلا فیس ہمیشہ دستیاب ہیں۔ سکریٹری جنرل ونئے کمار نے جو کہ انگریزی روزنامہ ’دی ہندو‘ اور خبر رساں ایجنسی یو این آئی سے منسلک رہے ہیں کہا کہ اردو میڈیا کے صحافی مولوی محمد باقر کو 1857 میں ’غدر‘ کی سرگرمیوں کو کور کرنے کے لیے جام شہادت نوش کرنا پڑا۔ عیاں رہے کہ اسی تفتیشی صحافی کے ’پورٹریٹ‘ کی رونمائی کرنے کے بعد اسے پریس کلب میں نمایاں جگہ پر آویزاں کیا گیا۔ پروگرام کے آغاز میں معروف فلمی صحافی لولین تھڈانی، بی بی سی سے وابستہ رہ چکے شہرت یافتہ صحافی ستیش جیکب، سہارا نیوز نیٹ ورک کے سی ای او چیف ایڈیٹر اوپیندر رائے کے ساتھ ساتھ پریس کلب کے ذمہ داران کے ہاتھوں یہ تاریخی کام انجام پایا۔ اس پورٹریٹ کو لگانے کا فیصلہ 16 ستمبر 2021 کو مولوی باقر کے یوم شہادت کے موقع پر منعقدہ خصوصی پروگراموں میں کیا گیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی طے ہوا تھا کہ ہر سال اس موقع پر انھیں پریس کلب خراج تحسین پیش کرے گا اور متعدد صحافیوں کو بلا امتیاز مذہب وملت معروضی صحافت کو فروغ دینے کے لیے انعامات سے بھی نوازے گا۔

تقریباً چار گھنٹوں پر مشتمل پروگرام کے دوران اردو میڈیا کے دو سو سال کے سفر پر متعدد صحافیوں نے تفصیل سے روشنی ڈالی اور کہا کہ کتابت، سائیکلو اسٹائل اور ٹائپ رائٹر سے لے کر کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور موبائل تک ہر دور سے یہ گزرا ہے۔ نیز پرنٹ میڈیا کے ساتھ ساتھ نئے ذرائع اور زاویوں  (Dimensions) ریڈیو، دور درشن، ایف ایم ریڈیو، پرایویٹ چینلز، ویب اور سوشل میڈیا میں کم وبیش رواں دواں ہے۔

خاص بات یہ ہے کہ اردو میڈیا نے صرف تکنیکی ذرائع اور زاویوں میں ہی دوڑ لگانے کی کوشش نہیں کی ہے بلکہ ملک و ملت کی تعمیر میں معروضیت اور فکری پہلووں پر بھی زور دیا ہے۔ تبھی تو مختلف اردو اخبارات ورسائل، ریڈیوز، ایف ایم ریڈیوز، ٹی وی چینلز، نیوز پورٹلز، یو ٹیوب چینل اور سوشل میڈیا میں کسی نہ کسی حد تک اس کا یہ معروضی و تعمیری پہلو اب دکھائی دیتا ہے جو کہ ایک بامقصد نظام حیات کو پیش کرتا ہے۔ پرنٹ میڈیا کے مضامین ہوں یا الیکٹرانک، ویب اور سوشل میڈیا کے مختلف پروگرام یہ کوشش اب اجاگر ہونے لگی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 27 مارچ کو پریس کلب آف انڈیا کے اس پروگرام میں جہاں اپنی عام فکر ونظر یہ خواہ وہ قومی ہو یا ملی، کی نمائندگی کرتے ہوئے بی بی سی سے کبھی وابستہ رہے ستیش جیکب محترمہ لولین تھڈانی، محترمہ روہنی سنگھ (انگریزی روزنامہ ڈی این اے) راجیش بادل (راجیہ سبھا ٹی وی) اوپیندر رائے اور ماجد نظامی (سہارا نیوز نیٹ ورک) گوتم لاہری (سینئر صحافی) ڈاکٹر ابھے کمار (آزاد صحافی) پریس کلب کے ذمہ داران اور ملی فکر کے ساتھ کبھی دھوم مچانے والے شاہد صدیقی (مدیر نئی دنیا اور سابق رکن پارلیمنٹ) کے ساتھ قربانی علی (سابق بی بی سی) شیخ منظور احمد (ماہر خبر رساں ایجنسی) اور ہدایت اللہ جینٹل (نوجوان سیاسی لیڈر اور محب اردو) نیز نوید حامد (صدر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت) نے اظہار خیال کیا۔

وہیں مقصد حیات کے جامع اور آفاقی تصور کی میڈیا میں نمائندگی کرنے والے صحافیوں میں سے خالد ملا (نیوز 18  نیٹ ورک)، محمد عارف اقبال (اردو بک ریویو)، ڈاکٹر عرفان وحید (ادارہ ادب اسلامی ہند کے ترجمان ماہ نامہ پیش رفت کے مدیر)، صالح و سنجیدہ صحافت کی نمائندہ و مصنفہ ڈاکٹر صبیحہ ناہید اور احمد جاوید (سابق مدیر ہندوستان ایکسپریس اور انقلاب) وغیرہ محفل کو فکری و نظریاتی رنگت دیتے رہے۔ ملت ٹائمز کے بانی مدیر اعلیٰ شمس تبریز قاسمی جنھوں نے اپنی نیوز پورٹل اور یو ٹیوب چینل کے ذریعے لاکھوں افراد تک پہنچ بنائی ہے، اپنی سعی سے روشناس کرایا۔ ان تمام مقررین کے فراہم کردہ مدلل انداز نیز پر مغز مواد سے سامعین و شرکا پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ ملک کی تعمیر میں مثبت طور پر اردو میڈیا نے گذشتہ دو سو برسوں میں بہت ہی اہم اور کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملک کی معیشت، معاشرتی اصلاح، اخلاقی و تعمیری کردار اور جمہوریت کے چوتھے ستون کے ناطے خود میڈیا کے بطور اردو میڈیا نے ملک کو بنانے اور سنوارنے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا کا یہ پرمغز پروگرام بتاتا ہے کہ اردو میڈیا میں صرف جذباتی، قومی وملی ہی نہیں بلکہ صالح، تعمیر پسند اور فکری و نظریاتی پہلو بھی وابستہ ہو گئے ہیں اور اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔ غور کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ اردو میڈیا ملک کی مختلف زبانوں کے صحافیوں کے نمائندہ ادارے پریس کلب آف انڈیا کا اب جز لایفنک بن گیا ہے۔ اس سے اردو میڈیا اور اس کے صحافیوں کو مین اسٹریم میڈیا اداروں سے منسلک ہونے کا موقع ملا ہے۔ ایسے میں آفاقی تصور والے بامقصد صحافیوں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے جو تعمیری صحافت کو ملک میں فروغ دینے کے لیے اپنی اپنی جگہ سرگرم عمل ہیں۔

سکھ خاندان میں پیدا ہونے اور پلنے بڑھنے والی معروف صحافی محترمہ روہنی سنگھ نے کہا کہ ان کے گھر کی زبان اردو رہی ہے اور ان کے گرونانک نے گروگرنتھ کو اردو میں ہی پیش کیا تھا اور بابا فرید کی پند ونصیحت بھی اسی زبان میں ہے لہٰذا اس ‌زبان کو کسی مذہب تک مخصوص و محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اسی اثناء ناظم پروگرام، اے یو آصف نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے اطلاع دی کہ معروف صحافی سہیل انجم دہلی سے باہر رہنے کے سبب شریک محفل نہیں ہو سکے، لیکن انھوں نے پریس کلب کی فرمائش پر مختلف مذہبوں کے پچاس ممتاز غیر مسلم صحافیوں کی خدمات پر ایک کتاب تیار کی ہے جس کا عنقریب اجرا ہو گا۔ اسی طرح راجیش بادل نے کہا کہ اردو اخبارات ورسائل اپنے یہاں شائع ہونے والی نظموں کے ذریعے مجاہدین آزادی کے اندر جوش وخروش پیدا کرتے تھے۔ اس تاریخی تقریب کا آغاز معروف شاعر احمد علی برقی کی 200سالہ جشن کے موقع پر کہی گئی نظم سے ہوا۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ماہنامہ جاسوسی ناول کے مدیر مرحوم ابن صفی کی انوکھی صحافت کا بھی اس محفل میں ذکر خیر ہوا جنھوں نے لاکھوں افراد کے ذہنوں کو مثبت و فکری اقدار سے لیس کیا ہے۔

(مضمون نگار معروف صحافی اور پریس کلب آف انڈیا کے منتخب رکن مجلس عاملہ ہیں۔)

 

***

ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 تا 16 اپریل  2022