1917 کا پلیگ جس میں 80ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے

گاندھی جی کے خطوط سے آفت کی سنگینی کا اظہار

افروز عالم ساحل

کورونا وبائی مرض کی طرح ہی 102 سال پہلے 1918 میں پوری دنیا اسپینیش فلو کے قہر کی گرفت میں تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وبائی بیماری کی وجہ سے پوری دنیا میں کم سے کم 5 کروڑ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ وہیں ہندوستان میں اس انفلوئنزا کی وجہ سے قریب 12 ملین افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، جو عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس وقت ہندوستان نے اپنی آبادی کا چھ فیصدی حصہ اس بیماری میں کھو دیا۔

جس طرح سے آج ملک میں کورونا سے سب سے زیادہ اموات ممبئی میں ہوئی ہیں، ٹھیک اسی طرح 1918 میں بھی  اسپینیش فلو  کی وجہ سے سب سے زیادہ لوگ اس وقت کے  بامبے میں ہی مر رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق سال  1918 کی جولائی میں ہر روز قریب 230 لوگ اس فلو کی وجہ سے مارے جا رہے تھے۔

اس زمانے کے ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق 1918 میں پھیلنے والی اس وبا کی بنیادی علامت کم سے کم تین دن تک تیز بخار اور پیٹھ میں درد ہونا تھا۔ اس دور میں بھی اخبارات کے ذریعہ لوگوں کو صلاح دی جا رہی تھی کہ وہ دفاتر اور فیکٹریوں سے دور اپنے اپنے گھروں میں رہیں اور باہر نہ نکلیں۔ اس کے علاوہ بھیڑ بھاڑ والی جگہ مثلاً میلہ، تھیئٹر، اسکول، سنیما گھر، ریلوے پلیٹ فارم یا لیکچر ہال جیسے مقامات پر جانے سے گریز کریں۔ اس کے علاوہ ہوادار گھروں میں سونے، متناسب غذا کھانے اور ورزش کرنے کا مشورہ بھی دیا جارہا تھا۔ ان سب سے زیادہ اہم صلاح جو اخبار میں دی جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اس بیماری کے بارے میں زیادہ فکر نہ کریں۔

1917 میں ہندوستان میں پھیلی تھی پلیگ وبا، تقریباً 80 ہزار افراد کی موت

ہندوستان میں1917 میں پلیگ کی وبا پھیلی تھی۔ جولائی 1917 سے جون 1918 کے درمیان تقریباً 80 ہزار افراد موت کے شکار ہوئے۔ ایک طرف کسان ابھی اس وبا سے پوری طرح سے ابھرے بھی نہیں تھے کہ ضلع کھیڑا میں انگریزی افسران نے زور زبردستی کرکے کسانوں سے یہ کہلوا لیا تھا کہ لگان چکانے لائق فصل ہوئی ہے۔ گاندھی جی نے اس زور زبردستی کی سخت مخالفت کی۔ کمشنر پریٹ نے گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کے لیے صحیح راستہ یہی ہے کہ وہ بقایا رقم چکا دیں۔

ان سب باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے گاندھی نے 17 مارچ 1918 کو بمبئی کے گورنر کو ایک خط لکھا اور ان سے اپیل کی کہ ‘وبا کی وجہ سے ہونے والے مصائب کو مد نظر رکھتے ہوئے لگان کی وصولی ملتوی کردی جائے۔ اگر میری اس آخری درخواست نظر انداز کی جاتی ہے، جائیدادیں چھینی، بیچی یا ضبط کی جاتی ہیں تو مجھے کاشتکاروں کو کھلے عام لگان نہ ادا کرنے کی صلاح دینے کے لیے مجبور ہونا پڑے گا۔گاندھی ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں نے تین مرتبہ پلیگ کی وبا کا سامنا کیا ہے۔ اور ایک جگہ تو پلیگ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں میرا ہاتھ رہا۔ دیگر دو مواقع پر بھی اگرچہ پلیگ کا بالکل خاتمہ نہیں کیا جاسکا، لیکن وہ اچھی طرح سے کنٹرول میں آگیا تھا۔

1896 میں جب کہ ہندوستان میں پلیگ کی وبا پھیلی تھی گاندھی راجکوٹ میں تھے۔ 1905 میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں یہ وبا پھیلی تب گاندھی وہیں تھے۔ اور 18-1917 میں پھر سے ہندوستان میں یہ وبا پھیلی۔ ابتدائی دنوں میں گاندھی چمپارن میں تھے، یہاں انہوں نے بھتیہروا آشرم قائم کر کے لوگوں کا دیسی طریقے سے علاج کیا۔ پھر گاندھی احمد آباد کے اپنے آشرم میں آ گئے۔ہندوستان ابھی اس وبا سے پوری طرح سے نکلا بھی نہیں تھا کہ اسپینیش فلو نے پوری دنیا کو اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ فلو بامبے (اب ممبئی) میں ایک لوٹے ہوئے فوجیوں کے جہاز سے 1918 میں پورے ملک میں پھیلا تھا۔

ہیلتھ انسپکٹر جے ایس ٹرنر کے مطابق اس فلو کا وائرس دبے پاؤں کسی چور کی طرح داخل ہوا تھا اور تیزی سے پھیل گیا تھا۔ اس انفلوئنزا کی وجہ سے قریب پونے دو کروڑ ہندوستانیوں کی موت ہوئی، جو عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس وقت ہندوستان نے اپنی آبادی کا چھ فیصدی حصہ اس بیماری میں کھو دیا۔

گاندھی کی بڑی بہو گلاب گاندھی کی گئی جان

اس عالمی وباء میں کئی اہم افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ گاندھی کے خطوط کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ گاندھی جی کے بڑے بیٹے ہری لال گاندھی کی اہلیہ گلاب گاندھی کی بھی انہی دنوں موت ہوگئی تھی۔ مئی 1936 میں 48 سال کی عمر میں ہری لال گاندھی نے عوامی طور پر مذہب اسلام قبول کیا تھا اور خود کو عبد اللہ گاندھی نام دیا۔ حالانکہ راج موہن گاندھی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بعد میں اپنی والدہ کستوربہ گاندھی کی گزارش پر انہوں نے آریہ سماج کے ذریعہ ہندو مذہب اختیار کیا اور ایک نیا نام ہیرا لال اپنایا۔

گاندھی جی کے ذریعے لکھے خطوط کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان ہی دنوں گاندھی کے ایک قریبی دوست سی ایف اینڈریوز بھی اس انفلوئنزا کا شکار ہوگئے تھے۔ چارلس فریئر اینڈریوز (1871–1940) ہاورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ایک مصنف اور ماہر تعلیم تھے جنہوں نے وشوا بھارتی یونیورسٹی کے کام میں بڑی دلچسپی لی۔ کئی سالوں تک ہندوستانیوں کے ساتھ کام کیا، جس نے انہیں ’دین بندھو‘ کا خطاب ملا تھا۔

احمد محمد کاچھلیہ بھی دم توڑ گئے

جنوبی افریقہ میں برٹش انڈین ایسوسی ایشن، ٹرانسوال کے صدر احمد محمد کاچھلیہ نے اسی عالمی وبا کے دوران 20 اکتوبر 1918 کو اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گئے۔

گاندھی کو اس کی خبر اسی دن مل گئی اس سلسلے میں انہوں نے تمام اخبارات کو ایک پریس ریلیز بھی جاری کی۔اس پریس ریلیز میں گاندھی لکھتے ہیں، جنوبی افریقہ کے ہندوستانیوں میں ان کی جیسی عزت کسی دوسرے ہندوستانی کی نہیں تھی۔ جناب کاچھلیہ نے 31 مارچ 1907 کے دن پریٹوریہ کی پاک مسجد میں ایک درخت کے سائے میں کھڑے ہو کر جنرل بوتھا اور ان کی حکومت کی کھلی خلاف ورزی کی تھی۔ مسجد کے اس کمپاؤنڈ میں ہونے والی جلسہ عام کے نام ایک پیغام ٹرانسوال قانون ساز اسمبلی کے ممبر، ولیم ہاسکن لائے تھے۔ پیغام تھا کہ ہندوستانی عوام ٹرانسوال حکومت کا مقابلہ کرکے دیوار سے اپنا سر مار رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد کاچھلیہ نے جو کہا وہ آج بھی میرے کانوں میں گونج رہا ہے۔

انہوں نے کہا تھا ‘میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہنا چاہتا ہوں کہ میں ایشین رجسٹریشن ایکٹ کی پیروی نہیں کروں گا، چاہے میرا سر دھڑ سے الگ کردیا جائے۔ ایک ایسے قانون کی پیروی کرنا میں نامردی اور توہین آمیز مانتا ہوں جو مجھے ایک طرح سے غلام بنا دیتا ہے۔’

رنگ بھید کے خلاف جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کے آندولن میں سیٹھ احمد کاچھلیہ نے ہی سب سے زیادہ ساتھ دیا تھا۔ دو بار جیل گئے۔ اپنی دوسری گرفتاری میں تین ماہ کی سخت سزا کاٹی۔ ان کی اس گرفتاری سے پورا نیٹال جاگ اٹھا۔ گاندھی نے انہیں ہمیشہ تاریخ کے ہیرو کے طور پر یاد کیا ہے۔ آپ رہنے والے سورت کے تھے۔

گاندھی نے جامعہ میں ایک بار اپنی تقریر میں بھی ان کے بارے بتایا تھا۔ انہوں نے کہا تھا ستیہ گرہ کے دنوں میں جو ہندو اور مسلمان جنوبی افریقہ میں رہتے تھے، ان میں سے ایک بھی ہندوستانی ایسا نہیں تھا جو بہادری اور ایمانداری کے معاملے میں کاچھلیہ کی برابری کر سکے۔ انہوں نے اپنے ملک کی عزت اور وقار کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کردیا۔ انہوں نے نہ اپنے کاروبار کی فکر کی اور نہ اپنی جائیداد کی اور نہ ہی اپنے دوستوں کی ہی، اور پورے دل سے وہ اس جدوجہد میں کود پڑے۔ ان دنوں میں بھی ہندو مسلم تکراریں جب تب ہوتی تھیں، لیکن کاچھلیہ نے دونوں کو ترازو میں برابر پر رکھا۔ کسی نے ان پر اپنی برادری کے ساتھ حمایت کرنے کا الزام نہیں لگایا۔

گاندھی مزید بتاتے ہیں، اور انہوں نے حب الوطنی اور رواداری کے اس عظیم معیار کو کسی اسکول یا انگلینڈ میں نہیں، بلکہ اپنے ہی گھر میں سیکھا تھا، کیونکہ وہ تو گجراتی بھی مشکل سے لکھ پاتے تھے۔ وکلا کے دلائل کا جس طرح سے جواب دیتے تھے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی تھی۔ ان کی عمومی عقل اور دانائی اکثر وکلاء کے لیے بڑے کام کی ہوتی تھی۔ انہوں نے ہی ستیاگرہیوں کی رہنمائی کی، اور کام کرتے ہوئے ہی اس دنیا کو چھوڑ گئے۔ ان کا علی نام کا ایک بیٹا تھا، جسے انہوں نے میری دیکھ بھال میں سونپ دیا تھا۔ گیارہ سالہ یہ لڑکا حیرت انگیز اعتدال پسند اور وفادار مسلمان تھا۔ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں وہ ایک دن کا بھی روزہ نہیں چھوڑتا تھا۔ اور پھر بھی اس کے دماغ میں ہندو لڑکوں کے لیے کوئی بری طرح کا احساس نہیں تھا۔ آج تو دونوں معاشروں کے لوگوں کی نام نہاد مذہبی وفاداری دوسرے مذاہب کے خلاف اگر نفرت نہیں تو کم از کم برے سلوک کا مترادف ہے۔ علی کے دماغ میں ایسا کوئی غلط احساس نہیں تھا، کوئی نفرت نہیں تھی۔ میرے لیے دونوں باپ بیٹا مثال ہیں، اور خدا ان کی مثال سے متاثر ہو… گاندھی نے بہت سے مواقع پر انہیں اپنا سگا بھائی جیسا بتایا ہے۔

گاندھی بھی بیمار تھے ، لیکن اس کی وجہ مختلف تھی 

آج قریب 102 برسوں کے بعد یہ لکھا جارہا ہے کہ گاندھی جی بھی 1918 میں اسپینش فلو (انفلوئنزا) وبا کی چپیٹ میں آئے تھے۔ انہوں نے بھی بھیڑ سے خود کو دور رکھا۔ وہ کئی دنوں تک گجرات کے سابرمتی آشرم میں لوگوں سے الگ تھلگ رہے تھے۔ یہ سچ ہے کہ گاندھی جی 1918 میں بیمار پڑے تھے۔ بلکہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ موت کے منہ سے بچ کر نکل گئے۔

لیکن سچائی اس سے الگ ہے۔ گاندھی جی نے اپنی آٹو بایوگرافی میں لکھا ہے’ان دنوں میں میری غذا بنیادی طور پر سینکی اور کوٹی ہوئی مونگ پھلی، اس کے ساتھ تھوڑا سا گڑ، کیلے پھل وغیرہ اور دو تین لیموں کا پانی، اتنی ہی چیزیں رہا کرتی تھیں۔ میں جانتا تھا کہ زیادہ مقدار میں کھانے سے مونگ پھلی نقصان کرتی ہے۔ پھر بھی وہ زیادہ کھائی گئی۔ اس کی وجہ سے پیٹ میں پیچش رہنے لگی… کھانے کے بعد ایک گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ زور کی پیچش شروع ہوگئی۔‘

’رات نڈیاڈ تو واپس جانا ہی تھا۔ سابرمتی اسٹیشن تک پیدل گیا۔ پر سوا میل کا وہ راستہ طے کرنا مشکل ہوگیا۔ احمد آباد اسٹیشن پر ولبھ بھائی ملنے والے تھے وہ ملے اور انہوں نے یہ محسوس کرلیا کہ میری طبیعت صحیح نہیں ہے۔ پھر بھی میں نے ان کو یا دوسرے ساتھیوں کو یہ معلوم نہ ہونے دیا تکلیف ناقابل برداشت ہے۔ ‘

گاندھی جی اپنی سوانح عمری میں مزید لکھتے ہیں، ‘نڈیاڈ پہونچے۔ وہاں سے ہمیں اناتھ آشرم جانا تھا، جو آدھا میل سے بھی کم ہی دور تھا۔ لیکن اس دن یہ فاصلہ دس میل کے برابر معلوم ہوا۔ بڑی مشکل سے گھر پہنچا۔ لیکن پیٹ میں درد بڑھتا ہی جارہا تھا۔ 15-15 منٹ سے پاخانہ کی حاجت معلوم ہوتی تھی۔ آخر میں ہارا۔ میں نے اپنا ناقابل برداشت درد بتایا اور بستر پکڑا۔ آشرم میں عام پاخانے میں جاتا تھا، اس کے بدلے دو منزلے پر کموڈ منگوایا۔ شرم تو بہت آئی، مگر میں لاچار ہوگیا تھا۔ پھولچند باپو بجلی کی رفتار سے کموڈ لے آئے۔ پریشان ہوکر ساتھیوں نے مجھے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ انہوں نے مجھے اپنی محبت سے نہلا دیا۔ پر وہ بیچارے میرے دکھ میں میری مدد کیسے کر سکتے تھے؟ میرے ضد کا کوئی پار نہیں تھا۔ میں نے ڈاکٹروں کو بلانے سے انکار کردیا۔ دوائیاں لینی ہی نہیں تھی۔ سوچا، کیے ہوئے گناہوں کی سزا برداشت کروں گا۔ ساتھیوں نے یہ سب اپنا منہ لٹکا کر برداشت کیا۔ چوبیس گھنٹوں میں تیس چالیس پاخانے کی حاجت ہوئی ہوگی۔۔۔

اس دور میں گاندھی کے خطوط کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ گاندھی کچھ دنوں تک بیمار رہے۔ اسی درمیان گاندھی کی سالگرہ بھی آگئی اور لوگ انہیں مبارکباد دینے بھی آئے۔ گاندھی آشرم میں لوگوں سے ملتے رہیں اور لوگوں کو خط لکھتے رہیں۔ نیز، لوگوں کو انفلوئنزا سے نجات پانے کی طریقے بھی بتاتے رہے۔ 11 اکتوبر 1918 کو گاندھی جی نے گنگا بین مجومدار کو خط لکھا۔ اس خط میں وہ بتا رہے ہیں ’’اس بیماری میں دو باتوں کا خیال رکھنے سے جسم کو کم سے کم خطرہ رہتا ہے، یہ ڈاکٹروں کی رائے ہے اور یہ ٹھیک ہے۔ یہاں تک کہ اگر آپ کو یہ لگتا ہے کہ آپ کی صحت ٹھیک ہوگئی ہے، ایسا محسوس ہونے پر بھی آپ کو مائع اور ہضم ہونے والے لائق کھانا پینا چاہئے اور بستر پر لیٹے رہنا چاہئے۔ کئی مریض دوسرے تیسرے دن اچانک بخار اتر جانے سے دھوکہ کھا کر کام کاج کرنا اور عام کھانا شروع کردیتے ہیں۔ اس سے بیماری پھر زور پکڑتی ہے اور زیادہ تر معاملوں میں زندگی چھین لیتی ہے۔ اسلئے میری گذارش ہے کہ تم بستر میں ہی آرام کرو۔

اسی خط میں گاندھی جی نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’ابھی آشرم میں دس لوگ بیمار ہیں۔ بتادیں کہ گنگابین مجومدار ایک پرجوش خاتون تھیں جنہوں نے گاندھی جی کی درخواست پر بیجاپور میں ایک کھادی پروڈکشن سنٹر قائم کیا تھا۔

ہیلتھ انسپکٹر جے ایس ٹرنر کے مطابق اس فلو کا وائرس دبے پاؤں کسی چور کی طرح داخل ہوا تھا اور تیزی سے پھیل گیا تھا۔ اس انفلوئنزا کی وجہ سے قریب پونے دو کروڑ ہندوستانیوں کی موت ہوئی، جو عالمی جنگ میں ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس وقت ہندوستان نے اپنی آبادی کا چھ فیصدی حصہ اس بیماری میں کھو دیا۔