وسیم قریشی، الریاض، سعودی عرب
زائد ازدو ماہ بعد نمازِ جمعہ کے لیے مسجدیں کھول دی گئیں تو وہ تنگ دامنی کا شکوہ کر رہی تھیں۔ سماجی فاصلے کی وجہ سے لوگ مسجد سے سڑکوں پر نکل آئے تھے اور دور دور تک امت کے سروں کا سمندر تھا جو منہ پر ماسک لگائے اپنی اپنی جاء نماز لیے اپنے فرضِ جمعہ کو ادا کر نے کے لیے نکل پڑا تھا- چلچلاتی دھوپ میں خدائے برحق کے حکم کے آگے ہندی، پاکستانی، بنگالی، سوڈانی، مصری اور سعودی سب کے سب ایک ہی صف میں جسمانی دوری کے اہتمام کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ مقصد ایک تھا، جسم سے جسم کے درمیان فاصلے کے باوجود دل ساتھ ملے ہوئے تھے۔ یہ منظر مسحور کن تھا۔ امام نے مختصر خطبہ دیا اور قراءت کی اور یہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے فرض کو ادا کر نے کے بعد بہت مسرور نظر آرہا تھا اور اس کی لہریں ہر شاہراہ سے ٹکرا رہی تھیں۔ میں بھی ایک بلند مقام پر کھڑا فرزاندانِ توحید کی فوج کو دل ہی دل میں سلامی دے رہا تھا اور دل میں اقبال کا شعر نغمہ سنج تھا:
ایک ہو مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
اور۔ ۔
جو کرے گا امتیازِ رنگ وخوں، مٹ جائے گا
یہ دل کی گہرائی میں بیٹھا ہوا یقین تھا جو اتنے دنوں کی دوری اور پابندیوں کے بعد بھی آج ایک پکار پر پھر سے امت کو جمع کر رہا تھا۔ زوال ہسپانیہ کے بعد مسیحی فوج نے قرآن کے تمام نسخوں کو جمع کیا اور اس میں آگ لگا دی، اب صرف ایک راکھ کا ڈھیر تھا۔ رات ہوئی تو چھپ چھپ کر مسلمان گھروں سے نکلے اور روتے ہوئے ساری راکھ اٹھا لے گئے۔ اسی راکھ میں ان کے ایمان کی چنگاری دبی تھی جو آج بھی سلگ رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ 2020 کے ختم تک اسپین میں مسلمانوں کی آبادی دس لاکھ ہوجائے گی۔ ان شاء اللہ۔
لاک ڈاؤن کے بعد پہلے جمعہ نے بہت سے پیغام دیے، ان میں سے کچھ یہ ہیں:
(1) سماجی دوری کے باوجود اگر مقصد ایک ہوتو ہم سب احتیاط کے ساتھ ہی سہی، ایک جگہ جمع ہو سکتے ہیں اور کیوں نہ ہوں جبکہ ہمارا کلمہ ایک ہے۔
(2) اگر قوم کو اس کا فریضہ یاد رہے یا یاد دلایا جائے تو وہ ضرور ایک دن اس قیامِ صلاۃ کی طرح قیامِ دین کے لیے کھڑی ہو سکتی ہے۔ ہر ایک کو اقامتِ دین کی باریکیاں سمجھنے کی ضرورت نہیں، بلکہ جمعہ پڑھنے والوں کی طرح مقصد ایک ہو اور دل میں لگن ہو تو وہی کافی ہے۔
(3) وقت اور حالات کی وجہ سے خطبہ ونماز مختصر ہو سکتی ہے۔ یعنی کم سے کم جملوں میں اپنا پیغام عام کیا جا سکتا ہے۔ یہ گھڑی محشر کی ہے۔ ۔ ۔ توغیر ضروری طوالت سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ہاں ہر سطح کے ذہن کے لوگوں کو صرف یہ معلوم ہو جانا چاہیے کہ اقامتِ جمعہ کی طرح اقامتِ دین بھی فرض ہے اور ان کو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اس مقصد کے لیے ایک ہو کر کام کرنا ہے۔
(4) آج کے پر آشوب دور میں نسل پرستی اور فرقہ پرستی بھی کرونا وائرس کی وبا کی طرح پھیل رہی ہے۔ کون کب کہاں اس کا شکار ہو جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ہم ان ڈاکٹروں اور طبی عملے کی طرح ہیں جو اس وبائے عام میں مریضوں کو بچانے کا کام کر رہے ہیں۔ ہم کو خوف بھی ہے لیکن ہر طرح کے احتیاط کے باوجود اگر ہم کہیں ان فرقہ پرستی کے جرثوموں (وائرسوں) کا شکار ہو جائیں تو ان شاء اللہ ہم شہادت کا مرتبہ پائیں گے، جیسے طاعون سے مرنے والے اہل ایمان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ شہید ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جہاں تاتاری دنیا کی 4فیصد آبادی کو قتل کر چکے تھے وہیں اسلام ان کے دلوں کو فتح کر رہا تھا۔ یہ معجزہ نہیں تو اورکیا ہے کہ آج کوئی خان ہے تو وہ مسلمان ہے!!! تاریخ گواہ ہے خان کبھی مسلمان نہیں تھے مظلوم عورتوں کی دعوت نے انہیں پاسبانِ حرم بنایا تھا۔
تُو نہ مِٹ جائے گا ایران کے مِٹ جانے سے
نشہ مے کو تعلّق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے
آج ہی کی طرح شورشیں عام تھیں لیکن کچھ مسلمان اپنے مقصد میں ضرور لگے ہوئے تھے۔ آخر کار چنگیزیوں اور تاتاریوں کو مسلم افواج نے عین الجالوت کے میدان میں آلیا، مسلمان متحد ہوئے اور مملوک شاہ سیف الدین قطز اور اس کے مشہور جرنیل رکن الدین بیبرس نے منگول افواج کو بدترین شکست دی۔ اس معرکے میں ہر جگہ سے مسلمان جمع ہوئے تھے۔ دوسری طرف ارطغرل نےمنگولوں کا خاتمہ کرنے کے لیے فیصلہ کن جنگ کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لیے منگول سلطان برکا خان جو مسلمان ہو چکا تھا اورمصر کے رکن الدین بیبرس کو جو اب شاہ تھا، آمادہ کیا اور طے پایا کہ ایک بڑی فوج تیار کی جائے جس میں تمام ترک قبائل بھی شامل ہوں۔ اناطولیہ میں فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیا گیا۔ اس جنگ میں منگولوں کو عبرتناک شکست ہوئی اور مسلمان فتح یاب ہوئے اور اس میں ارطغرل جیت کر واپس ہوا تھا۔ اسی لیے اسے ارطغرل غازی کہا جاتا ہے۔
عین الجالوت کی تاریخ نے پھر وہی سبق دیا جو داؤد علیہ السلام نے دیا تھا کہ جالوت کتنا ہی قوی ہیکل کیوں نہ ہو لیکن اذنِ خداوندی سے ایک غلیل اور چھوٹے پتھر سے مارا جاتا ہے لیکن تم کو نشانہ صحیح لگانا آنا چاہیے اور دل توکل علی اللہ میں ڈوبا ہوا ہونا چاہیے۔ آج کے جالوت بھی بہت کمزور ہیں لیکن لگتے قوی ہیکل ہیں۔ حق کی طاقت ہمارے پاس ہے جبکہ وہ اندر سے بہت ہی کمزور ہیں۔
یہ فرقہ پرستی کا طوفان سمندر نہیں سمندر کا جھاگ ہے۔ ان کی عمارت اور کوششیں کتنی ہی بڑی نظر آئیں، لیکن ان کی بنیاد کھوکھلی ہے۔
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا…
آج حالات آہستہ آہستہ معمول پر آرہے ہیں، ہم نے اس کرونا کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے، اور ہم ان شاء اللہ فرقہ پرستی کے وائرس کے ساتھ بھی دعوت کا کام جاری رکھیں گے۔ یہ فرقہ پرستی کی وبائے عام جو ساری دنیا کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے ایک دن ختم ہو جائے گی، کچھ نقصان بھی ہوگا لیکن دنیا پھر رواں دواں ہو جائےگی اور ان شاء اللہ ساری دنیا میں نمازِ جمعہ پڑھی جائے گی۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے، لب پہ آ سکتا نہیں
محوِ حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے