یہی ہے شان قلندری

کامیابی، زندگی کو استاد بنانے والوں کےقدم چومتی ہے

نورالامین یوسف شریف ، پربھنی

 

زندگی میں ہر ایک انسان کا کوئی نہ کوئی استاد ہوتا ہے، ہو سکتا ہے جو میرے استاد ہیں وہ آپ کے بھی ہوں، آپ نے بھی ان سے علم حاصل کیا ہو لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہر انسان کا ایک ہی استاد ہو سب کے استاد الگ الگ ہوتے ہیں۔ ہاں لیکن ایک استاد ہے جو سب کے لیے مشترک ہے۔ امیر، غریب، چھوٹا، بڑا، تعلیم یافتہ، غیر تعلیم یافتہ، عقلمند، نادان، انجینئر، ڈاکٹر، کلکٹر، چپراسی، عالیشان ہوٹلوں کا مالک، راستوں پر ٹھیلے لگانے والا، سرحد پر سرکٹانے والے، اولاد کو سیاسی قزاق بنانے والے، اولاد کو امام اعظم بنانے والا، مظلومین کی لاشوں پر اقتدار کی کرسی قائم کرنے والا، ڈگریوں کے بغیر انسانیت کے حقیقی خدمت کرنے والے، استاد ہونے کا حق ادا کرنے والا، استاد کی شکل میں قوم کا مستقبل برباد کرنے والا، تعلیم کے نام پر پیسے بٹورنے والا،، غرض یہ کہ اس فانی دنیا میں پہلی سانس لینے والے بچے سے لے کر آخری سانس لینے والے تک سب انسانوں کا ایک مشترک اور واحد استاد ہے زندگی۔ جی ہاں! زندگی وہ استاد ہے جس کا دیا ہوا سبق انسان آفتاب زندگی کے غروب ہونے تک نہیں بھولتا۔ زندگی استاد کے طور پر تمام اسباق پڑھاتی ہے چاہے نصاب میں شامل ہوں یا نصاب کے باہر ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ آج تک اس کا نصاب ہی سمجھ میں نہ آسکا۔ کہیں اس کا نصاب دوسروں کے نصاب سے مماثلت رکھتا ہے تو کہیں بالکل ہی مختلف ہوتا ہے۔ کسی کو اپنے ہی آنسوؤں میں غوطہ زن کر دیتا ہے تو کسی کے گھر کو خوشیوں کا گہوارا بنا دیتا ہےاور مزید تعجب یہ کہ آنسوؤں میں غوطہ زن ہونے والوں نے اگر صبر جمیل کا نمونہ پیش کر دیا تو پھر یہی استاد جس نے غم و اندوہ کی وادیوں میں بھٹکایا تھا، جس نے مخمل کے بستروں کو کانٹوں کا بچھونا بنایا تھا جس نے آپ کا جینا دوبھر کر دیا تھا، جس سے تھک ہار آپ نے کہہ دی تھا ؎
زندگی ہم سے تیرے ناز اٹھائے نہ گئے
سانس لینے کی بس رسم ادا کرتے رہے
وہی استاد آپ کو آپ کے صبر جمیل اور استقامت اور اللہ کی ذات پر اپنے یقین اور ایمان کی بنیاد پر اوج ثریا تک پہنچاتا ہے۔ آپ کو دنیا کے لیے ایک آفتاب بنا کر پیش کرتا ہے چنانچہ بادشاہوں کے تاج آپ کے قدموں کی زینت بنتے ہیں۔ یہی وہ تدریس ہے جو مس خام کو کندن بناتا ہے اور کندن سے خاک بنا دیتا ہے۔ اس کا ضابطہ بالکل مختلف ہے۔ زندگی وہ استاد ہے جس کا دیا ہوا سبق آخری سانس تک یاد بھی رکھنا ہوتا ہے اور اس پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے اگر آپ نے یاد رکھا لیکن عمل نہ کیا تو آپ زندگی کی معراج تک رسائی حاصل نہ کر سکیں گے اور نہ کسی کے لیے امیدوں کا آفتاب تو دور امید کی کرن بھی نہیں بن سکیں گے نہ ہی بادشاہوں کے تاج آپ کے قدموں کی زینت بنیں گے۔ یہ وہ استاد ہے جو سبق بعد میں دیتا ہے امتحان پہلے لیتا ہے۔
دنیا میں بہت سے ایسے انسان گزرے ہیں جنہوں نے اساتذہ کو بہت ستایا ان پر فقرے کسے، ان کا مذاق اڑایا، ان کو گالیاں دیں، بعض نے تو ان کے خلاف علم بغاوت بلند کیا لیکن زندگی وہ واحد استاد ہے جس سے ٹکرانے والے پاش پاش ہو جاتے ہیں، جو اس کا مذاق اڑاتے ہیں وہ خود مذاق بن جاتے ہیں، جو اس پر گالیاں کستے ہیں وہ خود زمانے کے لیے ایک گالی بن جاتے ہیں اور جو اس سے ٹکرانے کی کوشش کرتے ہین وہ اس کے تیز و تند تھپیڑوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اس سے ٹکرانے کی جرأت نہ کریں یہ انسان کی انا کو اس کے وجود کو دفن کر دیتا ہے۔ اور جو اس استاد کے ذریعے لیے گئے امتحانات کا، مصائب و آلام کا، اس کی تیز و تند ہواؤں کا، صبر استقامت سے، حکمت و مصلحت سے، عقل و دانشمندی سے مقابلہ کرتا ہے، ہمت نہیں ہارتا امید کا دامن نہیں چھوڑتا وہ ایسے شخص کے لیے اپنا سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔ اپنی بانہوں کو پھیلا کر اس کا استقبال کرتا ہے۔ اس کے کڑوے گھونٹ پی لیا کریں یقیناً وہ بہت کڑوے ہوتے ہیں لیکن صبر سے ان کو پی جانے پر جو نتیجہ آتا ہے وہ بلا مبالغہ شہد سے زیادہ شیریں ہوتا ہے لیکن وہ کونسا صبر جو ہم کرتے ہیں، وہ جو ہم کو شریعت نے بتلایا ہے؟ ہمارے صبر میں تو گاہے بہ گاہے اپنے قسمت کا رونا رویا جاتا ہے اور آخری جملہ ہوتا ہے کیا کریں ہم تو صرف صبر کرسکتے ہیں ‘جبکہ شریعت والا صبر آہِ سحر گاہی سکھاتا ہے۔
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہِ سحر گاہی
ہمارے صبر میں تو سر بسجدہ بھی ہوتے ہیں چشمِ نم بھی ہوتی ہے پھر بھی دل میں بے یقینی کی کیفیت ہوتی ہے اور شریعت والے صبر میں یقین کامل ہوتا ہے بقول شاعر ؎
کشتیاں ہم نے جلا دی ہے بھروسے پہ تیرے
اب یہاں سے نہیں لوٹ کے جانے والے
کربلا والا صبر، بلالؓ حبشی والا صبر، ایوبؑ و یوسفؑ والا صبر تب ہی تو حسینؓ جنت کے سردار بنتے ہیں، بلالؓ حبشی کی اذان میں وہ درد پیدا ہوتا ہے کہ لوگ دھاڑیں مار کر روتے ہیں، جی وہی صبر ایوبؑ کو بینائی عطا کرتا ہے، وہی صبر یوسفؑ کے ذریعے مسند بادشاہت کو رونق بخشتا ہے اور مصر کی شاندار تاریخ رقم ہوتی ہے۔
تاریخ کے صفات کو یا تو سنہرا یا پھر سیاہ کرنے والی یہی زندگی ہے۔ اس استاد نے مؤرخین کو تاریخ رقم کرنے کا موقع عنایت کیا یہ تاریخ انسانیت کی سب سے سخت ترین استاد بھی ثابت ہوا ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے پر ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ جس نے اس کے دیے ہوئے سبق کو یاد رکھا اس پر عمل کیا اپنی خامیوں کو دور کیا اس کو کامیابی تک پہنچنے میں پھر کوئی چیز مانع نہ ہوئی۔ ہم اپنی تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیں ہم نے جب بھی زندگی کے دیے ہوئے اسباق کو نظر انداز کیا پوری امت ذلت اور رسوائی میں ڈوب گئی ہمارے آباء و اجداد نے اکابرین نے مجاہدین نے مبلغین نے مفسرین نے مجتہدین نے اس کے ذریعے دیے گئے مصائب کا، حالات کا مقابلہ کیا۔ جنگ کے میدانوں میں بنیان مرصوص بنے اور اپنے ذاتی مسائل میں بھی صبر و استقامت کے ساتھ جمے رہے تو زندگی نے بھی ان کے لیے آسانیاں پیدا کی ان کے راستے ہموار کیے جب بھی انسان اس استاد کے امتحانات کا اسی طرح مقابلہ کرتا رہے گا جس طرح صحابہ کرام نے کیا، انبیاء نے کیا، مجاہدین نے کیا تب ان کے لیے اسی طرح کے راستے ہموار ہوتے رہیں گے اور سرخ روئی نصیب ہوتی رہے گی۔ اس استاد نے ہر دور میں امت مسلمہ کو یہی سبق دیا ہے کہ جب تک تم شریعت پر عمل پیرا رہو گے تب تک کامیابی، کامرانی، عزت، رعب و دبدبہ سب کچھ تمہارا ہوگا لیکن شریعت کونسی ہونی چاییے۔۔۔ وہ جو ہم نے بنائی ہے یا وہ جو ہم کو اللہ تعالی نے عطا کی ہے۔ 8 رکعات اور بیس رکعات والی یا نور اور بشر والی؟ میلاد کے جائز یا ناجائز ہونے پر چبوترے گرم کرنے والی یا رفع یدین پر مساجد کو کُشتی کا اکھاڑا بنانے والی، عاشق رسول اور گستاخ رسول کی سند عطا کرنے والی یا دیوبندی، بریلوی اور اہلحدیث پر مباحثوں کو عبادت کا جز سمجھنے والی، علماء حق اور علماء سُو پر عدالتیں قائم کرنے والی یا امارت و شوریٰ پر انگلیاں اٹھانے والی، آخر زندگی ہم سے کونسی شریعت کا مطالبہ کرتی ہے؟ جماعت اسلامی حق ہے یا تبلیغ والے، اس کا فیصلہ دینے والی شریعت یا مسلم پرسنل لاء پر چہ میگوئیوں والی شریعت؟ زندگی کا مطالبہ احد والی شریعت ہے، 313 والی شریعت ہے، ’’غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے،، والی شریعت ہے، شعب ابی طالب والی شریعت ہے، ابوبکرؓ کو جس نے صدیق کا لقب عطا کیا وہ شریعت، یا وہ شریعت جس نے علیؓ کو در خیبر اکھاڑنے کی جرأت دی؟ جی ہاں یہ وہی شریعت ہے جس نے عمرؓ کو چرواہے سے خلیفہ وقت بنایا، جس شریعت نے عثمانؓ کو عثمان غنی بنایا، صلح حدبیہ والی شریعت، فتح مکہ والی شریعت اور معلوم نہیں کونسی شریعت۔ وہ کربلا والی شریعت دیکھو۔۔۔ اس کے نام میں ہی کرب و بلا ہے، جی یہ وہی شریعت ہے جس نے ایک ہی وقت میں انسان کو مجاہد بھی بنایا، زاہد بھی، عابد بھی، مسیحا بھی، سخی بھی، شجاعت کا پیکر بھی، امن کا علمبردار بھی، علم جنگ کو بلند کرنے والا بھی سب کچھ بنایا وہ محمدؐ والی شریعت ہے۔ کیا یہ شریعت وہی ہے جس پر ہم عمل پیرا ہیں؟ ہم جس پر عمل پیرا ہیں وہاں تو زاہدوں کی شریعت میں دوسرے شعبہ شریعت کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی ان کے نزدیک پوری شریعت وہی ہے جس پر وہ عمل کرتے ہیں۔ عابدوں کی اپنی شریعت ہے ہر ایک نے اپنے شعبے کو ہی پوری شریعت تسلیم کرلیا ہے دوسرا چاہے کتنا ہی اچھا کام کیوں نہ کر رہا ہوں ان کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت ہی نہیں جب تک یہ ان کے شعبہ سے وابستہ نہ ہو جائے یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی یہ صراط مستقیم پر آیا ہی نہیں۔
جب تک ہم زندگی کے اس کے مطالبہ کو پورا نہیں کریں گے اور اس شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوں گے جس میں مجاہدوں والا عنصر بھی ہے، زاہدوں والا بھی، عابدوں والا بھی سب کچھ ہے مکمل نظام حیات ہے تب تک ہمارے حالات درست نہیں ہوں گے۔ یہی درس دیا ہے اس استاد (زندگی) نے اور قیامت تک یہ ایسا ہی درس دیتا رہے گا اس لیے یومِ اساتذہ کے موقع پر انسانوں کے سب سے بڑے استاد ’’زندگی‘‘ کو اور اس کے درس کو فراموش مت کیجیے۔
دمِ زندگی، رمِ زندگی، غمِ زندگی، سمِ زندگی
غمِ رمِ نہ کر سمِ غم نہ کھا کہ یہی ہے شانِ قلندری
***

جب تک ہم زندگی کے اس کے مطالبہ کو پورا نہیں کریں گے اور اس شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوں گے جس میں مجاہدوں والا عنصر بھی ہے، زاہدوں والا بھی، عابدوں والا بھی سب کچھ ہے مکمل نظام حیات ہے تب تک ہمارے حالات درست نہیں ہوں گے۔ یہی درس دیا ہے اس استاد (زندگی) نے اور قیامت تک یہ ایسا ہی درس دیتا رہے گا اس لیے یومِ اساتذہ کے موقع پر انسانوں کے سب سے بڑے استاد ’’زندگی‘‘ کو اور اس کے درس کو فراموش مت کیجیے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020