یوگی بنے بی جے پی کے گلے کی ہڈی۔اقتدارپر برقراری ایک مشکل چیلنج

ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے مودی کی شخصیت اور اشتہاری مہم کا سہارا

ڈاکٹر سلیم خان،ممبئی

بھگواپارٹی کو ہرانے کے لیے ایس پی کو عوامی حمایت۔پرینکا کا ’لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں‘ کا نعرہ اثر دکھانے لگا
اترپردیش کا پچھلا صوبائی انتخاب سماج وادی پارٹی کے ساتھ بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس نے مل کر لڑا تھا ۔ اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی نے ان تینوں کو شکست سے دوچار کرکے زبردست کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس کے بعد وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے سرپھٹول کا آغاز ہوا۔ ایک طرف منوج سنہا نے تیاری شروع کردی تو دوسری جانب کیشو پرساد موریہ نے کمر کس لی ۔ اعلیٰ کمان نے ان دونوں کو کنارے کرکے یوگی ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔ یہی فیصلہ اب اتر پردیش میں بی جے پی کے زوال کا سنگ بنیاد بنتا نظر آرہا ہے ۔ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو وزیراعظم کو آج کل آئے دن مختلف پروجکٹس کے سنگ بنیاد رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ الیکشن سر پر آنے کے بعد یہ سنگ بنیاد رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی احمق طالب علم امتحان کے وقت نئی کتابیں لاکر فخر سے اپنے دوستوں کو دکھائے اور دعویٰ کرے کہ امتیازی نمبروں سے امتحان میں کامیابی درج کرائے گا۔ ایسے میں اگر دوست سوال کریں کہ بیوقوف تو اسے پڑھے گا کب اور امتحان میں لکھے گا کیا؟ تو اس میں غلط کیا ہوگا؟؟
یوگی ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ بناتے ہوئے بی جے پی نے سوچا ہوگا کہ اگر مودی ایوانِ پارلیمان کی ناتجربہ کاری کے باوجود وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو یوگی اترپردیش کی اسمبلی میں کبھی بھی موجود نہ رہنے کے باوجود وزیر اعلیٰ کیوں نہیں بن سکتے ؟ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مودی جی کو وزیر اعلیٰ بننے سے قبل کم از کم وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے کام کرنے کا تجربہ تھا مگر یوگی تو بس ایوانِ پارلیمان میں اپنے رونے دھونے کے لیے مشہور تھے۔ مودی کو جس طرح اچانک گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا تھا اسی طرح یوگی کو بھی موقع دیا گیا مگرگجرات کے وزیر اعلیٰ کو یکسوئی کے ساتھ 12سالوں تک اپنی ریاست میں کام کرنے کا موقع دیا گیا تاکہ وہ حکمرانی کے گُر سیکھ سکیں ۔ اس کے برعکس یوگی کو اسٹار پرچارک بناکرکچھ کرنے اور سیکھنے کے موقع سے محروم کردیا گیا۔ جب بھی کسی صوبے میں اسمبلی انتخاب ہوتا تو یوگی کو آگ اگلنے کے لیے روانہ کردیا جاتا۔ اس طرح وہ زمین پر نہیں بلکہ ہمیشہ ہوا میں اڑتے رہے۔
زعفرانی جنون کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ دلی اور مہاراشٹر کے علی الرغم غیر ہندی ریاستیں مثلاً مغربی بنگال و کیرالا میں بھی یوگی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ حیدر آباد کے میونسپل انتخاب میں جب کمل کے کھلنے کا امکان نظر آیا تو یوگی کو تڑکا لگانے کی خاطر روانہ کردیا گیا ۔ یہ اور بات ہے کہ ان تمام مقامات پر بی جے پی کی کراری ہار کے باوجود یوگی جی کا گھمنڈ دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ جس وقت اترپردیش کے اندر گنگا میں لاشیں تیر رہی تھیں یوگی جی بنگال میں تقریریں کررہے تھے۔ اس حقیقت کا اعتراف نمامی گنگے پراجیکٹ کے سربراہ راجیو رنجن مشرا نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ یوگی کو نہ تو دفتر میں بیٹھ کر کام کرنے کا موقع ملا اور نہ ہی اپنے وزراء سے گفت و شنید کی فرصت ملی۔ وہ چند افسروں کے بیچ گِھر گئے جو ان سے من چاہی فائلوں پر دستخط لیتے رہے۔ یوگی کو ان فائلوں کو دیکھنے میں نہ تو دلچسپی تھی اور انہیں سمجھنے کی صلاحیت تھی۔ وہ تو بس صوبے کے اندر اور باہر نفرت انگیز خطابات سے اپنا دل بہلاتے رہے اور اب کروڑوں روپیوں کی چکا چوند کردینے والی رنگین اشتہاری دنیا میں مگن ہیں۔
2019کے قومی انتخاب کے بعد بی جے پی کو کسی صوبائی انتخاب میں قابلِ ذکر کامیابی نہیں ملی ۔ ہریانہ کے سوا وہ کہیں بھی حکومت سازی میں کامیاب نہیں ہوئی اور وہاں بھی جے جے پی کی بیساکھی پر سرکار بن سکی لیکن اس سے یوگی کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ ہر آنے والے انتخاب میں لوگ ان کی نااہلی کو بھلا کر پھر سے بلاتے اور وہ بھی خوشی خوشی حاضر ہوجاتے ہیں لیکن جب اترپردیش کا انتخاب سر پر آیا تو صورتحال بدل گئی۔ اس دوران بی جے پی کو بھی احساس ہوگیا کہ اس کی ساکھ کمزور ہو رہی ہے اس لیے اس نے اپنے صوبیداروں یعنی وزرائے اعلیٰ کو بدلنا شروع کردیا ۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ تبدیلیاں یوگی کی آبائی ریاست اتراکھنڈ میں ہوئیں۔ وہاں بہت ہی قلیل عرصے میں یکے بعد دیگرے تین وزرائے اعلیٰ کو بدل دیا گیا۔ کرناٹک کے نہایت مضبوط سمجھے جانے والے یدی یورپاّ کو بھی باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ گجرات میں مرکز کے کٹھ پتلی اور امیت شاہ کے منظور نظر وجئے روپانی کی چھٹی کردی گئی ۔ وہ بہترین وقت تھا جب یوگی کو ہٹا کر کیشو پرساد موریہ کو وزیر اعلیٰ بنا دیا جاتا لیکن بی جے پی اعلیٰ کمان یہ قدم اٹھانےکی ہمت نہیں کرسکا اور اس کی قیمت وہ فی الحال چکا رہا ہے۔ یوگی ادتیہ ناتھ اب اس کے لیے ایک ایسی مصیبت بن گئے ہیں جسے نہ تو نگلا جاسکتا ہے اور نہ اُگلا جاسکتا ہے۔
یوگی کو وزیر اعلیٰ کی کرسی سے ہٹانے کے کئی فائدے تھے ۔ ان کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر پورے صوبے کو یہ پیغام دیا جاسکتا تھا کہ بی جے پی نے ایک نااہل وزیر اعلیٰ کو اس کی سزا دے دی ہے اس لیے اب اسے معاف کردیا جائے اور انتخاب میں معتوب نہ کیا جائے۔ اس طرح یوگی کے ساتھ ان کی ساری ناکامیوں کے اوپر بھی پردہ پڑجاتا۔ یوگی نے اپنی بدزبانی اور اکھڑ پن سے مسلمانوں کے علاوہ برہمنوں اور پسماندہ ذاتوں کی بھی تضحیک کی ہے۔ گاوں گاوں میں لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ٹھاکروں اور دبنگوں کی سرکار ہے جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتی اور اپنی من مانی میں یقین رکھتی ہے اس لیے اس کا دماغ درست کرنا ضروری ہے۔ یہ سارے لوگ یوگی کو سبق سکھانے کی خاطر الیکشن کا انتظار کررہے ہیں ۔ اکھلیش کے جلسوں میں آنے والی بھیڑ یوں ہی جمع نہیں ہورہی ہے بلکہ لوگ اکھلیش کی مدد سے یوگی کو سبق سکھانا چاہتے ہیں۔
بی جے پی نے پچھلا الیکشن کیشو پرساد موریہ کے چہرے پر جیتا تھا ۔ ان کے بجائے یوگی کے وزیر اعلیٰ بن جانے سے پسماندہ طبقات کے تمام سارے ووٹرس اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کررہے تھے ۔ موریہ کے آجانے سے ان لوگوں کو یقین ہوجاتا کہ کم ازکم اگلی میقات میں بی جے پی ایک پسماندہ کو وزیر اعلیٰ بننے کا موقع دے گی ۔ اس طرح وہ لوگ ماضی کی زیادتی کو بھول کر پھر سے کمل کے جھانسے میں آجاتے۔ یوگی ہٹا دینے سے پسماندہ ذاتوں کے علاوہ برہمنوں کے اندر بھی بی جے پی کے تئیں ناراضی میں کمی واقع ہوسکتی تھی کیونکہ موریہ تنظیم کے آدمی ہیں اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کا انہیں تجربہ ہے ۔ سبھی طبقات سے ان کی دوستی ہے جن میں اجئے مشرا ٹینی بھی شامل ہیں۔ کیشو پرساد موریہ لوگوں کو کوئی خاص توقعات بھی نہیں ہوتیں اور لوگ سوچتے کہ انہیں یوگی نے کھل کر کام کرنے کا موقع نہیں دیا۔ اس لیے شبہ کا فائدہ بی جے پی کو ضرور ملتا ۔
اس میں شک نہیں کہ اترپردیش کے ٹھاکر جن کی یوگی نے خوب منہ بھرائی کی وہ ان کے ہٹائے جانے سے ناراض ہوتا لیکن اول تو اس کی ناراضی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ اگر یوگی کو مرکز میں کوئی وزارت تھما دی جاتی تو وہ غم و غصہ بھی کم ہوجاتا۔ سابق وزیر اعلیٰ کے طور ٹھاکروں کے علاقوں میں انہیں بھیج کر سمجھانا اور منانا بھی مشکل نہیں تھا ۔ اترپردیش کے ٹھاکروں میں آج بھی یوگی سے زیادہ مقبول راجناتھ سنگھ کی شخصیت ہے اس لیے ٹھاکروں کو منانے کے لیے ان کا بھی استعمال ہوسکتا تھا۔ ویسے یہ ایک حقیقت ہے کہ یوپی کے راجپوتوں کے لیے بی جے پی کے علاوہ کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ یادو سماج کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا اس لیے سماج وادی پارٹی کے دروازے اس پر بند ہیں ۔ بہوجن سماج پارٹی کو وہ حقیر سمجھتا ہے اس لیے اس کے قریب جانا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ کانگریس سے وہ بہت پہلے دور ہوچکا ہے اس لیے بی جے پی اس کی مجبوری ہے۔ بی جے پی اگر اس کے ناز ونخرے نہ اٹھائے تب بھی ٹھاکر ووٹ بی جے پی کو ہی ملے گا اس لیے یوگی کو ہٹانے میں کوئی خاص نقصان نہیں تھا۔ یوگی اور امیت شاہ کی خانہ جنگی جگ ظاہر ہے اس لیے وزیر اعلیٰ کی تبدیلی سے وزیر داخلہ کو اپنے ایک حریف سے نجات مل سکتی تھی لیکن ہندوتوا پر بے جا انحصار ان کے پیروں کی بیڑی بن گئی اور اب یہ حالت ہے کہ کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے۔ پہلے تو بی جے پی کو ممتا اور کیجریوال ہراتے تھے لیکن اس بار قوی امکان ہے کہ خود اسی کے یوگی یہ کار نمایاں انجام دیں گے۔
اترپردیش کا انتخاب جیتنے کی خاطر بی جے پی کے لیے ضروری تھا کہ سماج وادی پارٹی ، بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس کے پھر سے اتحاد کو روکا جائے۔ اس کام کے لیے سب سے کمزور چارہ بی ایس پی کی مایاوتی تھیں ۔ بی جے پی نے سب سے پہلے انہیں بلیک میل کرنا شروع کیا اور وہ ڈر گئیں۔ بہوجن سماج پارٹی ماضی میں بی جےپی کے ساتھ الحاق کرچکی ہیں اس لیے اس کو دوباہ این ڈی اے میں شامل کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا مگر یوگی نے اترپردیش میں دلتوں پر جس طرح کے مظالم کیے ان کے سبب دلتوں کی خاطر بی جے پی کا ساتھ دینا ناممکن ہوگیا ہے۔ ہاتھرس کے سانحہ کو دلت سماج آسانی سے بھول نہیں سکتا۔ یہ تو ایک واقعہ ہے مگر فی الحال اتر پردیش میں ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی دلتوں کے ساتھ بدسلوکی کا سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ عصمت دری ایک عام بات ہوگئی ہے ۔ قتل کے بعد الٹا دلت نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے ۔ ویسے سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مایاوتی کا یہ آخری انتخاب ہے لیکن اگر وہ بی جے پی کے ساتھ مل جاتی ہیں تو ان کا انجام نہایت عبرتناک ہوگا۔
بی جے پی خوش تھی کہ کم ازکم ایک حریف کم ہوگیا اب صرف سماج وادی پارٹی کی سائیکل کے اندر سے ہوا نکال کر وہ اقتدار پر قابض ہوسکتی ہے لیکن کانگریس کی پرینکا گاندھی اس قدر مضبوط مدمقابل بن کر ابھریں گی یہ اس کے خواب وخیال میں بھی نہیں رہا ہوگا۔ پرینکا نے پہلے تو لکھیم پور کھیری میں یوگی کا داو الٹ دیا۔ یوگی یہ سوچ رہے تھے کہ معاوضہ اور ملازمت نے اس معاملے کو رفع دفع کردیا ہے۔ گودی میڈیا تو خوب جی بھر کے یوگی کی تعریف کررہا تھا لیکن پرینکا کے لکھیم پور کھیری جانے کے فیصلے نے پانسہ پلٹ دیا ۔ ویسے اس فیصلے میں کوئی خاص بات نہیں تھی ۔ ان کو اگر ہلاک ہونے والے کسانوں کے خاندان سے ملنے دیا جاتا تو وہ کوئی بڑی خبر نہیں بنتی مگر یوگی نے پرینکا کو حراست میں لے کر ڈرانے کی کوشش کی ۔ یوگی کو امید تھی کہ وہ ہاتھ جوڑ کر واپس چلی جائیں گی لیکن پرینکا نے تو یہ کہہ کر یوگی انتظامیہ کا پنجہ مروڑ دیا کہ مجھے گرفتار کرلو میں واپس نہیں جاوں گی۔
جیل سے جاری ہونے والی پرینکا گاندھی کی ویڈیو نے پانسہ پلٹ دیا ۔ اب یوگی جی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے؟ ان کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا جائے۔ اسی طرح راہل کو ڈرانے کی کوشش بھی ناکام رہی اور جب وہ لکھیم پور جاتے ہوئےاپنی بہن کے پاس پہنچے تو پرینکا کو رہا کردیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب یوگی جی ڈر گئے اور ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں ‘ کی فضا بننے لگی۔ اس کے بعد جب پولیس کی مارپیٹ سے ہلاک ہونے والے دلت نوجوان کے گھر والوں سے ملنے کی خاطر آگرہ پہنچیں تو خاتون پولس اہلکاروں نے فخر سے پرینکا گاندھی کے ساتھ سیلفی نکالی ۔ وہ معاملہ بھی دب جاتا مگر یوگی انتظامیہ نے ان پولیس والیوں پر کارروائی کرکے اس کوخبر بنادیا ورنہ سیکڑوں لوگ وزیر اعظم کے ساتھ سیلفی کھینچتے ہیں مگر ان کو کوئی نہیں پوچھتا۔
اس واقعہ نے پرینکا گاندھی کو خواتین کے اندر اپنی مقبولیت کا اشارہ دیا اور انہوں نے خواتین کے لیے خصوصی منشور کا اعلان کرکےچالیس فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے کا اعلان کردیا ۔ کانگریس کے پاس ویسے ہی کارکنان کی کمی ہے ایسے میں اس کے لیے سبھی حلقۂ انتخاب سے امیدواروں کا ملنا ایک مسئلہ ہے اس لیے چالیس فیصد خواتین کو ٹکٹ سے نواز دینا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کانگریس اگر ان ذاتوں کی خاتون امیدواروں کو میدان میں اتار دیں جو بی جے پی کو ووٹ دیتی ہیں تو اس سے بی جے پی کو جھٹکا لگ سکتاہے۔ اس دوران کانگریس نے دلی میں مہنگائی کے خلاف ریلی کرنے کا اعلان کیا کیوں کہ خواتین سب سے زیادہ مہنگائی کی مار کا شکار ہوتی ہیں ۔ بی جے پی والے اس سے ڈر گئے اور وزارت داخلہ کے تحت کام کرنے والی دلی پولیس نے اجازت منسوخ کردی ۔ کانگریس نے اپنا پروگرام جئے پور منتقل کردیا جہاں اشوک گہلوت نے سرکاری انتظامیہ کا استعمال کرکے اس کو ایسی کامیابی سے ہمکنار کیا جس کا تصور محال تھا۔ اس طرح پھر ایک بار بی جے پی نے بلاواسطہ اپنے حریف کا بھلا کردیا کیونکہ دلی کے اندر ویسی بھیڑ کا اکٹھا کرنا کانگریس کے لیے ناممکن تھا ۔
راجستھان اور اترپردیش میں بڑا فرق ہے اس کو مٹانے کی خاطر امیٹھی میں ریلی طے کی گئی اور اس کو زبردست کامیابی ملی۔ اس جلسہ میں خواتین کی موجودگی نے بی جے پی ہائی کمان کو سوچنے پر مجبور کردیا ۔ایک زمانے تک رجحان سازی کرنے وا لے نریندر مودی کو خواتین کا خصوصی جلسہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پرینکا کا نعرہ ’لڑکی ہوں لڑسکتی ہوں‘ میں لڑکی کون ہے یہ تو سب سے جانتے تھے لیکن کس سے لڑ سکتی ہے؟ یہ واضح نہیں تھا ۔ مودی نے خواتین کی خاطر خصوصی ریلی کرکے تسلیم کرلیا کہ یہ لڑکی کس سے لڑ سکتی ہے؟ پریاگ راج میں نریندر مودی نےخواتین کے لیے مخصوص پروگرام میں اعلانات کی جھڑی لگا دی۔ وزیراعظم نے1000 کروڑ روپے کی رقم سیلف ہیلپ گروپس کے کھاتوں میں منتقل کرکے تقریباً 16 لاکھ خواتین ممبروں کو فائدہ پہنچانے اعلان کیا۔ اس کے تحت فی امدادی گروپ 1.10 لاکھ روپے کے حساب سے 80,000 گروپوں کو کو کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ (سی آئی ایف) اور 15 ہزار روپے فی سیلف ہیلپ گروپ کے حساب سے 60 ہزار گروپوں کو آپریشنل فنڈز فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں 20 ہزار ’کاروباری سکھیوں‘ (بزنس کرسپانڈنٹ سکھی۔ بی سی سکھی) کے کھاتوں میں پہلے ماہ کے لیے 4000 روپے کا وظیفہ بھی منتقل کرنے کی بات کہی ۔ پی ایم مودی نے اس مدت کے دوران ’مکھیا منتری کنیا سمنگل یوجنا‘ کے تحت ایک لاکھ سے زیادہ مستحقین کو 20 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم بھی منتقل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ اس اسکیم کے تحت لڑکیوں کو ان کی زندگی کے مختلف مراحل میں شرائط کے ساتھ نقد رقم کی منتقلی ملتی ہے۔ اس منتقل ہونے والی کل رقم میں فی مستفید کو15,000 روپے ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف مراحل میں پیدائش (دو ہزار روپے)، ایک سال کے بعد مکمل ویکسی نیشن پر (ایک ہزار روپے)، پہلی کلاس میں داخلہ لینے پر (دو ہزارروپے)، چوتھی کلاس میں داخلہ کے بعد (دو ہزار روپے)، نویں کلاس میں اندراج پر(تین ہزار روپے)، دسویں یا بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد کسی بھی ڈگری/ڈپلومہ کورس میں داخلہ لینے کی صورت میں (پانچ ہزار روپے)ملتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ انتخاب سے پہلے صرف اترپردیش کی خواتین کے لیے یہ اعلان رشوت نہیں تو اور کیا ہے؟ ۔
وزیر اعظم ایک زمانے میں پچھلی حکومتوں پر قوم کو بھیک منگا بنانے کا الزام لگا کر خود کفیل بنانے کی باتیں کرتے تھے لیکن اب خود وہی سب کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں یہ ان کی اخلاقی شکست ہے۔
ویسے یہ اب بہت گھسا پٹا طریقہ بن گیا ہے اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ان سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والی رائے دہندگان اس سے متاثر ہوکر بی جے پی کو ووٹ دیں کیونکہ سرکاری خزانے سے ملنے والی یہ رقم عوام کے ٹیکس سے جمع ہوئی ہے اس لیے احسان مندی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ نئی نسل تو اس کے جھانسے میں ہر گز نہیں آئے گی ۔ موجودہ نسل کو متوجہ کرنے کے لیے کانگریس نے’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ کے عنوان سے میرٹھ میں میراتھن دوڑ کا انعقاد کیا اور اپنی ندرت کے سبب وہ بھی توقع سے زیادہ کامیاب رہی۔ کانگریس کے مخالفین کا دعویٰ تھا کہ اس مقابلے میں 100 لڑکیاں بھی نہیں پہنچ پائیں گی، لیکن تقریباً 4500 لڑکیوں نے اس میں حصہ لیا۔ کانگریس کو بجا طور اس کے مخالفین یہ کہہ کر منہ چڑا رہے ہیں کہ اس کے پاس نہ کارکن ہے نہ روپیہ ہے ۔ اس کے جواب میں پرینکا نے فلم دیوار کے طرز پر نیا نعرہ دیا ہے ’میرے پاس بہن ہے‘۔ اس میں شک نہیں کہ کانگریس اس صوبائی الیکشن میں کوئی بڑی کامیابی نہیں درج کراپائے گی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس نے بی جے پی کو فکر مند کردیا ہے اور 2024 میں کمل کے آگے ہاتھ مشکلات کھڑا کرے گا۔
***

 

***

 وزیر اعظم ایک زمانے میں پچھلی حکومتوں پر قوم کو بھیک منگا بنانے کا الزام لگا کر خود کفیل بنانے کی باتیں کرتے تھے لیکن اب خود وہی سب کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں یہ ان کی اخلاقی شکست ہے۔ ویسے یہ اب بہت گھسا پٹا طریقہ بن گیا ہے اس لیے یہ ضروری نہیں کہ ان سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے والی رائے دہندگان اس سے متاثر ہوکر بی جے پی کو ووٹ دیں کیونکہ سرکاری خزانے سے ملنے والی یہ رقم عوام کے ٹیکس سے جمع ہوئی ہے اس لیے احسان مندی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ نئی نسل تو اس کے جھانسے میں ہر گز نہیں آئے گی ۔ موجودہ نسل کو متوجہ کرنے کے لیے کانگریس نے’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ کے عنوان سے میرٹھ میں میراتھن دوڑ کا انعقاد کیا اور اپنی ندرت کے سبب وہ بھی توقع سے زیادہ کامیاب رہی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  02 جنوری تا 08 جنوری 2022