یوپی پولیس کی بربریت: یو پی کے ایک دیہات میں مسلم مکانات میں توڑ پھوڑ کی، زیورات اور نقدی لوٹی

تپرانا گاؤں (ضلع شاملی، یوپی)، جون 3: تقریباً 3،000 کی آبادی والے اس گاؤں میں 26 اور 27 مئی کی درمیانی شب اپنی حالیہ تاریخ میں بدترین قسم کا خوف دیکھا گیا اور صوبائی مسلح کانسٹیبلری (پی اے سی) کے اہلکار اس گاؤں پر اترآئے، انھوں نے مبینہ طور پر ان سب کو زدوکوب کیا جو ان کی نظر میں آئے اور تین درجن سے زائد مکانات میں توڑ پھوڑ کی اور پھولوں کے برتنوں سے لے کر ٹوائلٹ کی نشستوں، باورچی خانے کے سامان، واش بیسن، اسٹیل کی الماری، فریج، واشنگ مشین، ایئر کولر، بائک اورکاروں تک کو نقصان پہنچایا۔

جائے وقوع پر موجود ٹوٹا ہوا سامان پولیس اور پی اے سی کی توڑ پھوڑ اور بربریت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ایک جنگ زدہ گاؤں کی طرح لگتا ہے۔ گھریلو سامان اور دیگر املاک کی تباہی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اس کا ایک مقصد گاؤں کے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ معاشی نقصان پہنچانا تھا۔

پولیس اہلکاروں نے نشانہ بنائے گئے تقریباً تمام مکانات میں بجلی کے میٹرز، بجلی کے بٹن اور پاور انورٹرز نیز پانی کی پائپ لائنز اور ہیڈ واٹر ٹینک کو بھی تباہ کردیا۔

کچھ دیہاتیوں نے الزام لگایا کہ سیکیورٹی اہلکاروں نے ان کے صندوق اور الماریوں کو بھی توڑ دیا اور زیورات اور نقدی بھی لوٹ لی۔ ساتھ ہی کئی لاکھوں روپے لوٹے۔ بہت سے گھروں میں تالا لگا دیکھا گیا، کیوں کہ مرد اور خواتین سمیت گھر کے تمام افراد پولیس کے ڈر سے دوسرے گاؤں میں اپنے رشتہ داروں کے پاس فرار ہوچکے ہیں۔

یہ سب کچھ افضل اور عمران عرف ملا، دونوں حقیقی بھائیوں کو پکڑنے کے بہانے کیا گیا، جو گائے کے قتل میں ملوث پائے جانے کے بعد، چھ ماہ کے لیے ضلع سے جلاوطن کر دیے گئے تھے۔ دیہاتی اس قدر خوف زدہ ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی ان لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کو تیار نہیں ہے، جنھوں نے مظالم کا ارتکاب کیا اور انھیں بہت بڑا مالی نقصان پہنچایا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں مزید جعلی مقدمات میں ملوث کیا جاسکتا ہے اور اگر انھوں نے پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی تو ان کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔

تاہم پولیس نے ان تمام الزامات کی تردید کی ہے۔

پولیس کے ذریعے نشانہ بنائے جانے والے گھروں کے زیادہ تر مرد ممبران پولیس کے خوف سے اس واقعے کے بعد سے ہی گاؤں چھوڑ چکے ہیں، کیوں کہ ان میں سے بیشتر کے خلاف پولیس پر حملہ کرنے اور سرکاری فرائض انجام دینے میں رکاوٹیں ڈالنے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

گاؤں کے "پردھان” (گاؤں کے سربراہ) ناصر خان نے واقعے کے بارے میں کچھ بھی بولنے سے انکار کردیا، کیوں کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں، جنھیں پولیس نے گھیرے میں لے کر مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا تھا لیکن سیاسی اثر و رسوخ کی وجہ سے بعد میں رہا کر دیا۔

مقامی لوگوں کے مطابق پولیس 26 مئی کی رات گیارہ بجے کے قریب افضل اور عمران کی تلاش میں آئی۔ گاؤں والوں نے الزام لگایا کہ افضال کے گھر پہنچنے سے پہلے پولیس نے راستے میں ملنے والے ہر ایک کو زدوکوب کیا۔ دیہاتیوں نے اعتراف کیا کہ ’’اس سے لوگوں نے مشتعل ہوکر حملہ کیا اور پولیس کے کچھ افراد کو زخمی کردیا اور ان کی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔‘‘

یہ پولیس کی جوابی کارروائی کا بہانہ بن گیا اور گاؤں والوں کے مطابق پی اے سی اہلکاروں کے ساتھ پولیس کی ایک بڑی نفری صبح تین بجے کے قریب گاؤں میں آئی اور دروازے توڑ کر ان کے گھروں میں داخل ہوکر سب کچھ برباد کردیا۔

دیہاتیوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے گھروں میں سے جس کو بھی پایا، اسے پیٹا۔ کچھ خواتین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس نے ان کو بھی زدوکوب کیا۔ پولیس کو بہت سارے مرد نہیں ملے کیوں کہ ان میں سے بیش تر پولیس کی انتقامی کارروائی کے ڈر سے بھاگ گئے تھے۔

(بشکریہ انڈیا ٹومورو)