مسلمانوں نے ناسک کے ایک مندر میں زبردستی داخل ہونے کی کوشش کے الزامات کی تردید کی، مہاراشٹر حکومت نے معاملے کی تحقیقات کا حکم دیا

نئی دہلی، مئی 17: مہاراشٹر میں مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں نے ریاستی حکومت کے ذریعے ناسک کے ترمبکیشور مندر میں مسلمانوں کے زبردستی داخل ہونے کی مبینہ کوشش کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دینے کے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کیا۔

یہ حکم مندر کے حکام کی جانب سے پولیس میں ایک شکایت درج کرنے کے بعد جاری کیا گیا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ 13 مئی کو مسلمانوں کے ایک گروپ نے ہندو دیوتا شیو پر چادر (مذہبی آیات سے منقش ایک رسمی کپڑا‘‘ چڑھانے کی کوشش کی۔ انڈیا ٹوڈے کے مطابق اس معاملے میں چار مسلمان مردوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

تاہم مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مندر کے دروازے پر لوبان چڑھانے کی دہائیوں پرانی رسم پر عمل پیرا ہیں۔ تاہم مندر کے حکام نے اس بات سے انکار کیا ہے کہ ایسی کوئی روایت موجود ہے۔

تاہم ترمبکیشور شہری ادارے کے سابق صدر اویز کوکنی نے بتایا کہ مندر کے احاطے سے لوبان کے دھوئیں کو سالانہ اجتماع کے دوران قریبی درگاہ تک بھیجنے کا رواج کئی دہائیوں سے جاری ہے اور ہندو برادری نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا۔

انھوں نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’ہم حیران ہیں کہ یہ مسئلہ اب چھیڑا گیا ہے اور اس نے فرقہ وارانہ رخ اختیار کر لیا ہے۔‘‘

ناسک میں مسلمان ایک صوفی بزرگ حضرت گلاب شاہ ولی کے عرس کے دوران ایک جلوس نکالتے ہیں، جو مندر کے سامنے سے گزرتا ہے اور حضرت گلاب شاہ ولی کی درگاہ میں داخل ہوتا ہے۔

کوکنی نے کہا ’’ہر سال مسلمان مندر کے داخلی دروازے پر پہلی سیڑھی پر کھڑے ہوتے ہیں اور احاطے کے اندر جلتے ہوئے لوبان سے اٹھنے والا خوشبودار دھواں بھیجتے ہیں۔ یہ برسوں سے احترام کے نشان کے طور پر کیا جاتا رہا ہے۔ جلوس پھر درگاہ کی طرف بڑھتا ہے۔ ہفتہ کو بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ کسی بھی وقت مندر پر حملہ کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔‘‘

جلوس میں شریک لوگوں نے بتایا کہ ان میں سے صرف چار یا پانچ ہی مندر کے احاطے میں رسم ادا کرنے کے لیے داخل ہوئے تھے۔

ناسک ڈسٹرکٹ سنٹرل کوآپریٹو بینک کے سابق چیئرمین پرویز کوکنی نے دی انڈین ایکسپریس کو بتایا ’’یہ ایک پرانا عمل ہے اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ یہ رسم صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ مسلمان شہر کی آبادی کا بہت کم حصہ ہیں اور ہم آہنگی میں رہے ہیں… میں حیران ہوں کہ اس قدیم رواج پر اب اچانک سوال کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔‘‘

اس رسم میں حصہ لینے والوں نے پولیس کو ویڈیوز جمع کرائیں تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ پچھلے سالوں میں بھی یہی عمل کیا گیا تھا۔

شرکا میں سے ایک سلیم سید نے اخبار کو بتایا کہ ’’ہمیں پولیس نے بلایا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ مجھے بچپن سے یہ رسم یاد ہے۔ میرے آباؤ اجداد نے بھی ایسا ہی کیا۔ تاہم اگر ہم نے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘

تاہم مندر کے ایک ٹرسٹی پنکج بھوتڈا نے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ ان کے سرکاری ریکارڈ میں ایسی کسی رسم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ پنکج نے کہا ’’صرف اس وجہ سے کہ وہ ایک بار ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے، یہ رسم نہیں بن جاتی۔‘‘

دریں اثنا ناسک (دیہی) کے پولیس سپرنٹنڈنٹ شاہ جی اماپ نے کہا کہ مندر کے حفاظتی گارڈز نے مسلمانوں کو داخلی دروازے پر روک دیا تھا کیوں کہ دورے کے اوقات ختم ہو چکے تھے۔ ’’وہ گیٹ سے واپس آئے۔ مسلم کمیونٹی کے ارکان نے اب کہا ہے کہ اگر انھوں نے کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے تو وہ اس فعل کو نہیں دہرائیں گے۔‘‘