یونین پبلک سروس کمیشن میں کامیابی چیلنج سے کم نہیں
ذہنی یکسوئی اور جہد مسلسل کی ضرورت۔ مسلم طلبا صلاحیت اور لیاقت سے نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں
محمد قمرعالم ندوی،بہار
دنیا میں ہر کام محنت ومشقت کے بعد آسان ہو جاتا ہے۔ کوئی ایسا کام نہیں جس میں محنت کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔ ہر شخص کا اپنا مقصد اور ٹارگیٹ ہوتا ہے اس کو پانے کے لیے آرام و راحت کو قربان کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر وہ مقصد یا ٹارگیٹ حاصل ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک اہم ترین یونین پبلک سروس کمیشن کا امتحان بھی ہے۔ یونین پبلک سروس کمیشن کا امتحان ۳ مرحلوں میں ہوتا ہے۔ پہلے مرحلے کو پریلیمس، دوسرے کو مین اور تیسرے کو انٹرویو کہتے ہیں۔ طلباء اس کے لیے برسوں محنت کرتے ہیں، دل جمعی سے، یکسو ہو کر پڑھتے ہیں اور دن رات ایک کر دیتے ہیں۔ ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے آئی اے ایس، آئی پی ایس یا آئی ایف ایس آفسر بننا۔ طالبعلم لہو ولعب سے کنارہ کش ہو کر تعلیم پر دھیان دیتے ہیں۔ ہر سال ابتدائی مرحلے کے امتحان کے لیے دس لاکھ طالب علم فارم داخل کرتے ہیں جن میں سے آدھے سے زیادہ طالب علم پریلیمس امتحان میں چھٹ جاتے ہیں اس کے بعد مین کا امتحان ہوتا ہے اس میں مختصر جوابات لکھنے ہوتے ہیں، اس میں بھی ہر سال پانچ لاکھ سے زیادہ بچے پیچھے ہو جاتے ہیں۔ آخری مرحلہ انٹرویو کا ہوتا ہے۔ اس میں دس ہزار طالب علموں کا انتخاب کیا جاتا ہے، ان دس ہزار طالب علموں میں سے بھی آٹھ نو سو طلباء کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ ملک میں بے روزگار طلباء کی تعداد کروڑوں میں ہے جبکہ حکومت کے پاس نوکریوں کا فقدان ہے۔ طلباء نوکریوں کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ یونین پبلک سروس کمیشن ۲۰۱۹ کا رزلٹ آ چکا ہے، ہر پاس ہونے والے امیدوار کے چہرے پر خوشی ومسرت کے آثار ہیں، دوست واحباب کی طرف سے مبارکبادیوں کا سلسلہ جاری ہے، سب اپنی کامیابی کا کریڈٹ والدین اور اپنے اساتذہ کو دیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں، ہر کامیاب امیدوار یونین پبلک سروس کمیشن کی تیاری کی اسٹریٹیجی اور لائحہ عمل بیان کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی بارہ گھنٹے تو کوئی پندرہ گھنٹے پڑھنے کی بات کر رہا ہے۔ سب کا تجربہ ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہے۔ تاہم جو چیز ان سب میں مشترک ہے وہ ہے خوب غور و خوض کے بعد اسٹریٹیجی اور لائحہ عمل کی تیاری۔ جس کے نتیجے میں وہ سب آج کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔
۲۰۱۸ میں ۲۸ مسلم طلباء کامیاب ہوئے تھے اور تیسرا رینک حاصل کر کے ملک بھر میں اپنا اور ادارے کا نام روشن کیا تھا۔ اس دفعہ امیدواروں میں کیرالا کی ایک طالبہ نے ٹاپ ۵۰ میں ۵۴ واں رینک حاصل کیا ہے جو کہ بہت ہی خوش آئند بات ہے اگرچہ کہ رینک کم ملا ہے لیکن بہرحال مسلم امیدواروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یونین پبلک سروس کمیشن کا امتحان بہت مشکل ترین امتحان ہوتا ہے جو کسی طرح جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ یہ حقیقت ہے کہ مسلم طبقہ تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہے بلکہ نہیں کے برابر کہا جائے تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ کتنے ایسے نوجوان بچے بچیاں ہیں جو میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں تو کچھ تلاشِ معاش میں لگ جاتے ہیں اور اکثر و بیشتر نوجوان بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں۔ جو تھوڑے بہت تعلیم کی طرف توجہ دیتے ہیں وہ اچھی خوراک اچھی پوشاک اور گھومنے پھرنے میں اپنا قیمتی وقت بھی صرف کرتے ہیں اور بے دریغ روپیہ بھی خرچ کرتے ہیں۔ وہیں غیر مسلم لڑکے لڑکیاں کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے میں کمی کر کے مصیبتیں سہ کر تعلیم حاصل کرتے ہیں اور یو پی ایس سی جیسے اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان میں نہ صرف کامیاب ہوتے ہیں بلکہ اپنی صلاحیت کا لوہا منواتے ہیں اور معاشرے میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
یونین پبلک سروس امتحان میں مسلم امیدوار ریزرویشن کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ ریزرو طلباء کے لیے سیٹیں مختص ہیں۔ ۲۰۱۹ میں ۹۲۷ امیداواروں میں سے ۳۹۷ جنرل امیدوار کامیاب ہوئے ہیں، ۹۲۷ امیدواروں میں سے ۴۵ مسلم امیدواروں نے کامیابی کا پرچم لہرایا ہے۔ اس دفعہ کل امیدواروں میں ۱۸۰ آئی اے ایس، ۲۴ آئی ایف ایس اور ۱۵۰ آئی پی ایس کے لیے منتخب ہوئے ہیں، باقی گروپ اے اور گروپ بی میں شامل ہیں۔ ۹۲۷ امیدواروں میں سے ای وی ایس کوٹا سے ۸۳، او بی سی سے ۲۵۱، ایس سی سے ۱۲۹ اور ایس ٹی کوٹا سے ۶۷ ریزرویشن امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔ ایس ٹی، ایس سی، او بی سی کوٹا سے امیدوار ۸۰ نمبر سے بازی مار لیتا ہے جبکہ ایک جنرل امیدوار ڈیڑھ سو میں سے سو سے زیادہ نمبر لانے کے بعد ہی پریلیمس کے ابتدائی مرحلہ میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ اقلیتی طبقے ک طلباء کے لیے ۹۰ نمبر لانا ضروری ہے۔ غور کیجیے کہ جنرل اور ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے درمیان کتنا فرق ہے؟ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ملک کے ہر محکمے میں اعلیٰ عہدوں پر نچلے طبقے کے لوگ بھرے ہوئے ہوتے ہیں اور اعلیٰ طبقے کے لوگ ان کے آگے پیچھے کرتے رہتے ہیں جبکہ مسلمانوں کے لیے کوئی ریزرویشن نہیں ہے، کوئی سیٹ نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم پر توجہ نہیں دی، بچوں کو اعلیٰ تعلیم کی طرف رغبت دلاناچھوڑ دیا۔ والدین اپنی کمی کوتاہی کا رونا روتے ہیں جس سے کام نہ چلا ہے اور نہ چلے گا۔
یونین پبلک سروس کمیشن کی تیاری کے لیے ایک جنرل طالب علم کے لیے کم سے کم ۲۱ عمر سال ہونا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ ۳۳ سال، جبکہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے ۳۷ سال ہے۔ کیا یہ طریقہ جنرل گروپ کے طالب علم پر ظلم نہیں ہے؟ اس پر کوئی آواز بلند نہیں کرتا، سیاسی و ملی رہنما سب خاموش ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جو ٹاپر ہوتا ہے وہ اکثر اپنی غربت ومفلسی کو کُھل کر بیان کرتا ہے بہت کم ایسے ٹاپرز ہوتے ہیں جو ٹاپ کرنے سے پہلے بھی خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دو چار ٹاپرز کو چھوڑ کر بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے باپ دادوں میں کئی لوگ پبلک سروس میں برسر روزگار ہوتے ہیں، ان طلباء کو اچھی رہبری ملتی ہے دن بدن قابلیت وصلاحیت میں نکھار آتا ہے انہیں کسی طرح کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب بعض ٹاپرز ٹاپ کرنے کے بعد اپنی منفی سوچ کو میڈیا کے سامنے رکھتے ہیں۔ ان میں بعض ایسے ہوتے ہیں جو کھلے طور پر خود کی وکالت کرتے ہیں۔ ملک کو نوجوان طبقے کی ضرورت ہے، ان میں جو جتنا کم عمر ہوگا وہ اتنا زیادہ عرصے تک ملک کی خدمت کرے گا جس کے نتیجے میں وہ بھی مضبوط ہوگا اور ملک بھی مضبوط ہوگا۔ بدقسمتی سے بعض لوگوں میں ملک کو طاقتور بنانے کا ارادہ کم ہی ہوتا ہے، لوٹ کھسوٹ کرنے کی چاہت زیادہ ہوتی ہے۔ ایسی منفی سوچ پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر طالب کا بیک گراؤنڈ سب کی طرح نہیں ہوتا ہر کوئی ٹاپ اسکول وکالج سے نہیں آتا، ہر کوئی سی بی ایس ای بورڈ میں پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتا سب کا ذہن ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ان سب کے باوجود بعض ٹاپرز حکومت کو خوش رکھنے کے لیے عمر ۳۳ سال سے بھی کم کرنے کی بات کرتے ہیں جو کسی کے دل میں چھری گھونپنے سے کم نہیں ہے۔ ہر شخص کی خواہش وچاہت ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم مدت میں کامیاب ہو جائے تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر اپنی اور ملک کی اچھی طرح خدمت کر سکے، ملک کو بام عروج تک پہنچا سکے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ٹاپر پچاس فیصد جھوٹ بولتے ہیں جس کا حقیقت سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو یقین نہ ہو تو وہ کوچنگ سنٹر کے سینئر ذمہ داروں سے مل کر تشفی بخش جواب حاصل کر سکتے ہیں۔ یونین پبلک سروس کمیشن کی تیاری کے لیے کتابوں اور مٹیریل کی کمی نہیں ہے، ہر کسی کے لیے تمام کتابوں کا پڑھنا ضروری نہیں ہے۔ طلباء اپنی قابلیت، صلاحیت اور بیک گراؤنڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے کتابوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اکثر ٹاپ کرنے والے طلباء کا بیک گراؤنڈ بی ٹیک انجینئرنگ اور آئی آئی ٹی کالج کا ہوتا ہے۔ یونین پبلک سروس کمیشن کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جہد مسلسل کے ساتھ چیلنج کا مقابلہ کیا جاتا ہے اور کامیابی سے ہمکنار ہوا جاتا ہے۔
***