ہیومنزم
منصف مرزوقی | ترجمہ: ذوالقرنین حیدر
ہیومنزم یا مانوتاواد کی تعریف کے حوالے سے یہ بات سامنے رہنی چاہیے کہ فکری ونظریاتی رجحانات کی جتنی بھی مذہبی، فلسفیانہ یا سیاسی شکلیں آج موجود ہیں ان میں سب سے گہری اور سب سے قدیم یہی ہیومنزم ہے۔ ہیومنزم کا پورا تصور تین اہم بنیادوں پر قائم ہیں یا یوں سمجھیں کہ ہیومنزم کے تین بڑے عقائد یا مسلمات ہیں۔
ایک یہ کہ انسان اس کائنات کا مرکز ہے اور پوری کائنات اسی کے ارد گرد گھومتی ہے اور انسان کائنات کی بقیہ تمام مخلوقات اور جانداروں سے افضل واعلی ہے۔
دوسرا یہ کہ انسان کی طبیعت پر ہمیشہ خیر غالب رہتا ہے گرچہ کہ شر کا بھی کچھ اثر رہتا ہے۔
تیسرا یہ کہ دین، تعلیم، سیاست یا کسی بھی اور وسیلے سے انسان کی اصلاح اور بہتری ممکن ہے بشرطیکہ اس میں جدت ہو۔
یہ تینوں ہی مسلمات اور بنیادیں آج گہرے شک اور کھلی تنقید کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ یہ تنقیدیں کسی جانبدار، مخالف اور قدیم فکری رجحانات کو ختم کرنے کا ارادہ رکھنے والی مذہبی یا فلسفیانہ تحریک کی جانب سے کی جارہی ہیں۔ بلکہ یہ تو انسانوں کی اجتماعی عقل کی جانب سے کی جارہی ہیں جو سب سے زیادہ بیدار، ترقی یافتہ اور متحرک ہے اور سائنس اور طبعی سائنس پر اچھا عبور رکھتی ہے۔ چناں چہ طبعی سائنس کے میدان میں علوم اور معرفت کی روشنی میں جو پہلے سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور وسیع ہیں یہ حقیقت تسلیم کرلی گئی ہے کہ پیڑ پودوں اور حیوانات وجمادات کے تعلق سے ہمارا تصور غلط ہے وہ ہمارے ساتھ اس کوکب ارضی کے شراکت دار ہیں اور ہمارے ساتھ ہی زندگی گزارتے ہیں۔ بلکہ صحیح تو یہ ہے کہ انسان بقیہ تمام مخلوقات کے درمیان محض ایک مخلوق ہے۔ اور یہ بالکل ضروری نہیں کہ وہ ہر لحاظ سے اور ہر زاویے سے تمام مخلوقات سے افضل اور بہتر ہو۔
یوں توہر انسان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ سمجھداری اور ذہانت انسان کا خاصہ ہے اور انسان تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ ذہین اور عقلمند ہے کیوں کہ وہ ایسے ایسے کارنامے انجام دیتا ہے جن سے بقیہ تمام مخلوقات عاجز ہوتی ہیں جیسے نظریہ نسبیت (Theory of Relativity) کا انکشاف، اور ایسے ایسے آلات کی ایجاد کہ ان کی بدولت انسان اڑکر چاند تک پہنچ چکا ہے۔ لیکن اسی انسان سے اگر مطالبہ کیا جائے کہ جس طرح کچھ پرندے قطب شمالی اور قطب جنوبی کے درمیان کی مسافت ایک ہی اڑان میں طے کرتے ہیں تم بھی کرو، یا اس پیچیدہ حیران کن ٹیکنالوجی کے مسئلے کو حل کرو کہ کس طرح مکڑی اس قدر باریک مگر توانا دھاگہ بناتی ہے کہ جس کے راز کے انکشاف کے لیے تمام ترقی یافتہ صنعتیں کوشاں ہیں۔ موجودہ وقت میں طبعی علوم کی باقاعدہ ایک مکمل شاخ کی تمام کاوشوں اور تحقیق کا مرکز ان باریک جانداروں کی وہ صلاحیتیں ہیں جو بسا اوقات خوردبین کے بغیر دیکھے بھی نہیں جاسکتے لیکن ان کے اندر کمیونیکیٹ کرنے اور دور دراز تک معلومات منتقل کرنے کی عجیب وغریب صلاحیت ہوتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح حکومتیں ٹکنالوجی کے ذریعے جاسوسی کرکے دوسرے ممالک پر قابض ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔
آئے دن ہونے والے انکشافات اور معلومات اس بات کی واضح اور روشن دلیل ہیں کہ حیوانات، نباتات اور جمادات یہاں تک کہ فنگس تک کے بارے میں پمارا تصور سادہ لوحی اور سطحیت پر مبنی ہے۔ ان میدانوں میں بحث وتحقیق کرنے والے اس غیر معمولی پیچیدگی (complexity) اور ندرت کے سامنے حیران اور ششدر ہیں۔ بلکہ کائنات کی ہر جاندار شے یک خلیہ اور سادہ سے لے کر بے انتہا پیچیدہ تک انسان کو عاجز کردینے والی ہے۔
انیسویں صدی تک حیاتیاتی علوم کے ماہرین کے یہاں زندگی کو تصویر میں پیش کرنے کے لیے سب سے محبوب شکل ایک درخت کی ہوتی تھی جس کی جڑ میں بالکل سادہ ساخت والے ایک خلیے دو خلیے والے جاندار ہوتے تھے جن کی نشوونما سمندر میں ہوتی ہے اور پھر ان کی شاخوں پر تمام جاندار ہوتے ہیں جو کہ لاکھوں سال کے عرصے میں پیدا ہوتے رہے اور سب سے اوپر والی ایک شاخ پر انسان ہوتا تھا کہ اللہ کی مخلوقات میں کامل ترین یا فطرت کے ایجاد کردہ جانداروں میں سب سے مکمل وہی ہے۔ لیکن آخر کے کچھ برسوں میں تحقیق اور علم کے ارتقا کے باعث اس شکل کی تصویر سے، اس میں موجود سادہ لوحی اور جانبداری کی وجہ سے، لوگوں نے دستبرداری کا اعلان کردیا۔ بعد میں ہونے والی تحقیقات سے تو یہ بالکل واضح ہوگیا ہے کہ انسان نہ تو اہرام فطرت کی سب سے اونچی چوٹی ہے اور نہ ہی کائنات کے اس پورے دائرے کا مرکز۔ آج زندگی کی تصویر کشی کے لیے جو شکل وصورت زیادہ پسند کی جاتی ہے وہ ایک گیند کی شکل ہے جس کی سطح پر تمام جاندار اور انواع رکھ دیے جاتے ہیں اور انھی میں سے ایک انسان بھی ہوتا ہے اور گیند کے مرکز سے کسی بھی جاندار کی دوری میں کوئی فرق نہیں ہوتا، چاہے وہ انسان ہی کیوں نہ ہو۔
اگر ان لوگوں کو یہ نئی شکل پسند نہ آئے جو افضلیت اور برتری والی صورت سے زیادہ مانوس ہیں، تو ان کو اس سے بھی سخت صورت کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہوجانا چاہیے ان تمام بربادیوں کو سامنے رکھتے ہوئے جو انسان نے کرہ ارضی کے ساتھ روا رکھی ہیں اور جن کے نتیجے میں خطرناک موسمی بحران سے ہم سب دوچار ہیں۔ اس فرد جرم میں اس کا جانداروں کی لاکھوں اقسام کے سرے سے ختم (extinct) ہوجانے کا سبب بننا بھی شامل ہے۔ چناں چہ بعض محققین یہ تصور پیش کرنے لگے ہیں کہ انسان بقیہ جانداروں کے لیے اسی طرح ایک نقصان دہ اور جان لیوا وائرس ہے جس طرح آج کل کورونا وائرس انسان کے لیے جان لیوا ثابت ہوا ہے۔
ایسے میں مذہبی نقطہ نظر سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ تمام مصیبتیں جو یکے بعد دیگرے نازل ہوتی جارہی ہیں یہ سب اللہ کے اپنی مخلوق پر غصہ ہوجانے کے باعث ہیں کہ جسے اللہ نے زمین پر خلیفہ بنایا تھا اور وہ اس امانت کے لائق ثابت نہیں ٹھہرا؟
خالص علمی اور سائنسی حوالے سے سوال یہ اٹھتا ہے کہ: فطرت اس وائرس کو روکنے کے لیے کیا تیاریاں کرے گی، تاکہ یہ ان تمام چیزوں کو برباد نہ کردے جن کو اس نے بہت اہتمام سے بنایا، اور کس طرح وہ توازن واپس آجائے جو اس خطرناک جاندار کے وجود سے پہلے تھا، جو اپنے اور بقیہ تمام جانداروں کے لیے ایک خطرہ ہے؟
انسانوں کے رضاکارانہ طور پر ختم ہونے کی تحریک جس کے بارے میں میں نے دس سال پہلے الجزیرہ کی سائٹ پر آگاہ کیا تھا، کیوں کہ اس کا اشارہ انسانی تفکیر میں اہم تبدیلی کے ذریعے مل رہا تھا، یہ دراصل اس پریشان کن بحران کے مظاہر میں سے ہے جو انسانوں کی افضلیت اور مرکزیت پر مبنی تصورات کا نتیجہ ہیں، جس نے انسان کو ہر چیز کے لیےمعیار بنا دیا ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ فطرت اس کے مصالح کے لیے وقف ہے، بقیہ کسی بھی جاندار کے مصالح کی ادنی سی بھی رعایت کے بغیر۔
دوسرا اہم نکتہ جس پر تمام فکری اور نظریاتی مدارس کا اتفاق ہے اور جو ایک اہم سبب ہے ان مشاکل اور مصائب کا جو ہم کو لاحق ہورہی ہیں، وہ ہے انسانی فطرت کے حوالے سے سادہ لوحی اور سطحیت پر مبنی تصور۔ مثال کے طور پر آدم اسمتھ کو دیکھ لو۔ اس کا وہ نظریہ جسے وہ غیر مرئی ہاتھ (invisible hand) کا نام دیتا ہے اور جس کا یہ ماننا ہے کہ انسانوں کے درمیان قائم ہونے والی مارکیٹ ہمیشہ غیر مرئی ہاتھوں کی وجہ سے متوازن اور معتدل رہے گی۔ لیکن سوچیں کہ عملی طور سے یہ کیسے ممکن ہے کہ معاملات کو یوں ہی بلا قانون اور بلا ضابطہ چھوڑ دیا جائے، اس کے باوجود وہ ہمیشہ ہر ایک کی مصلحت اور منفعت کا لحاظ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں؟ کیا آدم اسمتھ کے ذہن میں ایک لمحہ بھی یہ خیال نہیں آیا کہ کبھی شیطان بھی تو غیر مرئی ہاتھ پر غالب آسکتا ہے اور اس پورے نظریے میں ایک اضطراب اور بے چینی پیدا کرسکتا ہے جو نظریہ آخری دو صدیوں میں اکثر انسانوں کی عقل پر غالب رہا۔ کیا آدم اسمتھ اپنی اس رائے پر ان تمام حقائق سے روشناس ہونے کے باوجود بھی جو تجارت کی آزادی اور ملکیت میں حقوق کے حوالے سے سامنے آئے، باقی رہ سکتا تھا جس کی مثال سافٹ ڈرنکس اورفاسٹ فوڈ کی کمپنیاں ہیں جو موٹاپا اور ذیابیطس اور متعدد قلبی امراض لاکھوں انسانوں کے درمیان بیچ رہی ہیں اور دوسری طرف یہی کمپنیاں لاکھوں ڈالر ان ماہرین کو ادا کرتی ہیں جن کا کام یہ تصدیق کرنا ہوتا ہے کہ یہ تمام چیزیں بے ضرر ہیں۔ حالانکہ تمام آزاد تحقیقیں صاف طور پر یہ ثابت کر چکی ہیں کہ صحت سے متعلق اتنی بڑی مصبیتیں تاریخ نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔
اب جمہوریت کے بانیوں کو لے لو اور ان کے سامنے وہ پوری صورت حال رکھ دو کہ کس طرح کالے دھن (black money) کے ذریعے آزادی رائے اور آزادی اظہار رائے کو سلب کیا جا رہا ہے اور کس طرح انتخابات کا پورا زور اور دارومدار پروپیگنڈہ، جھوٹ، خوف، فریب دہی اور خواہشات سے کھیلنے پر ہوچکا ہے، جس کے نتیجے میں جرمنی میں ہٹلر، امریکہ میں ٹرمپ، برازیل میں بولسونارو اور فلپین میں ایسا شخص حکومت میں پہنچ رہا ہے جو قاتل ہونے پہ فخر محسوس کرتا ہے اور قانون سے ماورا قتل وغارتگری پر لوگوں کو ابھارتا ہے۔
اب ایک خیالی تجربے میں ترقی پسندی کے بانیوں کے سامنے اسٹالن کے کیمپوں، چرنوبل، ہیروشیما اور موسمی بحران کی بھاری فائیلیں رکھو۔ کیا وہ اب اپنی تحریروں کو کوڑے میں پھینک دیں گے؟
یہاں ہوسکتا ہے کہ سیاسی اسلام کے علمبرداران یہ کہہ کر اپنا پلو جھاڑ لیں کہ کیا ہم نے اسی وجہ سے کہ انسان پیدائشی طور سے ہی ظالم ہے، یہ نہیں کہا تھا کہ انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین سے اوپر اللہ کے قوانین کو رکھا جائے؟ لیکن سوال یہ ہے کہ پھر اس کا کیا جواب ہوگا کہ اگر سعودی عرب میں کوئی غیر سعودی کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس پر تو شریعت کے مطابق کئی گنا زیادہ ہی حد نافذ کی جاتی ہے لیکن اگر اسی جرم میں سعودی باشندے ملزم ٹھہریں تو ان کی شدت اور تناسب بے انتہا کم ہو جاتا ہے؟ ٹھیک اسی طرح جس طرح امریکہ میں اگر کوئی سیاہ فام مورد الزام ٹھہرے تو اس پر پھانسی کے فیصلے کے امکانات بہت زیادہ ہوجاتے ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کے ہاتھ میں شریعت کی تشریح اور نفاذ کا معاملہ ہوتا ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح وضعی قوانین میں اس کا پورا انحصار ان لوگوں پر ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں تشریح اور نفاذ کا اختیار ہوتا ہے؟ اور وہ یہی انسان ہوتے ہیں اپنی تمام خصوصیتوں اور کمیوں کے ساتھ۔
چناں چہ ان تمام نظریات میں اصل غلطی یہی ہوئی کہ انسان کے اندر خیر کو اصل سمجھ لیا گیا اور شر کو محض ایک ثانوی نوعیت کی چیز سمجھا گیا جس پر قابو پانا بہت آسان ہو۔ لیکن تمام معاصر تجربات دوبارہ سے ہم کو وہی سبق یاد دلارہے ہیں جو پوری تاریخ نے سکھایا تھا اور وہ یہ کہ انسان کے خمیر میں شر کا مادہ اپنے عمل اور تاثیر کے لحاظ سے کسی طرح سے بھی خیر سے کم نہیں ہے۔ اور کسی بھی نظریہ سازی میں اس پہلو سے بے توجہی کا مطلب یہی ہوگا کہ کوئی کسان اپنے کھیت میں عمدہ قسم کے بیج ڈالے اور ساتھ ہی کچھ نہایت نقصاندہ کیڑے بھی ڈال دے جو اگنے والی پوری فصل کو برباد کر دیں۔
تیسرا اہم نکتہ جو تمام نظریات کے مابین مشترک ہے وہ بھی انسان کی طبیعت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے اور وہ اس بات پر یقین ہے کہ اس دین یا اس دین، اس نظریہ یا اس نظریہ یا بالآخر سائنس کے ذریعے انسان کی اصلاح اور بہتری ممکن ہوجائے گی۔ چناں چہ بس کچھ لمحوں کے صبر کا معاملہ ہے پھر سب کچھ درست ہوجائے گا۔
ہرجمعہ کو کتنے خطبات ہوتے ہیں، ہفتہ واتوار کو کتنے وعظ ہوتے ہیں، کتنے انقلابات نمودار ہوتے ہیں، کتنی اصلاحی تحریکیں منظر عام پر آتی ہیں اور کتنے سیاسی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی حال یہ ہے کہ ہم ایک اچھے اور مثالی معاشرے سے لاکھوں برسوں سے اتنا ہی دور ہیں جتنا کہ افق ہم سے دور ہے۔ دوسری طرف ہماری طبیعت کا جو منفی اور تخریبی پہلو ہے وہ تیزی سے ہر مثبت تعمیر کو ڈھاتا چلا جا رہا ہے۔
ساتھ ہی ایک اور نہایت ہی اہم سبب ہے جس کی طرف نظریہ سازوں کی توجہ نہیں ہوپاتی یا اس کو کماحقہ اہمیت نہیں ملتی اور وہ حیاتیاتی عنصر ہے۔ نسل کے بعد نسل کی تخلیق کا جو پورا سسٹم ہے اس کے نتیجے میں ایک انسان اپنی عمر کے آخری مرحلے میں جب وہ مشاکل اور مسائل سے نپٹنے کا تجربہ حاصل کرلیتا ہے تو فنا ہوجاتا ہے۔ ایک مشہور افریقی مثل ہے کہ ’ہر بوڑھے آدمی کی موت دراصل ایک لائبریری کے جلنے کا نام ہے‘۔ اس میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر نئی نسل کے پیچھے ایک نئی نسل آجاتی ہے مگر ہر مرتبہ یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ آغاز کی طرف لوٹا جائے تاکہ آنے والی نسلوں کو فرد اور معاشرے کے تصرفات اور اختیارات کی تعلق سے ایسے قواعد وضوابط کی تلقین ہوتی جائے جو معاشرے کو ایک محفوظ اور پرامن ڈگر پر رکھیں۔
اگر کوئی یہ سوال کرے کہ کیا اس روئے زمیں پر اب بھی بربریت کہیں باقی ہے سوائے برازیل کے جنگلات میں موجود کچھ وحشی قبائل کے درمیان؟ تو بتا دو کہ بربریت تو ہر گھر میں موجود ہے۔ ہمارے بچوں ہی کو اگر غور سے معروضی نگاہ سے دیکھو تو صاف طور سے ان میں ان تمام تصرفات کے بیج نظر آئیں گے جن کی وجہ سے آج ہم مصائب کا شکار ہیں۔ چاہے نشہ خوری ہو، خود غرضی ہو یا جہالت اور تشدد ہو۔ تعلیم وتربیت ان تصرفات پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہے اور ایک محدود حد تک ہی کامیابی حاصل ہوپاتی ہے۔ حیاتیاتی چکراس طرز پر گھومتا ہے کہ بچہ پانچ سال سے چودہ تک ایک دورانیہ پورا کرتا ہے۔ پھر پچیس سال پہ دوسرا دورانیہ اور اس طرح اس کا چکر پورا ہو جاتا ہے۔ البتہ نفسیاتی بالیدگی کا چکر بہت سے انسانوں کے یہاں بیچ میں ہی رک جاتا ہے۔ پھر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص پچاس میں بچہ اور ساٹھ سال کی عمر میں لڑکا ہوتا ہے۔ چناں چہ کبھی تو ایسا ہوگا کہ وہ فیصلہ سازی کے بہت اونچے مقام پر نظر آئیں گے اور وہیں دوسری طرف کچھ لوگ دنیا کی صورت حال پر حیرت کر رہے ہوں گے۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے انسانوفوبیا کا دورہ پڑگیا ہے۔ حالانکہ یہ ایک ایسا بحران ہے کہ بہت سے لوگ اس کا شکار ہوگئے جب ان کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ کس طرح دنیا نے ان کے خوابوں کے ساتھ کھلواڑ کیا اور اس کا مذاق بنایا۔ کتنے تو ایسے تھے کہ وہ انسانوں سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے کیوں کہ ان کے اندر سے انسانیت کے تعلق سے تمام امیدیں اور اعتماد جاتا رہا۔ چناں چہ کچھ تو کسی جنگل کے غار میں پناہ گزیں ہوئے اور کچھ نے خانقاہوں میں گوشہ نشینی اختیار کی۔ میری خوش قسمتی یہ ہے کہ تیونس میں ایسی کثافت کے جنگل ہی نایاب ہیں کہ جن میں میں روپوش ہوسکوں اور ہمارے اسلام میں خانقاہیں بھی نہیں ہیں کہ ان کی دیواروں میں چھپ ہوسکوں۔
بہرکیف میرے نہ بھاگنے اور خراب صورت حال کے سامنے سر نہ جھکادینے کے دو اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو وہ ہے جس کی طرف عربی شاعر ایلیا ابو ماضی نے اشارہ کیا تھا یہ کہتے ہوئے: میں نے آبادی کو خیرباد کہا اپنے کپڑوں اور بدن سے گرد وغبار کو جھاڑتے ہوئے، میرا خیال تھا کہ میں بیاباں میں تنہا آگیا ہوں مگر کیا دیکھتا ہوں کہ تمام لوگوں کا حال میرے ہی جیسا ہے۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ کچھ بہت مضبوط اور قابل اعتماد دلائل ہیں جو اس یقین کو باقی رکھتے ہیں کہ نوع انسانی کی تمام ان کمیوں کے باوجود جن کا ہم نے ذکر کیا ان کی اصلاح اور سدھار کا منصوبہ بھی بڑا امید افزا اور حوصلہ کن ہے۔ اس نوع انسانی کے حق میں پھر بھی کلمہ خیر کہنا ضروری ہے باوجود یکہ اس کے وہ تمام اوہام جو اس نے اپنی مرکزیت، برتری، امتیاز اور اللہ کے نزدیک افضلیت کے پال رکھے ہیں وہ سب غلط ہیں۔
یہ بات بالکل صحیح ہے کہ ہم انسان ایک وائرس کے مانند ہیں جو مسلسل اللہ کے اس خوب صورت گلشن پر حملہ آورہورہا ہے اور اس کی مخلوقات کا ایک بڑا حصہ اسی کی وجہ سے ختم (extinct) ہوچکا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی صحیح ہے کہ ہم انسان جہالت اور لالچ کی وجہ سے جو خرابیاں پیدا کر رہے تھے اب ان سے آگاہ ہونے لگے ہیں۔ ہماری خواب غفلت میں پڑی بیداری اب بہت تیزی کے ساتھ تمام ممکنہ کوششوں کے ذریعے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی کے لیے متوجہ ہے۔ اور ذرا یہ بھی سوچو کہ جانداروں میں اور کون ایسی مخلوق ہے جو خود کے علاوہ کسی کی فکر کرے؟ صرف انسان ہی ایک ایسا جاندار ہے جو اپنی زندگی بھی قربان کردیتا ہے مچھلیوں کی حفاظت کے لیے۔ ان کے خلاف مجرمانہ جنگ کی مخالفت کرتا ہے اور خود کو درختوں کے تنوں سے باندھ لیتا ہے تاکہ مشینی آروں کےسامنے ان کی حفاظت کرے اور ان کو کٹنے سے بچائے۔ اور وہ ہر طرح کی محبت کا اظہار کرتا ہے اپنے دیگردوست جانوروں کے تئیں۔
اب اس مسکین انسان کے حق میں کلمہ خیر کہنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ برے حالات سے دوچار ہے۔ اس کو ضرورت ہے کہ اس کے ساتھ نرمی، شفقت اور محبت سے پیش آیا جائے۔ خاص کر آج کے ایسے حالات میں جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے۔ اس پر ایک ہی ساتھ وباؤوں، جنگوں، اور موسمی تبدیلی کا حصار اورحملہ ہے۔ اور اس بات کی بھی امید ہے کہ عنقریب ایسی فاقہ کشی بھی آپڑے جو ہماری حالت اس سے بھی بدتر بنادے حالانکہ ہم اس خیال میں ہیں کہ حالات پوری طرح کنٹرول ہوجائیں گے۔
یہ موقعہ انسان کے اندر کے تضاد کو نمایاں کرنے کا ہے یا اس کے علاج کا؟ حقیقت میں نہ تو یہ صحیح ہے اور نہ ہی وہ۔ میرا ماننا ہے کہ چیزوں کو غور سے دیکھنا چاہیے نہ قبول کرنے کی نیت سے نہ ناراضگی کی نظر سے، بلکہ صرف اور صرف معروضی نگاہ سے۔
معروضی پہلو سے یہ کہنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ انسان اپنی طبیعت میں سراپا خیر یا سراپا شر ہے۔ بلکہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ انسان نے اپنی پیدائش سے یعنی دو لاکھ برسوں سے مواقف اور تصرفات کا ایک بڑا مرحلہ اور سفر طے کیا ہے۔ ان تصرفات میں آدھے خیر پر مبنی ہیں اور آدھے شر پر یا آدھے اخلاقیات پر قائم ہیں اور آدھے اخلاقیات سے بے پرواہ۔ ان تصرفات کی اخلاقی اور معیاری چھان بین سے قطع نظر وہ تمام انسانوں کی بقا اور ان کی بہتری کے مقصد ہی سے تھے۔ اسی طرح انسان مجبور بھی تھا کہ پورے یا ادھورے طور سے ان تصرفات کو برتے، حالات کے پیش نظر، یا صورت حال کے مطابق یا کائناتی نظام کے دباؤ کے میں۔
اس طرح تاریخ میں بہتر سے بہتر صورت حال وجود پذیر ہوتی رہی، غلامی کے خاتمے سے لے کر ضمان اجتماعی یا سوشل سیکورٹی کی وجود پذیری تک۔ اسی طرح بد سے بدتر صورت حال بھی پیدا ہوتی رہی، جنگوں سے لے کرکے انسان کے ذریعے انسانوں کا اور فطرت کا مجرمانہ استحصال کرنے تک۔ بالآخر’ گرین علاقوں‘ کے تصور کی پیدائش اور اس کے نفاذ کے نتیجے میں انسانوں میں بہتری لانے والے نظریات اور پروجیکٹ منظر عام پر آئے، وہیں دوسری طرف ریڈ زون کے تصور نے وہ تمام مواقف اور تصورات جنم دیے جنھوں نے انسانوں کے خوب صورت ترین خوابوں اور منصوبوں کو تہس نہس کردیا، ذاتی فائدہ عوامی فائدہ پر غالب آگیا اور وقتی مصلحت طویل المیعاد مصلحت پر غالب آگئی۔
چناں چہ آج بھی انسان اپنے علم اوربالیدگی اور پختگی کے نتیجے میں ایک طرف اس بات پر قادر ہے کہ اپنے آپ کی اور اس سیارے کی حفاظت کرلے اور زندگی کے حالات کو بہتری کی طرف لے جائے۔ ساتھ ہی ٹیکنالوجی کے ذریعے پیدا شدہ امکانات خاص کر آرٹیفیشیل انٹلیجنس کے ذریعے دوبارہ ایک نئے استبداد کو جنم دے اور مستقبل کو خوف ناک اور ڈراؤنا بنادے۔
آج ہم دراصل دو بڑے اندیشوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ یہ دنیا انسانوں سے پوری طرح خالی ہوجائے اور وہ یوں کہ فطرت اپنے کھوئے ہوئے توازن کی بازیافت کرلے جس طرح انسان مرض کے بعد اپنی صحت کی بازیافت کرتا ہے۔ چناں چہ فطرت اپنے اس وائرس کو پوری طرح ختم کردے اور اس کے لیے وہ کورونا اور اس جیسے دوسرے وسائل کا استعمال کرے جس طرح ہم جسم کے لیے نقصاندہ وائرس کو ختم کرکے اپنی طبیعت بحال کرتے ہیں۔
دوسرا یہ کہ انسانیت کچھ ایسے آلات کے زیر سایہ زندگی بسر کرے جس میں فیصلے کے تمام اختیارات ان آلات کے ہاتھ میں ہوں۔ چناں چہ ہم اسی طرح ان کے زیر سایہ اور زیر کنٹرول زندگی بسر کریں جس طرح دوسرے حیوانات ہمارے زیر کنٹرول ہوتے ہیں۔
چناں چہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اجتماعی بیداری پیدا ہو، ایسی موضوعی صورت حال کو جنم دینے کے لیے جس میں ہمارے اندر کا خیر اور بہتری، ممکنہ حد تک اور طویل ترین مدت کے لیے، ہمارے اندر کے شر اور بگاڑ پر غالب آجائے۔ اور یہ ممکن بھی ہے اور تاریخ میں کئی بار ایسا ہوا بھی ہے۔ خاص کر بڑی جنگوں کے بعد۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر ہمارے اندر یہ غیر معمولی طاقت نہیں ہوتی جس کی بدولت ہم بڑے سے بڑے مصائب اور آزمائش سے نبردآزما ہوجاتے ہیں تو ہم اب تک ختم ہوچکے ہوتے یا غاروں میں گزر بسر کر رہے ہوتے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیسے؟ جواب یہ ہے کہ ہم نے اب تک جتنے نظریات کو آزمایا ہے اور سیاست کے وہ تمام طریقے جنھوں نے آج ہم کو تباہی کے اس دلدل میں ڈالا ہے ان سب کا متبادل تلاش کریں۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر کا’ ریڈ زون‘ جو پروگرام اور منصوبہ بندی کرے گا اس کا کیا ہوگا حالانکہ یہ زون بھی ہمارے وجود اور فطرت کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے؟ بلکہ اب تو نئے انسان کی تخلیق ہورہی ہے۔ جس کو مابعد انسانیت انسان کہا جاسکتا ہے۔ اب انسان کی تفصیلات ترقی یافتہ حیاتیاتی علم اور آرٹیفیشیل انٹلیجنس کے ذریعے طے ہوں گی۔ ایسے میں کون یہ ضمانت دے سکتا ہے کہ نتیجہ کے لحاظ سے یہ اب تک کا بدترین تجربہ نہیں ہوگا۔ اور یہ ممکن ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں اس سنہری دور پر رحم اور ترس کھائیں جس میں انسان آزاد تھا کہ غلطی کرے اور پھر اپنی غلطیوں کی تصحیح کرکے صورت حال درست کرلے۔
اگر ہم نے دوبارہ یہ وہم پال لیا کہ کسی ایسے نئے نظریے کو دریافت کیا جاسکتا ہے جس میں کہیں سے کوئی کمی اور غلطی واقع نہیں ہوگی اور کوئی جادوئی تصوربن بھی لیا تو پھر سوال یہ ہوگا کہ اس کو صحیح طور سے نافذ کون کرے گا؟
چناں چہ اگلا سوال یہ ہوگا کہ ہم نہایت پیچیدہ اور مشکل صورت حال کو کیسے سمجھیں جس کے لیے موضوعیت ناگزیر ہے؟ اور پھر کیسے اس پر ایسی سیاست کا قیام ہو جو ان متعین معیاروں پر مستقل اپنا جائزہ لیتی رہے، جن کے پیش نظر فائدہ یا قابلیت کے بجائے اصول اور اقدار ہوں۔ ■