ہندو بھیڑ! مسلممخالف بائیکاٹ!!

مودی کے ہندوستان میں 1930 کے جرمنی کی بازگشت

دیباشیش رائے چودھری
ترجمہ:محمد مجیب الاعلیٰ

مودی عالمی رہنماؤں سے ’اسلام پسند بنیاد پرستی‘ کے خطرے کے بارے میں بات تو کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت کو اصل خطرہ مودی کی اپنی پارٹی کی بڑھتی ہوئی جارحیت اور پرتشدد مخالف مسلم تعصب سے ایندھن پانے والی ہندو اکثریت کی شدت پسندی سے لاحق ہے۔
ایک ہفتہ قبل نو رکنی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے چوٹی اجلاس میں حصہ لیتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ’اسلام پسند بنیاد پرستی‘ کا خطرہ بڑھ جانے کی بات کہتے ہوئے تشویش ظاہر کی۔ اپنی تقریر میں وہ چین، روس اور وسط ایشیائی ممالک پر زور دے رہے تھے کہ وہ شدت پسندی و انتہا پسندی سے لڑنے والی طاقتوں کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ مذہبی بنیاد پرستی تاریخی طور پر وسط ایشیا کی ترقی میں ایک رکاوٹ رہی ہے اور رکن ممالک پر زور دیا کہ وہ شدت پسندی سے مقابلہ کے لیے ’’معقولیت پسندانہ سوچ‘‘ کو فروغ دیں۔
ایشیا میں دہشت گردی کی ایک نئی امکانی پناہ گاہ کا تیار ہونا خطہ کے ممالک کے لیے جہاں کے نوجوان اس سے غیر متاثر ہیں، منڈاناو اور کشمیر میں جاری شورشوں کے مد نظر تشویش کا سبب ہے۔ ملائشیا، انڈونیشیا اور فلپائن کی حکومتیں ابھی تک ان ہزاروں نوجوانوں کی واپسی کے تعلق سے خوف زدہ ہیں جو شام میں داعش میں شمولیت کی خاطر اپنے ممالک کو چھوڑ کر چلے گئے۔ اس معاملے میں مودی اگرچہ راحت کی سانس لے سکتے ہیں تاہم بین الاقوامی سیکوریٹی تجزیہ نگاروں کے لیے یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ ہندوستانی مسلمان تاریخی طور پر عالمی جہادی تحریکات سے دور رہے ہیں۔ ہندوستانی مسلمان نہ تو 1980کی دہائی میں سوویت قبضے کے خلاف افغانستان میں مجاہدین کی مزاحمت کی طرف راغب ہوئے اور نہ ہی اس کے بعد القاعدہ، طالبان امارات میں وہ شامل ہوئے۔ اسی طرح وہ داعش کی زہریلی اپیل سے بھی غیر متاثر رہے ہیں۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً بیس کروڑ ہے جن میں سے تقریباً 100ہندوستانی داعش میں شامل ہوئے جو ’’خلافت‘‘ کے تقریباً چالیس ہزار غیر ملکی جنگجووں کا ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن مودی کے لیے جن کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کا استعمال ایک مشترک عدو کے خلاف تہذیبی طور پر متنوع اور ذات پات میں بٹے ہوئے ہندووں کے ووٹوں کو منظم کرنے کے لیے کرتی ہے، ’’مسلم شدت پسندی‘‘ پر ہنگامہ کھڑا کرنے کا ایک سبب ہے کیونکہ یہی آخرکار ہندووں میں تحریک پیدا کرنے کے وسیلے کے طور پر کام کرتا ہے۔
حقیقت میں اکثریت کی شدت پسندی، اقلیتی انتہا پسندی کے مقابلہ میں زیادہ بڑا خطرہ ہے جس کا ہندوستان سامنا کر رہا ہے۔ ہندووں کی جانب سے مسلمانوں پر ہجومی تشدد اس قدر عام بات ہوگئی ہے کہ اب وہ شاذ ونادر ہی خبر بنتی ہے۔ بیف اور بین طبقاتی محبت جسے مودی کی پارٹی نے ’لو جہاد‘ کا نام دیا ہے، ان کے خلاف بنائے گئے قوانین ہندو نگران گروپوں کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔ متعصب سِول انتظامیہ اور پولیس فورس کا ان نگران گروپوں کے ساتھ کوئی سرگرم تال میل نہ ہو تب بھی وہ اکثر ان واقعات سے اپنی نظریں پھیر لیتے ہیں۔
مودی نے2019 میں بھاری اکثریت سے دوبارہ منتخب ہونے کے بعد سے ہندوستان کے سیکولر جمہوریہ کو ایک ہندو راشٹرا بنانے کے ہندو اکثریتی پراجکٹ کو دوگنی رفتار دی ہے اور حکمراں پارٹی کے ’ہندو سب سے پہلے‘ کے عالمی نقطہ نظر سے الحاق رکھنے والےنگران گروپوں نے اس نئے نظم کو منوانے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ مظالم،نفرت انگیز جرائم اور ان بنیاد پرست گروپوں کی تقاریر ایک بدلتے ہوئے ہندوستان میں مسلمانوں کو ایک نئی سماجی وارثت کی روز یاد دلاتے ہیں جس میں مسلمان دوسرے درجے کے شہری بنے رہنے ہی کی امید کرسکتے ہیں۔ نئے بھارت میں یہ ایک نئی عام بات ہے۔ نئے بھارت کی اصطلاح کا استعمال کرپشن کا خاتمہ کرنے والے، خوشحالی لانے والے اور مسلمانوں کو ایک ہندو اکثریت ملک میں ان کا حقیقی مقام دکھانے والے ایک طاقتور ہندو لیڈر کے تحت ’سنہری دور‘ کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ جب مودی 2014میں قومی حکومت بنانے لیے کوشاں تھے تو انہوں نےسب کا وکاس کے نعرے کے ساتھ شمولیاتی ترقی کی مہم چلائی تھی۔ لیکن معاشی ترقی سے غفلت کی وجہ سے معیشت ان کے دور میں انتہائی ابتر صورتحال اختیار کر گئی ہے۔ کوویڈ سے ناقص طور پر نمٹنے کے نتیجہ میں موت اور تباہی کا سامنا کرتے ہوئے حمایت کی برقراری کے لیے مودی تقسیم کی سیاست کی اپنی اصل مہارت کی طرف واپس آچکے ہیں۔ ہندو کٹر پسندں کی جانب سے اِن دنوں جو اصل پیام پھیلا جارہا ہے وہ یہ کہ مسلمانوں کی وجہ سے ترقی ممکن نہیں ہے جو آبادی کا 14فیصد ہیں وہ ترقی کے ثمرات کھارہے ہیں جبکہ یہ ہندووں کو ملنا چاہیے جو آبادی کا 80 فیصد ہیں۔ حال ہی میں ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش جہاں کی آبادی برازیل کے برابر ہے، کے چیف منسٹر نے عملاً یہ کہتے ہوئے تنازعہ چھیڑدیا کہ مسلمان سرکاری سبسیڈی پر دیا جانے والا اناج ،جو سب کے لیے ہےاسے ختم کررہے ہیں۔
مودی کی پارٹی کے لیے ’اسلاموفوبک مہمات حکمرانی پر بحث اور احتساب سے بچنے اور انتخابات کو مبینہ طور پر خطرہ سے دوچار اکثریت کے تحفظ کے لیے ایک ریفرنڈم میں تبدیل کرنے میں معاون ہوتی ہیں۔ اترپردیش مودی کے لیے سیاسی طور پر نہایت اہم ہے جہاں ان کے لیے الیکشن جیتنا لازمی ہے کیونکہ یہ ریاست پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ نشستیں دیتی ہے اوریہی ریاست 1992میں ہندو جنونیوں کے ہاتھوں منہدم کردہ ایک مسجد پر رکھی جانے والی ہندو قوم پرست تحریک کا مبدا ہے۔ اسی تحریک نے بی جے پی کو ایک قومی سیاسی قوت میں تبدیل کیا تھا۔ بی جے پی نے ریاست میں آخری الیکشن 2017 میں منہدمہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کا وعدہ کرتے ہوئے جیتا تھا۔ مودی نے 2020 میں اس مندر کا افتتاح کیا تھا اور اسے ہندوستان کی قوم پرستی کی علامت قرار دیا تھا۔
اترپردیش میں قابل اعتماد جیت سے کم کوئی چیز مودی کے خوابوں کے مارچ کو خطرے سے دوچار کردے گی۔ چاہےکوویڈ کی تباہی ہو، کسانوں کا احتجاج ہو یا گرتی ہوئی معیشت، مودی نے اب تک سب کا بخوبی سامنا کیا ہے لیکن اترپردیش میں دراڑ کی ہلکی سی علامت بھی بہت احتیاط سے بنائی گئی ناقابل تسخیر ہونے کی شبیہ کو الٹ دے گی۔یہ وہ شبیہ ہے جو بڑے پیمانہ پر میڈیا کوریج، طاقت کے اندھا دھند استعمال، مخالفین کی جاسوسی اور ڈرانے دھمکانے کے امتزاج اور رائے دہندوں کو منتشر ومنقسم کرنے والے تعصب کی پہلے سے کہیں زیادہ خوفناک سطحوں کو منظم طور پر بے لگام کرتے ہوئے بنائی گئی ہے۔
ریاست میں پچھلے پانچ برسوں سے دکھانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ کوویڈ کے نقصانات اور مشکلات کی یادیں ابھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ کسانوں کے شدید احتجاج سے ہندو ووٹروں میں پھوٹ پڑنے کا خطرہ ہے۔ بی جے پی کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا ہے سوائے اس کے کہ اپنی نفرت کی مہم کو رفتار دی جائے۔ چنانچہ اکثریت کی بالادستی چاہنے والے شدت پسندوں کی جانب سے نسل کشی کے مطالبات کا بڑھنا اب عام ہوگیا ہے۔ ہندو مت کے خود ساختہ مسیحاوں کے چھوٹے گروپوں کی جانب سے تنہا مسلمانوں کو ہراساں وپریشان کرنے کے ویڈیوز اب پہلے زیادہ سوشل میڈیا پر دکھائے جارہے ہیں۔
بیشتر حملوں کا مقصد اب مسلمانوں کو ان کی گزر بسر اور کاروبار سے بے دخل کرنا ہے۔ مودی اگرچہ عالمی فورموں میں شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے معقولیت پسندانہ سوچ کی ضرورت پر زور دیتے ہیں لیکن ان کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ہندو جنونی اصلاح خانوں اور دکانوں کو مسلمانوں کی خدمات مستعار لینے کے خلاف انتباہ دے رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ شمالی شہر اندور میں ایک چوڑی فروش مسلم نوجوان کی ہندووں کے ایک گروپ نے پٹائی کی۔ ہندو خواتین کے ساتھ اس کا بات چیت کرنا انہیں اچھا نہیں لگا۔ مسلم ہاکروں کو اندھا دھند حملوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انہیں ہندو دیہاتوں سے نکال دیا گیا ہے۔ خود دارالحکومت دہلی میں مسلم دکانداروں اور تجارتی اداروں کے بائیکاٹ کے لیے ایک مشترکہ مہم چلائی گئی ہے۔ شمال مشرقی ریاست آسام میں جہاں مودی کی پارٹی نے مسلمانوں کو دیمک کہہ کر غیر انسانی ریمارک کیا اور کہا کہ مسلمان دیمک کی طرح ملک کے وسائل کو کھاجاتے ہیں، اس ریاست میں حکومت اب مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کررہی ہے تاکہ مقامی لوگوں کو کاشت کاری کے لیے زمین دی جاسکے۔ گزشتہ ہفتہ بے رحمی سے بے دخل کرنے کی مہم غریب مسلمانوں کی ہلاکتوں کا سبب بنی ہے۔ مسلمان جو معاشی طور پر پسماندہ ترین گروہ ہیں اور منظم معیشت میں ان کی بہت کم نمائندگی ہے اکثر کم درجہ کے چھوٹے موٹے کاموں سے منسلک رہتے ہیں۔ اس طرح کے بڑھتے ہوئے حملوں نے ہندوستانی آبادی کے سب سے پسماندہ طبقات میں سے ایک طبقہ کے لیے خطرہ پیدا کردیا ہے۔ اب تو بڑے کاروبار بھی زد میں آنے لگے ہیں۔ بنگلورو میں ایک مسلم تاجر کے ملکیتی فوڈ اسٹارٹ اپ کو اس ماہ سوشل میڈیا پر مہم کے بعد سرکاری طور پر اجازت دینے سے انکار کیا گیا ہے۔ مسلم تاجر پر اپنے پراڈکٹس میں مویشیوں کی ہڈیوں کے اجزا کے طور پر استعمال کرنے اور صرف مسلمانوں کو بطور ملازم رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ دونوں الزامات بالکلیہ طور پر بے بنیاد تھے۔
مودی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہجومی تشدد اور مویشیوں پر قبضوں کے ذریعے گوشت اور چمڑے کی تجارت پر مسلسل حملے کیے گئے ۔ گوشت کے کاروبار سے وابستہ چھوٹے تاجروں اور کاروباریوں پر سخت دباو ڈالا گیا جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ گوشت کے کاروبار سے منسلک بڑی کمپنیوں کو بھی آن لائن مہمات کے ذریعہ نشانہ بنایا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ حلال سرٹیفکیٹس ’معاشی جہاد‘ کی ایک شکل ہے جس کی ہندووں کو مزاحمت کرنی چاہیے۔
مسلمانوں پر معاشی حملے ابھی مسلمانوں کے باقاعدہ اخراج کی ایک ٹھوس حکومتی مہم کے اندیشے پیدا کرنے کے لیے منتشر اور گاہے بگاہے نظر آرہے ہیں لیکن مودی کے ہندوستان کا ابھی یہودی تجارتوں کے نازی بائیکاٹ (judenboykott) کے مرحلے تک پہنچنا باقی ہے جس کا آہستگی سے رفتار پکڑنے سے قبل 1933ء میں باقاعدہ آغاز ہوگیا تھا جو بالآخر ’’حتمی حل‘‘ کے طور پر یہودیوں کے قتل عام کا سبب بنا تھا۔
یہودی بائیکاٹ بھی راتوں رات نہیں ہوا تھا۔ 1920کی دہائی میں جرمنی کی دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے علاقائی سطح پر یہودی کاروبار کا بائیکاٹ کرنا معمول کا عمل ہوگیا تھا۔ بعد میں اسے ریاستی پالیسی قرار دیا گیا۔بیسیویں صدی کی یوروپی نسل پرستی سے متاثر تقریباً ایک صدی قدیم ہندو قوم پرست تحریک سے جنم لینے والی پارٹی کے تحت کیا ہندوستان اسی رخ پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ہم ابھی تک تو نہیں جانتے لیکن یہ ایک سوال ہے جو مودی کے سامنے بجا طور سے کھڑا ہے کیونکہ وہ ایک سال سے زیادہ وقفہ کے بعد اس ہفتے ملک سے باہر نکلے ہیں ۔ اگر ایسا ہی ہے تو دنیا کو خبردارہوجانے کی ضرورت ہے، اگر وہ دوبارہ بے خبری کی اسیر بننا نہ چاہے۔
(مضمون نگار "To Kill A Democracy: India’s Passage to Despotism”کے شریک مصنف ہیں )
***

 

***

 یہودی بائیکاٹ بھی راتوں رات نہیں ہوا تھا۔ 1920کی دہائی میں جرمنی کی دائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے علاقائی سطح پر یہودی کاروبار کا بائیکاٹ کرنا معمول کا عمل ہوگیا تھا۔ بعد میں اسے ریاستی پالیسی قرار دیا گیا۔بیسیویں صدی کی یوروپی نسل پرستی سے متاثر تقریباً ایک صدی قدیم ہندو قوم پرست تحریک سے جنم لینے والی پارٹی کے تحت کیا ہندوستان اسی رخ پر آگے بڑھ رہا ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 10 تا 16 اکتوبر 2021