ہندوستان میں جنسی جرائم کا سبب

نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ منافرت

نہال صغیر

 

عالمی پیمانے پر روزانہ ہونے والے جنسی جرائم کے تعلق سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا سبب عریانیت ، فحاشی اور اختلاط مردو زن ہیں ۔مگر اسے ہر جگہ نافذ نہیں کرسکتے دنیا کے کئی خطوں میں جہاں سامراجی قوتوں نے اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے فرقہ وارانہ منافرت یا نسلی امتیاز کے بیج بوئے وہاں نفرت اور عدم مساوات کی بنیاد پر خواتین اور نوعمر لڑکیاں جنسی ہوس کا نشانہ بنیں ۔ امریکہ کے قیام میں یوروپ کے گوروں نے وہاں کی مقامی آبادی جس میں ریڈ انڈین اور سیاہ فام شامل ہیں ، ان کے مردوں کو جہاں ہجومی تشدد کا شکار بنایا گیا وہیں ان کی خواتین کے ساتھ بہیمانہ سلوک کئے گئے ۔ اس کی تفصیل بڑی دلدوز ہے جس میں سے ایک یہ ہے کہ انہیں اس وقت تک جنسی زیادتی کا شکار ہونا پڑتا جب تک ان کی موت نہ ہوجائے۔ امریکہ کے علاوہ افریقی ممالک میں بھی اس طرح کے حیوانی جرائم ہوئے اور آج بھی اس کا سلسلہ جاری ہے ۔
ہندوستان میں بھی جنسی جرائم کا سبب صرف اختلاط مرد وزن ہی نہیں ہے بلکہ یہاں جنسی حیوانیت کی بڑی وجہ نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ سوچ بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے جو یہاں کی تہذیب کا حصہ ہے جس کے بارے میں فخریہ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے ۔ حالیہ ہاتھرس معاملہ بھی اسی نسلی امتیاز کا شرمناک پہلو ہے ۔ہاتھرس میں دلت لڑکی کی موت کے بعد پولس نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی لاش کو بغیر اس کے والدین کی مرضی کے سپرد آتش کردیا اور وہاں باہر کے افراد کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ۔مگر دوسری طرف ملزمین جن کا تعلق ہندوئوں کی نام نہاد اعلیٰ نسل یعنی ٹھاکر برادری سے ہے انہیں مہا پنچایت کرکے اسی نسلی امتیاز اور مجرموں کی حمایت کا مظاہرہ کرنے کی اجازت دے دی گئی ۔جس میں انہوں نے کہا کہ ہم تو انہیں چھونا پسند نہیں کرتے ، ہمارے بچے اس کے ساتھ زنا بالجبر کے مرتکب کیوں کر ہوسکتے ہیں ۔ جب تک اس بیماری کا علاج نہیں ہوتا یہ گھنائونا جرم یہاں سے ختم نہیں ہوگا ۔ نسلی امتیاز تو یہودیوں میں بھی ہے مگر ان کے یہاں بھی اتنی خرابی نہیں ہے جتنی اس ہزاروں سال پرانی تہذیب میں ہے ۔یوپی تو ایسا محسوس ہوتا ہے بدکاروں کا اڈہ بن گیا ہے ۔ حالانکہ دوسری ریاستیں بھی اچھوتی نہیں ہیں جیسے اسی طرح کا واقعہ مدھیہ میں بھی ہوا جہاں دلت لڑکی ساتھ بدکاری کے بعد اس کی رپورٹ لکھنے میں آنا کانی کرنے کے سبب مذکورہ بچی نے خود کشی کرلی ۔واضح ہو کہ مدھیہ پردیش بھی دلتوں کے خلاف منافرت کے لیے اکثر خبروں میں رہتا ہے ۔ اس کے علاوہ چھتیس گڑھ جو آدیباسی کے حقوق کی لڑائی کے لیے جانا جاتا ہے وہاں قبائلی خواتین کے ساتھ تو جرائم میں باضابطہ نکسلیوں کےخلاف لڑنے کے نام پر بنائی گئی فورس ملوث ہے جس کے کئی مقدمے سپریم کورٹ میں زیر دوراں ہیں ۔ سونی سوری کا واقعہ کسی تعارف کا محتاج نہیں جن کیخلاف جنسی تشدد کرنے والے پولس افسر کو صدارتی میڈل سے نوازا گیا تھا ۔ یہ چند سطور لکھنے کی ضرورت یوں ہوئی کہ ایک عالم دین نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ہے ’’جنسی جرائم کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کا بنیادی سبب بے پردگی ، عریانیت اور اختلاط ہے ،اسی لیے جن ملکوں میں عریانیت اور بے پردگی کا آزادانہ ماحول نہیں ہے وہاں ایسے جرائم کی شرح بہت کم ہے‘‘۔ یہ ٹوئٹ ۲ ؍ اکتوبر کو اردو میں کیا گیا ہے ، اگر یہ ہندی یا انگریزی میں ہوتا تو شاید شدید تنقید کی زد میں آتا اور میڈیا میں ایک تماشہ بن جاتا ۔ ہم مانتے ہیں کہ دنیا میں جنسی جرائم کا سبب وہ بھی ہے جو مولانا نے بیان کیا ہے مگر یہ پورا سچ نہیں ہے ۔ دنیا اور ہندوستان میں جنسی جرائم کی بڑی وجہ نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ منافرت بھی ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا۔چونکہ فی الحال ہندوستان میں ہاتھرس کا بہیمانہ واقعہ موضوع بحث ہے اس لیے یہاں پر مولانا کو احتیاط سے کام لینا چاہئے تھا ۔ انہیں دلتوں کے درد کو سمجھنا چاہیئے کہ آخر ان کے ساتھ ہی یہ بھیانک جرائم کیوں انجام دیئے جارہے ہیں ؟۔ ہم بھی اوروں کی طرح مولانا کے قدر دان ہیں ہمارا اعتراض برائے اعتراض نہیں ہے ۔ ہمارے عالموں کو حالات اور واقعات سے پوری طرح واقف ہونا چاہئے ۔ جیسے کسی بھوکے کیلئے ترجیح کھانا ہے اس کے بعد اسے کوئی نصیحت کی جاسکتی ہے اسی طرح ہندوستان میں پہلی ضرورت مظلوموں کی حمایت میں آگے آنا اور انہیں بااختیار طبقہ کے ظلم و تشدد سے بچانا ہے ، اگر اس پر قابو پالیا تب کہیں جاکر آپ یہاں وہ باتیں کہہ سکتے ہیں ۔
کسی بھی معاملہ میں وجہ ضرور بتانا چاہئے اور اس کے حل کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہئے ۔مولانا کے مطابق اگر یہاں بے پردگی اور عریانیت ختم ہوجائے تو زنا بالجبر کے واقعات ختم ہوجائیں گے ۔ مگر یہ درست نہیں ہے ، اس میں معمولی سی کمی ضرور آئے گی مگر اس سوسائٹی کا قیام نہیں ہوپائے گا جس کا اسلام خواہشمند ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جو لوگ نسلی امتیاز کے علمبردار اور فرقہ وارانہ سوچ کے حامل ہیں انہیں الگ تھلگ کرنا ضروری ہے ۔ان کو اس حد تک یک و تنہا کردینا چاہئے کہ وہ سوسائٹی میں اپنا اثر کھو دیں اور ان کے دماغ میں نسلی برتری کا جو بت ڈیرا جمائے بیٹھا ہے وہ نکل جائے ۔ اتنا کام کرنے کے بعد آپ عریانیت اور فحاشی کو روک کر ان گھنائونے جرائم پر قابو پاسکیں گے ۔لیکن منافرت کے درمیان اور ایک چھوٹی سی اقلیت جو سارے معاشرے پر اثر انداز ہے اور جس کی نظر میں اس کے علاوہ سارے انسان اس سے کمتر ہیں والی ذہنیت کے درمیان خواہ کچھ بھی کرلیں ، سوسائٹی کو رہنے کے قابل نہیں بنایا جاسکتا ۔غرض اس نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ منافرت کیخلاف میدان میں آگے آنے اور ایک بڑی آبادی کو ظلم کے دلدل سے نکالنے کی ضرورت ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں کا بڑا طبقہ بدترین ظلم کا شکار ہے ۔ ہم تسلیم کریں یا نہ کریں مگر یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف پرتشدد کارروائی کرتے ہوئے انہیں خوف محسوس ہوتا ہے مگر دلتوں اور آدیباسیوں پر ظلم و تشدد کرتے ہوئے انہیں زیادہ خوف نہیں ہوتا ۔ ان کے خلاف جرائم کی رپورٹنگ بھی ڈھنگ سے نہیں ہوتی ۔ یہ سوال ہم نے سدھارت ورداراجن اور شاہد لطیف دو نامور صحافیوں سے کیا لیکن وہ ٹھوس جواب نہیں دے سکے ۔ ورداراجن نے کہا کہ کوئی ان کی رپورٹنگ کو تیار نہیں ہوتا جبکہ شاہد لطیف نے کہا کہ ان کی خبروں کو جاننے میں دلچسپی کم ہے اسی لئے اس کی اشاعت نہیں ہوپاتی ۔ مجھے لگتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کی خبروں کی اشاعت میں گرما گرم بحث کا دروازہ کھل جاتا ہے اور کچھ لوگوں کے لیے ووٹ حاصل کرنے کا سبب بھی اسی لئے اس پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ جیسے کشمیر میں تشدد اور فورس کی جانب سے ظلم و تشدد کے واقعات کی کافی رپورٹنگ ہوتی ہے مگر یہی چیز چھتیس گڑھ کے معاملہ میں سرد مہری کا شکار ہے ۔ کئی سال قبل وہاں صحافیوں کیخلاف کریک ڈائون چلا جس میں چار معروف صحافیوں پر مقدمات قائم کرکے جیل بھیج دیا گیا چونکہ وہ قبائلی آبادی پر ظلم و جبر کی رپورٹنگ کررہے تھے ۔اس کے علاوہ درجنوں سماجی کارکنان حکومت کی انتقامی کارروائی کا نشانہ بنے مگر پورے ہندوستان کے میڈیا میں خاموشی چھائی رہی ۔ وہاں سے آنے والی کئی خبروں کو تو میں نے خود ہندی سے اردو میں ترجمہ کرکے اردو اخباروں کو بھیجا مگر وہ شائع نہیں ہوئیں ۔کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک میں صرف ہم ہی نہیں دیگر پسماندہ اقوام بھی ظلم کا شکار ہیں۔ ہمیں ان کی بھی خبر گیری کی ضرورت ہے ۔

ہندوستان میں بھی جنسی جرائم کا سبب صرف اختلاط مرد وزن ہی نہیں ہے بلکہ یہاں جنسی حیوانیت کی بڑی وجہ نسلی امتیاز اور فرقہ وارانہ سوچ بھی اس کے لیے ذمہ دار ہے جو یہاں کی تہذیب کا حصہ ہے جس کے بارے میں فخریہ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پرانی تہذیب ہے ۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11-17 اکتوبر، 2020