ہندوستان میں اشاعتِ اسلام

دعوتی حکمت عملی میں جدت پیدا کرنے کی ضرورت

شبیع الزماں (پونا)

 

ہندوستان میں مسلمانوں کی فتوحات دوسرے ملکوں کی بہ نسبت سست رہیں۔ سندھ سے دہلی تک کا سفر بہت طویل ثابت ہوا۔محمد بن قاسم کی آمد سے لیکر محمد غوری کے حکومت قائم کرنے تک کے سفر کو تقریباً پانچ صدیاں لگ گئیں۔ ایسی ہی صورتحال اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے معاملہ میں بھی رہی ہے لیکن اشاعت اسلام میں بعد کی تیزی نے اس سست روی کی تلافی کردی۔ اس دور کی تاریخ کے مطالعے سے اشاعت اسلام کی درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہے۔
۱۔ شمالی ہند میں مضبوط مسلم حکومتوں کا قیام: بلا شبہ مسلم حکمرانوں کا تبلیغ اسلام میں راست حصہ نہیں رہا لیکن انکے زمانے میں داعیوں کو تحفظ حاصل رہا۔ ان حکومتوں کے قیام کے سبب صوفیوں اور مبلغین اسلام کو دیگر علاقوں میں بے خوفی کے ساتھ جانے کا موقع ملا
۲۔ دوسرا بڑا سبب فتنہ تاتار تھا جس نے برصغیر کے باہر کی مسلم دنیا کو تباہ و برباد کردیا تھا اور مسلم دنیا کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا اور بڑی تعداد میں علما وصوفیا جن کی زندگی اجیرن ہوگئی تھی انہوں نے تحفظ کے لیے ہندوستان کا رخ کیا، ان بزرگوں کے سبب ہندوستان میں اسلام کو بہت تقویت ملی۔
۳۔ صوفیا کے طریقہ کار پر غور کیا جائے تو مشنری اسٹائل کی دعوت ان کا طریقہ نہیں تھا بلکہ شاید تبدیلی مذہب تو انکی اولین ترجیح بھی نہیں تھی۔ ان کے نزدیک ایک مسلمان کا ترک گناہ کسی غیر مسلم کے قبول اسلام سے افضل تھا۔ البتہ ان کے دروازے بلا کسی تفریق کے ہر ایک کے لیے کھلے تھے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوفیا کا مقصد اشاعت اسلام نہیں بلکہ حقیقی اسلام کی توسیع تھی۔
۴۔ ہندوستان میں اشاعت اسلام کا ایک خاص سبب اس زمانے کے مخصوص حالات بھی رہے ہیں۔ ہندو مذہب تبلیغی مذہب نہیں ہے بلکہ آریہ سماج کے قیام سے پہلے اس طرح کی کوئی تبلیغی کوشش ہندوؤں میں نظر بھی نہیں آتی بلکہ ان کے نزدیک تو مذہب تھا ہی خواص کے لیے اور عوام کا اسکو سننا تک جائز نہیں تھا۔ اسی لیے شودروں پر مذہبی کتابیں سننے اور مذہبی مقامات پر جانے تک پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ظاہر ہے ایسے حالات میں وہ لوگ جنہیں کسی بھی مذہب میں پناہ نہ ملے اور جنہیں سماج نے دھتکار دیا ہو ان کے لیے صوفیا کی شفقت بھری آغوش اور دامن اسلام میں جگہ نعمت سے کم نہیں تھی۔
۵۔ صوفیا کرام کا دوسرے مذاہب کے تئیں رویہ روادارانہ تھا۔ عیسائی مشنریوں کی طرح وہ دوسرے مذاہب اور ان کے بانیوں کی توہین کر کے اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ صوفیوں کے اس روادارانہ طریقوں کے باعث ہندوؤں نے انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھا اور یہ آج بھی کسی نہ کسی درجے میں قائم ہے۔
۶۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے قبل ہندوؤں اور بدھوں کی لڑائی زمانہ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اسلام ان علاقوں میں زیادہ تیزی سے پھیلا جہاں ہندو مکمل طور سے بدھ مذہب والوں پر غالب نہیں آئے تھے مثلاً سندھ کا علاقہ جہاں بودھ مذہب کے ماننے والے اس زمانے کے برہمن راجا سے سخت ناراض تھے۔
۷۔ اسی طرح ان علاقوں میں بھی اسلام تیزی سے پھیلا جہاں ذات پات کا نظام یعنی کاسٹ سسٹم کمزور تھا کیونکہ ایک ہندو کے لیے اپنی برادری چھوڑ کر دوسرا مذہب اختیار کر کے برادری کی دشمنی مول لینا بہت مشکل کام ہوتا تھا۔ سندھ، مغربی پنجاب اور بنگال اسکی واضح مثالیں ہیں۔
یہ اسباب ابتدائی زمانے میں اشاعت اسلام کے تھے لیکن اب صورتحال میں دو بنیادی تبدیلیاں آگئی ہیں۔
اول مسلمانوں کے دعوتی اپروچ میں اور دوم ہندوستان کے حالات میں۔
جہاں تک دعوتی طریق عمل کا تعلق ہے تو اب نہ وہ رحم دل صوفیا رہے اور نہ انکی متاثر کن دعوت باقی رہی۔ موجودہ دعوتی طریق عمل کی حالت وہی ہے جسکی ایک صدی پہلے مولانا مودودی نے تصویر یوں کھینچی تھی۔
’’جب سے بعض نو مسلم قوموں میں ارتداد کی وبا پھیلی ہے ہندوستان کے مسلمانوں میں عام ہلچل پھیل گئی ہے اور ہر طرف سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی آواز بلند ہونے لگی ہے ۔ مختلف جماعتیں اس کام کو ہاتھ میں لے کر اپنی بساط کے مطابق دعوت دین حق کی خدمت انجام دے رہی ہیں۔اخبارات و رسائل میں اسکی اہمیت پر گرما گرم بحثیں جاری ہیں۔ وسائل تبلیغ کی تحقیق کے لیے مجلسیس منعقد ہورہی ہیں اور فی الجملہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں در حقیقت کوئی ذوق تبلیغ پیدا ہو گیا ہے۔ لیکن جب ہم اس مسئلہ پر غائر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم آج کل کے مسلمان اس ذوق تبلیغ سے بالکل ہی نا آشنا ہیں جو کسی زمانے میں اسلام کی فاتحانہ قوتوں کا ضامن اور اس کی عالمگیری اور جہاں کشائی کا سب سے زیادہ کارگر ہتھیار تھا۔ اگر آج ہمارے اندر وہی ذوق موجود ہوتا تو شاید ان کانفرنسوں اور مجلسوں کی ضرورت ہی پیش نہ آتی اور اغیار کی چیرہ دستیوں سے ہمارے گھر میں ماتم بپا ہونے کے بجائے خود اغیار کے مجمع میں ہمارے مذہب کی بڑھتی ہوئی قوت سے کھلبلی مچی ہوئی ہوتی۔۔ ہماری زبانوں پر تبلیغ تبلیغ کا ورد جاری ہے اور ہم تبلیغ کے لیے انجمنیں بنا کر اسلام کی اشاعت کرنا چاہتے ہیں مگر شاید یہ اسلام کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے کہ اس کے پیروؤں نے عیسائیوں کی طرح مشنری سوسائٹیاں بنانے کی کوشش کی ہے یا اس بے تابی کے ساتھ تبلیغ کا شور مچایا ہے۔ اگر کامیابی کا حقیقی راز صرف انجمن سازیوں اور شوروشعب میں ہوتا تو یقیناً ہماری ترقی کی رفتار ہمارے اسلاف سے زیادہ تیز ہونی چاہیے تھی۔ لیکن اس کے بر خلاف ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس سازوسامان کو لے کر ہمارا قدم پیچھے اٹھ رہا ہے اور اس بے سامانی کے عالم میں ہمارے اسلاف کی کامیابیوں کا یہ عالم تھا کہ ان ہی کی بدولت آج دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام کے پیرو موجود ہیں‘‘ (اسلام کا سر چشمہ قوت)
دوسرا سبب ملک کے حالات میں آئی تبدیلیوں سے متعلق ہے۔ برٹش سامراج کے خاتمے کے بعد دورِ جدید میں ہندووں کی نشاۃ ثانیہ نے ملک کے حالات یکسر بدل دیے ہیں۔ ہندوستان کی سیاسی وسماجی صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ مسلم حکومتوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ہندو مذہب نے بدھ مت پر مکمل طور سے غلبہ پالیا ہے بلکہ اب بدھ مذہب کی عملی حیثیت ہندو مذہب کے ایک فرقے ہی کی ہے۔ برہمنوں کے ذریعے تشکیل کردہ سیاسی نظریہ ہندوتوا ملک میں سیاسی اور ہندو سماج میں نظریاتی طور پر غالب ہو چکا ہے۔ ذات پات کا نظام پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔ سیاسی مقتدرہ اشاعت اسلام کے تمام امکانات کو بہت چالاکی اور مضبوطی سے ختم کر رہا ہے۔ نیا ہندوستان قدیم سے بہت مختلف ہے۔ آج دعوت دین کے لیے نئے اپروچ کے ساتھ جدید حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ایسے اسباب اور دلائل کی ضرورت ہے جو جدید ہندوستانی سماج کو اسلام کی حقانیت پر پھر سے قائل کر سکے۔
جہان تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
***

سیاسی مقتدرہ اشاعت اسلام کے تمام امکانات کو بہت چالاکی اور مضبوطی سے ختم کر رہا ہے۔ نیا ہندوستان قدیم سے بہت مختلف ہے۔ آج دعوت دین کے لیے نئے اپروچ کے ساتھ جدید حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ایسے اسباب اور دلائل کی ضرورت ہے جو جدید ہندوستانی سماج کو اسلام کی حقانیت پر پھر سے قائل کر سکے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 11 تا 17 اپریل 2021