ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر‘ زمین پر کوئی خاص اثر نہیں

حکم رانوں اور پولیس کا روّیہ مشکوک۔ضلع میں مسلم آبادی 34 فیصد لیکن مسلم تعلیمی ادارے عنقا

سید خلیق احمد

برادران وطن کے ذہنوں کو آلودہ کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کی ضرورت
ہریدوار، ہندووں کا ایک مشہورمذہبی مقام ہے جو سوامی یتی نرسمہانند کی زیرقیادت بنیاد پرست اتحادیوں کی طرف سے مسلم نسل کشی کے مطالبات کے بعد سرخیوں میں ہے۔ یہ شاید بھارت کا واحد ایسا شہر ہے جہاں مسلمان جائیداد نہیں خرید سکتے۔
ہریدوار کے کنکھل اور مایا پور علاقوں میں بھی مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہے۔ کنکھل اور مایا پور یاترا کے شہری مراکز ہیں جہاں دنیا بھر سے ہندو سیر کے لیے آتے ہیں۔
ہریدوار کی میئر انیتا شرما کے شوہر کانگریس لیڈر اشوک شرما نے بتایا کہ یہ پرانا قانون ہے تاہم، مسلمان ہریدوار شہر کے باقی حصوں میں کہیں بھی گھوم پھر سکتے ہیں اور کام کر سکتے ہیں۔
پریس کلب آف ہریدوار کے صدر راجیندر ناتھ گوسوامی نے بتایا کہ ہریدوار میں روزانہ سیکڑوں مسلمان کاروبار کرنے اور مقامی ہندو باشندوں کو مختلف قسم کی خدمات فراہم کرنے کے لیے آتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مکمل طور پر خوش گوار ماحول ہے، اور اسے کوئی ختم نہیں کرسکتا۔‘‘
ایک ہندی روزنامے میں کام کرنے والے صحافی دلشاد علی کے مطابق، ’’وہ تمام حجام جو ہندو یاتریوں کا گنگا میں ڈبکی لگانے کے بعد سرمونڈھتے ہیں مسلمان ہیں۔ یہ حجام روزانہ اپنے گاووں سے ہریدوار کام کرنے کے لیے آتے ہیں۔
ہریدوار میں پلمبنگ، الیکٹریکل اور آٹوموبائل کی مرمت سمیت ہر طرح کا کام مسلم ٹیکنیشن بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ٹیکنیشن کرایے کی دکانوں میں کام کرتے ہیں اور کچھ ہندوؤں کی دکانوں میں بھی کام کرتے ہیں۔
’کنور‘ یا ’بہنگی‘، جو گنگا کے پانی کو لے جانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جوالا پور اور ہریدوار سے ملحق بجنور کے مسلمان بھی تیار کرتے ہیں۔ ’کنور‘ کا سالانہ بزنس کروڑوں روپے کا ہے۔
تاہم ہندوتوا کے بعض شدت پسندوں نے مسلمانوں کی اجتماعی نسل کشی کا مطالبہ کر کے شہر کی ہم آہنگی کی فضا کو خراب کر دیا ہے۔ یہی نہیں انہوں نے نہ صرف اس شہر میں بلکہ پورے بھارت میں دو مذہبی برادریوں کے لوگوں کے درمیان یکجہتی کو تباہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
شدت پسندوں نے مسلمانوں کو قتل کرنے کا ’ہندو فتویٰ‘ جاری کرکے ہریدوار کے ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہندوتوا کے جنونیوں نے مسلمانوں کا خون بہانے کی دعوت دینے کے لیے ہریدوار کا انتخاب کیوں کیا؟
دنیا بھر کے ہندو ہریدوار کو ایک مقدس مقام سمجھتے ہیں کیونکہ اس شہر سے دریائے گنگا بہتی ہے۔ دریائے گنگا کو ہندو مذہب میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ دنیا بھر کے کروڑوں ہندو اسے مقدس دریا مانتے ہیں۔ ہندو اپنے گناہوں کو دھونے اور تمام بیماریوں سے آزاد ہونے کے لیے دریائے گنگا کے پانی میں ڈبکی لگانے کے لیے ہریدوار آتے ہیں، کیونکہ ہندو مذہب میں یہ عقیدہ ہے کہ دریائے گنگا میں ڈبکی لگانے سے انسان کے تمام گناہ دھل جاتے ہیں۔
دریائے گنگا کا مبداء گومکھ ہے، جو شمالی ہمالیہ کے پہاڑوں میں واقع ہے، جو گنگوتری گلیشیئر کا آخری نقطہ ہے اور ہریدوار سے 140 کلومیٹر دور ہے۔ جب گنگوتری گلیشیئر کی برف پگھلتی ہے تو یہ دریائے بھاگیرتھی کی شکل میں مزید بہتی ہے۔ الکنندا نام کا ایک اور دریا ہے جو تبت کی سرحد کے ہندوستانی حصے میں واقع ہمالیہ کے جنوبی حصے سے نکلتا ہے اور اپنی چار معاون دریاؤں دھولی گنگا، ننداکینی، پندر اور منداکنی میں ضم ہو جاتا ہے۔
دریائے بھاگیرتھی اور الکنندا دونوں دریا بعد میں ہریدوار میں مل جاتے ہیں جس کو دریائے گنگا کہا جاتا ہے، جو 2,000 کلو میٹر سے زیادہ دور خلیج بنگال میں گرتا ہے۔لیکن شاید ہندوتوا بنیاد پرست اس جگہ کی مذہبی اہمیت کو بھول گئے ہیں جہاں سے انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک طرح کا ’ہندو فتویٰ‘ جاری کیا تھا۔ نرسمہانند اور اس کے ساتھیوں نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کرکے ہریدوار جیسی ہندووں کی مقدس سرزمین کو داغدار کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ان انتشار پسند عناصر نے پولیس اور فوج سے مسلمانوں کے قتل عام میں تعاون کی اپیل بھی کی۔
نرسمہانند اور ان جیسے ہندوتوا کے جنونیوں کا خیال ہے کہ آئندہ چند دہائیوں میں مسلم آبادی ہندوؤں کی اکثریت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ یہ انتشار پسند عناصر یہ جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں کہ مسلمان اس وقت ہندوستان کی آبادی کا 15 فیصد ہیں لیکن وہ آئندہ چند دہائیوں میں سیاسی اقتدار پر قبضہ کر لیں گے اور ہندوؤں پر حکومت کریں گے۔ یہ باتیں بالکل بے بنیاد ہیں کیونکہ حکومت ہند کی حالیہ رپورٹس کے مطابق مسلمانوں کی آبادی اعتدال میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شر پسند عناصر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے ہندوؤں کے ذہنوں میں خوف پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ تاہم پولیس نے نرسمہانند کو اس کے شاگرد وسیم رضوی کے ساتھ جیل میں ڈال دیا ہے۔ وسیم رضوی نے ہندو مذہب اختیار کر لیا ہے اور چند ماہ قبل ہی جیتندر نارائن تیاگی کے نام سے نیا نام رکھ لیا ہے۔ وسیم رضوی نے ہریدوار کی ’’دھرم سنسد‘‘ میں ایک اشتعال انگیز تقریر بھی کی تھی، یہ اشتعال انگیز تقریب 17تا19 دسمبر تین دنوں تک جاری رہی۔ تاہم پولیس نے اس معاملے میں ابھی تک تمام مجرموں کو گرفتار نہیں کیا ہے۔
ہم نہیں جانتے کہ ان نفرت پھیلانے والوں کا ہندو سماج میں کتنا اثر ہے۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف ان کی نفرت انگیز تقاریر میں ہندو برادری کو زہر آلود کرنے کی صلاحیت ہے۔ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مسلمان ہندو بنیاد پرستوں کا نشانے پر ہیں۔
اگر ان ہندوتوا بنیاد پرست عناصر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی تو انہیں پورے ملک میں نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ ملے گی اور سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ دونوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کرنے والے ان شر پسند عناصر کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ الٹا خاموشی اختیار کی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔حالاں کہ اس معاملے پر کئی ایف آئی آر درج کی گئیں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے تذکرے بھی ہوئے۔
ہریدوار میں ہے مسلمانوں کی خاصی آبادی
ہریدوار شمالی ہند کی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کا واحد ضلع ہے جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ضلع کی کل آبادی 20 لاکھ سے کم تھی۔ ہندو آبادی 64.27 فیصد یا تقریباً 12.80 لاکھ ہے جبکہ مسلمان 34.28 فیصد یا تقریباً سات لاکھ ہیں۔
2017 کے اسمبلی انتخابات میں اس ضلع کے مینگلور اور پیران کلیار اسمبلی حلقوں سے دو مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔ کلیار سے فرقان احمد اور منگلور سے محمد نظام الدین۔ 2012 میں ضلع سے چار مسلم ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔
یہ ضلع بین الاقوامی نقشے پر اسلامی مشنری اور صوفی بزرگ علاء الدین علی احمد صابر کی قبر کی وجہ سے بھی مشہور ہے جو صابر کلیاری کے نام سے مشہور ہیں۔ مشہور صوفی بابا فرید گنج شکر کے بھانجے صابر کلیاری نے 13ویں صدی میں اسلام کی تبلیغ کی۔ اتر پردیش کے مظفر نگر، بجنور اور سہارنپور کے پڑوسی اضلاع سمیت ایک وسیع علاقے میں ان کے عقیدت مندوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔
جب نرسمہانند نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کیا تو ضلع ہریدوار کے مسلمانوں نے اشتعال انگیز ردعمل تو ظاہر نہیں کیا۔ تاہم، جوالاپور کے مسلم نوجوانوں نے ہریدوار کے دروازے پر احتجاج کیا اور قصورواروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی، جس کے نتیجے میں نرسمہانند سمیت اب تک دو لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
مسلم کمیونٹی کا کوئی اسکول، کوئی کالج نہیں
ہریدوار میں مسلمان ضلع کی آبادی کا 34 فیصد سے زیادہ ہیں اور معاشی طور پر خوشحال ہیں، پھر بھی انہوں نے اسکول، کالج، اسپتال یا ڈسپنسریاں قائم نہیں کی ہیں۔ جس وقت ریاست میں کانگریس کی حکومت تھی، مسلمان وزیر بھی رہے اس کے باوجود ضلع کا یہی حال ہے۔
اس کے برعکس عیسائیوں اور سکھوں کی تعداد ضلع میں بہت کم ہے لیکن انہوں نے اسکول سے لے کر پوسٹ گریجویٹ سطح تک کے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں۔ سکھوں نے ایک انجینئرنگ اور مینجمنٹ کالج بھی قائم کیا ہے۔
سابق وزیر نعیم قریشی سے جب پوچھا گیا کہ مسلمان اسکول اور کالج بنانے میں کیوں ناکام رہے ہیں، تو ان سے کوئی جواب بن نہیں پڑا۔ قریشی ریاست کے سینئر ترین مسلم سیاست داں ہیں۔
نرسمہانند اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے والے طالب علم گلبہار خان کا کہنا ہے کہ مقامی اسکولوں اور کالجوں میں بہت سا عملہ مسلمانوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے۔ ایک سماجی کارکن کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں جوالاپور کے کالجوں میں پڑھنے والی کم از کم 12 مسلم لڑکیوں نے ہندو لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر شادی کر لی۔ انہوں نے کہا کہ مسلم مریضوں بالخصوص امراض نسواں کے مریضوں کو بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اکثر مقامی ڈاکٹروں کی طرف سے ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
پولیس نے ایف آئی آر درج کرانے کا انتظار کیوں کیا؟
ہریدوار میں 17تا 20 دسمبرمنعقدہ ’’دھرم سنسد‘‘ میں نام نہاد باباؤں کی جانب سے مسلم نسل کشی کے مطالبہ پر با دل ناخواستہ کی گئی کارروائی پر کئی سوالات اٹھتے ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ہریدوار پولیس نے کسی برادری کے قتل عام کے مطالبے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایف آئی آر کیوں درج نہیں کی؟
اس واقعے کے بین الاقوامی شہ سرخیوں میں آنے اور کئی ریٹائرڈ افسروں اور سربراہوں سمیت عام لوگوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر مذمت کے بعد ہی پولیس حرکت میں آئی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی نفرت انگیز تقاریر کی ویڈیوز کی بنیاد پر بھی پولیس نے خود اس معاملے میں کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ ایف آئی آر 23 دسمبر کو جوالا پور کے رہنے والے ایل ایل بی سال دوم کے طالب علم گلبہار خان کی شکایت پر درج کی گئی تھی۔ ہریدوار کی تقریباً 40 فیصد آبادی مسلمان ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا گلبہار خان نے خود یا کچھ سیاسی جماعتوں نے ایف آئی آر درج کرائی ہے، گلبہار نے بتایا، ’’میں نے پولیس کی ہدایت پر ایف آئی آر درج کرائی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’میں نے دریائے گنگا پر جتواڑہ پل پر لگاتار تین دن تک احتجاج کیا اور ہریدوار میں مذہبی منافرت پھیلانے والے لوگوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ہر روز مظاہرے میں مسلمانوں کا ایک بڑا ہجوم جمع ہو رہا تھا۔ ان مظاہروں کو دہرادون کے کچھ مسلم لیڈروں نے بھی مخاطب کیا۔اس کے بعد مجھ سے ایک سینئر پولیس افسر نے رابطہ قائم کرتے ہوئے دھرم سنسد میں نفرت انگیز تقاریر کرنے والوں کے خلاف شکایت درج کروانے کا مشورہ دیا‘‘۔
گلبہار نے ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’میں نے ہندی میں شکایت کا مسودہ تیار کیا تھا جس میں نفرت انگیز تقاریر کرنے والے نو لوگوں کے نام درج تھے جنہوں نے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ کیا تھا۔‘‘
25 سالہ طالب علم نے کہا ’’شکایت درج کرانے کے بعد مجھ سے ایک کاغذ پر دستخط کرنے کے لیے کہا گیا لیکن کاغذ پر کیا لکھا تھا پڑھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔‘‘
گلبہار نے کہا ’’اگلی صبح میں اخبارات میں یہ خبر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پولیس نے وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی اور دیگر نامعلوم افراد کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے پر ایف آئی آر درج کی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ حالانکہ میں نے اپنی شکایت میں نو لوگوں کے نام بتائے تھے۔
گلبہار نے کہا کہ اس کے بعد وہ پولیس کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ انہوں نے ان تمام لوگوں کے نام کیوں شامل نہیں کیے جن کے نام اس شکایت میں گنوائے گئے تھے۔ اس کے بعد پولیس نے دو اور مجرموں کے نام شامل کیے اور بعد میں باقی تمام کے نام بھی شامل کر لیے، لیکن اس کے لیے گلبہار کو دوبارہ اپنا نام تحریری طور پر دینا پڑا۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پولیس نے گلبہار سے ایف آئی آر درج کرنے کا مشورہ کیوں دیا تھا؟ ویڈیو شواہد موجود ہونے کے باوجود پولیس نے اپنے طور پر مقدمہ کیوں درج نہیں کیا؟ جبکہ انہی شواہد کی بنیاد پر گلبہار نے پولیس سے شکایت کی تھی اور وہ اس پروگرام میں موجود نہیں تھے۔
اگر پولیس کسی طالب علم کی ویڈیو تقریر کو بنیاد بنا کر اس کے خلاف مقدمہ درج کر سکتی ہے تو ویڈیو کی بنیاد پر کیوں نہیں کر سکتی تھی؟ اگر کوئی مسلمان ایسا جرم کرتا تو کیا پولیس پھر بھی کسی کی شکایت درج کرنے کا انتظار کرتی؟ مارچ 2020 میں کورونا کی وبا کا از خود نوٹس لیتے ہوئے دہلی پولیس نے تبلیغی جماعت کے مرکز اور بنگلہ والی مسجد میں اس کے سربراہ محمد سعد کے خلاف ایف آئی آر درج کی تھی۔ اس وقت پولیس نے اس سلسلے میں شکایت درج کرانے کے لیے کسی کا انتظار نہیں کیا تھا۔
ہریدوار کی ضلع انتظامیہ کے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ریاستی حکومت سخت گیر ہندو مذہبی رہنماؤں کے خلاف سیاسی وجوہات کی بنا پر ’سوموٹو‘ کارروائی کرکے انہیں ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔
اتراکھنڈ میں 14 فروری سے 10 مارچ 2022 تک چار دیگر ریاستوں کے ساتھ اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ازخود کارروائی کی جاتی تو یہ حکمراں جماعت بی جے پی کے مفادات کے خلاف ہوتی، اس لیے ریاست کی پولیس نے اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرنے کے لیے ایک مسلمان کا انتخاب کیا۔
ملزمین کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153A کے تحت الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ دفعہ 153A مختلف گروہوں کے درمیان مذہب، ذات، جائے پیدائش، رہائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر دشمنی یا نفرت کے جذبات کو فروغ دینے اور سماجی ہم آہنگی کے خلاف کام کرنے کے جرم سے متعلق ہے۔
پولیس کی طرف سے درج شدہ ایف آئی آر میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ ملزمین نے مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کی تھی۔ اس سے ملزمين کے خلاف کیس ہلکا ہو جاتا ہے۔ آخر پولیس نے ملزموں کے خلاف کیس کو کمزور کرنے کی کوشش کیوں کی جب کہ انہوں نے ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی تھا؟
گلبہار کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ ملزمین نے مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی تھی۔ پولیس کی جانب سے درج کی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’’وسیم رضوی عرف جتیندر نارائن تیاگی اور دیگر نے ایک منصوبہ بند سازش کے تحت اپنی تقاریر میں اسلام اور پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) کے خلاف اشتعال انگیز اور قابل اعتراض بیانات دیے ہیں۔ اس سے شکایت کنندہ اور اسلام کے دیگر پیروکاروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے۔ تقریب کو فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمس پر بھی براہ راست نشر کیا گیا لہٰذا آپ سے گزارش ہے کہ پیغمبر اسلام اور دین اسلام کے خلاف قابل اعتراض تقاریر کرنے اور اسے سوشل میڈیا پر لائیو کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
’’دھرم سنسد‘‘ میں مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر نسل کشی کا مطالبہ کرنے والی تقاریر پر جوالا پور کے رہائشی کارکن ندیم علی نےدو جنوری کو ایک اور ایف آئی آر درج کرائی جس میں لگائے گئے الزامات آئی پی سی کی دفعہ 153A اور 298 کے تحت آتے ہیں۔ دفعہ 298 کسی بھی شخص کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے ارادے سے الفاظ وغیرہ کے استعمال سے متعلق ہے۔ اس ایف آئی آر میں ملزمین کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
گرفتاری میں تاخیر
پہلی ایف آئی آر 23 دسمبر 2021 کو درج کی گئی تھی جو 14 جنوری 2022 کو وسیم رضوی کی گرفتاری کے 22 دن بعد درج ہوئی۔ رضوی کے خلاف ہریدوار میں دو مقدمات درج کیے گئے، ایک معاملہ ہریدوار پریس کلب میں اس کے قابل اعتراض بیانات سے متعلق ہے اور دوسرا اس کی ہریدوار ’’دھرم سنسد‘‘ میں تقریر سے متعلق ہے۔
اسی طرح یتی نرسمہانند کو 15 جنوری کو تین معاملات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا تھا، ایک ’’دھرم سنسد‘‘ سے متعلق، دوسرا صحافی دلشاد قریشی کے ہریدوار پریس کلب میں اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کے خلاف قابل اعتراض ریمارکس پر۔ تیسرا مقدمہ ایک خاتون روچیکا کی جانب سے مسلم کمیونٹی کی خواتین کے خلاف قابل اعتراض تبصرہ کرنے پر درج کیا گیا تھا۔
لیکن یہ گرفتاریاں اس وقت کی گئیں جب سپریم کورٹ نے اتراکھنڈ کی حکومت کو ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر اور دلی میں ہندو یوا واہنی کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب کے معاملہ میں پولیس پر بے عملی کا الزام عائد کرتے ہوئے دائر کردہ مفاد عامہ کی ایک درخواست پر نوٹس جاری کی تھی ۔ یہ پی آئی ایل، بی بی سی کے سابق صحافی قربان علی نے دائر کی تھی۔
(مضمون نگارسید خلیق احمد ’انڈیا ٹومارو‘ کے ایڈیٹر ہیں)

 

***

 اگر ان ہندوتوا بنیاد پرست عناصر کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کی گئی تو انہیں پورے ملک میں نفرت پھیلانے کی کھلی چھوٹ ملے گی اور سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ دونوں نے مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کرنے والے ان شر پسند عناصر کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا بلکہ الٹا خاموشی اختیار کی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔حالاں کہ اس معاملے پر کئی ایف آئی آر درج کی گئیں اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس کے تذکرے بھی ہوئے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  06 فروری تا 12فروری 2022