ہریانہ: سرکاری اسکول کا پرنسپل 60 لڑکیوں کو ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار

چنڈی گڑھ ،12نومبر :۔

ہریانہ کے جند ضلع میں ایک سرکاری اسکول کے پرنسپل کو گزشتہ چھ سالوں میں اپنے اسکول میں تقریباً 60 طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

اس نے مبینہ طور پر طالب علموں کو اپنے دفتر میں لے جاتا جس میں کالے شیشے کا کیبن تھا اور ان کے ساتھ بدتمیزی کرتا۔ اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگر انھوں نے واقعے کی اطلاع دی تو وہ انھیں امتحان میں فیل کر دے گا۔

یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب طالبات نے صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس آف انڈیا اور قومی کمیشن برائے خواتین کو گمنام خط لکھ کر پرنسپل کے رویے کو بے نقاب کیا۔ خطوط میں ایک خاتون ٹیچر کا نام بھی تھا جس نے اس گھناونے فعل میں اس ملزم پرنسپل کا ساتھ دیا ار طالبات کو اس کے فتر  میں لے گئی۔

پرنسپل کو گزشتہ ہفتے ہریانہ پولس کی خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس ائی ٹی) نے ایک ماہ   کے بعد گرفتار کیا  ۔ اسے جنسی جرائم سے بچوں کے تحفظ (پوکسو) ایکٹ، دفعہ 354-A (جنسی طور پر ہراساں کرنا)، 341 (غلط طریقے سے روکنا) اور تعزیرات ہند کی 342 (غلط قید) کے تحت الزامات کا سامنا ہے۔

 

اسکول میں 1200 سے زائد طالبات اور 40 اساتذہ ہیں، جن میں ایک غیر تدریسی عملہ بھی شامل ہے، جن میں سے تقریباً نصف خواتین ارکان ہیں۔

جب سے یہ واقعہ سامنے آیا ہے، طالبات کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ آگے نہ آئیں اور نہ ہی اسکول آنے والے کسی باہری شخص سے بات کریں۔ اب پرنسپل کے کمرے سمیت پورے اسکول میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کر دیے گئے ہیں۔

یہ بھی خیال رہے کہ پرنسپل گزشتہ 6 سال سے اسی سکول میں ٹرانسفر کے بغیر تعینات تھا جبکہ باقی اسٹاف کے اس عرصے میں متعدد بار تبادلے کیے جا چکے ہیں۔

لوگ یہ بھی الزام لگا رہے ہیں کہ پرنسپل کا تعلق ایک بااثر سیاسی خاندان سے ہے جس کی وجہ سے اس کو خصوصی رعایت ملی ہوئی ہے  ۔ الزام ہے کہ پرنسپل کی حرکتوں کی وجہ سے کئی لڑکیوں نے اسکول چھوڑ دیا۔

ہریانہ اسٹیٹ کمیشن برائے خواتین (ایچ ایس سی ڈبلیو) بھی ان الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے اور اس نے پولیس حکام، محکمہ تعلیم اور متاثرہ لڑکیوں کو بات چیت کے لیے طلب کیا ہے۔ تاہم پرنسپل کمیشن کے سامنے پیش ہونے میں ناکام رہا۔

ریاستی کمیشن برائے خواتین کی چیئرپرسن رینو بھاٹیہ نے کہا کہ ہمیں طالبات کی جانب سے پرنسپل کے خلاف 60 تحریری شکایات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں سے 50 لڑکیوں کی شکایات ہیں جنہوں نے ملزم کے ہاتھوں جسمانی استحصال کا ذکر کیا۔ دس دیگر لڑکیوں نے اپنی شکایت میں کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ پرنسپل ایسے کاموں میں ملوث ہے۔