رحمت النساء، دلی
ترک وطن کرنا انسانی تاریخ کا ایک ضروری حصہ ہے۔ مہاجرت نے صدیوں سے انسانوں کی زندگیوں میں عظیم تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ ’ہجرۃ کیلنڈر‘ میں نئے سال کا آغاز ماہ محرم سے ہوتا ہے جیسے ہی اس مہینے کی شروعات ہوتی ہے مسلمان ہجرت کے تذکرے کرنے لگتے ہیں۔ عام طور پر یہ گفتگو رسول ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کی مکہ سے مدینہ کو ہجرت کے ارد گرد گھومتی ہے۔ پہلی وحی کے بعد سے مکہ میں تیرہ سالہ کٹھن زندگی گزارنے کے بعد رسولﷺ اور آپ کے صحابہؓ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا جو اس وقت یثرب کہلاتا تھا۔
مدینہ کے سماجی وسیاسی ماحول کو اس وقت پوری طرح اسلام اور پیغمبر اسلام کی ضرورت تھی۔ مدینہ کے عرب، متحارب قبائل میں منقسم تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے سے لڑ کر ایک نہایت مصیبت کی زندگی گزاری تھی اور وہ مالیاتی وثقافتی طور پر بے حد کمزور ہوچکے تھے۔ مدینہ میں یہودیوں کے پاس اقتدار تھا، دولت اور تعلیم تھی۔ یہودیوں کا ایقان تھا کہ ناخواندہ عربوں کا استحصال کرنا کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہودی علماء کہا کرتے تھے کہ ان کی مقدس کتابوں کے مطابق ایک رسول آنے والے ہیں۔ چنانچہ ایک رسول کی آمد وہ چیز تھی جس کا مکہ کے برعکس مدینہ کے لوگ انتظار کررہے تھے۔ اسی ایقان نے دو بیعتوں یعنی بیت عقبیٰ اولیٰ اور بیعت عقبیٰ ثانیہ کی راہ ہموار کی اور بالآخر ہجرت کا مرحلہ سر ہوا۔
اس واقعہ کو برسہا برس سے کہا اور سنا جارہا ہے لیکن حقیقت میں ہجرت کیا ہے؟ ایک مسلمان کو ہجرت کب اور کیوں کرنا چاہیے؟ کیا ہجرت کا مطلب صرف اتنا ہی ہے کہ جسمانی طور پر ترک وطن کیا جائے؟ مسلمانوں کو رسولﷺ اور آپ کے صحابہ کے ہجرت سے کیا سیکھنا چاہیے؟ کیا اس میں خواتین کا بھی ایک رول رہا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو غور وفکر کے متقاضی ہیں۔
عربی میں لفظ ہجرۃ کے معنی دوسروں سے جسمانی، روحانی یا کلامی طور پر علیحدہ ہوجانے کے ہیں۔ یہ محض ظالموں کی سرزمین سے رخصت ہوجانا نہیں ہے بلکہ خود کو برے لوگوں سے ، برے معاملات سے، بری عادتوں اور برے اطوار سے الگ تھلگ کرنا بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے۔
ہجرت کی تاریخ
ہجرت اسلامی تاریخ کا جزو لا ینفک ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کو رسولﷺ کی ہجرت سے قبل اس طرح کے اسفار بیرونی سرزمینوں کو کیے گئے تھے۔ یہ حضرت ابراہیمؑ کی سنت رہی ہے۔ قرآن کہتا ہے ’’اور (آگ سے نکلنے کے بعد) اس نے کہا ’’یقیناً میں اپنے رب کی طرف جارہا ہوں وہ میری رہنمائی کرے گا‘‘۔ (۳۷:۹۹)
وہ اپنے بچوں کے ساتھ مسجد الاقصیٰ کی سرزمینِ شام کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ بعد میں وہ حجاز، مکہ آئے۔ ان کی ہجرت کا سب سے اہم حصہ رفیق حیات بی بی ہاجرہ کا ایثار ہے جنہوں نے مکہ کے ایک ایسے مقام پر قیام کیا جہاں زندگی کے کوئی آثار نہیں تھے لیکن یہاں ان کے پہنچ جانے کے نتیجے میں زم زم کا چشمہ پھوٹ پڑاپھر زندگی پھلنے پھولنے لگی اور اس کے ارد گرد ایک عظیم تہذیب پروان چڑھی۔
قرآن نے اس سیاق وسباق میں حضرت ابراہیمؑ کی دعاوں کا ذکر کیا ہے ’’پروردگار! میں نے ایک بے آب وگیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے پروردگار! یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں (۱۴:۳۷)
اس طرح کے اسفار کو دیگر پیغمبروں کی زندگیوں میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ،مدینہ ہجرت سے قبل رسولﷺ نے طائف کا سفر کیا تھا ۔ صحابہؓ کو حبشہ (موجودہ نام ایتھوپیا) کے لیے دو ہجرتوں کا حکم دیا گیا تھا اور دونوں ہجرتوں میں خواتین بھی شامل تھیں جن میں نبی کریمؐ کی دختر رقیہ اور ام سلمہؓ کے نام نمایاں طور پر ملتے ہیں۔
اللہ کے رسول ﷺ تمام ایذا رسانیوں کے باوجود مکہ ہی میں رہے اور اللہ کی طرف سے مدینہ منورہ کے لیے ہجرت کا حکم آنے تک اپنے مشن کو جاری رکھا، ہجرت محرم میں نہیں بلکہ ربیع الاول میں ہوئی لیکن سال کا پہلا مہینہ محرم ہی کو برقرار رکھا گیا کیونکہ ان دنوں عربوں کے درمیان قمری کیلنڈر کے مہینوں کی یہی ترتیب مقبول تھی۔ امت کے لیے ایک کیلنڈر مقرر کرنے پر غور وخوض کی شروعات ایک مکتوب کے سلسلہ میں الجھن پیدا ہونے کی وجہ سے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے دور میں ہوئی۔ ان صحابی کا نام موسی العشریؓ تھا جنہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ مذکورہ خط میں جس شعبان کا ذکر ہے وہ آخری شعبان ہے یا آنے والا شعبان؟ حضرت عمرؓ نےاس طرح کی الجھنوں کا مستقل حل نکالنے کے لیےایک میٹنگ طلب کی ۔ مختلف لوگوں نے مختلف تجاویز دیں ۔ کسی نے کہا کہ کیلنڈر کا آغاز نبی کریم ﷺ کی پیدائش کے سال سے ہوسکتا ہے کسی نے کہا کہ رسالت کے آغازسے اور کسی نے کہا کہ رسول اللہ کی وفات سے اس کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ اسی طرح کی اور تجاویز بھی سامنے آئیں تاہم عثمانؓ ابن عفان نے تجویز پیش کی کہ اسلامی کیلنڈر کا
آغاز ہجرت سے ہونا چاہیے اور حضرت علیؓ نے اس کی حمایت کی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہجرت مدینہ، اسلامی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ تھا جس نے ایک فلاحی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی اور جو تیز ترین ترقی سے لے کر انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ارتقا کا ہر پہلو سے ایک ماڈل اسٹیٹ ثابت ہوا ۔ مدینہ کے اس معاشرہ میں انصاف کا دور دورہ تھا اور فرقہ وارانہ یکجہتی قائم تھی ۔ خواتین کو حقیقی معنی میں بلند درجہ حاصل ہوا جس کے باعث وہ مختلف میدانوں میں مہارت حاصل کرنے اور سماج کو کچھ دینے کے قابل بنیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر کسی نے ہجرت کو اسلامی کیلنڈر کے لیے نقطہ آغاز کے طور پر بلا تامل قبول کیا ہے۔
امید کا سفر
کسی کے لیے اپنا گھر خاندان، رشتہ دار ، جائیداد، کاروبار ، کھیت کھلیان وغیرہ چھوڑنا اور ایک نامعلوم مقام پر خالی ہاتھ پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا، یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ ملازمت کی منتقلی جیسی بات نہیں ہے۔ یہ ایک غیر یقینیت سے بھرپور سفر ہے لیکن مسلمانوں (بشمول خواتین) کے لیے یہ اللہ کی خوشنودی اور انعامات کو حاصل کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں نصرت کا ایک ذریعہ ہے۔ ان کی امیدیں اللہ تعالیٰ کی مدد سے وابستہ ہوتی ہیں جس کے انعامات کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ چنانچہ اللہ نے مہاجرین کی تعریف کی اور انہیں عظیم اجر دینے کا وعدہ کیا ہے
’’جو لوگ ظلم سہنے کے بعد اللہ کی خاطر ہجرت کر گئے ہیں ان کو ہم دنیا ہی میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت کا اجر تو بہت بڑا ہے کاش جان لیں وہ مظلوم‘‘ (۱۶:۴۱)
’’اللہ کے ہاں تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا وہی کامیاب ہیں‘‘(۹:۲۰)
مدینہ کو ہجرت زندگی سے راہ فرار کا کوئی اقدام نہیں تھا جیسا کہ بعض تاریخ دانوں نے اس کی غلط توجیہ کی ہے۔یہ ایک پر امن ریاست کے قیام کے لیےجہاں امن کا دوردورہ ہو، رب کے حکم کے آگے کامل سپردگی کا ایک اظہار تھا۔’’اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو، میری زمین وسیع ہے، پس تم میری بندگی بجا لاؤ‘‘(۲۹:۵۶)
جو لوگ اپنےعافیت کدوں کو چھوڑنے اور مدینہ جانے کے لیے تیار نہیں تھے اُن پر قرآن نے تنقید کی:’’جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جانیں لڑائیں اور اپنے مال کھپائے اور جن لوگوں نے ہجرت کرنے والوں کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہی دراصل ایک دوسرے کے ولی ہیں رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے مگر ہجرت کر کے (دارالاسلام میں) آ نہیں گئے تو ان سے تمہارا ولایت کا کوئی تعلق نہیں ہے جب تک کہ وہ ہجرت کر کے نہ آ جائیں ہاں اگر وہ دین کے معاملہ میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جس سے تمہارا معاہدہ ہو جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھتا ہے‘‘ (سور الانفال: ۷۲)
ہجرت کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ کوئی اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جائے۔ یہ بدنی کی ہجرت ہے۔ مسلمانوں کو ایک دوسری قسم کی ہجرت کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ہجرت دلوں کی ہوتی ہے یعنی غلط کاموں کو چھوڑدینا جو کہ کفر کا حصہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ کی منع کردہ چیز کو ترک کرتا ہے وہ مہاجر ہے۔ ہجرت کی ایک اور قسم غلط کاروں سے دوری اختیار کرنا بھی ہے۔ اللہ نےاپنے رسول کو تاکید کی:
اور جو باتیں لوگ بنا رہے ہیں ان پر صبر کرو اور شرافت کے ساتھ اُن سے الگ ہو جاؤ
(المزمل: ۱۰)
ہجرت کی اعلیٰ ترین شکل کّھلے اور علانیہ طور پر پوری یکسوئی کے ساتھ دلوں کا مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف پلٹ جانا ہے اور دلوں میں سوائے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے دوسری کوئی نیت نہ ہو۔ اسی طرح اہل ایمان اللہ کے رسولوں کی اطاعت کے ذریعے اور ان کے احکام کو کسی بھی دوسری چیز پر ترجیح دیتے ہوئے ہجرت کرتے ہیں۔
خواتین کا رول
ہجرت میں خواتین کا رول اوران کا تعاون ایک ایسی چیز ہے جس کا تاریخ انسانی میں کسی چیز سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں دین کی حفاظت اور اللہ کے رسول اور ان کے پیغامِ امن وانصاف کے تحفظ کی خاطر قربانی دینی پڑی، جسمانی ہراسانی اور ذہنی ایذا رسانی سے گزرنا پڑا تھا۔ ان میں سے بعض کا ان کی شجاعت اور جرات مندانہ کردار کے لیے خصوصی طور پر ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ وہ دو خواتین جنہوں نے ہجرت کی راہ کو ہموار کرنے والی بیعت عقبہ میں حصہ لیا تھا ان کے نام نصیبہؓ بنت کعب اور اسماؓ بنت عمرو ہیں۔
نصیبہؓ بنت کعب، ام عمارہ کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔ رسول ﷺ سے کیے گئے وعدے کو پورا کرنے کا ان کا جذبہ ہی تھا کہ وہ احد کی لڑائی کے دوران نبی کریمﷺ کی ڈھال بن گئیں اور رسول اللہ ﷺ کی طرف آنے والی تیروں کو اپنے جسم پر لیا جس کے نتیجے میں ان کے جسم پر بارہ تیر آ لگے تھے۔ انہوں نے میدان جنگ میں اس جاں بازی کا مظاہرہ اس وقت کیا جب افواہوں کا بازار گرم تھا اور افراتفری مچی تھی حتیٰ کہ مردوں کے بھی پیر اکھڑ رہے تھے۔
رسول ﷺ کو مدینہ کے لیے کمر بستہ ہونے کا حکم ملا تو وہ فوری حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر گئے جہاں ان کی دونوں بیٹیاں عائشہؓ اور اسماؓ موجود تھیں۔ جب سفر ہجرت کی خفیہ منصوبہ بندی کی جزیات طے ہورہی تھیں تو اس میں حصہ لینے کی انہیں بھی اجازت تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی اہلیہ ام رومانؓ بھی اس منصوبے سے واقف تھیں۔ جب ابوجہل کو معلوم ہوا کہ رسولﷺ پہلے ہی روانہ ہوچکے تو وہ سیدھے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر آیا اس نے حضرت اسماؓ سے سوال کرنے لگا، حتیٰ کہ انہیں طمانچہ بھی رسید کیا ۔ لیکن انہوں نے سچائی کا انکشاف نہیں کیا۔ وہ اسماؓ ہی تھیں جو رسولﷺ اور اپنے والد ابوبکرؓ کو لوگوں سے چھپا کر کھانا پہنچاتیں ۔ رات کے وقت جب قریش دور دور تک رسول اللہ ﷺ کی تلاش میں مصروف ہوتے اس کٹھن وقت میں خطرناک اور سنسنان پہاڑی راستے سے گزر کر حضرت اسماؓ غار ثور پہنچتیں اور توشہ دے آتیں ۔ انہیں بارگاہ نبوت سے ذات النطاقین کا لقب ملا تھا۔ جس کا مطلب ہوتا ہے دو تسموں والی۔حضرت اسما کو توشے دان باندھنے کے لیے جب کچھ نہیں ملا تو انہوں نے اپنے نطاق (کمر سے باندھنے والا کپڑا)کے دو ٹکڑے کیے اور ایک ٹکڑے سے تھیلے کا منہ باندھا تھا۔نبی کریمﷺ نے ان کی تعریف کی اورکہا کہ اس تسمہ کی جگہ انہیں جنت میں دو تسمے حاصل ہوں گے۔ ہجرت کے دوران وہ حاملہ تھیں اور انہوں نے ایک بچے کو جنم دیا جو مہاجروں کا پہلا بیٹا بنا اور جو دشمنوں کے پروپیگنڈہ کا ایک جواب تھا کہ مہاجرین کو بچے نہیں ہوں گے ۔
جب آنحضورؐ قدید پہنچے تو ام معبد کے گھر آئے اور ان سے کچھ کھانا پانی فراہم کرنے کی گزارش کی۔ اس وقت دینے کے لیے ان کےپاس کچھ نہیں تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھیں اور بکری کا دودھ دوہیں۔ بکری بے حد کمزور تھی اور اس وقت دودھ نہیں دے رہی تھی لیکن حیرت انگیز طور پر اس کے تھن دودھ سے بھر گئے اور پھر وہ اس واقعہ کے اٹھارہ سال تک بھی دودھ دیتی رہی۔ انہوں نے یہ واقعہ اپنے شوہر کو کچھ اس طرح سنایا: ’’ میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کا چہرہ نہایت نورانی ہے، اخلاق اچھے ہیں، وہ نہایت حسین و جمیل ہے، آنکھوں میں کافی سیاہی ہے، پلک کے بال خوب گھنے ہیں، آنکھوں میں بلندی ہے، آنکھوں میں سیاہی کی جگہ نہایت گہری سیاہی ہے اور سفیدی کی جگہ نہایت اجلی سفیدی ہے۔ ابروئیں باریک ہیں اور آپس میں ملی ہوئی ہیں۔ بالوں کی سیاہی بھی بہت خوب تیز ہے، گردن میں بلندی اور ڈاڑھی میں گھناپن ہے۔ جب خاموش ہوتا ہے تو اس پر وقار چھا جاتا ہے اور جب وہ مسکراتا ہے تو حسن کا غلبہ ہوتا ہے۔ گفتگو ایسی گویا موتیوں کی لڑی سے موتیاں گر رہی ہوں، وہ شیریں گفتار ہے۔ قول فیصل کہنے والا ہے، ایسا کم گو نہیں کہ جس سے مقصد اداد نہ ہو اور نہ ہی فضول گو ہے، دور سے دیکھوتو سب سے زیادہ با رُعب و حسین لگے ، قریب سے دیکھو تو سب سے زیادہ شیریں گفتار وجمیل معلوم ہو۔ قد درمیانہ ہے، نہ تو کَھلنے والا دراز قد اور نہ ہی کوتاہ قامت ۔ اگر دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ ہوتو وہ دیکھنے میں ان تینوں شاخوں سے زیادہ تروتازہ دکھائی دے۔ قدروقیمت میں سب سے بہتر نظرآئے۔ ۔ اس کے ساتھی اسے گھیرے ہوئے تھے ۔ وہ بولتا تو سب خاموش ہوجاتے ۔ کوئی حکم دیتا تو سب اس کی تعمیل کے لیے ٹوٹ پڑتے ۔ سب کا مخدوم سب کا مطاع۔ تّرش روئی سے پاک اور قابل گرفت باتوں سے مبرا۔(البیہقی اور الحکیم)
مدینہ کو سفر کرنے والی پہلی خاتون ام سلمیؓ تھیں۔ انہیں اپنے بچہ کے ساتھ تنہا سفر کرنا پڑا کیونکہ ان کے شوہر پہلے ہی جاچکے تھے۔ انہیں اپنے شوہر کے خاندان سے شدید ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی دختر حضرت زینبؓ نے بھی قریش کی سفاکی کا سامنا کیا۔ انہیں ہبرابن اسود نے اونٹ سے دھکیل دیا تھا جس کی وجہ سے ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا۔ ایک اور عظیم خاتون جنہوں نے دین کے تحفظ اوراسلامی زندگی گزارنے کی خاطر ہجرت کی تھی وہ ام کلثوم عقبہؓ ہیں۔ ان سب پر اللہ کی بے شمار رحمتیں ہوں۔
غوروفکر کے نکات
۱۔زمین پر اللہ کے دین کی اقامت میں خواتین کا رول مردوں کے مساوی ہے۔
۲۔ ایک مسلم خاتون ایک نیک مقصد کے لیے رازوں کو اپنے سینے میں محفوظ رکھ سکتی ہے جیسا کہ حضرت اسماؓ نے کیا تھا۔
۳۔ خواتین وقت ضرورت جسمانی مشقت سے گزرنے کی استعداد رکھتی ہیں۔
۴۔ جب ہم سوچتے ہیں کہ کوئی راستہ نہیں بچا اور ہمیں شکست نظر آنے لگتی ہے تبھی اللہ تعالیٰ ایسے راستے دکھاتا ہے جو ہمارے گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ مہاجرین کے ساتھ ایسا ہی ہوا وہ اپنے پیچھے اپنے گھر بار ، جائیدادیں اور سب کچھ چھوڑ کر مدینہ چلے آئے جہاں ایک مثالی بھائی چارہ قائم ہوا اور ایک نئی تہذیب قائم ہوئی جس نے انسانیت کی تاریخ کو ایک راستہ دکھایا ہے۔
۵۔ یثرب (مدینہ کا پرانا نام) میں اس وقت اکثریت غیر مسلمین کی تھی اور وہ نبی کریمﷺ کی آمد کے منتظر اور انہیں سننے کے لیے بے تاب تھے۔ یہ تمام داعیوں کے لیے ایک سبق ہے کہ اگر اللہ کی بات ٹھیک ڈھنگ سے پیش کی جائے تو لوگ اسلام کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
۶۔ اہل ایمان کے درمیان تعلق خونی رشتوں سے بھی زیادہ مستحکم ہوتا ہے جسے مدینہ کے انصار نے مہاجرین کی مدد کرکے ثابت کیا ہے۔
۷۔ مادر وطن کی زمین جب پوری طرح سے تنگ ہوجائے تو اسے چھوڑنے کے بارے میں سوچا جا سکتا ہے۔ رسولﷺ مکہ میں تیرہ سال رہے اور تمام ایذا رسانیاں اور مظالم کو برداشت کیا ۔
۸۔ اچھے دنوں کے خواب دیکھنا اور اللہ پر مکمل توکل کے ساتھ اس کے لیے کوشش کرنا ایک مسلمان کی لازمی صفت ہونی چاہیے۔ رسول ﷺ کی ہجرت کے دوران آپ کا پیچھا کرنے والے سراقہ کو ایران کے بادشاہ خسرو کے کنگن پہننے کی بشارت ایسی بات تھی جو اس وقت مسلمانوں کے لیے ناقابل تصور تھی۔
۹۔ انتہائی کٹھن اور غیر یقینی حالات میں بھی منصوبہ بندی اور تیاری لازمی ہے۔
۱۰۔ کسی بھی عمل پر سزا یا جزا کا انحصار نیتوں پر ہوتا ہے۔ یہی بات رسولﷺ نے مہاجرین کو یاد دلائی۔
اختتامیہ
ہجرت ختم نہیں ہوگی اور اسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہجرت ختم نہیں ہوگی تاوقتیکہ توبہ ختم نہیں ہوگی اور توبہ اس وقت تک بند نہیں ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہوجائے۔‘‘
ہجرت کی ساری تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ اگر ہم ہجرت کے لیے تیار ہیں تو مدینہ قائم کرسکتے ہیں۔ ہمیں ہر اس چیز کو ترک یعنی اس سے ہجرت کرنا ہوگا جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ ہمیں ان روایات اور اعمال سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو تہذیبی طور پر ہمیں اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور وسیع ترانسانیت کے لیے کچھ مفید کام کرنے سے ہماری توجہ کو پھیر دیتے ہیں ۔ ہمیں سماج کے معاشرتی و معاشی موقف کو بہتر بنانے کے لیے خود کو مزید اختراعی بنانے اور بامقصد سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی ضرورت ہے ۔
***
ہجرت کی ساری تاریخ ہمیں سبق دیتی ہے کہ اگر ہم ہجرت کے لیے تیار ہیں تو مدینہ قائم کرسکتے ہیں۔ ہمیں ہر اس چیز کو ترک یعنی اس سے ہجرت کرنا ہوگا جو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہو۔ ہمیں ان روایات اور اعمال سے دوری اختیار کرنے کی ضرورت ہے جو تہذیبی طور پر ہمیں اپنے اندر سمو لیتے ہیں اور وسیع ترانسانیت کے لیے کچھ مفید کام کرنے سے ہماری توجہ کو پھیر دیتے ہیں ۔ ہمیں سماج کے معاشرتی و معاشی موقف کو بہتر بنانے کے لیے خود کو مزید اختراعی بنانے اور بامقصد سرگرمیوں میں مشغول کرنے کی ضرورت ہے ۔
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 15 اگست تا 21 اگست 2021