ہاتھرس کیس: یو پی میں لاقانونیت کا ننگا ناچ
نمبر ون سی ایم کی حکومت میں نمبر دو کا کام!
سنکرشن ٹھاکر
ترجمہ: ڈاکٹر جاوید اختر
خدا ہی جانے وہ کونسے کارنامے تھے جن کی وجہ سے یوگی آدتیہ ناتھ کا شمار ملک کے سب سے بہترین وزیر اعلیٰ کے طور پر کیا گیا؟ آخر دو سالوں میں یو پی میں کون سا کرشمہ ہوا جس کا کسی کو علم نہیں لیکن پچھلے دنوں میں ہاتھرس اجتماعی عصمت ریزی و قتل معاملے کا یو پی ہی نہیں پوری دنیا کو علم ہو گیا بلکہ یو پی میں تقریباً ہر روز ہی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں لیکن ہاتھرس کے واقعے نے پوری دنیا کے انسانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے گویا ان دنوں یو پی حیوانیت و بربریت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
دلی سے دو سو کیلو میٹر دوری پر واقع یو پی کے ضلع ہاتھرس میں مبینہ طور پر ایک انیس سالہ دلت لڑکی کی عزت تار تار ہوئی۔
جب اس حیوانیت کی خبر عوام تک پہنچی تو ضلع انتظامیہ نے اسے ”فیک نیوز“ بتا کر معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ لیکن متاثرہ کے جسم پر حیوانیت اور درندگی کے نشانات ابھر ہی گئے۔
بڑھی جو تیز روشنی چمک اٹھی روش روش
مگر لہو کے داغ بھی ابھر گئے کیا ہوا
وہیں انتظامیہ کے جھوٹ کا بھی پردہ فاش ہو گیا۔قریب پندرہ دنوں تک اسپتالوں کا چکر لگانے اور زندگی وموت سے لڑنے کے بعد آخر کار متاثرہ لڑکی نے دلی کے ایک اسپتال میں دم توڑ دیا۔لیکن یو پی حکومت مقتولہ کے اہلِ خانہ سے ہمدردی جتانے کے بجائے اس خبر پر مٹی ڈالنے پر تلی رہی چنانچہ اس لڑکی کی لاش کو آناً فاناً ایک بوری میں بھر کر ہاتھرس لایا گیا اور رات کے اندھیرے میں پرانی لکڑیوں سے تیار کی گئی چتا کے حوالے کر دیا گیا۔ آخری رسومات میں لڑکی کے اہل خانہ کو شامل نہیں ہونے دیا گیا اس طرح قانون کی محافظ اتر پردیش کی پولیس ثبوتوں کو تباہ کرنے کے مجرمانہ عمل کو انجام دیتی رہی۔ یہاں تک کہ اس معاملے کی رپورٹ کرنے کے لیے آئے ہوئے صحافیوں کو اس کے کوریج سے روکا گیا۔ اس دوران ایک خاتون صحافی نے ہمت و حوصلے کا ثبوت دیتے ہوئے ایک پولیس اہلکار کو کور کیا لیکن اس خاتون صحافی سے پولیس اہلکار نے آن کیمرا کہا کہ” تم یہاں کہیں بھی نہیں جا سکتے، ہمیں ہدایت دی گئی ہے۔ ہم کچھ بھی نہیں بول سکتے۔ ہندوستان میں ہمیں بولنے کی آزادی نہیں ہے“
اور اس دوران دیکھتے ہی دیکھتے اس لڑکی کی چتا راکھ میں تبدیل ہوگئی۔ اس کے بعد ہی یو پی پولیس کے ایڈیشنل ڈی جی، لا اینڈ آرڈر، پرشانت کمار نے فارنسک لیب رپورٹ کے حوالے سے اعلان کیا کہ اس لڑکی کی عصمت ریزی نہیں کی گئی۔ یہ وہی پولیس افسر ہے جس نے دو سال قبل مغربی یو پی میں ہوائی جہاز سے کانوڑیوں پر پھول برسائے تھے۔ لیکن اس کے باوجود بھی یوگی آدتیہ ناتھ کو اپنے افسر پر کم اور پی آر کمپنی پر زیادہ اعتماد ہے۔یہی وجہ ہے کہ یوگی حکومت نے ممبئی کی ایک پی آر کمپنی کی اکاؤنٹ ایگزیکیوٹیو پرسیکا روڈرگس کو اس پورے معاملے کی پردہ پوشی کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ پرسیکا روڈرگس نے کچھ چنندہ صحافیوں کو یہ کہتے ہوئے میل ارسال کیا کہ ”ہاتھرس لڑکی کا ریپ نہیں ہوا۔۔۔ اب کسی بھی طرح کی قیاس آرایوں کو ختم ہونا چاہیے۔۔۔ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ریاست کو ذات پات کی لڑائی میں جھونکنے کی کوشش ہو رہی ہے (لیکن یہاں یہ بات واضح نہیں ہے کہ روڈرگس اسی فارنسک رپورٹ کے تناظر میں بات کر رہی ہیں یا کسی اور تناظر میں؟)۔۔۔ اس معاملے میں ایس آئی ٹی اس گھناؤنی سازش کا پردہ ضرور فاش کرے گی“
یہاں مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ممبئی کے آفس میں بیٹھ کر روڈرگس یہ انکشاف کر رہی ہیں کہ ایس آئی ٹی کیا کرنے والی ہے۔ اسے کہتے ہیں خیالی کلائنٹ سروسنگ!
اور جب وہ کلائنٹ آدتیہ ناتھ ہوں تو تصور کیا جاسکتا کہ وہ کہاں تک جاسکتی ہیں! آدتیہ ناتھ نے اتر پردیش کے باس کے طور پر اپنی مدت کار کے ابتدا میں ہی عملاً یہ واضح کر دیا تھا کہ وہ اپنے خلاف تمام الزامات ومقدمات کو منسوخ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
آدتیہ ناتھ کی سلطنت میں یہ بھی تصور کیا جا سکتا ہے کہ وکاس دوبے نامی ایک خوفناک اور مافیا ڈان جس کی زبان کھلنے سے سفید پوش لوگ بے نقاب ہو سکتے تھے ایک سڑک حادثے میں اس وقت ہلاک ہو جاتا ہے جب اسے اجین سے گرفتار کر کے یو پی لایا جا رہا تھا۔ کیا یو پی میں اسپیشل سیکورٹی فورس کی تشکیل کو بھی تخیلاتی عمل قرار دیا جا سکتا ہے جسے آدتیہ ناتھ نے بے انتہا اختیار دے رکھا ہے کہ یہ فورس بغیر وارنٹ کے کسی کو بھی گرفتار یا سرچ آپریشن کو انجام دے سکتی ہے؟ لیکن اس آدتیہ ناتھ کے طریقہ کار کے تعلق سے کچھ لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ یہ ڈیزائن جرمنی کے 1940 کے واقعات سے ماخوذ ہیں۔
اتر پردیش کا نام آتے ہی ذہن میں لاقانونیت کے مناظر گھومنے لگتے ہیں جہاں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کھلے اور پوشیدہ طور پر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اور یہ بات ان برسوں میں بالکل عیاں ہوگئی ہے جب سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان سیاسی غلبہ کی لڑائی چل رہی تھی۔ لیکن آدتیہ ناتھ کی حکومت نے بے شرمی اور ڈھیٹ پن کی تمام حدوں کو پار کر دیا ہے۔ پرامن احتجاج کرنے والے سماجی کارکنان کو جیلوں میں بند کر کے انہیں اذیتیں دی گئیں اور اس کے بعد انہیں بدنام کرنے کے لیے لکھنو کے چوراہے پر ان کے نام، فوٹوز اور پتوں کے ساتھ ہورڈنگس لگائی گئیں۔ یہ معاملہ اس وقت ٹھنڈا ہوا جب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے ہورڈنگس اتارنے کا حکم جاری کیا۔ وہیں دوسری جانب گورکھپور میں سیکڑوں بچوں کی جان بچانے والے ڈاکٹر کفیل خان کو لگاتار پریشان کیا گیا اور کئی بار انہیں جیل بھی بھیجا گیا۔ لیکن یہاں بھی عدالت کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر کفیل خان کو رہائی ملی۔
گورکھپور مٹھ کے ایک مہنت کے طور پر آدتیہ ناتھ کو غیر معمولی اختیارات ہاتھ میں رکھنے اور بھکتوں کی اندھ بھکتی کی عادت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قانون کی کبھی پروا نہیں کی اور کھلے عام اس کی دھجیاں اڑاتے رہے۔ 2007 میں ہندوتوا فسادیوں کی حوصلہ افزائی اور امتناعی احکام کی خلاف ورزی کرنے کے لیے آدتیہ ناتھ کو ایک دفعہ جیل کی ہوا بھی کھانی پڑی تھی۔ آدتیہ ناتھ جنہیں کبھی اپنے اشتہاری مجرم ہونے پر شرم نہیں آئی آج وہ اتر پردیش میں قانون کے محافظ بنے بیٹھے ہیں۔
آدتیہ ناتھ نے سماج میں بدامنی کو روکنے کی کبھی کوشش نہیں کی بلکہ اس کے برعکس وہ نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کے خلاف تشدد بھڑکانے والوں کے ساتھ اسٹیج پر نظر آتے رہے۔یہی وہ شخص ہیں جنہوں نے چند سال قبل ”لوجہاد“ کے نام پر ہندوؤں کو مشتعل کیا اور اقلیتوں پر تہذیبی سازش کے تحت اپنا غلبہ برقرار رکھنے کا الزام لگایا۔ آدتیہ ناتھ اسی ”لو جہاد“ کے نام پر یہ کہہ کر ملک کی ایک بڑی آبادی کو جوابی کارروائی پر اکساتے رہے کہ ”ہمیں ان کی لڑکیوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے جیسا انہوں نے کیا ہے۔ اگر ان کی لڑکیاں ہمارے گھر ہندو بن کر آتی ہیں تو ہم خوب جشن منائیں گے“
ہم ہاتھرس کی اس لڑکی کا نہ ہی نام بتا سکتے ہیں اور نہ ہی اس کی شناخت بتا سکتے ہیں لیکن ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک دلت خاندان کی لڑکی تھی جس کا نہ وجود قابل رشک تھا نہ ہی وہ قابلِ فخر تھی مگر اتنا ضرور ہے کہ اگر آج وہ آدتیہ ناتھ کے لیے خوفناک چڑیل بنی ہوئی ہے تو صرف انہی کی وجہ سے۔
(بشکریہ:دی ٹیلی گراف مورخہ ۳ اکتوبر۲۰۲۰ء)
اتر پردیش کا نام آتے ہی ذہن میں لاقانونیت کے مناظر گھومنے لگتے ہیں جہاں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے کھلے اور پوشیدہ طور پر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے
مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18-24 اکتوبر، 2020