گناہ گار: تنقید برائے اصلاح کو دبانا تشویشناک امر ہے
سپریم کورٹ ایسا ادارہ ہوا کرتا تھا جو تنقید کو برداشت کرتے ہوئے اپنی ذمہ داری بخوبی نبھاتا تھا مگر پرشانت بھوشن کے خلاف عدالت کی بے حرمتی کی بابت فیصلہ سنانے کے بعد عدالت کا وقار متاثر ہوا ہے۔
وکیل اور سماجی جہد کار پرشانت بھوشن کے دو ٹویٹ جس میں انہوں نے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ پر تنقید کی تھی اس کو مجرمانہ گردانتے ہوئے انہیں ملزم قرار دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایک دن قبل آیا جب پورا ملک جشن آزادی کی تیاری کر رہا تھا۔ ایک لمبی چوڑی بحث کے بعد 105 صفحات پر مشتمل آرڈر میں مسٹر بھوشن کے ٹویٹ کو جھوٹ کا پلندہ، غلط خیالات پر مبنی سازشی اور گھوٹالوں سے پُر بتایا گیا ہے۔ ایک ایسے وقت ایک با عزت شہری کے اظہار رائے کی آزادی پر مذکورہ الزام لگا کرقدغن لگایا جا رہا ہے جب پورا ملک کورونا وائرس جیسی ناگہانی آفت سے بچنے کے لیے پنجہ آزمائی کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ عدالت کے نظریہ کے اعتبار سے کسی منفرد جج کے وقار کے تحفظ کے لیے نہیں کیا گیا ہے بلکہ پورے عدالتی نظام کے وقار اور احترام کو بچانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کسی طرح کی تنقید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے اور عدالت کی بے احترامی کے نام پر شہری کے اظہار رائے کے بنیادی حق کو بھی چھین لینا چاہتا ہے جو کہ ایک ہندوستانی شہری کا بنیادی حق ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ایک خوفناک قضیہ سامنے آیا کہ تنقید کسی بھی فرد کو بھاری پڑ سکتی ہے کیونکہ عدالت کے پاس آرٹیکلز کا ذخیرہ ہے جسے وہ کسی بھی شہری کے خلاف استعمال کرنے پر قادر ہے۔ ایک شہری (پرشانت بھوشن) جس کا پچھلا ریکارڈ سوال اٹھانا ہے اور آئینہ کی طرح صداقت کو سامنے لانا ہے اس کے ساتھ سپریم کورٹ کا بھی تعلق رہا ہے جو عدالت عظمیٰ کے وقار اور احترام کو فراخدلانہ روایت کے ساتھ نبھانے کا تھا اسے برباد کر دیا۔
عدلیہ جمہوریت کا مرکزی ستون ہے جس پر دستوری جمہوریت کی عمارت کھڑی ہے یہ ملک کے شہری کے بنیادی حقوق کی محافظ ہے، ساتھ ہی یہ دیگر اداروں کو بھی ان کے دستوری حدود میں رکھتی ہے اس لیے اس کو یہ خیال بھی رکھنا ضروری ہے کہ عوامی اعتماد اور یقین کمزور نہ ہو اور نہ اس کو دھکا لگے۔ اس اعتماد و یقین کے تحفظ کے لیے اس خیال کا ازالہ ضروری ہے کہ عدلیہ کسی طرح کی زبردستی یا عہد قدیم کے قانون کا سہارا لے کر جھنجھلاہٹ میں اپنے حدود سے تجاوز کرتے ہوئے کسی کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔ اس قانون کو اپنے غرض کے لئے توڑ مروڑ کر ان کے خلاف استعمال کر رہی ہے جو اصلاح کرنا چاہتے ہیں۔ contempt of court 1971 ایسے آزاد ملک سے متعلق نہیں ہو سکتا جو 74ویں یوم آزادی منا رہا ہو۔ اگرچہ عدالت کے پاس بے احترامی کا اختیار دستور کے آرٹیکل 129 کے تحت واضح ہے مگر اسے دستور کے دستوری اقدار، آزاد اور صاف ستھری تنقید کے ساتھ مصالحانہ طریقہ سے اپنانا چاہیے، ساتھ ہی عدالت متوازن ہو کر موجودہ دور کے افکار و خیالات کو سنتی تاکہ معمولی سے معمولی حقیقت بھی سامنے آجائے۔
جس طرح اس ماہ کے اواخر میں وکیل پرشانت بھوشن کو سزا دے کر عدالت نے خود ہی اپنے متوازن ادارے وقار کو مجروح کیا ہے۔ اگرچہ اس کا نشانہ مسٹر بھوشن ہی تھے۔ عدالت کے اس فیصلے میں خود غرضی سب کی سمجھ میں آتی ہے جب مسٹر پرشانت بھوشن کے خلاف عدالت نے فیصلہ دینے میں بالکل بھی تاخیر نہیں کی جبکہ عدالت نے بہت ہی اہم معاملات میں کورونا وائرس کا بہانہ بنا کر اند مکھی اور ان سنی کر دی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں عدالت اس فیصلہ کے کمیوں کی تصحیح کرے گی جیسا کہ پچھلے دنوں عدالت اصلاح کی راہ پر گامزن رہی ہے۔ اب اسے اصلاح کے دائرہ کو بڑھانا پڑے گا تاکہ ملک و قوم کے اعتماد پر پورا اترے۔ خاص کر اس وقت جب تنقید برائے اصلاح کی آواز کو دبایا جا رہا ہو۔
(بشکریہ : انڈین ایکسپریں ۔ ترجمہ : پروفیسر ظفیر احمد )
***