گم گشتہ ہندوستان
عرفان وحید
منان احمد آصف کولمبیا یونیورسٹی میں تاریخ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ان کی نئی کتاب ’دی لاس آف ہندوستان: دی انونشن آف انڈیا‘ (The Loss of Hindustan: The Invention of India) علمی حلقوں میں ان دنوں موضوع ِبحث ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں عصر ِحاضر میں برصغیر میں پائی جانے والی عصبیتوں کی جڑیں تلاش کرنے کی جستجو کی ہے، خواہ وہ ہندتوا کا اکثریت پسندانہ نظریہ ہو، یا ہمارے ہمسایہ ممالک میں لسانی و مسلکی اکثریت پسندانہ جارحیت۔
اس کتاب میں نہ صرف اس متعصبانہ ذہنیت کا تعاقب کیا گیا ہے جس سے کام لے کر یوروپی مصنفین نے ہندوستان کی تاریخیں مرتب کیں، بلکہ فلسفۂ تاریخ پر مغربی مصنفین کے تصورات پر بھی ناقدانہ و عالمانہ نظر ڈالی گئی ہے۔ یوں منان احمد کی اس کتاب کو بجا طور پر برصغیر میں تاریخ نویسی کی تاریخ کہا جاسکتا ہے۔
مصنف نے اس کتاب میں جائزہ لیا ہے کہ کس طرح سامراجی قوتوں نے اس سرزمین کی تاریخ لکھی اور اسے اپنے عزائم کی تکمیل میں استعمال کیا، اور کس طرح ہندوستانی معاشرے کے ایک جز کو بیرونی، ظالم اور بربر اور اُن کے دور اقتدار کو عہد ِتاریک قرار دیا، اور کس طرح یہی مسموم و متعصب تصور خود یہاں کے باشندوں کا تصور بن گیا ، جو عصر حاضر میں اکثریتوں کے اقلیتوں پر غلبے اور تاریخ کے اکثریت پسندانہ نظریہ حیات پر منتج ہوا۔
مصنف کے نزدیک موجودہ دور کی عصبیتوں اور تحفظات کو فروغ دینے میں بہت کچھ برطانوی دور استعمار کی تاریخ نویسی کو دخل ہے، جسے مرتب کرنے کا بیڑا چند برطانوی فوجی جرنیلوں نے اپنے سامراج کے توسیعی پراجیکٹ کو آگے بڑھانے کے لیے اٹھایا تھا۔ اس استعماری پراجیکٹ کی حکمتِ عملی یہ تھی کہ اس ملک کے عوام، اس کی مختلف ریاستوں، مذاہب اور ذاتوں کو باہمی آویزش میں الجھادیا جائے ، کیوں کہ ان کا اتحاد اس سامراج کی بقا کی راہ میں سب سے بڑ روڑہ تھا۔ چناں چہ ان فوجی تاریخ نویسوں نے، جن میں لیفٹنینٹ کرنل الیگزینڈر ڈاؤ، لیفٹننٹ اینڈرسن، کیپٹن جوناتھن اسکاٹ اور لیفٹنینٹ کرنل جان برگس کے نام خصوصیت سے لیے جانے چاہئیں، عہد وسطیٰ کے ایک عظیم مسلم مؤرخ محمد قاسم فرشتہ کی معرکہ آرا تاریخ کے تراجم کرنے شروع کیے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ان مستشرقین نے تاریخ فرشتہ سے خوشہ چینی تو کی، لیکن اس پر اپنے حاشیے چڑھاکر ایسا تأثر پیدا کیا گویا مسلمانوں کا دور اقتدار ہندو ستان کے عوام کے لیے جبر و قہر کا دور تھا۔ ان جرنیلوں نے تاریخ نویسی کے ساتھ جو سلوک کیا وہ نہ صرف تاریخ نویسی پر ستم تھا، بلکہ یہ نفرت کی ایک ایسی کھیتی تھی جس کی فصل بہت زہرناک ہونے والی تھی۔ مصنف نے اسے ہندوستان کی گم شدگی سے تعبیر کیا ہے۔
دوسری جانب تاریخ فرشتہ کے تراجم نے تاریخ نویسی کے میدان میں نئے در وا کیے، اور مغرب میں فلسفۂ تاریخ کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اہل مغرب نے کبھی کھل کر اس کا سہرہ محمد قاسم فرشتہ اور عہد وسطیٰ کے دیگر مسلم مؤرخین ، جزجانی، ابولفضل، بیہقی وغیرہ کے سر نہیں باندھا۔مصنف کے مطابق الیگزینڈر ڈاؤ (Alexander Dow)کے قریبی دوست ڈیویڈ ہیوم نے ڈاؤ کے ترجمے یورپ میں روشن خیالی کی تحریک کے اہم اساطین والٹیئر اور کانٹ کو بھیجے۔ 1756 میں والٹیئر نے An Essay on Universal History تصنیف کی جسے دنیا کی فلسفیانہ تاریخ قرار دیا جاتا ہے۔ والٹیئر نے اپنی اس معرکہ آرا کتاب کے لیے ڈاؤ کے تاریخ فرشتہ کے ترجمے سے خوب خوب استفادہ کیا تھا۔
مصنف کہتے ہیں کہ ہندوستان اور ہندوستھان (نیز بھارت اور انڈیا) محض ایک جغرافیائی علاقے کے نام کے لسانی تفاوت نہیں بلکہ مختلف تصور ہائے حیات کے غماز ہیں۔ جہاں ایک طرف ’ہندوستان‘ دریائے سندھ کے اس پار سرزمین میں بود و باش اختیار کرنے والی تہذیب کا نام ہے جو ’اپنے ایک مخصوص تاریخی حافظے، مکان اور گوناگوں تمدن کے حامل عوام‘ سے پہچانی جاتی ہے، وہیں ’ہندوستھان‘ وہ ملک ہے جس کا تعلق ساورکر کے نظریہ ہندتوا کی رو سے ہندو مذہب کے ماننے والوں سے ہے۔ ان لسانی جدت طرازیوں کے پس پردہ اصل ہندوستان کو سیاسی حافظے سے محو کرنے کا عمل کار فرما ہے، جو خود تاریخ نویسی کا ایک عمل ہے۔ منان کتاب کے مقدمے میں لکھتے ہیں:
’’سیاسی نسیان (political forgetting) تاریخ نگاری کا عمل ہے۔ اس کتاب میں جس سیاسی نسیان کا جائزہ لیا گیا ہے وہ ہندوستان کا تصور ہے۔ میں ’ہندوستان‘ میں تاریخی مطالعے کے موضوع کے لحاظ سے دل چسپی رکھتا ہوں، یعنی تاریخ نگاری میں ہندوستان بحیثیت ایک فعال یا غیر فعال موضوع کے۔ سیاسی نسیان کو اس مطالعے سے سمجھا جاتا ہے کہ کس طرح تاریخ نگاری کے یوروپی طریقہ کار سے ہندوستان کی یاد کو ذہنوں سے محو کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عالمی تاریخ کے موضوع آفاقیت کے پس پردہ، اس نے ’ہندوستان‘ کو حذف کرکے ایک بالکل علیحدہ تصور ’انڈیا‘ پیدا کیا۔ نوآبادیاتی ایپسٹیم نے جس متنی اور مادی مواد کی جمع و تدوین، اور ترتیب و تعبیر انجام دی اس سے جو تارخیں وجود میں آئیں وہ انڈیا کی تاریخیں تھیں۔‘‘
فاضل مصنف کہتے ہیں کہ ہندوستان کا سیاسی و مکانی تصور دسویں اور انیسویں صدی کے دوران تصنیف کردہ تواریخ میں پایا جاتا ہے، جنھیں عربی، فارسی، سنسکرت اور بعد ازاں اردو میں مرتب کیا گیا تھا۔ ان کتابوں میں جزیرہ نما ہند کا اصل تصور پایا جاتا ہے جس میں ہندوستان کے باشندے رہتے بستے ہیں۔ ہندوستان کے اس تصور کو نوآبادیاتی دور میں لکھی گئی تاریخ کی کتب سے یکسر فراموش کردیا گیا۔
اقبال نے 1904 میں ترانہ ہندی ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ لکھا تھا، جس میں ایک ایسے ہندوستان کا تصور پیش کیا تھا جس میں مختلف قومیں باہم شیر و شکر ہوکر رہتی ہیں۔ اس میں ایک ایسی تہذیب کی جغرافیائی حیثیت نمایاں کی گئی ہے جس کی اٹھان کوہساروں اور دریاؤں کی گود میں ہوئی، جس کے پاسبان اور گواہ ہمالہ اور آب رودِ گنگا ہیں۔ ان دونوں جغرافیائی عناصر کو ہندو مذہب کے تصور مکان میں مرکزی اور مقدس مقام حاصل ہے۔ یہ اس بات کا اثبات ہے کہ یہ ملک یونان و مصر و روم جیسی تہذیبوں کی طرح ایک عظیم تہذیب کا حامل ہے، جو صدیوں سے موجود ہے، جہاں کے لوگ ہندی اور جن کا وطن ہندوستان کہلاتاہے۔ اقبال کا یہ ترانہ ہندوستانیت کی وضاحت اور اعلامیہ قرار پایا ، اور عوام و خواص میں یکساں طور پر مقبول ہوا۔ بچوں سے لے کر سیاسی رہ نماؤں تک نے اسے پسند کیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاسوں کی افتتاحی تقاریب میں اسے گایا جاتا تھا۔ گاندھی جی کی بھی یہ محبوب نظم تھی۔ جب 1947 میں انھوں نے یہ ترانہ سنا تو وہ جذباتی ہوگئے تھے۔
دوسری جانب، ونایک دامودر ساورکر نےایک بالکل مختلف تصور پیش کیا کہ ہندوستان صرف ہندوؤں سے وابستہ ہے۔ مراٹھی زبان میں ساورکر نے 1908 میں ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا: ’آمچا پریہ کر ہندوستھان‘ (ہمارا پیارا ہندوستھان)۔ اقبال کے ترانے سے اس نظم کی یک گونہ مماثلت یہ تھی کہ اس میں بھی ہندوستانی تہذیب کو اعلیٰ و فائق تر تہذیب قرار دیا گیا۔ ہمالہ اور گنگا کا ذکر کیا گیا۔ تاہم یہ نظم اقبال کے ترانے سے جوہری طور پر مختلف تھی۔ اس میں برطانوی استعمار اور مسلمانوں کو یکساں طور پر بیرونی نوآبادکار قرار دیا گیا۔ ’’یہاں آزادی کی دیوی نے جری وِکرم کو ملیچھوں کو شکست دینے کا وَردان دیا ہے۔‘‘ ہندوستھان کے ہندو تمام حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ساورکر نے ناپاک، بیرونی، ’ملیچھ‘ یونانیوں کی مثال دی جنھیں پہلی صدی عیسوی میں وکرمادتیہ نے شکست سے دوچار کردیا تھا۔ ملیچھ سنسکرت لفظ ہے ، جس کے معنی ناپاک اور بیرونی عنصر کے آتے ہیں، اور اس لفظ سے کنایتاً مسلمان مراد لیے جاتے ہیں۔
1923 میں ساورکر نے مسلم حملہ آوروں کے تصور کی مزید وضاحت کرنے اور ہندتوا کا تصور پیش کرنے کے لیے Essentials of Hindutva نامی کتاب لکھی۔ اس کتاب میں اس نے دعویٰ کیا کہ ہندوستھان اس ملک کا اصل نام ہے۔ ہندوستان، ہند وغیرہ بدیسی الفاظ ہیں جنھیں برصغیر میں پہلوی یا فارسی کے واسطے سے یوروپی مصنفین نے متعارف کروایا ہے۔ ساورکر نے دعویٰ کیا کہ پوری ’پانچ ہزار سالہ‘ تاریخ کے دوران میں ہندوستھان امن و اتحاد کا گہوارہ اور خوب صورت ملک رہا، یہاں تک کہ محمود غزنوی دریائے سندھ کو عبور کرکے اس پر حملہ آور ہوا، اور اس کے امن و امان میں خلل ڈال دیا۔ ساورکر ہندو کی تعریف بھی کچھ اس طرح متعین کرتا ہے: ’ ہندوستھان کا مطلب ہے ہندوؤں کی سرزمین، یعنی ہندتوا کی پہلی شرط جغرافیائی ہے۔ ہندو بنیادی طور پر وہ ہوتا ہے جو خود اس جغرافیائی حدود کا شہری ہو یا اس کے اجداد ہندوستھان سے تعلق رکھتے ہوں، اور اس سرزمین کو وہ اپنی مادر وطن مانتا ہو۔‘ ہندوستھان کی تعریف متعین کرلینے، اور مسلم حکمرانوں کے دور کو آویزش کا دور قرار دینے کے بعد، ساورکر کہتا ہے کہ اس سرزمین پر پیدا ہونے والے مسلمان جبری تبدیلی مذہب کی نتیجہ ہیں، اور جابر حکمرانوں کا مذہب اختیار کرلینے کے بعد اب وہ ہندوستھان کے وفادار نہیں رہے۔
منان احمد کہتے ہیں کہ اس طرح کے متشدد تصورات صرف ہندتوا کے نظریہ سازوں تک محدود نہیں رہے۔ مؤرخ جادوناتھ سرکار نے1928 میں مدراس میں اپنے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ ’یہ بات واضح طور پر کہی جاسکتی ہے کہ مسلمان ہندو معاشرے اور مذہب میں ضم نہیں ہوسکتے۔ صدیوں سے مسلمانوں کے دل بیرونِ ہندوستان جھکے ہوئے ہیں، وہ اب بھی نمازوں میں مکہ میں واقع ایک مقام کی جانب اپنا رخ کرتے ہیں۔‘ گویا مسلمانوں کا قبلہ رخ ہوکر نماز پڑھنا ان کی وطن سے محبت کے منافی ہے۔ منان کہتے ہیں کہ 1920 کے عشرے کا ہندوستان اقبال کے 1904 کے ہندوستان سے مختلف تھا، کیوںکہ اس وقت تک مسلمانوں کی غیریت کا تصور مضبوطی سے اپنے قدم جماچکا تھا۔ خود اقبال نے 1930 میں الہ آباد کے خطبے میں کہا تھا کہ ’ اگر کبیر کی تعلیمات اس ملک کے عوام میں مقبول ہوجاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں یہ حقیقت بن جاتی، لیکن تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی متعدد ذاتوں اور مذہبوں میں ایسا کوئی رحجان موجود نہیں کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت کو ترک کرکے ایک وسیع تر جماعت کی صورت اختیار کرلیں۔ ہر گروہ اپنی انفرادی حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے مضطرب ہے۔‘
بہرحال ، ہند وستان کی تاریخ نویسی کے اس نوآبادیاتی ایپسٹیم (colonial episteme) کے زہرناک اثرات بہت جلد رونما ہونے شروع ہوگئے۔ اس تھیم کو بہت جلد دیگر ہندوستانی مؤرخین نے اختیار کرلیا۔ ہندوستانی تاریخ کے ہندتو احیا پسندانہ تصور کی رو سے ہندوستان کی تاریخ کو تین بڑے ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے: پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کا عہدِ زریں، عہد ِوسطیٰ میں مسلمانوں کے دور اقتدار کا عہدِ تاریک، اور آخر میں برطانوی دور اقتدار، جس میں نئی تہذیب کی سحر نے کروٹ لی۔ اس ادوار بندی کی ذمہ داری بڑی حد تک کرنل الیگزینڈر ڈاؤ پر عائد ہوتی ہے۔ہندوستانی تاریخ نویسوں کے اس رویے پر مؤرخ شفاعت احمد خان کو متنبہ کرنا پڑا کہ مؤرخین’قومیت پرست مصنف‘ نہ بنیں کیوں کہ مؤرخین کو ہمیشہ ’نسلی یا قوم پرستانہ تعصبات سے اوپر اٹھ کر لکھنا چاہیے۔‘ اپنے ایک لیکچر میں شفاعت احمد خان نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ حالیہ دور کی ’منحرف طبقہ واریت‘ (perverted sectionalism) کو فروغ دینے والی تاریخوں کے نتیجے میں انھیں ایک سنگین خطرے کا احساس ہورہا ہے، یہ تاریخیں عوام کے درمیان ’شدید عناد‘ (gross prejudice) کا باعث بن رہی ہیں، جس کے مقابلے سے مؤرخین صرف نظر یا پہلو تہی نہیں کرسکتے۔دیگر مؤرخین مثلاً جیون جی جمشید مودی، غلام یزدانی، ایشور پرساد اپادھیائے، محمد حبیب، سید حسن عسکری، کنور محمد اشرف، سید نورالحسن، رام پرساد ترپاٹھی وغیرہ نے بھی نوآبادیاتی ایپسٹیم کو رد کیا، اور تاریخ نویسی میں اخلاقی اقدار کو ہاتھ سے نہ جانے دیا تاکہ بڑھتی ہوئی قوم پرستی کی وجہ سے معاشرے میں افتراق و انتشار پر قدغن لگائی جاسکے۔ منان لکھتے ہیں:
’’ان مؤرخین کو اس نوآبادیاتی پیراڈائم سے نبرد آزما ہونا پڑا جس نے عہد وسطیٰ کی تاریخ کے خدوخال طے کیے۔ تاریخ نویسی میں یہی ایک کام نہیں تھا، کیوں کہ ان مؤرخین کو بیک وقت نوآبادیاتی نظام سے بھی نمٹنا تھا اور ہر قوم کے اپنے تشخص کے لیے مسابقت اورقوم پرستی کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے بھی نبردآزما ہونا تھا۔ انھوں نے اس اخلاقی ذمہ داری کو محسوس کیا جو مستقبل کے لیے تاریخ نویسی میں کسی مؤرخ کو درپیش ہوتی ہے۔ انھوں نے بیہقی، جزجانی، بارانی، خسرو، ابوالفضل اور فرشتہ کی تواریخ کے ناقدانہ ایڈیشن، ترجمے اور مطالعات پیش کرکے اس سلسلہ دانش میں شمولیت اختیار کی جنھوں نے ہندوستان کے مقام اور عوام کو آواز بخشی۔ انھوں نے برصغیر کی تاریخ کے سفینے کو صاف طور پر تشدد کی جانب جھکتے ہوئے دیکھ لیا تھا۔ انھوں نے تاریخ کو سوچنے اور لکھنے کے اخلاقی طریقے وضع کیے جن کےذریعے برطانوی عہد اقتدار میں فرقہ واریت اور عناد کے بڑھتے ہوئے طوفان سے نمٹا جاسکے۔‘‘
مصنف کہتے ہیں کہ 1947 میں تقسیم ہند سامراج مخالف سیاست دانوں اور دانش وروں کی کوششوں کا نتیجہ تھی، خواہ وہ محمد علی جناح ہوں، امبیڈکر ہوں یا ساورکر ہوںکوئی اور، جو مسلمانوں کے بیرونی ہونے کے نوآبادیاتی استدلال کے قائل ہوچکے تھے اور مسلمانوں کے پورے پانچ سو سالہ دور اقتدار کو آمرانہ عہدِ انحطاط سے تعبیر کرتے تھے۔
منان کتاب کے اختتامی باب میں رقم طراز ہیں:
“برصغیر میں آج بھی ہم ماضی کے اسی بوجھ کو ڈھو رہے ہیں۔ اکثریتوں نے قوت اور اقتدار حاصل کرلیا ہے اور وہ مسلسل اقلیتوں کو حاشیے پر دھکیل رہی ہیں۔ اکثریتوں کے نزدیک مذہبی و لسانی عدم شمولیت کی یہ موجودہ استثنائی صورت حال— خواہ پاکستان میں ہو، ہندوستان میں یا بنگلہ دیش میں— ہی کلیہ ہے۔ تاہم ایسا نہیں چلے گا— ہمیں اُسی احساس ذمہ داری سے کام لینا ہوگا جس سے کام لے کر شفاعت احمد خان نے 1935 میں نوآبادیاتی تاریخ نویسی کا مقابلہ اجتماعی دانش ورانہ پراجیکٹ سے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ اُسی احساس ذمہ داری سے ہمیں بھی اجتماعی حیثیت سے ماضی پر اکثریت کے دعووں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ”